مقام یزید بن معاویہ امام احمد بن حنبل کی نظر میں:
4۔اسی عنوان کے تحت (بحوالہ خطبات بخاری صفحہ 385) لکھا گیا ہے:
’’امام احمد بن حنبل سے یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ ’’یزید بن معاویہ سے روایت نہ لی جائے۔‘‘ امام احمد کا دین اور پرہیزگاری میں بڑا بلند مقام ہے اور روایات قبول کرنے میں بڑی احتیاط کرتے ہیں۔ بنابریں امام احمد کی مستند کتاب سے یزید بن معاویہ کی روایت نقل کردینا ہی یزید کی ثقاہت کے لیے کافی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب الزہد میں یزید بن معاویہ کا قول نقل کیا ہے کہ یزید اپنے خطبہ میں کہا کرتاتھا (اس روایت کو قاضی ابوبکر ابن العربی نے اپنی مایہ ناز کتاب العواصم من القواصم میں بھی ذکر کیا ہے)
’’جب تم میں سے کوئی بیمار ہو کر قریب المرگ ہوجائے اور تندرست ہوجائے تو وہ غور کرے۔ جوافضل ترین عمل ہوں ان کو لازم پکڑے پھر اپنے کسی بدترین عمل کو دیکھے تو اسے چھوڑ دے۔‘‘
یزید کا یہ قول نقل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یزید کا مقام امام احمد کی نگاہ میں بلند تھا یہاں تک کہ اسی کو آپ نے ان زاہد صحابہ او رتابعین میں شمار کیا ہے جن کے اقوال کی پیروی کی جاتی ہے او رجن کے وعظ سے لوگ گناہ چھوڑتے ہیں۔‘‘ (محدث صفحہ 32)
مجھے سمجھ نہیں آئی کہ امام احمد کے قول کے لیے ’’خطبات بخاری‘‘ پر انحصار کیسے کیا؟ جس بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ ’’امام احمد بن حنبل سے یہ بات منسوب کی گئی ہے............‘‘ یہ بہرحال ’’خطبات‘‘ ہیں۔
واضح رہے کہ امام احمد کی طرف سے یہ ’’منسوب‘‘ ہی نہیں بلکہ امام ابوبکر الخلال نے بھی ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’لا یذکر عنہ حدیث‘‘ (المنتخب من العلل للخلال صفحہ 237 لابن قدامہ) اور حافظ ذہبی نے بھی میزان الاعتدال ج4 صفحہ440 میں ان کا یہی قول ذکر کیا ہے ۔ اسی لیے یہ بات محض فقط ’’منسوب‘‘ نہیں، ایک حقیقت ہے کہ واقعتاً امام احمد کا یہ فرمان ہے۔
رہی یہ بات کہ ’’امام احمد نے کتاب الزہد میں ان کا قول نقل کیا ہے..............‘‘ یہ عبارت العواصم من القواصم صفحہ 370 مترجم سے حرف بحرف نقل کی گئی ہے اور العواصم کے عربی ایڈیشن صفحہ 233 میں یہ عبارت موجود ہے۔ مگر اس کے بعد امام ابن العربی نے جو فرمایا، اسے مولانا عبدالرحمٰن صاحب نے نقل نہیں کیا بلکہ وہ شاید اس سے بے خبر ہیں چنانچہ ان کے الفاظ ہیں:
’’نعم وما أدخلہ إلا فی جملۃ الصحابۃ قبل أن یخرج إلی ذکر التابعین‘‘
جس کا ترجمہ مترجم ہی کے الفاظ میں پڑھ لیجئے......... ’’ہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ امام احمد نے یزید کو صحابہ میں درج کیا ہے اور اسی کے بعد تابعین کا تذکرہ کیا ہے۔‘‘
مولانا عبدالرحمٰن صاحب جو ’’العواصم‘‘ کے حوالے سے یزید کی پاکدامنی اور اس کے زہد و تقویٰ کی دلیل بیان فرمارہے ہین، وہ ذرا امام ابن العربی کے اس مؤقف کی طرف بھی توجہ دیں کہ امام احمد نے تویزید کو صحابہ میں درج کیا ہے۔ ہم تو اس پر
إنا للہ وإنا إلیہ راجعون کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں۔
عہد عثمان غنیؓ میں پیدا ہونے والا یزیدصحابہ میں! ایں چہ بوالعجبی است اور پھر اس قول کا انتساب امام احمد کی طرف ’’ظلمات بعضھا فوق بعض‘‘ کا مصداق ہے۔
امام ابن العربی بلا شبہ بہت بڑے امام، فقیہ اور مفسر گزرے ہین مگر تھے تو انسان ہی ۔ یہ کہنے میں یقیناً ان سے سہو ہوا۔ بالکل اسی طرح یہاں یزید بن معاویہ بن ابی سفیان سمجھنے میں بھی ان سے سہو ہوا۔
اولاً
تو تتبع بسیار کے باوجود کتاب الزہد سے یزید بن معاویہ کا یہ قول نہیں ملا البتہ امام عبداللہ بن مبارک نے کتاب الزہد بروایت نعیم بن حماد صفحہ 39 رقم 156 میں یہی قول
’’أنا حنظلۃ بن أبی سفیان قال نا ابن أبی ملکیۃ قال سمعت یزید بن معاویۃ یقول فی خطبتہ...... الخ‘‘ نقل کیا ہے۔
ثانیاً
یہاں یزید بن معاویہ سے ابن ابی سفیان نہیں بلکہ الکوفی النخعی مراد ہیں جو کہ تابعی تھے اور کوفہ کے عابدین و زاہدین میں ان کا شمار ہوتا تھا جیسا کہ حافظ ابن حجر نے التہذیب ج11 صفحہ 360 ، میں اسی کا تذکرہ کیاہے۔ امام احمد کی کتاب الزہد صفحہ 367، میں ان کے صاحبزادے عبداللہ کے زوائد میں اسی یزید بن معاویہ النخعی کا ایک اور قول بھی ذکر کیاہے۔اس لیے یہاں ابن ابی سفیان مراد لینا بالکل اسی طرح امام ابن العربی کا وہم ہے جیسا کہ یزید بن معاویہ کو صحابی کہنے اور یہ قول امام احمد کی طرف منسوب کرنے میں وہم ہوا۔
انتہائی تعجب کی بات ہے کہ العواصم کے حاشیہ میں علامہ محب الدین الخطیب نے جابجا اپنی آراء کا اظہار کیا ہے مگروہ اس مقام پر امام ابن العربی کی اس فروگذاشت پر خاموشی سے گزر گئے پھر اس کے تراجم اور حواشی لکھنے والے حضرات نے بھی یہاں خاموشی ہی میں عافیت سمجھی۔ معلوم نہیں کیوں؟ یزید کی صفائی میں حقائق سے آنکھیں بند کرکے مکھی پر مکھی مارنا کوئی تحقیقی اور علمی خدمت نہیں۔
ہمارا مقصد یہاں نہ یزید کا دفاع ہے نہ اس کے مثالب و محامد پر بحث مطلوب ہے بلکہ زیر نظر مضمون میں امام احمد کے حوالہ سے یزید کے بارے میں ایک بات ذکر ہوئی بس اس کی حقیقت بیان کرنا ہے۔
إن أرید إلا الإصلاح ما استطعت وما توفیقی إلا باللہ العلی العظیم۔
۔۔۔۔:::::۔۔۔۔۔