السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟
آپﷺ نے فرمایا یہ کہ تو اللہ کے ساتھ شریک بنائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا
میں نے کہا پھر کون سا؟
فرمایا یہ کہ تو اپنے بچے کو قتل کرے اس ڈر سے کہ تیرے ساتھ کھائے گا
میں نے کہا پھر کون سا؟
فرمایا یہ کہ تو اپنے ہمسائے کی بیوی کے ساتھ باہم زنا کاری کرے (متفق علیہ)
حدیث مبارکہ کی رو سے شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ قتلِ ناحق اور زنا ہیں ۔۔۔اللہ تعالی فرماتے ہیں
وَالَّذينَ لا يَدعونَ مَعَ اللَّهِ إِل۔هًا ءاخَرَ وَلا يَقتُلونَ النَّفسَ الَّتى حَرَّمَ اللَّهُ إِلّا بِالحَقِّ وَلا يَزنونَ ۚ وَمَن يَفعَل ذٰلِكَ يَلقَ أَثامًا ﴿٦٨﴾
اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کردیا ہو وه بجز حق کے قتل نہیں کرتے، نہ وه زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرے وه اپنے اوپر سخت وبال ﻻئے گا (
68)
قتل ناحق اس وقت قباحت میں کئی گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے اگر کوئی شخص اپنے ہی بچے کو اس خوف سے قتل کر دے کہ وہ اس کے ساتھ کھائے گا ۔۔۔اور اللہ کے اس وعدے پر یقین نہ کرے
وَلا تَقتُلوا أَولـٰدَكُم خَشيَةَ إِملاقٍ ۖ نَحنُ نَرزُقُهُم وَإِيّاكُم ۚ إِنَّ قَتلَهُم كانَ خِطا كَبيرًا ﴿٣١﴾
اور مفلسی کے خوف سے اپنی اوﻻد کو نہ مار ڈالو، ان کو اور تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں۔ یقیناً ان کا قتل کرنا کبیره گناه ہے
(31)
اس قعلِ بد میں تین ذیلی گناہ پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے اس کی قباحت مزید بڑھ جاتی ہے
قتل ناحق
اپنے لخت جگر کا قتل اور قطع رحم
اللہ کے وعدے کی تکذیب اور اس پر بدظنی
زمانہ جاہلیت میں اس گناہ کی عملی صورت بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینا تھی ۔۔۔موجودہ دور ترقی یافتہ ہے ہر چیز اپنا پرانا لبادہ اتار کر ایک نئی شکل اختیار کر چکی ہے ۔۔۔۔اور بعض اوقات یہ نئی صورت اتنی زیادہ تبدیل ہو جاتی ہے کہ پہچان کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔۔۔زیرِ نظر گناہ بھی اپنی پرانی صورت تبدیل کر کے ایک نیا روپ دھار چکا ہے جسے آج ہم فیملی پلاننگ کے نام سے جانتے ہیں۔۔۔۔مقصد پرانا ‘ لیکن انداز بدل چکا ہے ۔۔۔۔دو بچے خوشحال گھرانہ ‘ بچے دو ہی اچھے‘ یہ اور اس جیسے کئی اور نعرے اور دعوے کیا ہمیں یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ”مفلسی کا خوف “ٰ ہے جو اس تصور کے پیچھے کار فرما ہے ۔۔۔۔اللہ کے رزاق ہونے پر یقین نہیں ۔۔۔یہ گمان کیے بیٹھے ہیں کہ دراصل اپنی اولاد کے منہ میں ہم خود ڈالتے ہیں ۔۔۔اور اپنی استطاعت کے مطابق ہی فیملی پلان کریں گے۔۔۔۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
وَكَأَيِّن مِن دابَّةٍ لا تَحمِلُ رِزقَهَا اللَّهُ يَرزُقُها وَإِيّاكُم ۚ وَهُوَ السَّميعُ العَليمُ ﴿٦٠﴾
اور بہت سے جانور ہیں جو اپنی روزی اٹھائے نہیں پھرتے، ان سب کو اور تمہیں بھی اللہ تعالیٰ ہی روزی دیتا ہے، وه بڑا ہی سننے جاننے واﻻ ہے (
60
وَما مِن دابَّةٍ فِى الأَرضِ إِلّا عَلَى اللَّهِ رِزقُها وَيَعلَمُ مُستَقَرَّها وَمُستَودَعَها ۚ كُلٌّ فى كتاب مُبينٍ ﴿٦﴾
زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ پر ہیں وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہےاور ان کے سونپے جانے کی جگہ کو بھی، سب کچھ واضح کتاب میں موجود ہے
. إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ ﴿الذاريات: ٥٨﴾
اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی واﻻ اور زور آور ہے (
58)
لَهُ مَقاليدُ السَّموٰتِ وَالأَرضِ ۖ يَبسُطُ الرِّزقَ لِمَن يَشاءُ وَيَقدِرُ ۚ إِنَّهُ بِكُلِّ شَىءٍ عَليمٌ ﴿١٢﴾
آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کی ہیں، جس کی چاہے روزی کشاده کردے اور تنگ کردے، یقیناً وه ہر چیز کو جاننے واﻻ ہے (
12)
وَجَعَلنا لَكُم فيها مَعـٰيِشَ وَمَن لَستُم لَهُ بِرٰزِقينَ ﴿٢٠﴾ وَإِن مِن شَىءٍ إِلّا عِندَنا خَزائِنُهُ وَما نُنَزِّلُهُ إِلّا بِقَدَرٍ مَعلومٍ ﴿٢١﴾
اور اسی میں ہم نے تمہاری روزیاں بنا دی ہیں اور جنہیں تم روزی دینے والے نہیں ہو (
20) اور جتنی بھی چیزیں ہیں ان سب کے خزانے ہمارے پاس ہیں، اور ہم ہر چیز کو اس کے مقرره انداز سے اتارتے ہیں (
21)
ان حقائق کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالی نے انسان کے ذمے جو کام ڈالا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے خزانوں سے وہ اپنا رزق تلاش کرنے کی سعی کرے ۔۔۔بالفاظ دیگررزق دینا اللہ کا کام ہے اور اسے ڈھونڈنا انسان کے ذمے۔۔۔
فَابتَغوا عِندَ اللَّهِ الرِّزقَ وَاعبُدوهُ وَاشكُروا لَهُ ۖ إِلَيهِ تُرجَعونَ﴿١٧﴾
پس تمہیں چاہئے کہ تم اللہ تعالیٰ ہی سے روزیاں طلب کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کی شکر گزاری کرو اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے (
17
اسی بنیاد پر قرآن متعدد مقامات پر ان لوگوں کو ملامت کرتا ہے جو رزق کی کمی کے خدشے سے اپنی اولاد پر زندگی کے دروازے بند کر دیتے ہیں ۔۔۔۔
وَلا تَقتُلوا أَولـٰدَكُم خَشيَةَ إِملاقٍ ۖ نَحنُ نَرزُقُهُم وَإِيّاكُم ۚ إِنَّ قَتلَهُم كانَ خِطا كَبيرًا ﴿٣١﴾
اور مفلسی کے خوف سے اپنی اوﻻد کو نہ مار ڈالو، ان کو اور تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں۔ یقیناً ان کا قتل کرنا کبیره گناه ہے
(31)
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے
تزوجوا الولود الودود فانی مکاثر بکم المم یوم القیامۃ (ابو داؤد النسائی)
محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے شادی کرو۔۔۔میں روز قیامت تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا