- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
1۔ سادگی سے شادی کا بعض احباب یہ مطلب سمجھنے اور سمجھانے لگے ہیں کہ ایسی شادی جو کم سے کم پیسوں بلکہ مفت میں ہوجائے۔ بالخصوص لڑکی والوں کا کچھ خرچ نہ ہو۔۔۔ جبکہ سادگی سے شادی کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ شادی کے دوران غیر ضروری نمود و نمائش نہ ہو، مروجہ غیر اسلامی تقریبات جیسے مایوں، مہندی، بارات، آتش بازی، ناچ گانا (لائیو یا ریکارڈنگ)، جہیز کی نمائش، نامحرموں یا پیشہ ور افراد سے تقریب کی فوٹو گرافی، ویڈیو گرافی، کھانوں کا ضیاع سمیت ایسا کوئی کام نہ ہو جو غیر شرعی اور حرام کے زمرے میں آتا ہو۔
2۔ سادگی سے شادی کا تعلق اخراجات میں کمی بیشی سے نہیں ہوتا۔ بلکہ شادی کے دوران دونوں خاندان کے رویوں اور اظہاریوں سے ہوتا ہے۔ اگر کسی خاندان کی ماہانہ آمدن ایک ملین روپیہ ہے تووہ خاندان اپنے بچوں کی شادی شرعی قوانین کی خلاف ورزی کیے بغیر سادگی کے ساتھ دو تین ملین میں بھی کرسکتا ہے۔ جبکہ تیس چالیس ہزار روپیہ کمانے والا فرد اپنے بچوں کی شادی دو تین لاکھ میں بھی مروجہ "دھوم دھام" سے مایوں، مہندی، بارات، آتش بازی، ناچ گانا، فوٹو گرافی، ویڈیو گرافی کے ساتھ کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ دونوں فیملیز کا سوشیل اسٹیٹس الگ الگ ہے۔ دوسری فیملی دو تین لاکھ میں دھوم دھام والی شادی اپنے محلہ کی گلی میں قناتیں لگا کراور یہیں دیگیں پکوا کر کرسکتی ہے۔ جبکہ پہلی فیملی دو تین ملین والی سادہ شادی کسی ایئر کنڈیشنڈ بینکویٹ یا سیون اسٹار ہوٹل کا ہال بک کرکے، کسی اول درجے کے کیٹرنگ سے کھانا پکوا کر خاندانی اور کاروباری روابط کے دو تین ہزار افراد کو مدعو کرکے کرسکتی ہے۔ ہم جس سرکل (لوئر، مڈل، اپر) سے بھی تعلق رکھتے ہوں اسی سرکل کے اسٹیٹس کے اندر رہتے ہوئے اپنے وسائل سے سادگی سے شادی کرسکتے ہیں۔
3۔ جہیز ایک لعنت ہے۔ یہ جملہ عام طور سے کہا اور سنا جاتا ہے، جو غلط ہے۔ درست جملہ یوں ہوگا: شادی کی شرط کے طور پر اور لڑکی والوں کی استطاعت سے بڑھ کرجہیز طلب کرنا ایک لعنت ہے۔ ایسی صورت میں بھی یہ معیوب اور ناپسندیدہ تو ہوسکتا ہے، حرام ہرگز نہیں۔ جس طرح بھیک اور خیرات دینا تو افضل اور کار ثواب ہے، لیکن بھیک مانگنا معیوب اور ناپسندیدہ تو ہے، لیکن حرام نہیں۔ اگر بھیک مانگنا حرام ہوتا تو بھیک دینا بھی حرام ہوتا۔ جیسے رشوت مانگنا اور رشوت دینا دونوں حرام ہیں۔ جہیز کی نمود و نمائش کو حرام کہہ سکتے ہیں کہ اس سے محروم طبقات کی شادیاں متاثر ہوتی ہیں۔ لیکن بغیر کسی پر ظلم کیے اور باہمی رضامندی اور خوشی سے جہیز کا لین دین نہ لعنت ہے اور نہ ہی حرام۔ خواہ یہ چند ہزار مالیت کی ہو یا چند کروڑ مالیت کی۔ جہیز پر لعنت ملامت بھیجتے ہوئے یہ کہنا بھی غلط ہے کہ بیٹی کو جہیز نہ دو بلکہ وراثت دو۔ وراثت تو باپ کے مرنے کے بعد (اگر باپ کچھ چھوڑ کر مرا، تب) ملنے والی شے ہے جبکہ جہیز تو شادی کا گفٹ ہے جو باپ بیٹی اور داماد کو دیتا ہے۔ جیسے وہ بیٹے کی شادی پر بیٹے اور بہو کو گھریلو سامان وغیرہ کا گفٹ دیتا ہے۔
4۔ لڑکے والوں کی طرف سے کم سے کم مہر یا لڑکی والوں کی طرف سے زیادہ سے زیادہ مہر کے مطالبہ یا ادائیگی، وصولی کو برا کہنا۔ یہ بھی غلط ہے۔ شریعت میں مہر کی کوئی اپر یا لوئر لمٹ نہیں رکھی گئی ہے۔ یہ صفر روپے بھی ہوسکتا ہے اور سونے کا پہاڑ بھی۔ مہر کا تعین کوئی تیسرا نہیں کرسکتا۔ یہ لڑکی کا شرعی حق ہے۔ وہ جتنا چاہے مطالبہ کرسکتی ہے۔ اسی طرح مہر دینا لڑکے کی ذمہ داری ہے، وہ جتنا چاہے آفر کرسکتا ہے۔ لڑکی کے مطالبہ کو لڑکا پورا کردے یا لڑکے کی آفر کو لڑکی قبول کرلے، شریعت میں بس اتنا ہی کافی ہے۔ باہمی گفت و شنید کے ذریعہ مہرکے مطالبہ یا آفر میں کمی بیشی کو بھی شریعت منع نہیں کرتی۔
5۔ شادی کی ایک ہی ضیافت ہے اور وہ ولیمہ ہے۔ لڑکی والوں پر نکاح یا رخصتی کے موقع پر کوئی ضیافت لازم نہیں۔ یہاں صرف "لازم نہیں" والی بات درست ہے۔ یعنی لڑکی والوں پر زور نہیں دیا جاسکتا کہ وہ نکاح یا رخصتی کے لیے آنے والے دلہا، ان کے اہل خانہ یا مہمانوں کی ضیافت کرے۔ بعض لوگ لڑکی کے نکاح یا رخصتی کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے پیش کردہ ضیافت کو حرام یا حرام جیسا سمجھ کر اس میں شرکت کو اپنے "نام نہاد تقویٰ" کے لیے باعث "توہین" سمجھنے لگتے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ عام یا خاص دنوں (عیدین وغیرہ) میں اپنے گھر آئے مہمانوں کے لیے تو خصوصی طور پر کھانے پینے کا اہتمام کیا جائے۔ لیکن اگر بہن بیٹی کی شادی رخصتی پر دلہا کے ہمراہ آنے والے مہمانوں کوکھلایا پلایا جائے تو ہم اسے "غیر شرعی" کہنے لگتے ہیں۔ پتہ نہیں کس کلیہ سے؟
6۔ شادی شدہ جوڑے، دلہا یا دلہن کو تحائف دینا۔ کسی کے گھر جاتے ہوئے تحفہ لے کر جانے کا تو حکم (مگر فرض نہیں) بھی ہے۔ اسی طرح جوابی تحفہ دینے کا بھی حکم ہے۔ تو اگر شادی بیاہ کے موقع پر مہمان کوئی تحفہ پیش کرے۔ یا مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے تحفہ میں یکسانیت سے بچنے کے لیے اپنی اپنی خوشی سے کیش تحفہ دیا اور لیا جائے تو بعض احباب اسے بھی برا بلکہ "غیر شرعی" تک گرداننے لگتے ہیں۔ حالانکہ شادی کے موقع پر تحفہ کے لین دین میں اگر کوئی اور غیر شرعی بات نہ ہورہی ہو تو تحائف کا یہ لین دین اپنی ذات میں نامناسب ہرگز نہیں بلکہ مستحب ہے۔
بیٹے اور بیٹی میں تفریق کیوں؟
ہم سب یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ ہم بیٹے اور بیٹی کو زندگی کی سہولیات فراہم کرنے میں کوئی تفریق نہیں کرتے۔ تمام والدین ہی بیٹے بیٹی دونوں کو کھانے پینے، لباس و رہائش، ضروریات و آسائش اور تعلیم وغیرہ کی یکساں سہولیات فراہم کرتے ہیں یا ایسا کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی معاملہ شادی کا آتا ہے تو ہماری یہ "عدم تفریق کی پالیسی" نہ جانے کہاں اور کیوں غائب ہوجاتی ہے؟
متوسط طبقہ کے اکثر گھرانوں میں غیر شادی شدہ لڑکوں کے لیے علیحدہ کمرہ تو درکنار، علیحدہ بستر بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ غیر شادی شدہ جوان لڑکے بھی گھر بھر میں جب اور جہاں جگہ مل جائے، صبر و شکر کرکے سوجاتے ہیں۔ لیکن اسی لڑکے کی جیسے ہی شادی ہونے لگتی ہے، اس کے لیے علیحدہ گھر یا کم ازکم ایک علیحدہ اور فرنشڈ کمرہ تو لازماً فراہم کیا جاتا ہے۔ اگر لڑکا یہ سب کچھ از خود کرنے کے قابل نہ ہو تو یہ سب کچھ اس کے والدین اور بہن بھائی مل جل کرہی کرتے ہیں۔ اسی طرح لڑکے اور اس کی بیوی کے لیے شادی کے جوڑے، بہو کے لیے زیورات، ولیمہ کے جملہ اخراجات اور بسا اوقات تو مہر کی رقم بھی والدین لڑکے کو فراہم کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔
لیکن جیسے ہی لڑکی کی شادی کا معاملہ سامنے آتا ہے تو ہم میں سے بعض (نام نہاد) دیندار طبقہ بھی بیٹی کو بیٹے جیسی سہولیات فراہم کرنے کو "غیر شرعی" اور حرام ڈکلیئر کردیتے ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ہم نہ تو کسی بھی امر کو اپنی طرف سے فرض قرار دینے کے مجاز ہیں، اور نہ ہی کسی امر کو حرام و ناجائز قرار دے سکتے ہیں۔ کسی بھی شے یا امر کو فرض اور حرام یا ناجائز قرار دینے کا اختیار صرف اور صرف قرآن و سنت کو حاصل ہے۔ استثنائی یا خصوصی حالات کے تحت بھی فرض میں رخصت یا حرام و ناجائز کو جائز قرار دینے کے اصول و ضوابط بھی قرآن و سنت ہی نے متعین کردیے ہیں۔ ہم میں سے کسی کو بھی ان دو امور(فرض اور حرام) میں ترمیم و اضافہ کا حق حاصل نہیں ہے۔
اب ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیے کہ لڑکی کی شادی کے موقع پر ان میں سے کون سا امر، قرآن و سنت کے کس ضابطے کی رو سے حرام، مکروہ یا ناپسندیدہ ہے۔
1۔ شادی پر جس طرح لڑکے کو علیحدہ مکان یا علیحدہ کمرہ فرنشڈ کرکے فراہم کیا جاتا ہے۔ اگر اسی طرح لڑکی کے لیے بھی علیحدہ مکان یا ساس سسر کی طرف سے فراہم کردہ علیحدہ کمرہ کو فرنشڈ کرنے کا انتظام کیا جائے۔ اور گھریلو ساز و سامان کی فراہمی کا یہ اہتمام اپنی مرضی اورخوشی سے کیا جائے یا بیٹی یا داماد کی ضرورت، خواہش یا مطالبہ پر کیا جائے تو اس میں شرعی حرمت اور شرعی ناپسندیدگی کیسے ہوگئی؟
2۔ بیٹی کے نکاح اور رخصتی کے لیے آنے والے بیٹی کے سسرالی مہمانوں کی عزت افزائی اور اپنی حیثیت کے مطابق انہیں ضیافت فراہم کرنا "غیر شرعی" کیسے ہوگیا؟ یہ نہ تو فرض ہے اور نہ ہی حرام۔ یہ ایک مباح عمل ہے۔ جو چاہے کرے۔ جو نہ چاہے نہ کرے۔
3۔ بیٹے یا بیٹی کی شادی کی خوشی کے موقع پرآنے والے مہمان اگر اپنی خوشی سے تحائف یا مہمانوں کی کثرت کی بنا پر تحائف میں یکسانیت سے بچنے کے لیے مہمانان گرامی اپنی خوشی سے لفافے میں کیش بطور تحفہ و ہدیہ پیش کریں تو یہ "غیر شرعی" کیسے ہوگیا؟ کسی جائز یا ناجائز کاموں کے لیے بطور رشوت دیے جانے والے لفافے پر اظہار نفریں تو سمجھ میں آتی ہے لیکن شادی کی خوشی میں دیے گئے اس ہدیہ والے لفافہ پر اظہار نفرت کا کیا جواز ہے؟ کیا شادی کے موقع پر ہدیہ دینا حرام ہے؟
"دینے" اور "لینے" کے "فرق" کو سمجھیے
2۔ سادگی سے شادی کا تعلق اخراجات میں کمی بیشی سے نہیں ہوتا۔ بلکہ شادی کے دوران دونوں خاندان کے رویوں اور اظہاریوں سے ہوتا ہے۔ اگر کسی خاندان کی ماہانہ آمدن ایک ملین روپیہ ہے تووہ خاندان اپنے بچوں کی شادی شرعی قوانین کی خلاف ورزی کیے بغیر سادگی کے ساتھ دو تین ملین میں بھی کرسکتا ہے۔ جبکہ تیس چالیس ہزار روپیہ کمانے والا فرد اپنے بچوں کی شادی دو تین لاکھ میں بھی مروجہ "دھوم دھام" سے مایوں، مہندی، بارات، آتش بازی، ناچ گانا، فوٹو گرافی، ویڈیو گرافی کے ساتھ کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ دونوں فیملیز کا سوشیل اسٹیٹس الگ الگ ہے۔ دوسری فیملی دو تین لاکھ میں دھوم دھام والی شادی اپنے محلہ کی گلی میں قناتیں لگا کراور یہیں دیگیں پکوا کر کرسکتی ہے۔ جبکہ پہلی فیملی دو تین ملین والی سادہ شادی کسی ایئر کنڈیشنڈ بینکویٹ یا سیون اسٹار ہوٹل کا ہال بک کرکے، کسی اول درجے کے کیٹرنگ سے کھانا پکوا کر خاندانی اور کاروباری روابط کے دو تین ہزار افراد کو مدعو کرکے کرسکتی ہے۔ ہم جس سرکل (لوئر، مڈل، اپر) سے بھی تعلق رکھتے ہوں اسی سرکل کے اسٹیٹس کے اندر رہتے ہوئے اپنے وسائل سے سادگی سے شادی کرسکتے ہیں۔
3۔ جہیز ایک لعنت ہے۔ یہ جملہ عام طور سے کہا اور سنا جاتا ہے، جو غلط ہے۔ درست جملہ یوں ہوگا: شادی کی شرط کے طور پر اور لڑکی والوں کی استطاعت سے بڑھ کرجہیز طلب کرنا ایک لعنت ہے۔ ایسی صورت میں بھی یہ معیوب اور ناپسندیدہ تو ہوسکتا ہے، حرام ہرگز نہیں۔ جس طرح بھیک اور خیرات دینا تو افضل اور کار ثواب ہے، لیکن بھیک مانگنا معیوب اور ناپسندیدہ تو ہے، لیکن حرام نہیں۔ اگر بھیک مانگنا حرام ہوتا تو بھیک دینا بھی حرام ہوتا۔ جیسے رشوت مانگنا اور رشوت دینا دونوں حرام ہیں۔ جہیز کی نمود و نمائش کو حرام کہہ سکتے ہیں کہ اس سے محروم طبقات کی شادیاں متاثر ہوتی ہیں۔ لیکن بغیر کسی پر ظلم کیے اور باہمی رضامندی اور خوشی سے جہیز کا لین دین نہ لعنت ہے اور نہ ہی حرام۔ خواہ یہ چند ہزار مالیت کی ہو یا چند کروڑ مالیت کی۔ جہیز پر لعنت ملامت بھیجتے ہوئے یہ کہنا بھی غلط ہے کہ بیٹی کو جہیز نہ دو بلکہ وراثت دو۔ وراثت تو باپ کے مرنے کے بعد (اگر باپ کچھ چھوڑ کر مرا، تب) ملنے والی شے ہے جبکہ جہیز تو شادی کا گفٹ ہے جو باپ بیٹی اور داماد کو دیتا ہے۔ جیسے وہ بیٹے کی شادی پر بیٹے اور بہو کو گھریلو سامان وغیرہ کا گفٹ دیتا ہے۔
4۔ لڑکے والوں کی طرف سے کم سے کم مہر یا لڑکی والوں کی طرف سے زیادہ سے زیادہ مہر کے مطالبہ یا ادائیگی، وصولی کو برا کہنا۔ یہ بھی غلط ہے۔ شریعت میں مہر کی کوئی اپر یا لوئر لمٹ نہیں رکھی گئی ہے۔ یہ صفر روپے بھی ہوسکتا ہے اور سونے کا پہاڑ بھی۔ مہر کا تعین کوئی تیسرا نہیں کرسکتا۔ یہ لڑکی کا شرعی حق ہے۔ وہ جتنا چاہے مطالبہ کرسکتی ہے۔ اسی طرح مہر دینا لڑکے کی ذمہ داری ہے، وہ جتنا چاہے آفر کرسکتا ہے۔ لڑکی کے مطالبہ کو لڑکا پورا کردے یا لڑکے کی آفر کو لڑکی قبول کرلے، شریعت میں بس اتنا ہی کافی ہے۔ باہمی گفت و شنید کے ذریعہ مہرکے مطالبہ یا آفر میں کمی بیشی کو بھی شریعت منع نہیں کرتی۔
5۔ شادی کی ایک ہی ضیافت ہے اور وہ ولیمہ ہے۔ لڑکی والوں پر نکاح یا رخصتی کے موقع پر کوئی ضیافت لازم نہیں۔ یہاں صرف "لازم نہیں" والی بات درست ہے۔ یعنی لڑکی والوں پر زور نہیں دیا جاسکتا کہ وہ نکاح یا رخصتی کے لیے آنے والے دلہا، ان کے اہل خانہ یا مہمانوں کی ضیافت کرے۔ بعض لوگ لڑکی کے نکاح یا رخصتی کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے پیش کردہ ضیافت کو حرام یا حرام جیسا سمجھ کر اس میں شرکت کو اپنے "نام نہاد تقویٰ" کے لیے باعث "توہین" سمجھنے لگتے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ عام یا خاص دنوں (عیدین وغیرہ) میں اپنے گھر آئے مہمانوں کے لیے تو خصوصی طور پر کھانے پینے کا اہتمام کیا جائے۔ لیکن اگر بہن بیٹی کی شادی رخصتی پر دلہا کے ہمراہ آنے والے مہمانوں کوکھلایا پلایا جائے تو ہم اسے "غیر شرعی" کہنے لگتے ہیں۔ پتہ نہیں کس کلیہ سے؟
6۔ شادی شدہ جوڑے، دلہا یا دلہن کو تحائف دینا۔ کسی کے گھر جاتے ہوئے تحفہ لے کر جانے کا تو حکم (مگر فرض نہیں) بھی ہے۔ اسی طرح جوابی تحفہ دینے کا بھی حکم ہے۔ تو اگر شادی بیاہ کے موقع پر مہمان کوئی تحفہ پیش کرے۔ یا مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے تحفہ میں یکسانیت سے بچنے کے لیے اپنی اپنی خوشی سے کیش تحفہ دیا اور لیا جائے تو بعض احباب اسے بھی برا بلکہ "غیر شرعی" تک گرداننے لگتے ہیں۔ حالانکہ شادی کے موقع پر تحفہ کے لین دین میں اگر کوئی اور غیر شرعی بات نہ ہورہی ہو تو تحائف کا یہ لین دین اپنی ذات میں نامناسب ہرگز نہیں بلکہ مستحب ہے۔
بیٹے اور بیٹی میں تفریق کیوں؟
ہم سب یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ ہم بیٹے اور بیٹی کو زندگی کی سہولیات فراہم کرنے میں کوئی تفریق نہیں کرتے۔ تمام والدین ہی بیٹے بیٹی دونوں کو کھانے پینے، لباس و رہائش، ضروریات و آسائش اور تعلیم وغیرہ کی یکساں سہولیات فراہم کرتے ہیں یا ایسا کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی معاملہ شادی کا آتا ہے تو ہماری یہ "عدم تفریق کی پالیسی" نہ جانے کہاں اور کیوں غائب ہوجاتی ہے؟
متوسط طبقہ کے اکثر گھرانوں میں غیر شادی شدہ لڑکوں کے لیے علیحدہ کمرہ تو درکنار، علیحدہ بستر بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ غیر شادی شدہ جوان لڑکے بھی گھر بھر میں جب اور جہاں جگہ مل جائے، صبر و شکر کرکے سوجاتے ہیں۔ لیکن اسی لڑکے کی جیسے ہی شادی ہونے لگتی ہے، اس کے لیے علیحدہ گھر یا کم ازکم ایک علیحدہ اور فرنشڈ کمرہ تو لازماً فراہم کیا جاتا ہے۔ اگر لڑکا یہ سب کچھ از خود کرنے کے قابل نہ ہو تو یہ سب کچھ اس کے والدین اور بہن بھائی مل جل کرہی کرتے ہیں۔ اسی طرح لڑکے اور اس کی بیوی کے لیے شادی کے جوڑے، بہو کے لیے زیورات، ولیمہ کے جملہ اخراجات اور بسا اوقات تو مہر کی رقم بھی والدین لڑکے کو فراہم کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔
لیکن جیسے ہی لڑکی کی شادی کا معاملہ سامنے آتا ہے تو ہم میں سے بعض (نام نہاد) دیندار طبقہ بھی بیٹی کو بیٹے جیسی سہولیات فراہم کرنے کو "غیر شرعی" اور حرام ڈکلیئر کردیتے ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ہم نہ تو کسی بھی امر کو اپنی طرف سے فرض قرار دینے کے مجاز ہیں، اور نہ ہی کسی امر کو حرام و ناجائز قرار دے سکتے ہیں۔ کسی بھی شے یا امر کو فرض اور حرام یا ناجائز قرار دینے کا اختیار صرف اور صرف قرآن و سنت کو حاصل ہے۔ استثنائی یا خصوصی حالات کے تحت بھی فرض میں رخصت یا حرام و ناجائز کو جائز قرار دینے کے اصول و ضوابط بھی قرآن و سنت ہی نے متعین کردیے ہیں۔ ہم میں سے کسی کو بھی ان دو امور(فرض اور حرام) میں ترمیم و اضافہ کا حق حاصل نہیں ہے۔
اب ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیے کہ لڑکی کی شادی کے موقع پر ان میں سے کون سا امر، قرآن و سنت کے کس ضابطے کی رو سے حرام، مکروہ یا ناپسندیدہ ہے۔
1۔ شادی پر جس طرح لڑکے کو علیحدہ مکان یا علیحدہ کمرہ فرنشڈ کرکے فراہم کیا جاتا ہے۔ اگر اسی طرح لڑکی کے لیے بھی علیحدہ مکان یا ساس سسر کی طرف سے فراہم کردہ علیحدہ کمرہ کو فرنشڈ کرنے کا انتظام کیا جائے۔ اور گھریلو ساز و سامان کی فراہمی کا یہ اہتمام اپنی مرضی اورخوشی سے کیا جائے یا بیٹی یا داماد کی ضرورت، خواہش یا مطالبہ پر کیا جائے تو اس میں شرعی حرمت اور شرعی ناپسندیدگی کیسے ہوگئی؟
2۔ بیٹی کے نکاح اور رخصتی کے لیے آنے والے بیٹی کے سسرالی مہمانوں کی عزت افزائی اور اپنی حیثیت کے مطابق انہیں ضیافت فراہم کرنا "غیر شرعی" کیسے ہوگیا؟ یہ نہ تو فرض ہے اور نہ ہی حرام۔ یہ ایک مباح عمل ہے۔ جو چاہے کرے۔ جو نہ چاہے نہ کرے۔
3۔ بیٹے یا بیٹی کی شادی کی خوشی کے موقع پرآنے والے مہمان اگر اپنی خوشی سے تحائف یا مہمانوں کی کثرت کی بنا پر تحائف میں یکسانیت سے بچنے کے لیے مہمانان گرامی اپنی خوشی سے لفافے میں کیش بطور تحفہ و ہدیہ پیش کریں تو یہ "غیر شرعی" کیسے ہوگیا؟ کسی جائز یا ناجائز کاموں کے لیے بطور رشوت دیے جانے والے لفافے پر اظہار نفریں تو سمجھ میں آتی ہے لیکن شادی کی خوشی میں دیے گئے اس ہدیہ والے لفافہ پر اظہار نفرت کا کیا جواز ہے؟ کیا شادی کے موقع پر ہدیہ دینا حرام ہے؟
"دینے" اور "لینے" کے "فرق" کو سمجھیے
- بھیک مانگنا یا بھیک لینا معیوب بات ہے۔ لیکن بھیک دینا افضل بات ہے
- قرض لینا معیوب بات ہے۔ لیکن قرض دینا ایک مستحسن بات ہے۔
- دیے گئے قرض پر اضافی رقم (جسے سود کہتے ہیں) مانگنا حرام ہے۔ لیکن قرض واپس کرتے ہوئے لی گئی قرض سے اپنی خوشی سے زائد رقم دینا مستحسن ہے، اس کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔
- لڑکے کا سسرال والوں سے مال و دولت مانگنا عیب ہے (حرام نہیں) لیکن لڑکی والوں کا اپنی خوشی سے لڑکے والوں کو تحفہ تحائف دینا نہ عیب ہے اور نہ حرام۔ بلکہ ایسے اور دیگر تمام اقسام کے ہدیہ کو لینے سے انکار کرنا، اسے حقارت سے دیکھنا منع ہے
- مہمانوں کا کسی کے گھر تحائف لے کر آنا اچھی بات ہے جبکہ میزبان کا مہمانوں کی طرف سے تحائف لانے کی توقع رکھنا، اشاروں کنایوں یا کھلے الفاظ میں تحائف لانے کی بات کرنا معیوب بات ہے۔
- میزبان کی طرف سے گھر آئے مہمانوں کی ضیافت کرنا، کھانا کھلانا مستحسن بات ہے۔ لیکن بن بلائے یا بغیر کھانے کی دعوت کے، آئے ہوئے مہمانوں کو یہ توقع رکھنا اور اشاروں کنایوں میں یا صاف الفاظ میں کھانا مانگنا معیوب بات ہے۔
اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کون سی بات، کس سے کہی جارہی ہے۔