• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سبق نمبر 3 (علم الصرف 1)

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جیسا کہ پہلے ہم یہ جان چکے ہیں کہ علم الصرف میں صیغوں کو سمجھا جاتا ہے آٓج ہم انہیں کے بارے پڑھنا شروع کریں گے یہاں بھی یہ کوشش کی جائے گی کہ معاملے کو پہلے حتی الامکان سمجھا جائے پھر رٹا لگایا جائے تاکہ یاد رکھنا آسان ہو جائے پس جس بھائی کو سمجھ آ جائے تو ٹھیک اور اگر کچھ کم رہ بھی جائے تو پھر رٹا تو ویسے ہر کسی نے لگانا ہی ہو گا

علم الصرف کی پڑھائی کو ہم دو حصوں میں تقسیم کریں گے
1-صیغوں کی بنیادی پہچان
اس میں ہم مختلف صیغوں میں فرق کی بنیادوں اور علامتوں کو سرسری طور پر پڑھیں گے
2-صیغوں میں پیچیدگیاں
اس میں اوپر سرسری پڑھائی کو ذہن میں رکھتے ہوئے آگے تفصیل سے صیغوں کو پڑھیں گے جن میں بابوں کی تفصیل، معتل، مہموز، مضاعف وغیرہ کے قواعد پڑھیں گے

1-صیغوں کی بنیادی پہچان

اس میں ہم نے فعل اور اسم کے صیغوں کو علیحدہ علیحدہ پڑھنا ہے کثرت استعمال کو دیکھتے ہوئے ہم پہلے فعل سے شروع کرتے ہیں
فعل کے صیغوں کو پڑھنے سے پہلے یہ جان لینا انتہائی ضروری ہے کہ عربی میں فعل کا صیغہ اردو انگلش کے برعکس صرف فعل پر مشتمل نہیں ہوتا بلکہ اسکا فاعل بھی اس صیغہ میں موجود ہوتا ہے پس جب ہم صیغوں کی تبدیلی کو پڑھ رہے ہوں گے تو اسکی وجہ صرف فعل کے زمانہ کی تبدیلی نہیں ہو گی بلکہ فاعل کیے بدلنے کی وجہ سے بھی ہو گی
اسکو اردو کی مندرجہ ذیل مثالوں سے سمجھتےہیں
1-میں نے زید کو مارا
2-تم نے زید کو مارا
3-اس نے زید کو مارا
4-ان سب نے زید کو مارا
اوپر پہلے جملے کے ایک ایک لفظ کا تجزیہ کرتے ہیں
میں = فاعل
نے = فاعل کی علامت (جس سے فاعل کا پتا چلتا ہے جیسے عربی میں ضمہ)
زید = مفعول
کو = مفعول کی علامت
مارا = فعل
اب اسی طرح سارے جملوں کا تجزیہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ ہر جملہ میں فعل "مارا" ایک ہی ہے باقی چیزیں بھی ایک جیسی ہیں البتہ ہر جملہ میں فاعل تبدیل ہو رہا ہے نیز فاعل اور فعل علیحدہ علیحدہ ذکر کیے جا رہے ہیں فاعل فعل کا حصہ نہیں ہے
اب اسی فعل (مارا) کا جب عربی میں صیغہ (سانچہ) بنانے لگتے ہیں تو اس میں فاعل کی علامت بھی رکھ دیتے ہیں پس عربی میں فعل کے سانچے میں فعل کے ساتھ فاعل بھی آٓپ کو نظر آئے گا تفصیل آگے پڑھیں گے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
یہ جان لینے کے بعد کہ فعل کے صیغے میں فاعل کی ضمیر اور فعل دونوں شامل ہوتے ہیں اب یہ دیکھتے ہیں کہ
1-صیغوں میں اختلاف کس وجہ سے آتا ہے (تبدیلی کی وجہ یا بنیاد)
2-کس طرح آتا ہے (تبدیلی کا طریقہ)

صیغوں میں فرق کی بنیادیں یا وجوہات
ہر صیغہ دوسرے صیغہ سے کیوں مختلف ہوتا ہے اسکے پیچھے کچھ بنیادیں یا وجویات ہوتی ہیں جو مندرجہ ذیل ہو سکتی ہیں
۱-سب سے پہلے تو ہر زمانے کا علیحدہ صیغہ ہوتا ہے یعنی ماضی کا علیحدہ اور مضارع کا علیحدہ اور امر کا علیحدہ صیغہ ہوتا ہے جیسے اردو اور انگلش میں بھی ماضی حال اور مستقبل کے لئے علیحدہ علامات استعمال کی جاتی ہیں مثلا تھا، ہے، گا، وغیرہ
۲-پھر ہر زمانہ کے اندر جملوں کو مختلف قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے مثلا مثبت، منفی یا Assertive, Negative وغیرہ پس مثبت کے لئے ہمیں علیحدہ صیغہ بنانا ہو گا اور منفی کا علیحدہ صیغہ
۳-اسکے بعد مثبت یا منفی وغیرہ میں سے ہر ایک کے اندر معروف اور مجہول کے علیحدہ صیغے درکار ہوں گے کیونکہ یہ بھی صیغوں کے اختلاف کی ایک وجہ یا بنیاد ہے جیسے انگلش اور اردو میں بھی Active voice اور Passive voice کے علیحدہ الفاظ ہو تے ہیں
۴- اسکے بعد ہر معروف یا مجہول کے اندر اپنے چودہ صیغے ہو سکتے ہیں انکے اختلاف کی بنیاد یا وجہ ایک ہی ہوتی ہے یعنی فاعل کی ضمیر کا اختلاف

اب ان چودہ صیغوں میں اختلاف کی بنیاد یا وجہ کی وضاحت کرتے ہیں
یاد رکھیں کہ ان چودہ صیغوں میں فرق کی وجہ صرف فاعل کی ضمیر کا اختلاف ہے ورنہ زمانہ ان میں ایک ہی ہوتا ہے
جیسے اوپر بتایا گیا ہے کہ فعل کے صیغے میں صرف فعل نہیں ہوتا بلکہ فاعل کی ضمیر بھی شامل ہوتی ہے اور ضمیر کے بارے ہم ابتدائیہ سبق نمبر دو میں پڑھ چکے ہیں کہ اسکی تین اقسام ہوتی ہیں یعنی متکلم اور مخاطب اور غائب- پس ہر فعل میں فاعل کی متکلم کی بھی ضمیر ہو سکتی ہے اور مخاطب کی بھی ضمیر ہو سکتی ہے اور غائب کی بھی ضمیر ہو سکتی ہے
پس اختلاف کی بنیادی تقسیم تو تین ہو گئی البتہ ہر ایک کے اندر مزید تقسیم ہو سکتی ہے مثلا
غائب کی ضمیر جنس کے لحاظ سے مذکر اور مونث دو طرح کی ہو سکتی ہے اور عدد کے لحاظ سے واحد تثنیہ اور جمع یعنی تین طرح کی ہو سکتی ہے پس غائب میں کل چھ (2x3=6 ) قسمیں ہو گئیں-
اسی طرح مخاطب میں بھی چھ قسمیں ہوتی ہیں
البتہ متکلم میں چونکہ جنس میں مذکر اور مونث میں فرق نہیں کیا جاتا پس جنس میں ایک ہی قسم ہو گی اور متکلم میں عدد میں بھی تثنیہ اور جمع ایک ہی سمجھا جاتا ہے اس لئے عدد میں بھی تین کی بجائے دو قسمیں بنیں گی پس متکلم میں کل دو (1x2=2 ) قسمیں بنیں گی
پس غائب کی چھ اور مخاطب کی چھ اور متکلم کی دو ملا کر کل چودہ قسمیں بنیں گی جس کے لئے چودہ صیغے ہوں گے
اب ہم اوپر چار نقطوں میں بتائے گئے صیغوں کے فرق کو ایک زمانہ یعنی ماضی کو لیتے ہوئے مندرجہ ذیل چارٹ کی مدد سے دیکھتے ہیں

ماضی کا چار کالموں والا چارٹ
sarf new chart 1.jpg
اوپر چارٹ میں صرف ماضی کے زمانے کو لیا گیا ہے اور پھر اس ماضی کو مزید چار سب زمانوں میں تقسیم کیا گیا ہے پس چارٹ میں چار کالم یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ماضی میں فعل کے چار سب زمانے ہو سکتے ہیں جن کے لئے علیحدہ علیحدہ چار صیغے آ سکتے ہیں پس ان کالموں سے پتا چلتا ہے کہ
1-ماضی میں ہر فعل کا یا تو مثبت کا صیغہ ہو گا یا منفی کا
2- پھر مثبت یا منفی کے اندر بھی یا تو وہ مثبت معروف ہو گا یا مثبت مجہول
چارٹ میں ہر کالم (جو ایک سب زمانے کو ظاہر کر رہا ہے) کو نیچے چودہ لائنوں میں تقسیم کیا گیا ہے ان میں فعل کا زمانہ تو وہی رہتا ہے البتہ فعل کے ساتھ آنے والی فاعل کی ضمیر میں اختلاف کی وجہ سے ہر صیغے میں فرق پیدا ہو رہا ہے یعنی وہ ضمیر غائب میں چھ قسم کی اور مخٓطب میں بھی چھ قسم کی اور متکلم میں دو قسم کی ہے پس یہ چودہ صیغے فعل کے ایک ہی زمانے کے لئے ہوں گے مگر فاعل ہر ایک میں تبدیل ہو رہا ہو گا (خوب سمجھ لیں)
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
اب تک ہم نے کسی زمانہ میں استعمال ہونے والے مختلف صیغوں میں فرق کی بنیادوں کو پڑھا ہیں اور اسکے لئے مثال صرف ماضی کے زمانے کی لی ہے یعنی ماضی میں جو مختلف صیغہ بن سکتے ہیں انکے اختلاف کی وجہ کیا ہے
اب مزید ہم نے یہ پڑھنا ہے کہ ان اختلافات کی وجہ سے صیغوں میں جو تبدیلی ہوتی ہے وہ کس طرح سے ہوتی ہے یعنی کیا ہے
اس تبدیلی کے لئے کچھ علامات استعمال کی جاتی ہیں چنانچہ اب ہم ان علامات کو پڑھیں گے
صیغوں میں اختلاف کی علامات کی پہچان
اوپر ہم نے یہ سمجھا کہ صیغہ میں تبدیلی دو وجوہات سے آتی ہے
1-فاعل کی ضمیر بدلنے کی وجہ سے
2-زمانہ کے بدلنے کی وجہ سے

1-فاعل کی ضمیر بدلنے کی وجہ سے صیغہ میں تبدیلی
پہلے پہلی تبدیلی کی علامات کو پڑھتے ہیں یعنی ہم نے زمانہ کو ایک ہی رکھنا ہے اور فاعل کی ضمیر کو تبدیل کرتے جانا ہے
میں اسکو کچھ دلائل سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں جو سمجھ لے اسکے لئے یاد کرنا آسان ہو جائے گا ورنہ صیغوں کا رٹا تو لگانا ہی ہو گا
اسکو اردو کی مثالوں سے سمجھتے ہیں جو پہلے بھی بیان کی گئی تھیں
1-میں نے مارا
2-تم نے مارا
3-اس نے مارا
4-ان سب نے مارا
5-ان دو مردوں نے مارا
ان مثالوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر مثال میں فعل ایک ہی ہے یعنی مارا اور یہ زمانے کے لحاظ سے ماضی مثبت معروف ہے جس کی عربی میں علامت ضَرَبَہے
اب اس زمانے کو ایک رکھتے ہوئے جب ہم اس میں فاعل کی ضمیر بھی شامل کریں گے تو ہر فاعل کی ضمیر کی اپنی ایک علامت ہوتی ہے جو اس ضَرَبَمیں جمع ہو جائے گی اور صیغہ مکمل ہو جائے گا مثلا آخری مثال میں دو مردوں کی ضمیر استعمال ہوئی ہے جسکی عربی میں علامت ا ہے پس جب ہم فعل کی علامت ضَرَبَ اور ضمیر کی علامت "ا" کو ملائیں گے تو ضربا بن جائے گا جسکا معنی ہو گا ان دو مردوں نے مارا
ضمیر کی وہ علامتیں جو تمام زمانوں میں مشترک استعمال ہوتی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں
1-تثنیہ کے لئے علامت= ا
2-جمع مذکر کے لئے علامت= و
3-جمع مونث کے لئے علامت= نَ

تائے مبسوطہ (ت) ایسی علامت ہے جو ماضی کے ساتھ خاص ہیں اسکی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں
1-تائے ساکنہ
یہ ضمیر کی علامت نہیں ہے بلکہ مونث کی علامت ہے
2-تائے مضمومہ
یہ واحد متکلم کی علامت ہے

3-تائے مخاطبہ
واحد مذکر کے لئے تائے مفتوحہ، اور واحد مونث کے لئے تائے مکسورہ استعمال ہوتی ہے
کبھی اس تاء کے ساتھ م ماقبل مضموم کی علامت بھی استعمال ہوتی ہے جو جمع کی علامت ہے اور میم کے ساتھ الف ہو تو پھر تثنیہ کی علامت ہوتی ہے

اب ان علامتوں کو جاننے کے بعد ہم فعل ماضی مثبت معروف کے چودہ صیغے بناتے ہیں جس کے لئے نیچے ایک چارٹ دیا گیا ہے

sarf new chart 2.jpg
اوپر چارٹ میں ایک بات اور پتا چلتی ہے کہ چھٹے صیغے سے ضرب کا آخری حرف ب ساکن ہو جاتا ہے
اسکی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جیسے انگلش میں چار حروف بغیر حرف واول کے پڑھنا مشکل ہوتا ہے اسی طرح عربی میں لگاتار چار حرفوں کو متحرک پڑھنا مشکل ہوتا ہے اور سکون آسان ہوتا ہے
اب یہاں ضرب کے بعد چوتھا حرف جب متحرک آئے گا تو وہ ساکن ہو جائے گا اور چھٹے صیغے میں فعل کی علامت اور ضمیر کی علامت ملانے سے ضَرَبَنَ بن رہا تھا جس میں چوتھا حرف متحرک تھا تو اس لئے تیسرے حرف کو ساکن کر دیا گیا آگے یہی معاملہ آخر تک چلتا ہے البتہ اوپر پانچویں صیغہ میں جو ہمیں چار حرف متحرک نظر آ رہے ہیں وہ اس قاعدہ کے خلاف نہیں کیونکہ اصل میں وہ ضرَبَتْ + ا تھا یعنی تیسرا حرف ساکن تھا اب الف ما قبل فتح چاہتی ہے جس وجہ سے ت کو فتح دیا گیا ورنہ وہ حکما ساکن ہی ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
2-فعل کا زمانہ بدلنے کی وجہ سے صیغہ میں تبدیلی
اوپر ہم نے ضمیر کے بدلنے کی وجہ سے تبدیلی پڑھی ہے جس کے لئے ہر زمانے میں چودہ صیغے آتے ہیں اب پہلے چارٹ میں دئے گئے کالم کو مدنظر رکھتے ہوئے زمانے کی کے بدلنے کی وجہ سے صیغہ میں تبدیلی کو پڑھتے ہیں-ابھی صرف ماضی کو لیتے ہوئے اسکے اندر تبدیلیوں کو پڑھتے ہیں باقی اگلے اسباق میں پڑھیں گے
اوپر ماضی کے چارٹ کو ہم نے چار کالموں میں تقسیم کیا تھا یعنی ماضی میں مندرجہ ذیل چار زمانے ہو سکتے ہیں
1-ماضی مثبت معروف
اسکے صیغے اوپر بتائے گئے ہیں انکو بنیاد بناتے ہوئے باقیوں کو اس سے بنانے کا طریقہ پڑھیں گے

2-ماضی مثبت مجہول
ماضی مجہول کو ماضی معروف سے اس طرح بناتے ہیں کہ عین کلمہ کو کسرہ دیتے ہوئے ماقبل ہر متحرک حرف کو ضمہ دیتے ہیں

3-ماضی منفی معروف
ماضی منفی کو ماضی مثبت کے شروع میں ما لگا کر بناتے ہیں پس یہاں ماضی معروف کے شروع میں ما لگانے سے ماضی منفی معروف بن جائے گا

4-ماضی منفی مجہول
ماضی منفی کو ماضی مثبت کے شروع میں ما لگا کر بناتے ہیں پس یہاں ماضی مجہول کے شروع میں ما لگانے سے ماضی منفی مجہول بن جائے گا

پس اس وضاحت کے مطابق اب ہم اوپر دیئے گئے ماضی کے چار کالم والے چارٹ کو مکمل کرتے ہیں
sarf new chart 3.jpg
 
Top