• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ساس اور بہو

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کیا اس پر اپنی ساس کی اطاعت لازم ہے ؟

میری ساس اورسسر ہماری خاص زندگی میں دخل اندازی کرتے رہتے ہیں ، اورخاص کرساس اورنندیں ( خاوند کی بہنیں ) توبہت زيادہ دخل اندازی کرتی ہیں ، میرا خاوند بہت ہی اچھا ہے لیکن اس کی شخصیت میں مطلقا ٹھراؤ اوراستقلال نہيں ۔
میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ ساس اورنندوں کے حقوق کے متعلق بتائيں کہ مجھ پر ان کیا حقوق ہیں ؟
میری ساس کا کہنا ہے کہ اب اس کے اوربھی زيادہ حقوق ہیں ، اورمیرے میکے والوں کے مجھ پرکوئي حقوق نہیں رہے ، اورمجھ یہ بھی لازم ہے کہ میں نے جہاں بھی جانا ہویا پھر کوئي بھی کام کرنا ہو ساس کی موافقت اوراجازت ضروری ہے ، مجھے یہ توعلم ہے کہ میں اپنے خاوند سے ہر کام کی اجازت لوں اورمیں یہ کرتی بھی ہوں ۔
لیکن میرے خیال میں میری ساس کا صرف اتنا حق ہے کہ میں اسے ضرور بتاؤں کہ اپنے گھر کے معاملات کوکس طرح چلارہی ہوں ، میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس کی وضاحت فرمائيں ۔



الحمدللہ :

آپ کی ساس اورنندوں کا آپ یہ حق ہے کہ آپ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں ، ان سے صلہ رحمی اوران کے ساتھ احسان کرنے حتی الوسع کوشش کریں ۔

اورآپ کی ساس کا جویہ ذھن اورخیال ہے کہ آپ ہر معاملہ میں اس کی موافقت اوراجازت لیں تو یہ صحیح نہیں ، اورنہ ہی علماء کرام نے اسے بیوی کے ذمہ خاوند کے حقوق میں ذکر کیا ہے ، بلکہ آپ پر واجب یہ ہے کہ آپ اپنے خاوند کی اطاعت کریں اوراس سے اجازت طلب کریں اوراس کی بھی اطاعت اس وقت تک ہے جب تک وہ برائي اورمعصیت کا حکم نہ دے ، اگر وہ معصیت کا حکم دیتا ہے تو اس میں اس کی اطاعت نہیں ہوگی ۔

لیکن یہاں یہ بات نہ بھولیں کہ آپ کواپنی ساس کے تجربات اوراس کے مفید پندونصائح سے فائدہ اٹھانے میں کوئي ممانعت نہيں اور نہ ہی کوئي حرج ہے ، اوراسی طرح اس میں کوئي ممانعت نہیں کہ اگراپنی ساس کی تھوڑی بہت تنگی کوبراداشت کریں تا کہ اس میں آپ کے خاوند کی عزت ہوسکے ، توایسا کرنا آپ کے لیے اجروثواب کا باعث بنے اوراس پر انشاء اللہ اجرملے گا ۔

اورآپ کی ساس کا یہ کہنا کہ اب آپ کے میکے والوں کا آپ پر کسی قسم کا کوئي حق نہیں رہا اس کی یہ بات بھی صحیح نہیں ، بلکہ ان کا حق صلہ رحمی اوراحسان اوران سے نیکی کرنا ابھی تک قائم ہے ، اور اسی طرح وقتا فوقتا انہیں ملنے جانا یہ بھی ان کا حق قائم ہے اورخاص کر والدین کے ساتھ ملنا اوراحسان و نیکی و صلہ رحمی کرنا ، ان کا حق توآپ کے خاوند کے حق کے ساتھ ہی ملتا ہے ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ آپ کے دلوں میں الفت و محبت پیدا فرمائے اور آپ کورشدو ھدایت نصیب کرے ۔

واللہ اعلم .

شیخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.info/ur/13924
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم و رحمت الله -

جب معاملہ ساس بہو کے تعلقات کا ہوتا ہے تو ہمیں یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ یہ ساس بہو کا رشتہ خونی رشتہ نہیں ہے - یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی بہو اپنی ساس کی خدمت اور اس کے حکم کی بجا آ وری اس طرح نہیں کر پاتی جیسے وہ اپنے والدین کی کرتی ہے - اور یہ ایک فطری امر ہے - قطع نظر اس سے کہ کسی لڑکی کے والدین بچپن میں فوت ہو گئے ہوں اور وہ اپنی کسی خالہ یا پھوپی وغیرہ کے ہاں بیاہی گئی ہو جن سے اس لڑکی کو اپنے والدین جیسی محبت ہو -

یہاں شریعت کے نقطہ نظر سے زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بہو کو اپنی ساس کی خدمت ایک بزرگ کی حثیت سے کرنا ضروری ہے - ظاہر ہے کہ ساس عمر میں بڑی ہے اور عموما ضعیف بھی ہوتی ہیں -اس لئے انسانیت کے تقاضے کے تحت ایک لڑکی پر جو کہ بہو کی حثیت سے اپنے شوہر کے گھر میں زندگی گزار رہی ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنی ساس کا ادب و احترام کرے اور ان کی خدمت اور آسائش اور ضروریات کا خیال یہ سوچ کر رکھے کہ یہ میرے شوہر کی خوشی کا با عث ہے -چاہے شوہر خود سے یہ حکم دے یا نہ دے کہ میری والدہ کا خیال کرو یا خدمت کرو وغیرہ - اور یہی بات شوہر پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ساس یعنی لڑکی کی ماں کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کی خدمت و خیال رکھے -جب دونوں اطراف سے حسن سلوک ہو گا تو ایسی صورت میں لڑائی جھگڑے کا امکان کم سے کم ہو گا - اور گھرانوں میں محبت بڑھے گی- (واللہ ا علم )
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
اصل میں اس قسم کے فتوں کو (نام نہاد) ” تحریک ترقی نسواں“ کی خواتین اپنے ”حق“ میں استعمال کرنے لگی ہیں کہ دیکھا ساس سسر کی خدمت تو ہم بہوؤں پر فرض ہے ہی نہیں۔ لہٰذا ہم ان کے لئے ان کے گھر کا کام کیوں کریں۔ صبح شوہر کو ناشتہ کرا کر گھر سے جاب پر بھیجنے کے بعد سے لے کر رات کو شوہر کے واپس آنے تک ہمیں کوئی کام کاج کا نہ کہے۔ اگر ساس سسر ”بہت شریف قسم“ کے ہوئے تو ایسی بہو کو خامشی سے برداشت کرتے رہتے ہیں اور جب بات ناقابل برداشت ہوجائے تو بیٹا بہو کو گھر سے نکال باہر کرتے ہیں۔ دوسری صورت میں ساس سسر روز اول سے بہو کو گھر کے معمول کے کام کرنے کو کہتے ہیں۔ عدم تعمیل پر بیٹے کو شکایت لگاتے ہیں۔ بیٹا وضاحت طلب کرے تو بیوی اپنے اوپر ظلم (جو کام فرض نہ ہو، وہ کام کسی سے کروانا ”ظلم“ ہی تو ہے) کی داستان سنانے لگتی ہے۔ بیٹا دو عورتوں کےبیچ پس کر رہ جاتا ہے۔ چونکہ وہ خود اس سارے معاملے کا عینی شاہد نہیں ہوتا، کہ کسی ایک کو ”غلط“ ٹھہرا سکے۔، ایسے میں تنازع سے بچنے کا اسے ایک ہی راستہ نظر آتا ہے یا بیوی دکھلاتی ہے کہ بوڑھے ماں باپ کو چھوڑ کر الگ ہوجائے۔

اس ناقص کی ناقص رائے کے مطابق صدیوں سے یہ رواج چلا آرہا ہے کہ آنے والی بہو، اپنے سسرال میں ساس سسر کا ہاتھ بٹاتی ہے، ان کی خدمت کرتی ہے، ان کے کہے کے مطابق کام کاج کرتی ہے کہ وہ دن بھر اپنا بیشتر وقت انہی کے ساتھ گزارتی ہے۔ شوہر تو صبح کا گیا شام کو آتا ہے۔ چونکہ قرآن و حدیث میں ایسی کوئی واضح نص موجود نہیں ہے جس میں کہا گیا ہو کہ بہو کے لئے ساس سسر کی خدمت کا یہ صدیوں پرانا کلچر شرعاً فرض نہیں ہے (اگر ہو تو اس کی نشاندہی کی جائے) ،لہٰذا ایسا کوئی فتویٰ دینا غیر ضروری، نا مناسب بلکہ اکثر اوقات فساد کا باعث بنتا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب
ایک ہوتا ہے فتوی اور ایک ہوتا ہے تقوی۔۔۔۔فتوی ہمیں یہی بتاتا ہے کہ یہ عورت پر فرض نہیں۔۔۔دیکھیے! جوئنٹ فیملی سیٹ اپ میں رہتے ہوئے گھر کی مشترکہ ذمہ داریوں میں ہاتھ بٹانا بالکل اور بات ہے اور ساس سسر کی خدمت ایک الگ بحث۔۔۔۔اگر ایک عورت مشترکہ نظام میں رہتی ہے تو وہ اگر ہانڈی پکاتی ہے یاگھر کی صفائی ستھرائی کرتی ہے تو یہ ساس سسر کی خدمت کے ذیل میں تو نہیں آئے گا اسی کھانے سے اس کے شوہر اور بچے کھائیں گے اگر وہ صفائی ستھرائی کرتی ہے تو اسی گھر کو اس کے بچے اور خاوند بھی استعمال کرتے ہیں تو یہ تو دراصل اسکی دمہ داری ہوئی ناں نہ کہ ساس سسر کی خدمت ۔۔۔اگر وہ یہ سب کچھ اپنے ساس سسر کے گھر میں رہتے ہوئے نہیں کرتی تو مجھے یقین ہے کہ الگ گھر میں بھی نہیں کرے گی۔۔۔۔ساس سسر کی خدمت سے مجھے جو سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ ان کے ذاتی کام کیے جائیں۔۔۔اپنے شوہر اور خاوند کےکھانے کے علادہ ان کے لیے پرہیزی کھانے پکائے جائیں ۔۔۔ان کے کپڑے دھوئے جائیں۔۔۔ان کے ہاتھ پاؤں دابے جائیں۔۔تیل کی مالش کی جائے ۔۔۔
میں بہت سے شوہروں کو جانتی ہوں کہ وہ اس قسم کی خدمت کا تقاضا اپنی بیویوں سے نہیں کرتےبلکہ ساس سسر بھی ایسا نہیں چاہتے تو اس صورت میں بیوی اگر ایسی خدمت نہیں کرتی تو وہ گناہ گار نہیں ہے
شوہر کے والدین کی خدمت کی دمہ داری اس کا براہِ راست فرض نہیں بلکہ شوہر کی اطاعت کے تابع ہے۔۔۔۔شوہر جس طرح اور جس قسم کی خدمت کروانا چاہتا ہے بیوی کا فرض ہے کہ اس کی مطیع ہو
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
ایک ہوتا ہے فتوی اور ایک ہوتا ہے تقوی۔۔۔۔فتوی ہمیں یہی بتاتا ہے کہ یہ عورت پر فرض نہیں۔۔۔
ایک فتویٰ یہ بھی ہے:
اس ليے عورت كو چاہيے كہ وہ خاوند كى بھى خدمت كرے اور گھر كے كام كاج بھى، اور اگر گھر ميں ساس يا پھر نند يا خاوند كى بيٹياں ہوں اور علاقے ميں ان كى خدمت كرنا عرف ميں شامل ہو تو ان كى خدمت كرنا مشروع ہے.
فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ. ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 3 / 1608 ).

http://islamqa.info/ur/130314
ساس سسر کی خدمت سے مجھے جو سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ ان کے ذاتی کام کیے جائیں۔۔۔اپنے شوہر اور خاوند کےکھانے کے علادہ ان کے لیے پرہیزی کھانے پکائے جائیں ۔۔۔ان کے کپڑے دھوئے جائیں۔۔۔ان کے ہاتھ پاؤں دابے جائیں۔۔تیل کی مالش کی جائے ۔۔۔
شوہر کے والدین کی خدمت کی دمہ داری اس کا براہِ راست فرض نہیں بلکہ شوہر کی اطاعت کے تابع ہے۔۔۔۔شوہر جس طرح اور جس قسم کی خدمت کروانا چاہتا ہے بیوی کا فرض ہے کہ اس کی مطیع ہو
جزاک اللہ خیرا

میں بہت سے شوہروں کو جانتی ہوں کہ وہ اس قسم کی خدمت کا تقاضا اپنی بیویوں سے نہیں کرتےبلکہ ساس سسر بھی ایسا نہیں چاہتے تو اس صورت میں بیوی اگر ایسی خدمت نہیں کرتی تو وہ گناہ گار نہیں ہے
متفق
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
اس مسئلہ کو ایک دوسرے رخ سے دیکھیں۔۔۔شوہر اگر یہ سمجھے کہ میرے والدین کی خدمت براہِ راست میری بیوی کا فرض ہے ۔۔۔۔جس طرح وہ بچے پالتی ہے انھیں پروان چڑھاتی ہے گھریلو ذمہ داریاں ادا کرتی ہے ایسے ہی میرے والدین کی خدمت اس کے لیے لازم ہے ۔۔۔پھر کبھی وہ بیوی کا احسان مند نہیں ہو گا جو دراصل اس کی “نیابت“ کر رہی وتی ہے ۔۔۔لیکن اگر وہ اسے براہِ راست اپنی ذمہ واری خیال کرے اور بیوی کی خدمت کو اس کی اطاعت گردانے تو لازما وہ بیوی کا شکر گزار ہو کر اسے ایسے حالات فراہم کرے گا کہ وہ بھی شریعت کی طرف سے عائد کردہ اپنے والدین کے حقوق ادا کر سکے
باقی اگر اسلام کے عمومی مزاج کو دیکھا جائے تو جو دین پڑوسیوں کے حقوق اس قدر بیان کرتا ہے کہ حدیث کا مفہوم ہے آپﷺ نے فرمایا کہ جبرئیل نے مجھ سے ہمسائیوں کے اتنے حقوق بیان کیے کہ مجھے ڈر پیدا ہوا کہ کہیں انھیں وراثت میں حصہ دار نہ بنا دیں۔۔۔(او کما قال رسول اللہ ﷺ)مہمان نوازی کی ایمان باللہ اور ایمان بالاخرت کے ساتھ مشروط کرتا ہےعلاموں اور لونڈیوں کے حقوق آپﷺ نے اتنے اہم جانے کہ مرض الموت میں ان کے بارے میں وصیت کرتے رہے۔۔۔۔وہ دین خاوند کے والدین جنہوں نے کماؤ پوت پال پوس کے بیوی کے حوالے کیا ہوتا ہے ان سے اعراض کیسے پسندیدہ گردان سکتا ہے۔۔۔۔
میرا خیال ہے اس قسم کی بحثیں اوپن فورم پر کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔۔اس کا فائدہ ہونے کی بجائے نقصان کا اندیشہ ہے
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
جوائنٹ فیملی سسٹم (جاوید چوہدری)
اشوک اعظم دنیا کا پہلا شخص تھا جس نے پورے ہندوستان پر حکومت کی‘ اشوک کی سلطنت کابل‘ قندھار اور ہرات سے لے کر کشمیر اور نیپال‘ بنگال اور جنوب میں دریائے پینار تک پھیلی ہوئی تھی‘ سری نگر شہر اس نے آباد کیا تھا‘ یہ پورے ہندوستان میں امن قائم کرنے والا آخری فرمانروا بھی تھا‘ اشوک نے ہندوستان میں قتل‘ فسادات‘ چوریاں اور ڈاکے ختم کرا دیے۔

ہندوستان کو اضلاع میں تقسیم کیا‘ ہر ضلع میں ناظم تعینات کیے اور یہ ناظم ضلع میں امن و امان اور عدل و انصاف کے ذمے دار ہوتے تھے‘ اشوک نے قوانین تیار کرائے‘ یہ قوانین پتھروں اور لوہے کی پلیٹوں پر کھدوائے اور یہ ملک بھر میں لگوا دیے‘ یہ فرمودات ہندوستان کی پہلی تعزیرات تھے‘ اشوکا عہد کے یہ پتھر آج بھی سوات ویلی اور گلگت کے پہاڑوں میں نصب ہیں‘ سوال یہ ہے اشوک نے یہ مقام کیسے حاصل کیا؟ یہ ایک دلچسپ داستان ہے‘ اشوک پٹنہ کا رہنے والا تھا‘ والد بندوسار چندر گپت موریہ سلطنت کا بادشاہ تھا‘ اشوک کے 64 بھائی تھے‘ یہ تمام بھائی سازشی‘ لالچی اور حاسد تھے‘ اشوک باصلاحیت تھا‘ یہ دنیا فتح کرنا چاہتا تھا‘ اس میں صلاحیت بھی تھی لیکن بھائی اس ارادے میں رکاوٹ تھے۔

یہ جنگ کے لیے محاذ پر جاتا تھا تو کوئی نہ کوئی بھائی تخت پر قبضہ کر لیتا تھا‘ یہ تالاب میں نہانے کے لیے اترتا تھا تو بھائی تیر برسانا شروع کر دیتے تھے‘ یہ کھانا شروع کرتا تھا تو سالن سے زہر نکل آتا تھا‘ یہ سونے جاتا تھا تو کوئی نہ کوئی بھائی کمرے میں سانپ چھوڑ دیتا تھا اور یہ سیر کے لیے نکلتا تھا تو نقاب پوش حملہ کر دیتے تھے‘ اشوک تنگ آ گیا اور اس نے ایک دن سوچا میرے پاس صرف دو راستے ہیں‘ میں اپنے والد کی طرح گم نام زندگی گزار دوں یا پھر دنیا فتح کروں‘ اس نے دنیا فتح کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ اشوک نے اپنے 64 بھائی قتل کرا دیے‘ وہ اکیلا رہ گیا‘ اس نے اہل لوگوں کی ٹیم بنائی اور ہندوستان کی اپنی منظم حکومت کا بانی بن گیا۔

ہندوستان کا دوسرا بڑا حکمران جلال الدین اکبر تھا‘ اس نے ہندوستان پر 49 سال آٹھ ماہ حکومت کی‘ اس کی سلطنت کشمیر‘ سندھ‘ قندھار اور سینٹرل ایشیا تک پھیلی ہوئی تھی‘ یہ اتنی بڑی سلطنت کی وجہ سے اکبر اعظم کہلاتا تھا‘ اس کی کامیابی کی وجہ اس کا اکلوتا ہونا تھا‘ یہ ہمایوں کا واحد بیٹا تھا‘ کسی نے اس کے تخت پر حق جتانے کی کوشش نہیں کی‘ اکبر نے نو اہل ترین لوگوں کی ٹیم بنائی اور عظیم مغل سلطنت کی بنیاد رکھ دی‘ تیسرا بڑا حکمران اورنگ زیب عالمگیر تھا‘ یہ بھی پورے ہندوستان پر قابض ہوا۔

یہ ہندوستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ مدت کے لیے بادشاہ رہا‘ اس نے پچاس سال تین ماہ حکومت کی‘ یہ شاہ جہاں کا باصلاحیت ترین شہزادہ تھا‘ یہ بھی خواب پالتا تھا‘ یہ بھی پورے ہندوستان کا بادشاہ بننا چاہتا تھا لیکن اس کے بھائی اور والد اس کے راستے کی رکاوٹ تھے‘ والد داراشکوہ کو تخت دینا چاہتا تھا‘ وہ اہل نہیں تھا‘ داراشکوہ اور والد شاہ جہاں نے اورنگزیب کے خلاف سازشیں شروع کر دیں‘ اورنگزیب نے بھی ایک دن سوچا میرے پاس دو آپشن ہیں‘ میں بے نام مغل شہزادے کی حیثیت سے انتقال کر جاؤں یا پھر میں شہزادہ محی الدین سے اورنگزیب عالمگیر بن جاؤں‘ اورنگزیب نے بھی اشوک کی طرح دوسرا آپشن چن لیا‘ اورنگزیب نے والد کو آگرہ کے قلعے میں بند کر دیا‘ اپنے بھائی داراشکوہ اور شجاع دونوں سے جنگ کی اور دونوں کو مروا دیا‘ بھائیوں کے بعد بھتیجوں اور بھانجوں کی باری آئی‘ اس نے انھیں قلعے میں بند کر دیا‘ یہ وہاں بھنگ پی پی کر مر گئے۔

اورنگزیب نے اس کے بعد ہندوستان فتح کرنا شروع کیا‘ یہاں تک کہ تاریخ اسے عالمگیر کا نام دینے پر مجبور ہو گئی‘ انگریز چوتھی طاقت تھی جس نے پورے ہندوستان پر حکومت کی‘ انگریزوں کی کامیابی کی پانچ بڑی وجوہات میں سے ایک وجہ ان کے ’’خاندانی اصول‘‘ تھے‘ ملکہ نے قانون بنایا تھا ہندوستان آنے والا کوئی برطانوی سرکاری ملازم اپنے خاندان کے کسی فرد کو یہاں ’’سیٹل‘‘ نہیں کروا سکتا تھا‘ انگریز ڈی سی مقامی لوگوں کو سو مربع زمین الاٹ کر سکتا تھا مگر یہ اپنے اور اپنے خاندان کو ایک مرلہ زمین نہیں دے سکتا تھا‘ برطانیہ کے ہر سرکاری ملازم پر لازم تھا وہ مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد برطانیہ واپس جائے گا‘ وہ ہندوستان میں رہائش پذیر نہیں ہو سکے گا‘ انگریز اہلکار دوران ملازمت اپنے والد‘ بھائیوں‘ بہنوں اور بھتیجوں‘ بھانجوں کو چھ ماہ سے زیادہ یہاں نہیں رکھ سکتے تھے چنانچہ یہ انگریز عزت کے ساتھ پورے ہندوستان پر حکومت کر کے 1947ء میں واپس چلے گئے۔

ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے اس خطے کا سب سے بڑا مسئلہ جوائنٹ فیملی سسٹم ہے‘ یہ ہماری ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘ آپ لیڈر شپ سے لے کر بزنس مین‘ صنعت کار‘ سرکاری ملازموں‘ کھلاڑیوں اور خوشحال لوگوں تک ملک کے مختلف کامیاب لوگوں کے پروفائل نکال لیجیے‘ آپ کو ننانوے فیصد لوگ اپنے خونی رشتے داروں کے ہاتھوں تباہ ہوتے نظر آئیں گے‘ لیڈروں کی لیڈر شپ کو ان کے بھائی کھا جاتے ہیں‘ بہنوئی تباہ کر دیتے ہیں‘ سالے اڑا دیتے ہیں یا پھر بھانجے‘ بھتیجے اور کزن برباد کر دیتے ہیں‘ پاکستان میں ایوب خان کے دور میں 22 بڑے صنعتی اور کاروباری گروپ تھے۔

آج 40 سال بعد ان میں سے کوئی گروپ باقی نہیں‘ کیوں؟ کیونکہ یہ تمام صنعتی گروپ بھائیوں‘ بہنوئیوں‘ سالوں‘ بھانجوں اور بھتیجوں کی جنگ میں تباہ ہو گئے‘ آپ اپنے اردگرد نظریں دوڑائیں‘ آپ نے سیکڑوں ہزاروں لوگوں کو ترقی کرتے دیکھا ہو گا‘ آپ نے پھر ان لوگوں کو تباہ ہوتے بھی دیکھا ہو گا‘ آپ نے ان کی دکانیں‘ گودام‘ کارخانے اور فارم ہاؤس بکتے بھی دیکھے ہوں گے‘ یہ لوگ یقینا خونی رشتے داروں کے ہاتھوں تباہ ہوئے ہوں گے‘ انھوں نے نکمے رشتے داروں کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے کرسی پر بٹھا دیا ہو گا یا کروڑوں کا کاروبار اپنے نکھٹو‘ سست اور بے وقوف بچوں کے حوالے کر دیا ہو گا اور یوں وہ ڈیوڑھی جس میں ہاتھی جھومتے تھے وہاں خاک اڑنے لگی‘ آپ بیوروکریٹس کو بھی دیکھ لیجیے‘ یہ بے چارے دیہاتی علاقوں میں ٹاٹوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں‘ سی ایس ایس کرتے ہیں‘ اعلیٰ عہدوں پر پہنچتے ہیں اور پھر باقی زندگی بھائی‘ بھانجوں اور بھتیجوں کی ضمانتیں کرواتے رہتے ہیں۔

یہ خاندان کو ’’سیٹل‘‘ کرواتے کرواتے خود جیل پہنچ جاتے ہیں یا پھر کرپشن کی دلدل میں دفن ہو جاتے ہیں اور ہمارے کھلاڑیوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے‘ یہ بے چارے ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر ’’پچ‘‘ پر پہنچتے ہیں مگر پیچھے سے بھائی صاحب ’’بکی‘‘ سے آؤٹ ہونے کے کروڑ روپے پکڑ لیتے ہیں‘ ہمارا دوسرا المیہ سماجی بوجھ ہے‘ ہم میں سے کوئی ایک شخص ایڑھیاں رگڑ کر خوش حالی کے دروازہ تک پہنچتا ہے اور اس کے بعد پورا خاندان اپنی خواہشوں کی گٹھڑیاں اس کے سر پر رکھ دیتا ہے‘ نانی بیمار ہو یا پھوپھی کا دیور۔ علاج بہر حال بھائی صاحب ہی کروائیں گے‘ حالانکہ بچہ پاس ہو جائے تو ذمے داری یہ اٹھائے گا‘ فیل ہو جائے تو بھی ذمے دار یہ ہو گا‘ کوئی باہر جا رہا ہے تو سیٹ بک کروانے کی ذمے داری یہ اٹھائے گا۔

کوئی آ رہا ہے تو اسے ائیر پورٹ سے پک یہ کرے گا‘ یہ بے چارہ یہ ذمے داریاں نبھا بھی لیتا ہے‘ اللہ تعالیٰ ترقی کرنے والے ہر شخص کو بڑا دل اور بڑا حوصلہ دیتا ہے لیکن یہ بیچارہ طعنوں کا بوجھ برداشت نہیں کر پاتا‘ دنیا میں پیچھے رہ جانے والے لوگ ’’شکایتی مراکز‘‘ ہوتے ہیں‘ ان کی زبانوں پر سیکڑوں ہزاروں شکایتیں چپکی ہوتی ہیں‘ یہ شکایتی مرکز جب اس شخص کو شکایات کے تیروں سے چھلنی کرتے ہیں تو اس کا حوصلہ جواب دے جاتا ہے اور یہ وہ وجہ ہے جس کی بدولت ہمارے ملک میں کامیاب لوگوں کی اوسطاً عمر 55 سال ہوتی ہے‘ یہ دنیا سے اس وقت رخصت ہو جاتے ہیں جب دنیا کے کامیاب لوگ خود کو جوان سمجھنا شروع کرتے ہیں۔

آپ دنیا کے کامیاب لوگوں کی فہرست بنائیں‘ آپ بل گیٹس کو دیکھئے‘ وارن بفٹ اور کارلوس سلم کی مثال لیجیے‘ آپ صدر باراک حسین اوباما کو دیکھئے‘ آپ کبھی ان لوگوں کے خاندان کو ان کے قریب نہیں دیکھیں گے‘ آپ کو کبھی برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور جرمن چانسلر اینجلا مرکل کے ابا جی‘ بھائی‘ بہن‘ بہنوئی اور سالے کی زیارت نہیں ہو گی‘ آپ ان کے بھانجوں اور بھتیجوں کے نام سے واقف نہیں ہوں گے‘ آپ کبھی اوبامہ کو اپنے بھتیجوں‘ بھانجوں سے ملاقات کرتے نہیں دیکھیں گے‘ خاندان سے یہ دوری ان کی کامیابی کی بڑی وجہ ہوتی ہے‘ کامیاب لوگوں کی کامیابی کی چھ بڑی وجوہات ہوتی ہیں اور ان وجوہات میں سے ایک وجہ اچھی اور اہل ٹیم ہوتی ہے‘ جوائنٹ فیملی سسٹم میں پھنسے ہوئے لوگ ٹیم کی بجائے خاندان کو کھپانے میں مصروف ہو جاتے ہیں‘ سیل ڈیپارٹمنٹ بڑے بھائی دیکھیں گے‘ پرچیزنگ چھوٹے بھائی کا کام ہو گا‘ اکاؤنٹس بہنوئی کے پاس ہونگے۔

مارکیٹنگ سالہ صاحب کریں گے اور کمپنی کا وکیل خالہ کا بیٹا ہو گا اور رہ گئے کارخانے کے ورکر تو یہ بھی برادری‘ قبیلے اور گاؤں سے لیے جائیں گے اور جائیداد! جی ہاں یہ اباجی یا امی جی تقسیم کریں گی اور یوں خاندان اور قبیلے کے لوگوں کو ’’سیٹل‘‘ کرنے کی کوشش میں کاروبار کا بیڑہ غرق ہو جائے گا جب کہ ہمارے مقابلے میں بل گیٹس‘ وارن بفٹ‘ کارلوس سلم‘ صدر اوبامہ اور اینجلا مرکل ملک سے اہل ترین لوگ جمع کریں گے‘ یہ لوگ کام کریں گے تو یہ ان کے گلے میں ہار ڈالیں گے‘ یہ کام نہیں کریں گے تو یہ انھیں سلام کر کے فارغ کر دیں گے اور ان کی جگہ نئے لوگ آ جائیں گے یوں کمپنی اور پارٹی کامیاب ہو جائے گی۔

ہماری سیاست کا بھی یہی المیہ ہے ذوالفقار علی بھٹو اپنی صاحبزادی کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے‘ بھٹو صاحب کی اس خواہش نے پورا خاندان تباہ کر دیا‘ آصف علی زرداری نے 19 سال کے بچے کو پارٹی کا چیئرمین بنا دیا‘ رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی اور اب میاں نواز شریف بھی ملک کے ہیوی مینڈیٹ کو خاندان تک رکھنا چاہتے ہیں چنانچہ ان کا حشر بھی وہی ہو گا جو دس ہزار سال کی تاریخ میں اس خطے کے کامیاب لوگوں کا ہو رہا ہے‘ یہ بھی خاندان کو بناتے بناتے خود بکھر جائیں گے‘ یہ کمبل کا بندوبست کرتے رہ جائیں گے اور خاندان دری کھینچ لے گا اور ہیوی مینڈیٹ ماضی کا قصہ بن جائے گا۔

نوٹ: اس کالم کو پڑھتے ہوئے اس کے مرکزی نکتہ ”جوائنٹ فیلمی سسٹم کے نقصانات“ کو نگاہ میں رکھئے۔ اور جزیات میں نہ جائیے کہ فلاں فلاں نے رشتہ داروں کا قتل عام کر کے ”کامیابی“ حاصل کی۔ کالم نگار ان کامیاب لوگوں کے ان منفی کاموں کی ’حمایت‘ نہیں کر رہا بلکہ یہ بتلا رہا ہے کہ جوائنٹ فیملی سسٹم کس طرح اہل اور ٹیلینٹیڈ لوگوں کی ترقی کی راہ میں ”رکاوٹ“ بنتا ہے۔ اسلام بھی ”مروجہ جوائنٹ خاندانی نظام“ کا قائل نہیں ہے اسی لئے ایک فرد کے مرتے ہی اس کی جائیداد وارثوں میں فوراً تقسیم کرنے کی ہدایت کرتا ہے جو مروجہ مشترکہ خاندانی نظام میں ممکن نہیں۔ کراچی میں میمن تاجر برادری بڑی خوشحال ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کسی نوجوان کی جیسے ہی شادی ہوتی ہے، اس کا والد اسے علیحدہ رہائش اور علیحدہ کاروبار کرادیتا ہے۔ نہ اسے اپنے اپنے کاروبار میں ”شریک“ رکھتا ہے، نہ رہائش میں۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ نوجوان ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔ کھیتوں میں بھی جب بیجوں سے پودے نکل آتے ہیں تو عقلمند کسان سارے ننھے ننھے پودوں کو الگ الگ کیاریوں میں ایک دوسرے سے دور دور ”بو“ دیتے ہیں۔ اس طرح ہر پودے کو پھلنے پھولنے کے مساوی مواقع ملتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
 
Top