- شمولیت
- نومبر 01، 2013
- پیغامات
- 2,035
- ری ایکشن اسکور
- 1,227
- پوائنٹ
- 425
دوسرا سبق
پہلے سبق میں ہم نے یہ جانا ہے کہ عربی گرائمر کے لئے علم النحو اور علم الصرف پڑھنا پڑے گا اب باقاعدہ ان دونوں علوم کو شروع کرنے سے پہلے ان میں استعمال ہونے والی کچھ بنیادی اصطلاحات کو سمجھتے ہیں
کلمہ
ہر لفظ جو مفرد معنی کے لئے وضع کیا گیا ہو مثلا قَتَلَ داودُ جالوتَ میں تین کلمات ہیں ہر ایک مفرد معنی کے لئے بنایا گیا ہے
کلمہ کی اقسام ( PARTS OF SPEACH)
ہر زبان میں کلموں کی خصوصیات کو دیکھتے ہوئے انکو مختلف گروپوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے اسکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ چونکہ ایک جیسے خصوصیات والے کلمات پر ایک جیسے قواعد اپلائی ہونے ہوتے ہیں تو اسی مناسبت سے اکے گروپ بنا دیئے جاتے ہیں تاکہ قواعد بتلانے میں اور یاد کرنے میں آسانی ہو- پھر ہر گوپ کے اندر بھی مختلف سب گروپ بنا لیے جاتے ہیں تاکہ فرعی قواعد کا اطلاق مزید آسان ہو جائے
انگلش گرائمر والوں نے اپنے قواعد کی مناسبت سے کلمہ کو ۸ یا ۹ قسموں میں تقسیم کیا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں
Noun, Pronoun, Adjective, Verb, Adverb, Conjunction, Preposition, interjection, articles
لیکن عربی میں انکو شروع میں صرف تین بنیادی قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے البتہ ہر ایک کے اندر مزید سب گروپس بنائے جاتے ہیں
تین بنیادی قسمیں اسم، فعل اور حرف ہیں اور اوپر کے انگلش کی تقریبا ساری قسمیں انہیں تینوں میں سما جاتی ہیں مثلا Noun, Pronoun, Adjective, Adverb عموما عربی کے اسم میں آ جاتے ہیں Preposition, Articles عموما حرف میں آ جاتے ہیں Verb فعل میں آتا ہے اور باقی عموما اسم یا حرف میں مشترک آتے ہیں
اسم فعل اور حرف کی پہچان
سب سے پہلے حرف کی پہچان کرتے ہیں
حرف کی پہچان
اسکے لئے ہم کلمات کو دو گروپس میں تقسیم کرتے ہیں
1-ان الفاظ کا گروپ جو اکیلا لکھا ہو تو پھر بھی معنی دے
2-وہ جو اکیلا لکھا ہو تو معنی سمجھ میں نہ آٓئے جب تک کوئی اور کلمہ نہ ملایا جائے
پہلے گروپ میں اسم اور فعل آتے ہیں جبکہ دوسرے گروپ میں حرف آتا ہے
مثلا ضَرَبَ زید بالعصا اس میں چار کلمات ہیں پہلا ضرب دوسرا زیدتیسرا ب اور چوتھا العصا
اب اگر ضَرَبَ(مارا) اکیلا لفظ بولا جائے تو فورا آپکے ذہن میں مارکی شبیہ یعنی تصور آ جائے گا (کیونکہ آٓپ نے مار کھائی ہو گی-ابتسامہ)
اسی طرح زید یا العصا (چھڑی) اکیلا بولا جائے تو آپ کے ذہن میں انکی شبیہ آ جائے گی
مگر "ب" بولا جائے جس کا معنی "سے" ہے تو آپ پر اسکی شبیہ اس وقت تک ذہن میں واضح نہیں ہو گی جب تک اسکے ساتھ کچھ اور نہ لگا ہو
پس "ب" حرف ہے اور باقی فعل یا اسم ہو سکتے ہیں
اسم اور فعل کی تفریق
اب اسم اور فعل میں فرق کرنے کے لئے مزید علامت یہ ہے کہ جس میں زمانہ بھی ہو وہ فعل اور جس میں نہ ہو وہ اسم
پس زید اور العصا(چھڑی) میں چونکہ زمانہ نہیں تو وہ دونوں اسم ہیں اور ضرب میں ماضی کا زمانہ ہے تو وہ فعل ہے
اسم
جو فی نفسہ اپنے معنی پر دلالت تو کرے (یعنی اس سلسلے میں دوسرے کلمہ کا محتاج نہ ہو ) مگر اس میں زمانہ (بلحاظ ھیۃ یعنی سانچہ یا صیغہ) نہ پایا جائے
فعل
جو فی نفسہ اپنے معنی پر دلالت بھی کرے اور اس میں زمانہ بھی (بلحاظ ھیۃ) پایا جائے
حرف
جو فی نفسہ اپنے معنی پر دلالت نہ کرے
نحو اور صرف کے حوالے سے کلمات
صرف میں چونکہ الفاظ کے صیغوں (سانچوں) میں پھیرنے کو پڑھا جاتا ہے اور حرف میں پھرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی البتہ فعل اور اسم میں یہ صلاحیت ہوتی ہے پس صرف میں ہم فقط اسم اور فعل کو پڑھیں گے
نحو میں چونکہ کلمات کو ملانے کے قواعد پڑھے جاتے ہیں اور اسم فعل اور حرف تینوں آپس میں مل سکتے ہیں پس نحو میں تینوں کلمات کے متعلق قواعد پڑھیں گے