سرفراز فیضی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 22، 2011
- پیغامات
- 1,091
- ری ایکشن اسکور
- 3,807
- پوائنٹ
- 376
اگر اس ایک گھنٹے کے لیے میں جاوید بھائی سے نہیں ملا ہوتا تو شاید ان کی موت پر مجھ کو اتنا افسوس نہیں ہوتا۔ جاوید بھائی سے میری بہت ساری رشتہ داریاں تھی۔ قریبی رشتہ یہ تھا کہ وہ میری محترمہ کے سگے خالہ زاد بھائی تھے۔ اور دور کا رشتہ یہ تھا کہ وہ میرے ہم زلف ( علی گڑھ والے ساڑھو لفظ پسند نہیں کرتے ۔ حالانکہ ساڑھو میں اپنائیت ہم زلف سے زیادہ ہے۔) کے بھائی تھے۔ ان دو رشتوں کے بیچ میں بھی بہت سارے رشتے تھے ان سے ۔جاوید بھائی علی گڑھ کے معروف شاعر ’’شمیم بستوی ‘‘ صاحب کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ وہ ہمارے گاؤں ’’سمرا‘‘ کے پہلے مدنی عالم تھے۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے مرکزی ادارہ جامعۃ الفلاح سے فراغت کی تھی اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں کلیۃ الحدیث سے ’’بی اے‘‘ کیا تھا۔ کئی سال تک قطر میں ملازمت کرتے رہے تھے۔ قطر سے واپسی کے بعد علی گڑھ سیٹل ہوگئے تھے۔ ان کی لکھی ہوئی کچھ کتابیں یورپ کے بعض اسکولوں میں داخل نصاب تھیں۔
گھر میں ان کے اور ان کی جلالت علم اور فصاحت زبان کے تذکرے کئی بار سنے تھے۔ دو تین سال پہلے بارہ بنکی کے ایک ’’ مناظرہ ٹور‘‘ سے لوٹتے ہوئے ان سے ملاقات کا شرف ملا۔ لیکن صرف ایک گھنٹے کےلیے ۔ میری طرح وہ بھی بولنے کے شوقین اور سننے میں دلچسپی رکھنے والے تھے ۔ اس لیے یہ ’’ایک گھنٹہ‘‘ کافی ناکافی تھا۔
اس ایک گھنٹہ میں ان سے بہت سارے موضوعات پر باتین ہوئی۔ جاوید بھائی جماعت اسلامی کے بہت فعال کارکن تھے۔ جامعۃ الفلاح سے انتہائی محبت اور وابستگی رکھتے تھے۔ اس ’’ایک گھنٹے کی ملاقات‘‘ میں ان سے بہت سارے موضوعات پر باتیں ہوئی ۔ ہندستانی کے سماجی ، سیاسی ، تعلیمی مسائل ، مدارس کے حالات ، جماعت اسلامی اہل حدیث اختلاف، علی گڑھ ، قطر سعودی، جامعۃ الفلاح اور جامعہ اسلامی مدینہ منورہ۔ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی خاص طور پر بحث کا موضوع بنے ۔ میں نے ’’اور لوگوں‘‘ کی طرح صرف مولانا مودوودی کے خلاف لکھا گیا نہیں پڑھا ہے۔ خود مولانا مودودی کو بہت تفصیل سے پڑھا ہے۔ بلکہ اپنے قریب کے لوگوں میں سے کسی کو نہیں جانتا جس نے مولانا مودوودی کو اتنا پڑھا ہو جتنا میں نے پڑھا ہے۔( ویسے بھی میرے قریب کے لوگوں میں پڑھنے والے کم اور سننے ،بولنے والے زیادہ ہیں۔) مولانا مودودی کی منہجی خامیوں پر تنقید بھی کرتا ہوں اور ان دیگر تحریروں کا مداح بھی ہوں اور کھلے دل سے ان کی خوبیوں کو تسلیم بھی کرتا ہوں ۔ بات کرنے کے لیے بہت ساری باتیں تھیں لیکن میری ٹرین کا ٹائم ہوچکا تھا۔ اور مجھ غیب کا علم بھی نہیں تھا کہ جس ٹرین کے لیے میں جلدی کررہا ہوں وہ چار گھنٹے لیٹ پہنچنے والی ہے ۔ باتیں ادھوری چھوڑ کر میں نے ان سے رخصت لی۔ اس کے بعد ان سے ملاقات کےلیے علی گڑھ جانے کے پلان بناتا رہا لیکن زندگی کی مصروفیات نے مہلت نہیں دی اور اللہ نے ان کو دی ہوئی مہلت ختم کردی۔ رمضان کی پندرہویں شب کو ان کی وفات ہوگئی ۔ اب جب ان سے ملاقات ہوگی تو وہ سارے مسائل حل ہوچکے ہوں گے جن پر میں ان سے بات کرنا چاہتا تھا۔ جاوید بھائی چالیس پنتالیس سال کے تھے۔ یہ کوئی مرنے کی عمر نہیں ۔ لیکن موت عمر دیکھ کر کب آتی ہے۔ اللہ کرے کہ اب ان سے جنت کی میٹنگ ہال میں ملاقات ہو۔
{إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ (22) عَلَى الْأَرَائِكِ يَنْظُرُونَ (23) تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ (24) يُسْقَوْنَ مِنْ رَحِيقٍ مَخْتُومٍ (25) خِتَامُهُ مِسْكٌ وَفِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ (26) } [المطففين: 22 - 27]
گھر میں ان کے اور ان کی جلالت علم اور فصاحت زبان کے تذکرے کئی بار سنے تھے۔ دو تین سال پہلے بارہ بنکی کے ایک ’’ مناظرہ ٹور‘‘ سے لوٹتے ہوئے ان سے ملاقات کا شرف ملا۔ لیکن صرف ایک گھنٹے کےلیے ۔ میری طرح وہ بھی بولنے کے شوقین اور سننے میں دلچسپی رکھنے والے تھے ۔ اس لیے یہ ’’ایک گھنٹہ‘‘ کافی ناکافی تھا۔
اس ایک گھنٹہ میں ان سے بہت سارے موضوعات پر باتین ہوئی۔ جاوید بھائی جماعت اسلامی کے بہت فعال کارکن تھے۔ جامعۃ الفلاح سے انتہائی محبت اور وابستگی رکھتے تھے۔ اس ’’ایک گھنٹے کی ملاقات‘‘ میں ان سے بہت سارے موضوعات پر باتیں ہوئی ۔ ہندستانی کے سماجی ، سیاسی ، تعلیمی مسائل ، مدارس کے حالات ، جماعت اسلامی اہل حدیث اختلاف، علی گڑھ ، قطر سعودی، جامعۃ الفلاح اور جامعہ اسلامی مدینہ منورہ۔ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی خاص طور پر بحث کا موضوع بنے ۔ میں نے ’’اور لوگوں‘‘ کی طرح صرف مولانا مودوودی کے خلاف لکھا گیا نہیں پڑھا ہے۔ خود مولانا مودودی کو بہت تفصیل سے پڑھا ہے۔ بلکہ اپنے قریب کے لوگوں میں سے کسی کو نہیں جانتا جس نے مولانا مودوودی کو اتنا پڑھا ہو جتنا میں نے پڑھا ہے۔( ویسے بھی میرے قریب کے لوگوں میں پڑھنے والے کم اور سننے ،بولنے والے زیادہ ہیں۔) مولانا مودودی کی منہجی خامیوں پر تنقید بھی کرتا ہوں اور ان دیگر تحریروں کا مداح بھی ہوں اور کھلے دل سے ان کی خوبیوں کو تسلیم بھی کرتا ہوں ۔ بات کرنے کے لیے بہت ساری باتیں تھیں لیکن میری ٹرین کا ٹائم ہوچکا تھا۔ اور مجھ غیب کا علم بھی نہیں تھا کہ جس ٹرین کے لیے میں جلدی کررہا ہوں وہ چار گھنٹے لیٹ پہنچنے والی ہے ۔ باتیں ادھوری چھوڑ کر میں نے ان سے رخصت لی۔ اس کے بعد ان سے ملاقات کےلیے علی گڑھ جانے کے پلان بناتا رہا لیکن زندگی کی مصروفیات نے مہلت نہیں دی اور اللہ نے ان کو دی ہوئی مہلت ختم کردی۔ رمضان کی پندرہویں شب کو ان کی وفات ہوگئی ۔ اب جب ان سے ملاقات ہوگی تو وہ سارے مسائل حل ہوچکے ہوں گے جن پر میں ان سے بات کرنا چاہتا تھا۔ جاوید بھائی چالیس پنتالیس سال کے تھے۔ یہ کوئی مرنے کی عمر نہیں ۔ لیکن موت عمر دیکھ کر کب آتی ہے۔ اللہ کرے کہ اب ان سے جنت کی میٹنگ ہال میں ملاقات ہو۔
{إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ (22) عَلَى الْأَرَائِكِ يَنْظُرُونَ (23) تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ (24) يُسْقَوْنَ مِنْ رَحِيقٍ مَخْتُومٍ (25) خِتَامُهُ مِسْكٌ وَفِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ (26) } [المطففين: 22 - 27]
Last edited: