• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سب سے بڑی دولت

شمولیت
اپریل 06، 2015
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
37
رب کریم کا یہ ہم پر بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان بنایا اور ایک مسلمان گھرانے میں پیدا کیا ،اس دنیا کی سب سے بڑی دولت یہ ہے کہ انسان خود کو ایمان والا بنا لے اور اللہ رب العالمین کو اپنا سب کچھ تسلیم کر لے،قیامت کے دن ایک ایسے انسان کو لایا جائے گا جس کے بارے میں جہنم کا فیصلہ ہو چکا ہوگا ،اس بندے سے اللہ کہے گا کہ اے بندے!اگر آج تیرے پاس زمین کے برابر سونا ہو اور تجھ سے یہ کہا جائے کہ یہ زمین کے برابر سونا ہمیں دے دے بدلے میں ہم تجھے جہنم سے نکال کر جنت کے اندر داخل کر دیں گے تو کیا تو دینے کے لئے تیار ہے؟ وہ بندہ کہے گا کہ : ہاں میں تیار ہوں،زمین کے برابر سونا مجھ سے لے لو،بدلے میں مجھے جنت دے دو، تو جواب میں اللہ کہے گا کہ: نہیں،آج کے دن ہمیں یہ سودا منظور نہیں ہےبلکہ تیرے لئے دردناک عذاب ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوگا؟کیوں اللہ اس بندے کے سامنے ایک آپشن رکھ کر اسے خود ہی نا قابل قبول قرار کر دیں گے؟ تو جواب یہ ہے کہ وہ ایسا انسان ہوگا جس نے دنیا کے اندر رب کا انکار کیا ہوگا ،اس پر ایمان نہ لایا ہوگا اور دنیا سے جاتے وقت وہ بندہ اللہ کے پاس ایمان کی دولت لے کر نہیں گیا تھا۔
معلوم یہ ہوا کہ ایمان اس دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے ،یہ دولت جس کے پاس ہوگی وہ آخرت میں کامیاب ہوگا اور جنت اسے ملے گی،بصورت دیگر بندہ ناکام و نامراد ہوگا اور بدلے میں اسے جہنم کے حوالے کر دیا جائے گا،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ صحابہ ء کرام کو شیطان سے بچانے کی فکر کیا کرتے تھےاور انہیں ہمہ وقت اس بات کی نصیحت کرتے تھے کہ اپنا ایمان باقی رکھو،اللہ کے ساتھ شرک نہ کرو،شیطان کی پیروی اور اطاعت سے خود کو بچاؤ اور ایک مرتبہ تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو بہت ساری باتوں کی نصیحت کی اور نصیحت کرتے ہوئےسب سے پہلی بات یہ ذکر کی ،فرمایا : لا تشرک باللہ شیئا وان قتلت و حرقت (مسند احمد : ج 36، ص 392 ، ح 22075 )
معاذ! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا چاہے تمہیں قتل کر دیا جائے یا جلا دیا جائے ۔
ایسا صرف اس لئے کیونکہ شرک سے بندے کا ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے،اللہ ناراض ہوتا ہے اور بنا توبہ کئے اگر شرک ہی پر بندے کا انتقال ہو جائے تو جنت اس پر حرام ہو جاتی ہے اور جہنم اس کا مقدر بن جاتا ہے،اللہ قرآن میں فرماتے ہیں: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ(المائدۃ: 73)
یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے اللہ تعالی نے اس پر جنت حرام کر دی ہے ،اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور گنہگاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔
قارئین کرام! اللہ کے فضل و کرم سے اگر آپ کے پاس ایمان کی دولت ہے تو آپ اس پر رب کا شکر ادا کریں اور اپنے ایمان کو ہر طرح کی غلاظت و گندگی سے بچانے کی فکر کرتے رہیں، اس زعم باطل میں ہر گز نہ رہیں کہ میرا ایمان بہت مضبوط ہے اور میں فلاں مسلک و جماعت کا ماننے والا ہوں لہذا شیطان کا زور مجھ پر نہیں چل سکتا اور میرے ایمان پر آنچ نہیں آ سکتی بلکہ اپنے ایمان کی سلامتی کے لئے مسلسل اللہ سے دعائیں مانگتے رہیں،دیکھیں نبی اکرم ﷺسے زیادہ ہدایت یافتہ اور مضبوط ایمان والا کوئی نہیں ہو سکتا ہے اس کے باوجود آپ ﷺ ہمیشہ اللہ سے ہدایت اور تقوی کا سوال کرتے تھے ،نبی اکرم کے تعلق سے حدیثیں بتلاتی ہیں کہ آپ کثرت سے اللہ سے ایک دعا مانگتے تھے ،وہ دعا یہ ہے : اللھم انی اسالک الھدی والتقی والعفاف والغنی (صحیح مسلم:2721)
اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت،تقوی،پاکدامنی اور بے نیازی کا سوال کرتا ہوں ۔
یہ ہے نبی اکرم ﷺ کی دعا اور اس کا معنی ،غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ایمان کے بالکل اعلی معیار پر ہونے کے با وجود نبی ﷺاللہ سے ہدایت کا سوال کر رہے ہیں،اس لئے کہ انسان کو شیطان کب،کہاں اور کس طریقے سے گمراہ کر دے اور اسے شرک جیسے خبیث گناہ میں ملوث کر دے یہ کوئی نہیں جانتا، اسی لئے اللہ نے قرآن مجید میں عقلمندوں کی ایک دعا کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ اللہ سے دعا مانگتے ہیں : رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (آل عمران : 8)
اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، یقینا تو ہی بہت بڑی عطا دینے والا ہے۔
ایمان کی تعریف:
ایمان لانے سے پہلے یا اس کے بعد مین ایک مومن کو ایمان کی تعریف بھی جان لینی چاہیے تاکہ وہ ایمان کے تقاضوں کو مکمل طور سے ادا کر سکے اور اس کے ایمان میں کھوٹ یا کمی باقی نہ رہ جائے، ایمان کی تعریف کرتے ہوئے علماء کرام نے لکھا ہے:
اقرار باللسان،تصدیق بالجنان،عمل بالارکان،یزید بطاعۃ الرحمن وینقص بطاعۃ الشیطان
زبان سے اقرار کرنا ،دل سے اس بات کی تصدیق کرنا ،اعضاء و جوارح کے ذریعے عمل کرنا،یہ اللہ کی اطاعت سے بڑھتا ہے اور شیطان کی اطاعت سے کم ہوتا ہے۔
گویا کہ ایمان زبان،دل اور اعضاء و جوارح کو مکمل اللہ کے حوالے کر دینے کا نام ہے، اگر کوئی شخص صرف زبان سے لا الہ الا اللہ کا کلمہ پڑھتا ہے مگر اس کا دل اس کی زبان کی تصدیق نہیں کرتا تو اسے مومن نہیں کہا جائے گا ،کوئی ایسا ہے جو دل سے تو مانتا ہے کہ اسلام سب سے اچھا اور پیارا مذہب ہے اور اس بات کا بھی عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ ہی پوری دنیا کو بنانے والا ہے اور وہی اکیلا عبادت کے لائق ہے لیکن زبان سے اس بات کا اقرار نہیں کرتا ہے تو ایسے شخص کا صرف دل سے تصدیق کرنا بھی اس کے مومن ہونے کے لئے کافی نہیں ہوگا، اسی طرح کوئی ایسا ہے جو زبان اور دل دونوں سےتو مانتا ہے کہ اللہ ایک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہےلیکن عمل کی دنیا میں وہ زبان اور دل کے خلاف جاتا ہے اور عمل کرتا ہی نہیں ہے تو ایسے شخص کا ایمان بھی خطرے میں ہےیہاں تک کہ وہ عمل کرنے لگے۔اور ایمان ایسی چیز ہے جس میں کمی و زیادتی ہوتی رہتی ہے، صاحب ایمان شخص جب اللہ کی اطاعت کرے گااور اس کی مرضی کے مطابق چلے گا تواس کے ایمان میں اضافہ ہوگا بصورت دیگر اس کے ایمان میں کمی واقع ہو جائے گی۔
ایمان کے ارکان
جس طریقے سے اسلام کے پانچ ارکان ہیں ایسے ہی مذہب اسلام نے ایمان کے بھی ارکان بتلائے ہیںجن پر مکمل طور سے ایمان رکھنا ہر شخص کے لئے ضروری ہے، ایمان کے چھ ارکان ہیں:
1- اللہ پر ایمان
2- اللہ کے فرشتوں پر ایمان
3- اللہ کی کتابوں پر ایمان
4- اللہ کے نبیوں اور رسولوں پر ایمان
5- قیامت کے دن پر ایمان
6- تقدیر کے خیر وشر پر ایمان
ایمان کے ان چھ ارکان پر مکمل ایمان لانا اور رکھنا ضروری ہے،اگر کوئی شخص ایمان کے ان چھ ارکان یا ان میں سے کسی ایک رکن کو بھی تسلیم نہیں کرتا ہے تو اس کا ایمان نا مکمل ہے بلکہ وہ مسلمان ہی نہیں ہے۔
ایمان کی فضیلت
ایمان کی تعریف اور اس کے ارکان کی جانکاری کے بعداب ہمارے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ایمان کی فضیلت کیا ہے اور ایمان لانے کے بعد صاحب ایمان کو کون کون سے فوائد حاصل ہوتے ہیں نیز شریعت نے ایمان کی کن فضیلتوں کو بیان کیا ہے،ذیل میں ایمان کی چند فضیلتوں اور ان کے دلائل کا تذکرہ کیا جا رہا ہے:
1- ایمان دنیوی و اخروی سعادت و ہدایت کا ذریعہ ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ
سو جس شخص کو اللہ تعالی راستے پر ڈالنا چاہے اس کے سینہ کو اسلام کے لئے کشادہ کردیتا ہے ۔ (الانعام: 125)
2- اللہ کے نزدیک سب سے بہترین عمل ایمان ہے۔
عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ العَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: إِيمَانٌ بِاللَّهِ، وَجِهَادٌ فِي سَبِيلِهِ۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا: اے اللہ کے رسول: کونسا عمل سب سے زیادہ افضل ہے؟ تو آپ ﷺ نے کہا: اللہ تعالی کی ذات پر ایمان رکھنا اور اس کے راستے میں جہاد کرنا۔ (بخاری: 2518)
3- ایمان کی موجودگی مومن کو گناہوں سے باز رکھتی ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ
یقینا جو لوگ تقوی والے ہیں جب ان کو کوئی خطرہ شیطان کی طرف سے آجاتا ہے تو وہ یاد میں لگ جاتے ہیں، سو اچانک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ (الاعراف: 201)
4- ایمان عمل کے قبولیت کی شرط ہے۔
اللہ عزوجل فرماتے ہیں : وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ
الْخَاسِرِينَ

یقینا آپ کی طرف بھی اور آپ سے پہلے ( کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر آپ نے شرک کیا تو بلا شبہ آپ کا عمل ضائع ہوجائے گا اور آپ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ (الزمر: 65)
محترم قارئین! آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ کا اللہ پر ایمان ہے ،آپ دنیا کی سب سے بڑی دولت کو حاصل کر کے سب سے بڑے مالدار بن گئے ہیں، بس ہمیشہ اپنے ایمان کی حفاظت کی فکر کرتے رہیں اور مسلسل اللہ سے خاتمہ بالخیر کی دعائیں مانگتے رہیں اس لئے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں کے ساتھ ساتھ انسان کے خاتمے پر بھی ہے کہ اس کا خاتمہ کس چیز پر ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے تمام ایمان والوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا: ولا تموتن الا وانتم مسلمون کہ تمہیں جب موت آئے تو یمان کی حالت میں آئے۔ اللہ کے پیارے نبی ورسول حضرت یوسف علیہ السلام اللہ سے دعا مانگتے ہیں: توفنی مسلما والحقنی بالصالحین کہ اے اللہ!مجھے مسلمان کی حالت میں وفات دے اور مجھے نیک لوگوں میں شامل فرمالے،اور اسی بات کی وصیت حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کو کی،فرمایا: یا بنی ان اللہ اصطفی لکم الدین فلا تموتن الا وانتم مسلمون کہ اے میرےبیٹو!اللہ نے تمہارے لئے دین کو چن لیا ہے لہذا خیال رکھو کہ تمہیں جب کبھی بھی موت آئے تو تم مسلمان بن کر اس دنیا سے جاؤ۔
اس لئے ایک صاحب ایمان کو ہمیشہ اپنے ایمان کے تعلق سے فکر مند ہونا چاہیے کہ شیطان کب ایمان پر ڈاکہ ڈال دے کسی کو نہیں معلوم ہے، اگر ایمان لانے کے بعد ایمان سالم ہی رہ جاتا تو کبھی انبیاء ایمان کی سلامتی کی دعا مانگتے اور نہ ہی اللہ ہمیں اس تعلق سے متنبہ کرتا۔آپ مومن ہیں تو اس عظیم نعمت پر اللہ کا شکر ادا کریں اور اپنے ایمان کو بچانے کی ہر ممکن تدبیر اختیار کریں تاکہ کل قیامت کے دن اس ایمان کا بدلہ جنت کی صورت میں آپ کے ہاتھ لگ جائے۔
اللہ ہم سبھی کو اپنے ایمان کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے،جب تک دنیا کے اندر زندہ رکھے اسلام اور ایمان پر زندہ رکھے،موت آئے تو اسلام اور ایمان پر آئے۔آمین
وصلی اللہ تعالی علی نبینا محمد وعلی آلہ واصحابہ اجمعین

حافظ خلیل الرحمن عبد الستار سنابلی
اسلامک انفارمیشن سینٹر،ممبئی
 
Top