• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ساجد میر، کون؟

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
ساجد میر، کون؟
کالم: رانا شفیق پسروری
07 مارچ 2015


ایوان بالا (سینیٹ) کے حالیہ انتخابات میں پروفیسر ساجد میر بھی (پنجاب سے) بھاری اکثریت کے ساتھ ٹیکنو کریٹ کی سیٹ پر منتخب ہو گئے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے اپنے امیدوار لنگڑیال کو بلامقابلہ کامیاب کرانے کے لئے لاہور میں پروفیسر ساجد میر اور اسلام آباد میں راجہ ظفر الحق کے خلاف انتخابی عذر داری دائر کروائی۔ پروفیسر ساجد میر صاحب الجھاؤ سے بچ گئے، لیکن ان کے بارے میں عوام میں غلط فہمی پیدا کرنے کی کوششیں ضرور ہوئیں، اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ ان کے کوائف، مختصر طور پر قارئین کے سامنے رکھے جائیں۔


پروفیسر ساجد میر 2 اکتوبر 1938ء کو سیالکوٹ کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

ایم۔ اے (انگلش) ۔۔۔ گورنمنٹ کالج لاہور، 1960ء، سیکنڈ ڈویژن ،

ایم۔ اے (اسلامیات)، پنجاب یونیورسٹی، 1969ء، فرسٹ ڈویژن،

بی۔ اے (سیاسیات و عربی) ۔۔۔ مرے کالج سیالکوٹ، 1958ء، مع انگلش اور عربی میں میرٹ سکالر شپ،

بی۔ اے (ایڈیشنل) معاشیات ۔۔۔ پنجاب یونیورسٹی، مئی 1965ء،

بی۔ اے (ایڈیشنل) نفسیات ۔۔۔ پنجاب یونیورسٹی، جولائی 1966 ء


مرے کالج سیالکوٹ، (1954ء تا 1958ء) میں جو تعلیمی امتیازات (ایوارڈ) حاصل کئے، ان کی تفصیل یوں ہے کہ

میر حسن میڈل (ڈگری کلاس کے مضمون عربی میں پہلی پوزیشن پر)،
محمد علی میڈل (ڈگری کلاس کے مضمون انگلش میں پہلی پوزیشن پر)،
عمومی قابلیت میں دوسرا انعام (1958- 1957) ،
تاریخ اور عربی میں پہلا انعام (1956- 1954) ،
معاشیات، انگریزی اور فارسی میں دوسرا انعام (1956-1954) ،


جبکہ مرے کالج سیالکوٹ، 1954ء تا 1958 ء میں ہم نصابی امتیازات حاصل کئے۔

سالانہ انگریزی مباحثہ اور تقریری مقابلہ میں پہلا انعام (دو مرتبہ)،
اردو تقریری مقابلہ میں پہلا انعام (دو مرتبہ)،
انگریزی و اردو میں فی البدیہہ تقریری مقابلہ میں دوسرا انعام ،
انگریزی مضمون نویسی کے مقابلہ میں پہلا انعام (دو دفعہ)،
معلومات عامہ کے مقابلہ میں پہلا انعام ،(دو دفعہ)


وہ دینی میدان میں مندرجہ ذیل اسناد کے حامل ہیں۔

فاضل درس نظامی، جامعہ ابراہیمیہ سیالکوٹ، 1971ء،
فاضل دارالعلوم تقویۃ الاسلام شیش محل روڈ لاہور، 1972 ء،
عالمیہ کورس۔ وفاق المدارس السلفیہ۔


ان کا سروس ریکارڈ کچھ یوں ہے۔

لیکچرار (انگلش)، جناح اسلامیہ کالج سیالکوٹ ( 14-9-1960 تا 10-2-1963) ،

انسٹرکٹر (انگلش)، گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ سیالکوٹ (1963ء تا 1966ء) ،

سینئر انسٹرکٹر (انگلش اینڈ مینجمنٹ) گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ سیالکوٹ و لاہور (1966ء تا 1975ء) ،

سینئر ایجوکیشن آفیسر (سینئر لیکچرار)، فیڈرل گورنمنٹ آف نائیجیریا (1975ء تا 1977ء) ،

پرنسپل ایجوکیشن آفیسر (اسسٹنٹ پروفیسر) فیڈرل گورنمنٹ آف نائیجیریا (1977ء تا 1981ء) انگلش اور اسلامیات ،

اسسٹنٹ چیف ایجوکیشن آفیسر (ایسوسی ایٹ پروفیسر) فیڈرل گورنمنٹ آف نائیجیریا (1981 ء تا 1984ء) ۔


سروس سے متعلق دوسری ذمہ داریوں کی تفصیل یوں ہے کہ

آفیسر انچارج، شعبہ ریلیٹڈ اور بیسک سٹڈیز، گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ سیالکوٹ (1972ء تا 1975ء) ،

ممتحن اعلیٰ و پیپر سیٹر پنجاب بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن ( 1969ء تا 1975ء)،

جنرل سیکرٹری، پولی ٹیکنیک ٹیچرز ایسوسی ایشن، مغربی پاکستان (1970-1968ء)

صدر، پولی ٹیکنیک ٹیچرز ایسوسی ایشن (1972ء تا 1975ء) ۔

پروفیسر ساجد میر جمعیت اہلحدیث پاکستان کے سیکرٹری اور پھر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے 1992ء میں امیر بنے اور ابھی تک اپنی جماعت کے امیر ہیں وہ ہر بار بلا مقابلہ امیر منتخب ہوتے ہیں،

سیاسی طور پر وہ ممبر سینیٹ آف پاکستان (اکتوبر 1994ء تا حال)
چیئرمین سٹینڈنگ کمیٹی آف سینیٹ برائے مذہبی امور (1994ء تا 1999ء)،
چیئرمین سٹینڈنگ کمیٹی آف سینیٹ برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (مارچ 2009ء تا حال) ۔


بین الاقوامی کانفرنسوں میں کئی بار شرکت کر چکے ہیں، مثلاً

انٹرنیشنل دعوت کانفرنس، برمنگھم 2008 ,2004, 2000 ,1988 ,1987, 1985ء تا 2011ء،

اسلامی کانفرنس برمنگھم، لندن، مانچسٹر، گلاسکو، 2005, 2001, 2000, 1999 ء،

یورپین اسلامی کانفرنس، لندن 1992 ,1988 ء،

عالمی اسلامی کانفرنس، فلپائن 1988 ء،

عالمی حج کانفرنس، استنبول (ترکی) 1988 ء،

عالمی امن کانفرنس، بغداد (عراق)، 1989 ,1987 ء،

رابطہ عالم اسلامی کانفرنس، مکہ معظمہ، 2013, 2011, 2001, 1999 ,1990ء،

دعوت کانفرنس، امریکہ (نیو یارک، نیو جرسی) 1989ء

دعوت کانفرنس، بھارت (بمبئی، دہلی، بنارس) 1990 ء،

بین الاقوامی کانفرنس، ریاض (سعودی عرب) 1991ء،

بین الاقوامی کانفرنس، کویت 1992,1991ء،

ایشیائی حج کانفرنس کوالالمپور (ملائیشیاء) 1990ء،

دعوت کانفرنس سنگا پور 1990 ء،

بین الاقوامی اسلامی کانفرنس برائے وسط ایشیائی ریاستیں، ماسکو 1991 ء،

دعوت کانفرنس، متحدہ عرب امارات 1991 ء،ایشیائی اسلامی کانفرنس، کولمبو (سری لنکا) 1993ء،

عالمی اسلامی کانفرنس، انڈونیشیا 2002ء،

سیرت کانفرنس، ٹریپولی، لیبیا 1998، 2003ء۔

اس کے علاوہ بیلجئم، ہالینڈ، سوئٹزر لینڈ، اٹلی، فرانس، نائیجیریا، کینیا، سپین، ڈنمارک، آئیر لینڈ، کینیڈا ، یونان کے سفر کر چکے ہیں۔


ان کی تصانیف میں

1 ۔ عیسائیت، مطالعہ و تجزیہ
2 ۔ تصحیح ترجمہ ’’صحیح مسلم‘‘ مطبوعہ شیخ محمد اشرف پبلشرز
3 ۔ تصحیح ترجمہ ’’ماذا خسر العالم من انحطاط المسلمین‘‘ از مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ
4 ۔ ترجمہ (عربی سے انگریزی) ’’الحزب لمقبول‘‘ (دعاؤں کی معروف و مقبول کتاب)
5 ۔ مختلف ملکی اخبارات و جرائد میں اسلامی، سیاسی اور معاشری موضوعات پر مضامین
6 ۔ ہفت روزہ ’’ترجمان الحدیث‘‘، ’’اہلحدیث‘‘ اور ’’الاسلام‘‘ میں تفسیر، حدیث، اسلامی تاریخ، فقہ اور اسلام کی معاشرتی اخلاقی اور سیاسی تعلیمات کے بارے میں مضامین لکھ چکے ہیں۔

پروفیسر ساجد میر نے سیاست کے میدان میں اپنی اصول پسندی اور جرأت اظہار سے اپنا ایک مقام پیدا کیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف ان کا تنہا ووٹ، ان کی دلیری اور استقلال کی دلیل تھا۔ ایوان بالا میں ان کی تقاریر ان کے وسعتِ مطالعہ، قوت استدلال، استعدادِ تجزیہ، استحضار اور ملکہ افہام کے ساتھ ساتھ جرأت اظہار کی عکاس ہیں۔ وہ ہر لحاظ سے ایک نستعلیق شخصیت کے مالک، سنجیدہ و متین اور وقیع شخص ہیں۔ ان کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے، مگر کالم کا دامن محدود ہے۔

نگاہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کاررواں کے لئے

ح

نوٹ: شخصیت کے حوالہ سے شائد یہ میرا پہلا دھاگہ ہو، ساجد میر صاحب بےشمار خوبیوں کے مالک ہیں۔
 
شمولیت
مارچ 04، 2015
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
42
پوائنٹ
56
ساجد میر کے بارے میں مجھے ایک الجھن ہوتی ہے کے وہ اس پاکستان کی سیاسیت میں کیوں ہے؟ جبکہ جمہوریت کے بارے اہل حدیث کا تو یھی موقف رہا ہے کے یہ ایک کافرانہ نظام ہے۔
تو میر صاحب اسکے حصہ کیوں بنے ہوئے ہیں؟ @کنعان ۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
ساجد میر کے بارے میں مجھے ایک الجھن ہوتی ہے کے وہ اس پاکستان کی سیاسیت میں کیوں ہے؟ جبکہ جمہوریت کے بارے اہل حدیث کا تو یھی موقف رہا ہے کے یہ ایک کافرانہ نظام ہے۔
تو میر صاحب اسکے حصہ کیوں بنے ہوئے ہیں؟ @کنعان ۔
یہ ایک مجبوری ہے۔ اگر علماء اس کافرانہ جمہوری سیاست کا رخ نہ کریں تو یہ میدان ملحدین کے لئے خالی ہوجائے گا اور انہیں کھل کر کھیلنے کا موقع مل جائے گا اس طرح جو ناقابل تلافی نقصان معاشرے کو پہنچے گا اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ماہنامہ محدث لاہور میں شائع شدہ مضامین کا مطالعہ بہت مفید ہے جن کا موضوع جمہوریت کو کفریہ نظام سمجھتے ہوئے بھی اس میں نیک لوگوں کی شمولیت کی ضرورت پر ہے۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
یہ ایک مجبوری ہے۔ اگر علماء اس کافرانہ جمہوری سیاست کا رخ نہ کریں تو یہ میدان ملحدین کے لئے خالی ہوجائے گا اور انہیں کھل کر کھیلنے کا موقع مل جائے گا اس طرح جو ناقابل تلافی نقصان معاشرے کو پہنچے گا اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ماہنامہ محدث لاہور میں شائع شدہ مضامین کا مطالعہ بہت مفید ہے جن کا موضوع جمہوریت کو کفریہ نظام سمجھتے ہوئے بھی اس میں نیک لوگوں کی شمولیت کی ضرورت پر ہے۔
نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ ہم کسی بھی ایسے شخص کو عہدہ سے نہیں نوازیں گے جو عہدہ طلب کرے یا اسکی حرص رکھے (صحیح مسلم)
لہذا کسی بھی امید وار کو ووٹ ڈالنا نا جائز ہے ۔
رہی یہ تأویل کہ ووٹ امانت ہے یا ووٹ ایک شہادت ہے تو وہ بھی بے سود ہے ۔
کیونکہ
اللہ تعالى کا فرمان ہے کہ امانتیں انکے اہل تک پہنچا دو , اور ان امید واروں میں سے کوئی بھی اس امانت کا اہل نہیں ہے ۔
اور اسی طرح
کوئی بھی ایسا امانت دار نہیں کہ جس کی امانت و دیانت اور ایمان وصدق کی ہم گواہی دے سکیں ۔

یہ محترم رفیق طاہر صاحب فرما رہے ہیں -


 

حسیب

رکن
شمولیت
فروری 04، 2012
پیغامات
116
ری ایکشن اسکور
85
پوائنٹ
75

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
ہم نے کب کہا ہے کہ کوئی بھی انسان سیاست سے کنارہ کش رہے ۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ ہر مسلمان کو ایک بہترین سیاست دان ہونا چاہیے , کیونکہ سیاست زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے خواہ وہ ملکی سیاست ہو بین الاقوامی سیاست ہو یا چھوٹے پیمانے کی سیاست ہو۔
رفیق طاھر، مئی 7، 2013
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
یہ ایک مجبوری ہے۔ اگر علماء اس کافرانہ جمہوری سیاست کا رخ نہ کریں تو یہ میدان ملحدین کے لئے خالی ہوجائے گا اور انہیں کھل کر کھیلنے کا موقع مل جائے گا اس طرح جو ناقابل تلافی نقصان معاشرے کو پہنچے گا اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ماہنامہ محدث لاہور میں شائع شدہ مضامین کا مطالعہ بہت مفید ہے جن کا موضوع جمہوریت کو کفریہ نظام سمجھتے ہوئے بھی اس میں نیک لوگوں کی شمولیت کی ضرورت پر ہے۔
جزاک اللہ محترم بھائی آپکی بات کو ہمارے کچھ مخلص اہل حدیث نہیں بھی مانتے جنکو میں غلط نہیں کہتا البتہ میری رائے میں آپ کی بات جائز ہو سکتی ہے اور میرا عمل بھی اسی پر ہے چنانچہ 2013 کے الیکشن میں ہم نے اپنے علاقے کے اہل حدیث کو اکٹھا کر کے حصہ لیا تھا
البتہ اس سلسلے میں ایک اہم بات جو میرے ہم نظریہ لوگوں کے لئے شرط کا درجہ رکھے گی کہ اس کو کفریہ نظام سمجھ کر حصہ لیا جائے اور باور بھی یہی کرایا جائے مگر میں نے دیکھا ہے کہ لوگ اس میں بہت کوتاہی کرتے ہیں ہم نے جب یہ کام شروع کیا تھا جو اپنی جماعۃ الدعوہ کی مسجد میں بیٹھ کر میٹنگز کی تھیں تو اس میں پہلے سب کو یہ کلیئر کرتے تھے کہ یہ قانون بنانا ہمارے نزدیک کفر ہے البتہ ہم اپنے علقے کے کچھ کام کروانے کے لئے کسی ایک پارٹی کو ووٹ دے رہے ہیں
اب یہاں یہ یاد رکھیں کہ کوتاہی یہاں ہوتی ہے کہ ہم فائدہ جو لے رہے ہیں ان سب سے بڑی ہماری ضرورت یہ ہے کہ اسکے غیر اسلامی ہونے کا احساس ہمارے اندر سے نہ چلا جائے کیونکہ اگر یہ ہوا تو پھر باقی تمام فائدے اس شیخ چلی والی بات کی طرح ہوں گے جو جس ٹہنی پر بیٹھا تھا اسی کو کاٹ رہا تھا پس اس نے نیچے ہی آنا تھا االبتہ اگر وہ اس کے اوپر نہ بیٹھتا بلکہ کبھی بیچ میں سستانے کے لئے اسکا سہارا لے کر آرام کر لیتا تو کوئی مسئلہ نہیں تھا
پس ہم جس کفر کو ختم کرنا چاہ رہے ہیں اس پر بیٹھ کر تو ختم نہیں کر سکتے البتہ ختم کرنے سے ہٹ کر اس کفر کا سہارا آرام کرنے کے لئے لے سکتے ہیں واللہ اعلم
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
جزاک اللہ محترم بھائی آپکی بات کو ہمارے کچھ مخلص اہل حدیث نہیں بھی مانتے جنکو میں غلط نہیں کہتا البتہ میری رائے میں آپ کی بات جائز ہو سکتی ہے اور میرا عمل بھی اسی پر ہے

اسلام اور جمہوریت میں فرق
1– اسلام کی بنیاد اﷲ کے تصور پر ہے۔
جمہوریت کی بنیاد عوام پر ہے ‘ اﷲ کا کوئی تصور نہیں۔
2– اسلام اﷲ کا نظام ہے جو ساری کائنات میں جاری و ساری ہے ‘ جس کی روح یہ ہے کہ ہر جگہ اﷲ کا حکم چلتا ہے۔ کیا جمادات‘ کیا نباتات‘ کیا حیوانات۔
جمہوریت صرف کافروں کا ایک سیاسی نظام ہے۔
3– اسلام انسانوں کا بنایا ہوا نہیں‘ جمہوریت کافروں کا بنایا ہوا نظام ہے۔
4– اسلام مکمل نظام حیات ہے‘ سیاست صرف اس کا ایک شعبہ ہے اس لیے اسلامی سیاست کا باقی نظاموں کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ اسی لیے اسلامی سیاست اسلام کے اخلاقی اور روحانی ضابطوں کی پابند ہے۔ جمہوریت صرف ایک نظام سیاست ہے ‘ مکمل نظام حیات نہیں۔ اس لیے یہ اخلاقی اور روحانی ضابطوں سے بے نیا ز ہے۔
5– عرف میں اسلام اﷲ کا حکم ماننے کو کہتے ہیں‘ جمہوریت اکثریت کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کو۔
6– اﷲ کو تسلیم نہ کرنے سے اسلام کا تصور ختم ہو جاتا ہے‘ آدمی مسلمان نہیں رہتا۔ اﷲ کو تسلیم کرے یا نہ جمہوریت میں کوئی فرق پڑتا ۔
7– اسلام میں اﷲ کا ماننے والا مسلمان‘ نہ ماننے والا کافر۔جمہوریت میں جب اﷲ کا کوئی تصور ہی نہیں تو مسلمان اور کافر کا فرق بھی کوئی چیز نہیں۔
8– اسلام میں مسلمان اور کافرکبھی برابر نہیں ہو سکتے۔جمہوریت میں کوئی فرق نہیں مسلمان اورکافر سب برابر ہیں۔
9– اسلام میں حاکم اعلیٰ اﷲ ہے‘ اصل حاکمیت اسی کی ہے‘ جمہوریت میں اصل حاکمیت عوام کی ہوتی ہے۔ اﷲ کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔
10– اسلام میں حاکمیت اور اطاعت اﷲ کا حق ہے‘ جمہوریت میں یہ عوام کا حق ہوتا ہے۔
11– اسلام میں اقلیت اور اکثریت کوئی چیز نہیں‘ بالادستی صرف حق کو حاصل ہوتی ہے‘ جمہوریت میں حق کوئی چیز نہیں ‘ بالادستی اکثریت کو حاصل ہوتی ہے۔
12– اسلام میں اﷲ ہی سب کچھ ہے‘ جمہوریت میں عوام ہی سب کچھ ہے۔جمہوریت کا خدا عوام ہیں۔
13– اسلام میں حق وہ ہے جو اﷲ کہے‘ باقی سب باطل‘ خواہ وہ اکثریت کا ہی فیصلہ ہو۔ جمہوریت میں حق و باطل کوئی چیز نہیں‘ جو اکثریت کہے وہی حق ہے۔
14– اسلام میں امیر و حاکم وہ صحیح ہے جو اﷲ کے معیار پر پوراترے ‘ جو خود اسلام کا پابند ہو اور لوگوں کو اسلام کا پابند بنائے‘ خواہ منتخب ہو یا نہ۔جمہوریت میں جو عوام کے ووٹ زیادہ حاصل کرے ‘ خواہ وہ بدترین خلائق ہی ہو ۔
15– اسلام میں کافر امیر اور حاکم نہیں بن سکتا‘ جمہوریت میں ہر کوئی حاکم بن سکتا ہے‘ کافر ہو یا مسلمان۔
16– اسلام میں دستور قانون بنانے کا اصولاً سوائے اﷲ کے کسی کو حق نہیں‘ جمہوریت میں یہ کام عوام کے نمائندوں کا ہے۔
17– اسلام میں حاکم اﷲ کی مقرر کردہ حدوں کے اندر ہی قانون بنا سکتا ہے ‘ جمہوریت میں عوام کی منتخب کردہ اسمبلی جیسے چاہے قانون بنا سکتی ہے‘ اس پر کوئی پابندی نہیں۔
18– اسلام کا نظام ہمیشہ نیک لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ اقلیت میں ہوتے ہیں۔
جمہوریت کا نظام ہمیشہ اکثریت کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور اکثریت ہمیشہ برے لوگوں کی ہوتی ہے۔اس لیے جمہوری طریقوں سے نہ اسلام آ سکتا ہے ‘ نہ اسلام رہ سکتا ہے۔ اسلام صرف اس صورت میں رہ سکتا ہے جب معاشرے کی باگ ڈور نیک لوگوں کے ہاتھ میں ہو۔ جونہی باگ ڈور عوام کے ہاتھ میں آئی اسلام گیا۔ کیوں کہ عوام میں اکثریت بدوں کی ہوتی ہے۔
19– اسلام میں جو ایک دفعہ خلیفہ بن جائے منتخب ہو یا غیر منتخب اس کا ہٹانا جائز نہیں‘ الا یہ کہ وہ کفر کا ارتکاب کرے۔ایک خلیفہ کی وفات کے بعد ہی دوسرا خلیفہ بن سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ ‘ حضرت عمرؓ ‘ حضرت عثمان ؓ حضرت علیؓ کی خلافت میں اس کے بعد خیر القرون میں ہمیشہ اسی پر عمل رہا۔
جمہوریت میں تین یا پانچ سال بعد انتخابات ضروری ہیں۔ منتخب شدہ صدر یا وزیر اعظم کیسا ہی اچھا اور کامیاب کیوں نہ ہو الیکشن ضروری ہیں۔ جمہوریے اپنی لڑکی کو تو خاوند بار بار نہیں کرواتے جمہوریت کو ہر تین یا پانچ سال بعد نیا خاوند ضرور کر وا دیتے ہیں۔
20– اسلام میں حکومت انسانوں کا حق نہیں ‘ کہ ہر ووٹر امید وار بن کر الیکشن لڑنے کے لیے کھڑا ہو جائے ۔ اسلام میں حکومت اﷲ کے احکام کو نافذ کرنے کی ذمہ داری کا م ہے ۔ اس ذمہ داری کا اہل ہر کوئی نہیں ہو سکتا۔ نہ اس ذمہ داری کے اہل کا ہر کوئی انتخاب لڑ سکتا ہے۔ اس لیے اسلام میں جمہوری الیکشنوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
جمہوریت میں حکومت عوام کا حق ہے۔ اس لیے ہر کوئی ووٹر بن سکتا ہے اور ہر کوئی امید وار بن کر الیکشن لڑسکتا ہے۔ اہل ہو یا نااہل‘ مسلمان ہو یا کافر۔
21– اسلام میں سب انسان برابر ہیں‘ کیوں کہ جب اﷲ کی مخلوق ہیں‘ اسی لیے کسی انسان کو کسی انسان پر حکومت کرنے کا حق نہیں۔حکومت کرنے کا حق صرف اﷲ کو حاصل ہے جو خالق ہے اور ساری مخلوق کا واحد مالک ہے۔ وہ جس کو جتناحکومت کا حق دے وہ اس حق کے اندر رہ کر حکومت کر سکتا ہے۔ مثلا خاوند بیوی پر ‘ راعی رعایا پر ‘ مالک نوکر پر‘ آقا غلام پر‘ بڑا چھوٹے پر۔ استاد شاگرد پر۔
جمہوریت میں انسان انسانوں پر حکومت کرتے ہیں۔ جس کو اکثریت حاصل ہو جائے وہ اکثریت کے زور سے اقلیت پر حکومت کرتا ہے۔
22– اسلام ایک دین ہے جو اﷲ کا ہے‘ جمہوریت میں مذہب اور دین کوئی چیز نہیں۔ مذہب ہر آدمی کا اپنا ذاتی اور پرائیویٹ مسئلہ ہے۔ جمہوری ریاست کو مذہب سے کوئی غرض نہیں۔
23– اسلام باطل کو برداشت نہیں کرتا‘ بلکہ اسے مختلف طریقوں سے مٹاتا ہے (جَاءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ)[17:الاسراء:81]جو اسلام سے پھر جائے ‘یعنی مرتد ہو جائے ‘ اسلام اسے قتل کرتا ہے۔

جمہوریت میں مذہب سے آزادی ہے‘ ہر کوئی جو چاہے مذہب رکھے۔ کوئی پابندی نہیں‘ جس طرح چاہے مذہب بدلے‘ کوئی رکاوٹ نہیں‘ کوئی سزا نہیں۔ اس لیے جمہوریت میں لوگ پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں۔
24– باطل کو مٹانا اسلا م کا فرض ہے اور یہی جہاد ہے‘ جو قیامت تک فرض ہے ‘جمہوریت میں باطل سے جہاد کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جمہوریت جہاد کو ختم کرتی ہے۔
25–

اسلام کہتا ہے اگرتو اکثریت کی پیروی کرے گا یعنی جمہوری راہ پر چلے گا تو جمہوریت تجھے گمراہ کر دے گی ۔(واِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ ﷲِ )[6:الانعام:116]جمہوریت اکثریت کی پیروی کرتی ہے اس کے بغیراس کا گزارا نہیں۔

26– اسلام میں نہ حز ب اقتدار کا تصور ہے ‘نہ حزب اختلاف کا۔ اسلام پارٹیوں کے سخت خلاف ہے۔ خاص طور پر سیاسی پارٹیوں کی تو قطعاً اجازت نہیں۔
جمہوریت پارٹیاں بنانا سکھاتی ہے اور پارٹیوں کے بل بوتے پر چلتی ہے۔ پارٹیوں کے بغیر جمہوریت چل ہی نہیں سکتی۔ حزب اقتدا ر اور حزب اختلا ف کا ہونا لازمی ہے۔
27– اسلام میں عورت حاکم نہیں ہو سکتی ‘ سربراہ مملکت ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
جمہوریت میں عورت بھی سربراہ مملکت ہو سکتی ہے‘ کوئی پابندی نہیں۔
28– اسلام میں طاقت کا سرچشمہ اﷲ ہے۔
جمہورت میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔
29– اسلام میں عالم اور جاہل کی رائے برابر نہیں ہو سکتی۔
جمہوریت میں عالم اور جاہل کا ووٹ برابر کا درجہ رکھتا ہے۔
30– اسلام میں ایک حق والا لاکھوں کی اکثریت پر بھاری ہے۔
جمہوریت میں جدھر زیادہ ووٹ ہوں گے وہی طرف بھاری ہے۔ حق ‘ ناحق کا کوئی معیار نہیں۔
31– اسلام میں مرد اور عورت کا درجہ برابر نہیں۔
جمہوریت میں عورت کا ووٹ مرد کے برابر ہے۔
-32 اسلام اور جمہوریت میں ایک بڑا فرق یہ بھی ہے کہ وطن اور قوم جمہوری دور کے خدا ہیں۔ ان کے بغیر جمہوریت چل ہی نہیں سکتی۔


یہ حافظ عبدللہ بہاولپوری رحم الله فرما رہے ہیں

 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
چنانچہ 2013 کے الیکشن میں ہم نے اپنے علاقے کے اہل حدیث کو اکٹھا کر کے حصہ لیا تھا
البتہ اس سلسلے میں ایک اہم بات جو میرے ہم نظریہ لوگوں کے لئے شرط کا درجہ رکھے گی کہ اس کو کفریہ نظام سمجھ کر حصہ لیا جائے اور باور بھی یہی کرایا جائے مگر میں نے دیکھا ہے کہ لوگ اس میں بہت کوتاہی کرتے ہیں ہم نے جب یہ کام شروع کیا تھا جو اپنی جماعۃ الدعوہ کی مسجد میں بیٹھ کر میٹنگز کی تھیں تو اس میں پہلے سب کو یہ کلیئر کرتے تھے کہ یہ قانون بنانا ہمارے نزدیک کفر ہے البتہ ہم اپنے علقے کے کچھ کام کروانے کے لئے کسی ایک پارٹی کو ووٹ دے رہے ہیں

نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ ہم کسی بھی ایسے شخص کو عہدہ سے نہیں نوازیں گے جو عہدہ طلب کرے یا اسکی حرص رکھے (صحیح مسلم)
لہذا کسی بھی امید وار کو ووٹ ڈالنا نا جائز ہے ۔

رہی یہ تأویل کہ ووٹ امانت ہے یا ووٹ ایک شہادت ہے تو وہ بھی بے سود ہے ۔

کیونکہ

اللہ تعالى کا فرمان ہے کہ امانتیں انکے اہل تک پہنچا دو , اور ان امید واروں میں سے کوئی بھی اس امانت کا اہل نہیں ہے ۔
اور اسی طرح

کوئی بھی ایسا امانت دار نہیں کہ جس کی امانت و دیانت اور ایمان وصدق کی ہم گواہی دے سکیں ۔

یہ محترم رفیق طاہر صاحب فرما رہے ہیں -
 
Top