مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
سانپ سے متعلق امور کے احکام
مقبول احمد سلفی
داعی / اسلامک دعوۃ سنٹر-طائف
سانپ کو مارنے کا حکم :
سانپوں کی اکثریت تکلیف دینے والی ہے ،اس لئے نبی ﷺ نے اسے مارنے کا حکم دیا ہے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
خمسٌ فواسقٌ يُقتلْنَ في الحلِّ والحرمِ : الحيةُ ، والغرابُ الأبقعُ ، والفارةُ ، والكلبُ العقورُ ، والحُدَيَّا(صحيح مسلم:1198)
ترجمہ: پانچ موذی (جا ندار ) ہیں ۔حل وحرم میں (جہاں بھی مل جا ئیں ) مار دئے جا ئیں۔ سانپ ،کوا (جس کے سر پر سفید نشان ہو تا ہے) چوہا ،پاگل کتا اور چیل ۔
سانپ اس قدر تکلیف دہ ہے کہ نماز توڑکراسے مارنے کا حکم ہوا ہے ۔ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
اقتلوا الأسوَدينِ في الصَّلاةِ الحيَّةَ والعقربِ(صحيح أبي داود:921)
ترجمہ: نماز میں دو کالوں یعنی سانپ اور بچھو کو مار ڈالو۔
گھروں کے سانپ :
گھروں کے سانپ کا حکم کچھ مختلف ہے ، اسے پہلے تین بار گھر خالی کرنے کا حکم دیا جائے گا کیونکہ ممکن ہے کوئی جن سانپ کی شکل اختیار کرلیاہو۔ سیدنا ابولبابہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أن رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم ، نهى عن قتلِ الجِنَّان التي تكونُ في البيوتِ ،إلا أن يكون ذا الطُّفْيَتَيْنِ، والأبترَ، فإنهما يخطفانِ البصرَ ويَطْرَحانِ ما في بطونِ النساءِ.( صحيح أبي داود: 5253)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سانپوں کو جو گھروں میں رہتے ہیں مارنے سے منع فرمایا ہے سوائے ان کے جن کی پشت پر ( کالی یا سفید ) دو دھاریاں ہوتی ہیں اور جن کی دم نہیں ہوتی ۔ بلاشبہ یہ نظر زائل کر دینے اور عورتوں کا حمل گرا دینے کا باعث بنتے ہیں ۔
ایک نوجوان کا واقعہ ہے، نئی نئی ان کی شادی ہوئی تھی ، خندق سے اجازت لیکر گھر آیا تھا ، بیوی کو گھر کے باہر دیکھا تو آگ بگولہ ہوگیا۔ آج ہماری عورتیں گھر کے باہر کیا ، کہاں نہیں جاتیں۔ اس میں ہماری غفلت ہے ۔ بہرکیف بیوی نے کہا کہ گھر میں دیکھو کیا ہے ؟ نوجوان گھر میں دیکھتا ہے تو دیکھا کہ ایک سانپ کنڈلی مارے بستر پر بیٹھا ہے ۔ نوجوان نے سانپ کو نیزے میں پرولیا پھر گھر سے واپس نکلا تو وہ دوبارہ حملہ کرکے نوجوان کو مار دیا۔ اس واقعہ سے متعلق نبی ﷺ نے فرمایاہے:
إنَّ بالمدينة جنًّا قد أسلموا . فإذا رأيتُم منهم شيئًا فآذِنوه ثلاثةَ أيامٍ . فإن بدا لكم بعد ذلك فاقتُلوه . فإنما هو شيطانٌ (صحيح مسلم:2236)
ترجمہ: مدینہ میں جن رہتے ہیں، جو مسلمان ہو گئے ہیں پھر اگر تم سانپوں کو دیکھو تو تین دن تک ان کو خبر دار کرو، اگر تین دن کے بعد بھی نہ نکلیں تو ان کو مار ڈالو کہ وہ شیطان ہیں۔
علماء نے کہا ہے کہ تین مرتبہ اجازت کافی ہے ، اگر وہ گھر سے نہ نکلے یا نکل کر دوبارہ آجائے تو اسے قتل کردیں لیکن ابتر(وہ سانپ جس کی دم چھوٹی ہو) اور ذوالطفیتین (جس کی پشت پر دو سیاہ لکیریں ہوں) ان دونوں قسم کے سانپوں کو ہر جگہ اور ہر حال میں قتل کیاجائے گا جیساکہ اوپر والی روایت میں اس کا ذکر ہے ۔
حیوان کے ساتھ احسان وسلوک:
اسلام اس قدر رحم دلی کا مذہب ہے کہ موذی جانور تک کو کم سے کم تکلیف سے مارنے کا حکم دیتا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّ اللهَ كتب الإحسانَ على كلِّ شيٍء . فإذا قتلتم فأحسِنُوا القِتْلَةَ . وإذا ذبحتم فأحسِنُوا الذبحَ . وليُحِدَّ أحدُكم شفرتَه . فليُرِحْ ذبيحتَه(صحيح مسلم:1955)
ترجمہ: للہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ سب سے اچھا طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔اس لئے جب تم کسی کا قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرواور جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو،تم میں سے ایک شخص(جو ذبح کرنا چاہتا ہے) وہ اپنی(چھری کی ) دھار کو تیز کرلے اور ذبح کیے جانے والے جانور کو اذیت سے بچائے۔
یہ بات ذکر کرنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ بعض لوگ جانور کا بے دردی سے قتل کرتے ہیں انہیں اس حدیث سے سبق لینا چاہئے ۔جانور خواہ کھانے کے لئے ذبح کریں یا موذی ہونے کے سبب اس کا قتل کریں بہردو صورت احسان کا پہلو مدنظر رہے ۔
سانپ کی پرورش:
آج کل مختلف حیوانات، پرندے،درندے اور سانپوں کو پالا جاتا ہے ، انہیں قید کیا جاتا ہے اور انہیں نمائش بناکراس سے روپیہ پیسہ کمایا جاتا ہے ۔ علماء بعض خوبصورت پرندے مثلا طوطا، بلبل وغیرہ کو خوبصورتی اور سریلی آواز کی وجہ سے پالنے اور انہیں قید کرنے کی اجازت دیتے ہیں اس شرط کے ساتھ کہ انہیں کھانے پینے کی سہولت دی جائے اور ان کے حقوق کی رعایت کی جائے ۔ پالنے کی دلیل ابونغیر کے پرندے نغیر سے لی جاتی ہے اور قید کی دلیل اس حدیث سے لی جاتی ہے جس میں ایک بوڑھیا کے بلی باندھنے کا ذکر ہے ۔
لیکن موذی جانور جنہیں مارنے کا حکم دیا گیا ہے انہیں باقی رکھنا خلاف سنت ہے ، انہیں محفوظ رکھ کر کمائی کا ذریعہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے ۔ سانپ جسے مارنے کا نبی ﷺ نے حکم دیا ہے کہ جہاں پاؤ اسے قتل کردوخواہ وہ حرم میں ہی کیوں نہ ہویہاں تک کہ نماز میں بھی مارنے کا حکم دیا ہے ۔ اس بناپر سانپ کی پرورش خواہ زہریلا ہویا نہیں ہو جائز نہیں ہے ۔ ہاں اگرکسی طبی یا سائنسی تجربہ کے تحت رکھا گیا ہوتو اس کے جواز کی طرف اہل علم گئے ہیں۔
سانپ کا کھانا:
سانپ کا کھانا حرام ہے کیونکہ نبی ﷺ نے اس کے قتل کا حکم دیا ہے ۔ بعض قوموں اور بعض ممالک میں سانپ کھایا جاتا ہے ، اس کا سوپ پیا جاتا ہے ۔ چین میں سیکڑوں فارمز ہیں جہاں ہرقسم کے سانپوں کی نشوونما اس مقصد سے کی جاتی ہے کہ اس کا گوشت کھایا جائے اور اس کا سوپ بناکرپیا جائے بلکہ سوپ دنیا کی مہنگی دش میں شمار ہوتی ہے۔ آج یہ ڈش عام ہوتی جارہی ہے اور ہوٹلوں میں آسانی سےدستیاب ہونےلگی ہے ۔
سانپ کھانے سے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف ملاحظہ فرمائیں :
«أكل الخبائث وأكل الحيات والعقارب حرام بإجماع المسلمين ، فمن أكلها مستحلاًّ لذلك فإنه يستتاب فإن تاب وإلا قتل ، ومن اعتقد التحريم وأكلها فإنه فاسق عاص لله ورسوله »( مجموع الفتاوى لابن تيمية :11/609) .
ترجمہ: گندی چیزوں، سانپوں اور بچھوؤں کو کھانا حرام ہے ، اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے ۔ جس نے اسے حلال سمجھ کرکھایا تواس سے توبہ کرایا جائے گا ، اگر توبہ کرلیا تو ٹھیک ورنہ قتل کردیا جائے گا اور جس نے اس کی حرمت کا اعتقاد رکھتے ہوئے کھایا تو وہ فاسق ،اللہ اور اس کے رسول کا نافرمان ہے ۔
لہذاکسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ سانپ (حرام چیز )کھائے ۔خاص طور سے میں غیرملکی اسفار کرنے والے مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ہوٹلوں میں کھانے پینے میں احتیاط سے کام لیں ۔
سانپ کی تجارت :
آج سانپوں کی کثرت سے تجارت ہوتی ہے ، نہ صرف یورپ وافریقہ بلکہ براعظم ایشیا میں بھی عام ہے ۔ ہندوپاک بھی اس کی تجارت میں پیش پیش ہیں ۔ بہت سے مسلمان سانپوں کی تجارت کرتے ہیں ۔بعض لوگ میوزیم کو بیچتے ہیں ، بعض ہوٹلوں کو فراہم کرتے ہیں ۔ عام لوگوں میں بھی بطور خاص سوپ پینے کی عرض سے اسے بیچا جاتا ہے ۔ سانپ حرام جانورہے جس کے قتل کا حکم ہواہے ، اور حرام جانور کی بیع وشراء شریعت میں ممنوع ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّ اللهَ إذا حرَّمَ على قومٍ أكْلَ شيءٍ حرَّمَ عليهم ثَمَنَهُ(صحيح الجامع:5107)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالی جب کسی قوم پر کوئی چیزکھانا حرام کرتا ہے تو اس کی قیمت کی اس پر حرام کردیتا ہے ۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
ما لا ينتفع به [من الحيوانات] لا يصح بيعه ، كالخنافس ، والعقارب ، والحيات ، والفأر ، والنمل ، ونحوها (روضة الطالبين:3 /351) .
ترجمہ: جن حیوانوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا ہے ان کی تجارت صحیح نہیں ہے مثلا گوبریلا، بچھو، سانپ ، چوہا، چیونٹی اور ان جیسے۔
سعودی عرب کی دائمی کا فتوی ہے : کسی بھی تجارتی معاملے کے درست ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ بلا ضرورت بھی اس سے نفع کا حصول ممکن ہو، اور سانپوں میں کوئی فائدہ نہیں ہے، بلکہ ان میں تو نقصان ہے، لہذا اس کی خرید وفروخت کرنا جائز نہیں ہے، اور یہی حکم چھپکلی وغیرہ کا ہے، کہ اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے، لہذا اس کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے۔ (بندروں کی خرید وفروخت /فتوى نمبر: 18807(
ثابت یہ ہواکہ سانپ کی خریدوفروخت منع ہے خواہ زہروالا ہو یا زہروالا نہ ہو ۔
سانپ کی کھال:
آج کل سانپ کی کھال سے بیک ، جوتے، پرس اور بہت ساری فیشن کی اشیاء بنائی جاتی ہیں ۔ یہ اشیاء بہت مہنگی ہوتی ہیں بنابریں صرف مالدار لوگ ہی خرید سکتے ہیں ۔ یہ کھال کیسے نکالی جاتی ہے ابھی تک عام لوگوں کو اس علم نہیں تھااور بہت سارے راز ابھی بھی سربستہ ہیں مگر حال ہی میں انڈونیشیا کے جزیرے جاوا کے نواحی علاقے میں قائم ایک فیکٹری کی کچھ تصاویر سامنے آئی ہیں جن سے اتنا پتہ لگانا آسان ہوگیاہے کہ اس کے لئے سانپوں کو بڑی بے رحمی سے مارا جاتا ہے پھر یہ قیمتی چمڑہ وجود میں آتاہے ۔ اوپر میں نے ذکر کیا ہے کہ اسلام نے قتل کئے جانے والے جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کے ساتھ قتل کرنے کا حکم دیا ہے ۔ سانپوں کی کھال کی ایسی تجارت حرام ہے ،ویسے بھی سانپ سے کسی طرح کی قیمت کافائدہ اٹھانا منع ہے ۔
یہاں ایک مزید مسئلہ واضح کردوں کہ حرام جانور کی کھال دباغت سے پاک نہیں ہوگی ،یہی موقف زیادہ قوی ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان : إذا دُبِغَ الإهابُ فقد طَهُرَ.(صحيح مسلم:366)
ترجمہ: جو کھال دباغت دیدی جائے وہ پاک ہوجاتی ہے ۔
اھاب سے مراد حلال جانور کی کھال ہے اور دباغت چمڑے کو پاک کرنے کا طریقہ ہے ۔ جو جانور حلال ہو اور اسے ذبح کیا جائے تو اس کا چمڑہ یونہی پاک ہے مگر وہ حلال جانور جو ذبح سے پہلے مرجائے تو اس کی کھال کو دباغت دینے سے پاک ہوجاتا ہے جیساکہ حدیث میں ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا:
أن رسولَ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- وجَدَ شاةً ميتةً ، أُعطِيَتْها مولاةٌ لميمونةَ مِن الصدقةِ . فقال رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم هلَّا انتفعتم بجلدِها ؟ قالوا : إنها مَيْتَةً . فقال : إنما حُرِّمَ أكلُها.(صحيح مسلم:1492)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ رضی اللہ عنہما کی باندی کو جو بکری صدقہ میں کسی نے دی تھی وہ مری ہوئی دیکھی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ اس کے چمڑے کو کیوں نہیں کام میں لائے۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو مردہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ حرام تو صرف اس کا کھانا ہے۔
حرام جانور کی کھال بھی حرام ہوتی ہے اس وجہ سے اسے دباغت دینے پر بھی پاک نہیں ہوگی، اس لئےکوئی مذکورہ حدیث سے یہ مطلب نہ نکالے کہ سانپ کی کھال کو دباغت دینے سے پاک ہوجائے گی ۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے حرام جانور کی کھال کی دباغت سے متعلق لکھا ہے کہ اس میں اہل علم کا اختلاف ہے اور محتاط روش یہی ہے کہ نبیﷺ کے اس ارشاد پر عمل کرتے ہوئے انہیں استعمال نہ کیا جائے۔
مَنِ اتَّقَی الشُّبُھاتِ فَقَدِ اسْتَبْرَا لِدِیْنِہ وعِرْضِہ۔
ترجمہ: جو شخص شبہات سے بچا رہا، اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو محفوظ کر لیا۔‘‘
نیز آپﷺ نے فرمایا:
دَعْ مَا یُریبُکَ الی مَا لَا یُریبُکَ۔
ترجمہ: اس چیز کو چھوڑ دو جس میں شک ہو اور وہ اختیار کرو جس میں شک نہ ہو۔(فتاوی بن باز1/224)
سانپ سے علاج :
بازار میں سانپ کی چربی سے تیار شدہ بہت ساری اشیاء ملتی ہیں ، اسی طرح سانپ کا تیل بھی ملتا ہے جو درد اور سقوط بال سے مانع ہے ۔ بعض علماء علی الاطلاق سانپ کی اشیاء کو بطور علاج استعمال کرنا جائز کہاہے اور بعض نے خالص سانپ سے تیاراشیاء سے منع کیا ہے مگر اس کی معمولی مقدار کسی دوا میں ملانے کو جائز کہا ہے ۔ احادیث کی رو سے یہ دونوں موقف غلط ہے ۔ اللہ تعالی نے حرام اشیاء میں شفا نہیں رکھا ہے ،اگرحرام شی میں کچھ فائدہ بھی ہو توبھی ہمیں اس سے بچنا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ۔ [ الأعراف : 157 ]
ترجمہ: اور پاکیزہ چیزوں کو حلال بتاتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّ اللهَ تعالى خلق الدَّاءَ و الدَّواءَ ، فتداووْا ، و لا تتداووْا بحَرامٍ( صحيح الجامع:1762)
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی نے بیماری اور اس کا علاج پیدا کیا ہے، لہذا تم اپنا علاج کراؤ اور حرام چیزوں سے اپنا علاج مت کراؤ۔