• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سب سے بڑا گناہ

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
سب سے بڑا گناہ

عَنْ ابن مسعود رضى الله عنه سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- أَىُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ قَالَ « أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ ». قَالَ قُلْتُ لَهُ إِنَّ ذَلِكَ لَعَظِيمٌ.
قَالَ قُلْتُ ثُمَّ أَىٌّ قَالَ « ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ مَخَافَةَ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ ». قَالَ قُلْتُ ثُمَّ أَىٌّ قَالَ « ثُمَّ أَنْ تُزَانِىَ حَلِيلَةَ جَارِكَ » [متفق علیه]

’’ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا:
’’کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ ‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ یہ کہ تو اللہ کے لئے شریک بنائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا۔ ‘‘ میں نے کہا: ’’ پھر کون سا؟‘‘ فرمایا: ’’ یہ کہ تو اپنے بچے کو قتل کرے اس ڈر سے کہ تیرے ساتھ کھائے گا۔‘‘ میں نے کہا : ’’پھر کون سا؟ فرمایا: ’یہ کہ تو اپنے ہمسائے کی بیوی کے ساتھ باہم بدکاری کرے۔ ‘‘
تخریج:
[ بخاری: 6861، مسلم:الايمان:142]
تشریح:
1۔ سب گناہوں سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا ہے۔ انسان کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ اپنے پیدا کرنے والے کے ساتھ ایسے لوگوں کو شریک اور برابر ٹھہرائے جنہوں نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا:
﴿َلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾[البقرة:22]
’’ پس تم دیدہ دانستہ اللہ کے لئے شریکم نہ بناؤ۔‘‘
یہ اللہ کی غیرت کو چیلنج ہے اور اتنا بڑا گنا ہ ہے کہ دوسرے گناہ اگر اللہ چاہے تو بخش دے مگر اسے ہرگز معاف نہیں کرے گا:
﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ﴾[النساء:4/116]
’’ یقینا اللہ تعالی اپنے ساتھ شریک کیے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔‘‘
اور یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ اگر انبیاء بھی اس کا ارتکاب کر بیٹھیں تو ان کے تمام اعمال برباد ہو جائیں :
﴿وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ [الزمر: 39/ 65]
’’ اور یقینا وحی کی گئی آپ کی طرف اور ان لوگوں کی طرف جو آپ سے پہلے تھے کہ اگر تو نے شرک کیا تو تیرا عمل ضرور ہی ضائع ہو جائے گا اور تو خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائے گا۔‘‘
2۔ شرک کے بعد قتل ناحق اور اس کے بعد زنا کبیرہ گناہ ہیں۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ﴾ [الفرقان: 25/ 68]
’’ اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ ہی اس جان کوقتل کرتے ہیں جسے اللہ تعالی نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں۔‘‘
قتل ناحق اس وقت قباحت میں کئی گناہ بڑھ جاتا ہے، جب کوئی شخص اپنے ہی بچے کو اس خطرے سے قتل کر دے کہ وہ اس کے ساتھ کھائے گا اور اللہ کے وعدے پر بھی یقین نہ کرے۔
﴿وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ﴾ [الإسراء: 17/ 31]
’’ اپنی اولاد کو فقیری کے ڈر سے قتل مت کرو ہم انہیں اور تمہیں رزق دیتے ہیں۔‘‘
ایک قتل ناحق، دوسرا اپنے لخت جگر کا قتل اور قطع رحم، تیسرا اللہ کے وعدے کی تکذیب اور اس پر بد ظنی۔
3۔زنا کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا ﴾[الإسراء: 17/ 32]
’’ اور زنا کے قریب نہ جاؤ یقینا وہ بے حیائی اور برا راستہ ہے۔‘‘
زنا کی قباحت اس وقت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے ، جب کوئی شخص اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے کیونکہ ہمسایہ کا حق تو یہ ہے کہ اس کے ساتھ احسان کیا جائے، اس کی جان ومال اور آبرو کی حفاظت کی جائے لیکن اس کے برعکس جب ہمسایہ ہی اپنے ہمسائے کی عزت برباد کر ے ، اس کی بیوی کو خاوند کے خلاف اپنی طرف مائل کرے، اس کا گھر اجاڑنے کے درپے ہو جائے تویہ زنا کے ساتھ کئی جرائم ملنے کی وجہ سے بہت بڑا گناہ بن جاتا ہے۔
4۔ أن تزانی۔ باب مفاعلہ سے ہے، اس میں مشارکت ہوتی ہے یعنی ہمسائے کی بیوی بھی اس گناہ میں شریک ہو، اس کی رضا مندی کے ساتھ برائی کرے گی تو خاوند سے اس کی وفا ختم ہو جائے گی جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کا گھر اجڑ جائے گا۔
5۔ حلیلۃ جارک ۔ ہمسائے کی بیوی کو حلیلۃ اس لیے کہتے ہیں کہ وہ اپنے خاوند کے لئے حلال ہوتی ہے، مقصد یہ احساس دلانا ہے کہ وہ اپنے خاوند کے لئے حلال ہے تمہارے لیے حلال نہیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ حافظ عمر بھائی جان۔ بہت ہی عمدہ مضمون ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سب کبیرہ گناہوں سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین یا رب العالمین۔
 
Top