- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/9367/214/
@انس @خضر حیات
شرعا اور قانونا بہو پر ساس کی خدمت لازمی نہیں ہے، لیکن اخلاقی طور پر اگر وہ اپنی ساس کی خدمت کرے تو اس کے لیے بہتر اور باعث اجر ہو گا۔ اگر میاں بیوی ایک دوسرے کے والدین کا ادب واحترام کریں تو دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کا عزت واحترام بڑھتا ہے۔ زندگی کو جنت بنانے کا بہترین طریقہ ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو اپنے والدین کی طرح سمجھیں، کوئی فرق نہ کریں تو ہزاروں مسائل جو آجکل کافی گھروں میں چل رہے ہیں حل ہو سکتے ہیں۔ گھروں میں لڑائی جھگڑوں کی زیادہ وجوہات جو ہماری پاس آتی ہیں، وہ یہی ہیں کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے والدین کو اپنے والدین کی طرح نہیں سمجھتے ہیں، جس کی بنا پر ایک دوسرے میں نفرتیں جنم لیتی ہیں اور یہ معاملات بڑھتے بڑھتے بعض اوقات میاں بیوی میں علیحدگی کا سبب بن جاتے ہیں۔ اس لیے ہمارا مشورہ یہی ہے کہ ایک دوسرے کے والدین کی خدمت کو اپنا اخلاقی فرض سمجھیں، پھر دیکھیں زندگی کتنی خوشگوار گزرتی ہے۔
- مرد پر سب سے زیادہ حق اس کی ماں کا ہے۔ حتی کہ کہا گیا ہے کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔
- عورت پر سب سے زیادہ حق اس کےشوہر کا ہے۔ (بہت سی احادیث کی رو سے)
- ہر شوہر کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی بیوی، اس کے ضعیف ماں باپ کی خدمت کرے۔ اگر اس کی بیوی از خود اپنے ساس سسر کی خدمت نہ کرے تو شوہر ایسا کرنے کو لازماً کہتا ہے اور عدم تعمیل پر بیوی سے ناراض ہوتا ہے حتیٰ کہ لڑائی جھگڑا بھی ہوتا ہے۔
- کیا شوہر بیوی کو یہ حکم نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے ماں باپ کی خدمت کرے ؟ شوہر صرف کار گناہ کا حکم نہیں دے سکتا۔ کیا یہ حکم کار گناہ میں آتا ہے؟
- اگر شوہر ایسا حکم دے تو کیا بیوی اس حکم کا انکار کرسکتی ہے؟ کیونکہ بیوی صرف کار گناہ سے انکار کرسکتی ہے؟
- شوہر کے حکم پر (اور ہر شوہر ایسا چاہتا ہے) ساس کی خدمت کرنا کیا بیوی پر فرض نہیں ہوجاتا؟؟؟
@انس @خضر حیات