یزید پر لعنت بھیجنے کا مسئلہ:
رہا سوال یزید پر لعنت کرنے کا تو واقعہ یہ ہے کہ یزید بھی بہت سے دوسرے بادشاہوں اور خلفاء جیسا ہی ہے بلکہ کئی حکمرانوں سے وہ اچھا تھا۔
وہ عراق کے امیر "مختار بن ابی عبید الثقفی" سے کہیں اچھا تھا۔ جس نے حضرت حسین کی حمایت کا علم بلند کیا۔ ان کے قاتلوں سے انتقام لیا مگر ساتھ ساتھ یہ دعویٰ کیا کہ جبرائیل اس کے پاس آتے ہیں، اسی طرح یزید حجاج بن یوسف سے اچھا تھا جو بلانزاع یزید سے کہیں زیادہ ظالم تھا۔ یزید اور اس جیسے دوسرے سلاطین و خلفاء کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ فاسق تھے۔
لعنت کے بارے میں مسئلہ شرعیہ:
لیکن فاسق کو معین کرکے لعنت کرنا سنت نبوی ﷺ میں موجود نہیں البتہ عام لعنت وارد ہے۔ مثلاً نبی ﷺ نے فرمایا:
" لَعَنَ اللَّهُ السَّارِقَ يَسْرِقُ الْبَيْضَةَ فَتُقْطَعُ يَدُهُ " (صحیح البخاری، الحدود، باب لعن السارق إذا لم یسم، ح:۶۷۸۳ وصحیح مسلم، الحدود، باب حد السرقۃ ونصابہا، ح:۱۶۸۷)
"چور پر اللہ کی لعنت کہ ایک انڈے پر اپنا ہاتھ کٹوا دیتا ہے۔"
فرمایا:
" فَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ " (صحیح البخاری، الجزیۃ والموادعۃ ، باب إثم من عاھد ثم غدر، ح:۳۱۷۹)
"جو بدعت نکالے یا بدعتی کو پناہ دے اس پر اللہ کی لعنت۔"
یامثلاً صحیح بخاری میں ہے کہ ایک شخص شراب پیتا تھا اور باربار نبی ﷺ کے پاس پکڑا آتا تھا یہاں تک کہ کئی پھیرے ہوچکے تو ایک شخص نے کہا:
" اللَّهُمَّ الْعَنْهُ مَا أَكْثَرَ مَا يُؤْتَى بِهِ "
"اس پر اللہ کی لعنت کہ باربار پکڑ کر دربار رسالت میں پیش کیا جاتا ہے۔"
آنحضرت ﷺ نے سنا تو فرمایا:
" لَا تَلْعَنُوهُ فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ إِنَّهُ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ" (صحیح البخاری، الحدود، باب ما یکرہ من لعن شارب الخمر۔۔۔، ح: ۶۷۸۰)
اس پر لعنت نہ کرو۔اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت کرتا ہے
حالانکہ آپﷺ نے عام طور پر شرابیوں پر لعنت بھیجی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ عام طور پر کسی خاص گروہ پر لعنت بھیجنا جائز ہے
مگر اللہ اور رسول ﷺ سے محبت رکھنے والے کسی معین شخص پر لعنت کرنا جائز نہیں اور معلوم ہے کہ ہر مومن اللہ اور رسول سے ضرور محبت رکھتا ہے۔
یزید پر لعنت سے پہلے دو چیزوں کا اثبات ضروری ہے:
صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ
جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا وہ بالآخر دوزخ سے نجات پائے گا۔
بنابریں جو لوگ یزید کی لعنت پر زور دیتے ہیں انہیں دو باتین ثابت کرنی چاہئیں۔
اول یہ کہ یزید ایسے فاسقوں اور ظالموں میں سے تھا جن پر لعنت کرنا مباح ہے۔ اور اپنی اس حالت پر موت تک رہا۔
دوسرے یہ کہ ایسے ظالموں اور فاسقوں میں سے کسی ایک کو معین کرکے لعنت کرنا روا ہے۔
رہی آیت
أَلاَ لَعْنَةُ اللّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ (ہود: ۱۸/۱۱) تو یہ عام ہے جیسا کہ باقی تمام آیات وعید عام ہیں۔ اور پھر ان آیتوں سے کیا ثابت ہوتا ہے یہی کہ یہ گناہ لعنت اور عذاب کا مستوجب ہے؟ لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوسرے اسباب آکر لعنت وعذاب کے اسباب کو دور کردیتے ہیں مثلاً
گناہ گار نے سچے دل سے توبہ کرلی یا اس سے ایسی حسنات بن آئیں جو سیئات کو مٹا دیتی ہیں۔ یا ایسے مصائب پیش آئے جو گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ بنابریں کون شخص دعویٰ کرسکتا ہے کہ یزید اور اس جیسے بادشاہوں نے توبہ نہیں کی، یا سیئات کو دور کرنے والی حسنات انجام نہیں دیں یا گناہوں کاکفارہ ادا نہیں کیا، یا یہ کہ اللہ کسی حال میں بھی انہیں نہیں بخشے گا۔ حالانکہ وہ خود فرماتا ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا (النساء: 116/۴)
اسے اللہ تعالیٰ قطعاً نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک مقرر کیا جائے، ہاں شرک کے علاوه گناه جس کے چاہے معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا
پھر صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"سب سے پہلے قسطنطنیہ پر جو فوج لڑے گی وہ مغفور ہے۔" (صحیح البخاری، الجہاد والسیر، باب ماقیل فی قتال الروم، ح:۲۹۲۴)
اور معلوم ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے جس فوج نے قسطنطنیہ پر لڑائی کی اس کا سپہ سالار یزید ہی تھا۔ کہا جاسکتا ہے کہ
یزید نے یہ حدیث سن کر ہی فوج کشی کی ہوگی، بہت ممکن ہے کہ یہ بھی صحیح ہو لیکن اس سے اس فعل پر کوئی نکتہ چینی نہیں کی جاسکتی۔
لعنت کا دروازہ کھولنے کے نتائج:
پھر ہم خوب جانتے ہیں کہ اکثر مسلمان کسی نہ کسی طرح کے ظلم سے ضرور آلودہ ہوتے ہیں اگر لعنت کا دروازہ اس طرح کھول دیا جائے تو مسلمانوں کے اکثر مردے لعنت کا شکار ہوجائیں گےحالانکہ اللہ تعالیٰ نے مردہ کے حق میں صلاۃ ودعا کا حکم دیا ہے نہ کہ لعنت کرنے کا ۔
نبی ﷺ نے فرمایا ہے:
" لَا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ فَإِنَّهُمْ قَدْ أَفْضَوْا إِلَى مَا قَدَّمُوا " (صحیح البخاری، الجنائز، باب ما ینہی من سب الأموات، ح:۱۳۹۳)
"مردوں کو گالی مت دو کیونکہ وہ اپنے کیے کو پہنچ گئے۔"
بلکہ جب لوگوں نے ابو جہل جیسے کفار کو گالیاں دینی شروع کیں تو انہیں منع کیا اور فرمایا:
" لَا تَسُبُّوا مَوْتَانَا فَتُؤْذُوا أَحْيَاءَنَا " (سنن النسائی، القسامۃ، القود من اللطمۃ، ح:۴۷۷۹)
"ہمارے مرے ہوؤں کو گالیاں مت دو کیونکہ اس سے ہمارے زندوں کو تکلیف ہوتی ہے۔"
یہ اس لیے کہ قدرتی طور پر ان کے مسلمان رشتہ دار برا مانتے تھے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ان کے بیٹے صالح نے کہا
ألا تلعن یزید؟ آپ یزید کو لعنت کیوں نہیں کرتے؟ حضرت امام نے جواب دیا: متیٰ رأیت أباک یلعن أحداً "تو نے اپنے باپ کو کسی پر بھی لعنت کرتے کب دیکھا تھا۔"
قرآن کریم کی آیت:
" فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ *أُوْلَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ " (محمد ۲۲/۴۸۔۲۳)
"کیا تم سے بعید ہے کہ اگر جہاد سے پیٹھ پھیرلو تو لگو ملک میں فساد کرنے اور اپنے رشتے توڑنے یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان کو بہرا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا ہے۔"
سے خاص یزید کی لعنت پر اصرار کرنا خلاف انصاف ہے۔ کیونکہ یہ آیت عام ہے اور اس کی وعید ان تمام لوگوں کو شامل ہے جو ایسے افعال کے مرتکب ہوں جن کا اس آیت میں ذکر ہے یہ افعال صرف یزید ہی نے نہیں کیے بلکہ بہت سے ہاشمی، عباسی ، علوی بھی ان کے مرتکب ہوئے ہیں۔
اگر اس آیت کی رو سے ان سب پر لعنت کرنا ضروری ہو تو اکثر مسلمانوں پر لعنت ضروری ہوجائے گی۔ کیوں کہ یہ افعال بہت عام ہیں مگر یہ فتویٰ کوئی بھی نہیں دےسکتا۔