مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
سجدہ تلاوت اوراس کے احکام ومسائل
مقبول احمد سلفی
اسلام میں سجدے کی بڑی اہمیت ہے ، عبادت میں اس کا خاص مقام ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ بندہ اس حالت میں رب کے لئے انتہائی عاجزی کا اظہار کررہاہوتا ہے ۔عبادت کی یہی وہ اہم کیفیت ہے جس سے بندہ اللہ سے بیحد قریب ہوتا ہے ، اس سے سرگوشی کرتا ہے اور خوب خوب دعائیں کرتا ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ، وَهُوَ سَاجِدٌ، فَأَكْثِرُوا الدُّعَاءَ(صحيح مسلم:482)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس حالت میں ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے، لہٰذا اس میں کثرت سے دعا کرو۔
اللہ کو یہ ادا بیحد پسند آتی ہے اور لوگوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا ہے ۔
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ (الحجر:98)
ترجمہ: آپ اپنے پروردگار کی تسبیح بیان کرتے رہیں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجائیں ۔
اللہ نے ابلیس کو آدم علیہ السلام کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیا تو انکار کرنے کی وجہ سے راندہ درگاہ ہوگیا۔اس لئے خالص ہوکر اللہ کے لئے سجدہ بجالائیں اور ہرگزہرگز کسی غیر اللہ کو سجدہ نہ کریں ۔
سجدے کے مقامات چودہ یا پندرہ؟
یہاں پر اس موضوع میں سجدہ سے مراد نماز کادوسجدہ نہیں بلکہ قرآن کریم کے پندرہ مقامات کی تلاوت پہ ایک سجدہ کرنا ہےجسے سجدہ تلاوت کہتے ہیں خواہ وہ مقام نماز کے دوران آئے یا بغیر نماز کے۔
احناف کی طرح شافعیہ کے نزدیک بھی چودے سجدے ہیں البتہ سورہ حج میں شافعیہ کے نزدیک دو سجدے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایک سجدہ ہے ۔
اہل الحدیث پندرہ سجدے مانتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ابوداؤد میں حدیث ہے ۔
عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْرَأَهُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَجْدَةً فِي الْقُرْآنِ، مِنْهَا ثَلَاثٌ فِي الْمُفَصَّلِ، وَفِي سُورَةِ الْحَجِّ سَجْدَتَانِ (سنن ابی داؤد: 1401)
ترجمہ: عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو قرآن مجید میں (۱۵) سجدے پڑھائے: ان میں سے تین مفصل میں اور دو سورۃ الحج میں ۔
اس حدیث کو امام نووی نے الخلاصہ میں حسن ، ابن الملقن نے تحفۃ المحتاج میں صحیح یا حسن ، ابن القیم نے اعلام الموقعین میں صحیح اور صاحب تحفۃ الاحوذی نے حسن کہا ہے۔
حنفی کے مشہور عالم علامہ بدرالدین عینی نے بخاری کی شرح عمدۃ القاری میں مندرجہ ذیل روایت کو نقل کرکے صحیح کہا ہے۔
عن عمرِو بنِ العاصِ أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أقرأَهُ خمسَ عشرةَ سجدةً في القرآنِ العظيمِ مِنْهَا ثلاثةٌ في المُفَصَّلِ(عمدة القاري:7/139 )
ترجمہ: عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو قرآن مجید میں (۱۵) سجدے پڑھائے: ان میں سے تین مفصل میں۔
گویا حنفی عالم سے پندرہ سجدوں کا ثبوت مل رہا ہے اور سورہ حج میں دو سجدے ہونے کا صحیح حدیث سے ثبوت ملتا ہے ۔
ان عقبة بن عامر حدثه ، قال : قلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم : افي سورة الحج سجدتان ؟ قال : " نعم ، ومن لم يسجدهما فلا يقراهما ".
ترجمہ: عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا سورۃ الحج میں دو سجدے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں اور جو یہ دونوں سجدے نہ کرے وہ انہیں نہ پڑھے۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے حسن کہا ہے ۔( صحيح أبي داود: 1402)
ابن ابی شیبہ نے مصنف میں ابواسحاق السبیعی کا قول نقل کیا ہے : أدركت الناس منذ سبعين سنة يسجدون في الحج سجدتين(المصنف: کتاب الصلاۃ ، فی الحج سجدتان)
ترجمہ: میں نے ستر سال سے لوگوں کو سورہ حج میں دوسجدے ہی کرتے پایا ہے۔
یہ قول حنفی تالیف اوجزالمسالک الی موطا مالک میں بھی موجود ہے جس پر کوئی کلام نہیں کیا ہے۔
سجدہ تلاوت کے پندرہ مقامات وآیات :
1- إن الذين عند ربك لا يستكبرون عن عبادته ويسبحونه وله يسجدون(الأعراف/206 )
ترجمہ:یقینا جو آپ کے رب کے نزدیک ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اس کوسجدہ کرتے ہیں.
2-ولله يسجد من في السماوات والأرض طوعاً وكرهاً وظلالهم بالغدو والآصال (الرعد:15).
ترجمہ: اللہ ہی کے لیے زمین اور آسمان کی سب مخلوق خوشی اور ناخوشی سے سجدہ کرتی ہے اورصبح وشام ان کے سائے بھی ۔
3-ولله يسجد ما في السماوات وما في الأرض من دابة والملائكة وهم لا يستكبرون (النحل:49).
ترجمہ: یقینا آسمان وزمین کے کل جاندار اور تمام فرشتے اللہ تعالی کے سامنے سجدہ کرتے ہیں اور ذرا بھی تکبر نہیں کرتے۔
4-قل آمنوا به أو لا تؤمنوا إن الذين أوتوا العلم من قبله إذا يتلى عليهم يخرون للأذقان سجدا(الإسراء:107 ) .
ترجمہ: کہہ دیجۓ ! تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ ، جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان کے پاس تو جب بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کےبل سحدہ میں گرپڑتے ہیں۔
5- إذ تتلى عليهم آيات الرحمن خروا سجداً وبكياً( مريم:58 ) .
ترجمہ: ان کے سامنے جب اللہ رحمان کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی تھی تویہ سجدہ کرتے روتے گڑگڑاتے گرپڑتے تھے۔
6- ألم تر أن الله يسجد له من في السماوات ومن في الأرض والشمس والقمر والنجوم والجبال والشجر والدواب وكثير من الناس وكثير حق عليه العذاب ومن يهن الله فما له من مكرم إن الله يفعل ما يشاء(الحج:18 ) .
ترجمہ: کیا تو دیکھ نہیں رہا کہ سب آسمان والے اور زمین والے ، اور سورج چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانوراوربہت سے انسان بھی اللہ کے سامنے سجدہ کرتے ہیں ہاں بہت سے وہ بھی ہیں جن پر عذاب کا مقولہ ثابت ہوچکا ہے ، جسے اللہ تعالی ذلیل کرے اسے کوئ بھی عزت دینے والا نہیں ، یقینا اللہ تعالی جو چاہتا کرتا ہے۔
7-يا أيها الذين آمنوا اركعوا واسجدوا واعبدوا ربكم وافعلوا الخير لعلكم تفلحون (الحج:77 )
ترجمہ: اے ایمان والو ! رکوع و سجدہ کرتے رہو اور اپنے رب کی عبادت میں لگے رہو اور نیک کام کرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
8-وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُورًا( الفرقان:60) .
ترجمہ:اور جب بھی ان سے رحمن کوسجدہ کرنے کا کہا جاتا ہے تو جواب دیتے ہیں رحمن کیا ہے ؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کا تو ہمیں حکم دے رہا ہے اور اس ( تبلیغ )نے ان کی نفرت میں مزید اضافہ کردیا۔
9- ألا يسجدوا لله الذي يخرج الخبء في السماوات والأرض ويعلم ما تخفون وما تعلنون (النمل:25 ) .
ترجمہ: کہ اسی اللہ تعالی کے لیے سجدے کریں جو آسمانوں اور زمینوں کی پوشیدہ چیزوں کو نکالتا ہے ، اور جو کچھ تم چھپاتے اورظاہرکرتے ہو وہ سب جانتا ہے۔
10- إنما يؤمن بآياتنا الذين إذا ذكروا بها خروا سجداً وسبحوا بحمد ربهم وهم لا يستكبرون(السجدة:15) .
ترجمہ: ہماری آیتوں پر وہی ایمان لاتے ہیں جنہیں جب کبھی اس کی نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح پڑھتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔
11- وظن داود أنما فتناه فاستغفر ربه وخر راكعاً وأناب(ص:24) .
ترجمہ:اور داود علیہ السلام سمجھ گۓ کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے ، پھر تو وہ اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی کرتے ہوۓ گرپڑے اور پوری طرح رجوع کیا۔
12-ومن آياته الليل والنهار والشمس والقمر لا تسجدوا للشمس ولا للقمر واسجدوا لله الذي خلقهن إن كنتم إياه تعبدون(فصلت:37) .
ترجمہ: اور دن رات اور سورج چاند بھی اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ہیں ، تم سورج کو سجدہ نہ کرو اور نہ ہی چاند کو بلکہ اللہ تعالی کوسجدہ کرو جس نے ان سب کوپیدا فرمایا ہے ، اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔
13-فاسجدوا لله واعبدوا(النجم:63) .
ترجمہ:تو اللہ ہی کو سجدہ کرو اور اس کی ہی عبادت کرو۔
14-وإذا قرء عليهم القرآن لا يسجدون(الانشقاق:21 ) .
ترجمہ:اور جب ان پر قرآن پڑھا جات ہے تو وہ سجدہ نہیں کرتے۔
15- كلا لا تطعه واسجد واقترب(العلق:19 ) .
ترجمہ: خبردار ! اس کا کہنا ہرگز نہ ماننا اور سجدہ کراور قریب ہوجا۔
(فقہ السنہ)
ان جگہوں کی تلاوت کرتے وقت سجدہ کرنا مشروع ہےخواہ تلاوت نمازمیں ہو یا نماز سے باہر ۔ نبی ﷺ جب سجدہ کی ان آیات سے گزرتے تو سجدہ کرتے ۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ:أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، فَيَقْرَأُ سُورَةً فِيهَا سَجْدَةٌ، فَيَسْجُدُ وَنَسْجُدُ مَعَهُ، حَتَّى مَا يَجِدُ بَعْضُنَا مَوْضِعًا لِمَكَانِ جَبْهَتِهِ(صحيح مسلم:575)
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی کہ نبی کریم ﷺ قرآن مجید کی تلاوت فرمایا کرتےتھے ۔ آپ اس سورت کی تلاوت فرماتے جس میں سجدہ ہوتا اور سجدہ کرتے تو ہم (سب)بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے ، حتی کہ ہم میں سے بعض کو پیشانی رکھنے کے لیے بھی جگہ نہ ملتی تھی ۔
سجدہ تلاوت کا حکم :
سجدہ تلاوت کے مقامات پر سے جب گزر ہو تو سجدہ کرنا سنت ہے واجب نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
قرأَ يومَ الجمعةِ على المنبرِ بسورةِ النحلِ ، حتى إذا جاءَ السجدة نزل فسَجَدَ ، وسَجَدَ الناسُ ، حتى إذا كانت الجمعةُ القابلةُ ، قرأَ بها ، حتى إذا جاءَ السجدةُ ، قال : يا أيُّها الناسُ ، إنا نَمُرُّ بالسجودِ ، فمَن سَجَدَ فقد أصابَ ، ومَن لم يَسْجُدْ فلا إثمَ عليه . ولم يَسْجُدْ عمرُ رضي اللهُ عنه . وزادَ نافعٌ ، عن ابنِ عمرَ رضي الله عنهما : إن اللهَ لم يَفْرِضْ السجودَ إلا أن نشاءَ .(صحيح البخاري:1077)
ترجمہ: انہوں نے جمعہ کے دن منبر پر سورہ نحل تلاوت فرمائی۔ جب آیت سجدہ پر پہنچے تو منبر سے نیچے اترے اور سجدہ کیا اور لوگوں نے بھی آپ کے ہمراہ سجدہ تلاوت کیا۔ جب آئندہ جمعہ آیا تو آپ نے منبر پر پھر اسی سورت کی تلاوت فرمائی۔ جب آیت سجدہ پر پہنچے تو فرمایا: لوگو! ہم آیت سجدہ پڑھ رہے ہیں، جس نے اس پر سجدہ کیا اس نے ٹھیک اور درست کام کیا اور جس نے سجدہ نہ کیا اس پر کوئی گناہ نہیں، تاہم حضرت عمر ؓ نے سجدہ نہ کیا۔ حضرت نافع نے ابن عمر ؓ کے واسطے سے حضرت عمر ؓ سے ان الفاظ کا اضافہ نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سجدہ تلاوت ہم پر فرض نہیں کیا ہے، ہاں! اگر ہم چاہیں تو کر سکتے ہیں۔
صحیحین میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:
قرأتُ على النبيِّ صلى الله عليه وسلم : والنجم . فلم يَسْجُدْ فيها(صحيح البخاري:1073، صحیح مسلم:577)
ترجمہ: میں نے ایک دفعہ نبی ﷺ کے حضور سورہ نجم تلاوت کی تھی تو آپ نے اس میں سجدہ نہیں کیا تھا۔
سنت ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اسے چھوڑ دیا جائے بلکہ اس پہ ہمیشگی برتنا چاہئے اور کوئی امر مانع نہ ہو سجدہ والی آیت پہ فورا سجدہ کرنا چاہئے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إذا قرأ ابنُ آدمَ السجدةَ فسجد ، اعتزل الشيطانُ يبكي . يقول : يا وَيْلَهْ ( وفي رواية أبي كريب يا وَيْلي ) . أُمِرَ ابنُ آدمَ بالسجود فسجد فله الجنَّةُ . وأُمِرتُ بالسجود فأَبَيْتُ فلي النارُ . وفي رواية : فعَصَيتُ فلي النَّارُ(صحيح مسلم:81)
ترجمہ: جب ابن آدم سجدے کی آیت تلاوت کر کے سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتے ہوئے وہاں سے ہٹ جاتا ہے ، وہ کہتا ہے : ہائے اس کی ہلاکت !(اور ابوکریب کی روایت میں ہے ، ہائے میری ہلاکت!) ابن آدم کو سجدے کا حکم ملا تو اس نے سجدہ کیا ، اس پر اسے جنت مل گئی اور مجھے سجدے کا حکم ملا تو میں نے انکار کیا ،سو میرے لیے آگ ہے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے: عليك بكثرةِ السجودِ للهِ, فإنك لا تسجدُ للهِ سجدةً إلا رفعَك اللهُ بها درجةً وحطَّ عنك بها خطيئةً(صحيح مسلم:488)
ترجمہ: تم اللہ کے حضور کثرت سے سجدے کیا کرو کیونکہ تم اللہ کے لیے جو بھی سجدہ کرو گے اللہ اس کے نتیجے میں تمہارا درجہ ضرور بلند کرے گا اور تمہارا کوئی گناہ معاف کر دے گا۔
سجدہ تلاوت کرنے کا طریقہ :
سجدہ تلاوت نمازہی کی طرح سات اعضاء پر کرنا ہے مگر اس میں نماز کی طرح شرائط نہیں ہیں۔سجدہ تلاوت کے لئے طہارت شرط نہیں ہے ، باوضو ہو تو اچھی بات ہےاور ممکن ہوتوافضل ہے قبلہ رخ ہوجائے تاہم بغیر قبلہ رخ کیا گیا سجدہ بھی ادا ہوجائے گا۔ سجدہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدہ میں جائے اور سجدے کی دعائیں کرے۔ مثلا "سبحان ربي الأعلى" اور"سبحانك اللهم ربنا وبحمدك، اللهم اغفر لي"۔سجدہ تلاوت کی دعابھی کافی ہے تاہم سجدوں کی دعاؤں کے ساتھ دیگر مسنون دعائیں بھی کرسکتے ہیں۔ سجدہ میں دعا کرنے کے بعد بغیر تکبیر کے سر اٹھالے، بس ایک ہی سجدہ کرے ۔ سجدہ کے لئے نہ تو یہ ضروری ہے کہ بغیر وضو والا ضروری طور پر وضو کرے اور نہ ہی سجدہ کے لئے کھڑے ہوکر تکبیر تحریمہ کہنا یا سجدہ سے اٹھتے وقت تکبیر کہنا یا سجدہ کرکے سلام پھیرنا ثابت ہے۔
تلاوت کی دعائیں :
پہلی دعا:
عن عائشةَ رضيَ اللَّهُ عنْها قالَت : كانَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ يقولُ في سجودِ القرآنِ باللَّيلِ يقولُ في السَّجدةِ مرارًا سجدَ وجْهي للَّذي خلقَهُ وشقَّ سمعَهُ وبصرَهُ بحولِهِ وقوَّتِهِ(صحيح أبي داود:1414)
ترجمہ: ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو سجدہ قرآن میں یہ دعا تکرار سے پڑھا کرتے تھے (سجد وجهي للذي خلقه وشق سمعه وبصره بحوله وقوته)میرا چہرہ اس ذات کے لیے سجدہ ریز ہے جس نے اس کو پیدا کیا اور اپنی طاقت اور قوت سے اس کے کان اور آنکھ بنائے ۔
ابوداؤد، ترمذی، سنن دارقطنی، سنن نسائی، مسند امام احمد، مصنف ابن ابی شیبہ میں یہ دعا بطور سجدہ تلاوت وارد ہے ان مقامات میں "فتبارك الله أحسن الخالقين" کے الفاظ نہیں ہیں البتہ مستدرک حاکم میں یہ روایت تین جگہوں پر ہے ایک جگہ ان الفاظ بھی زیادتی ہے ۔ اس روایت کو حاکم نے شیخین کی شرط پہ صحیح کہاہے ۔ الفاظ کی زیادتی مسلم میں بھی بطور عام سجدہ کی دعا وارد ہے روایت آگے آرہی ہےاور یہ سورہ مومنون آیت نمبر چودہ کا حصہ بھی ہے۔
دوسری دعا:
ایک شخص خواب میں ایک درخت کے پیچھے نماز میں سجدہ کرتے ہوئے اس درخت کو یہ کہتے سنا اور رسول اللہ ﷺ سے وہ آواز بیان کیا جو یہ ہے۔
اللهم اكتُبْ لِي بها عندَك أَجْرًا، وضَعْ عني بها وِزْرًا، واجعلْها لي عندك ذُخْرًا، وتَقَبَّلْها مِنِّي كما تَقَبَّلْتَها من عبدِكَ دَاوُدَ(صحيح الترمذي:579)
ترجمہ: اے اللہ! اس کے بدلے تو میرے لیے اجر لکھ دے، اور اس کے بدلے میرا بوجھ مجھ سے ہٹادے، اور اسے میرے لیے اپنے پاس ذخیرہ بنالے،اور اسے مجھ سے تو اسی طرح قبول فرماجیسے تونے اپنے بندے داود سے قبول کیاتھا۔
ترمذی کی روایت میں آگے مذکور ہے۔ حسن بن محمدبن عبیداللہ بن أبی یزید کہتے ہیں: مجھ سے ابن جریج نے کہا کہ مجھ سے تمہارے دادا نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہاکہ نبی اکرمﷺ نے آیت سجدے کی تلاوت کی اور سجدہ کیا، ابن عباس کہتے ہیں: تو میں نے آپ کو ویسے ہی کہتے سنا جیسے اس شخص نے اس درخت کے الفاظ بیان کئے تھے۔
تیسری عام دعا:
صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ نبی ﷺ جب سجدہ کرتے توکہتے : اللهمَّ ! لك سجدتُ . وبك آمنتُ . ولك أسلمتُ . سجد وجهي للذي خلقَه وصوَّره ، وشقَّ سمعَه وبصرَه . تبارك اللهُ أحسنُ الخالقِين(صحیح مسلم:771)
ترجمہ:اے اللہ!میں نے تیرے ہی حضور سجدہ کیااور تجھ ہی پر ایمان لایا اور ا پنے آپ کو تیرے ہی حوالے کیا،میرا چہرہ اس ذات کے سامنے سجدہ ریز ہے جس نےاسے پیدا کیا،اس کی صورت گری کی اور اس کے کان اور اس کی آنکھیں تراشیں،برکت والاہے اللہ جو بہترین خالق ہے ۔
سنن دارقطنی اور صحیح ابن حبان وغیرہ میں رسول اللہ ﷺ سے یہ دعا فرض نمازمیں کرنے کی بابت منقول ہےجبکہ دوسری احادیث سے رات کی نفل نماز کے سلسلے میں بھی وارد ہے ۔ چونکہ سجدہ تلاوت میں سجدہ سے متعلق ساری دعائیں کرسکتے بلکہ دیگر ماثورہ دعائیں بھی کرسکتے ہیں اس دعا کو بھی سجدہ تلاوت میں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سجدہ تلاوت کے مزید چند احکام :
٭نماز میں سجدہ تلاوت کرتے وقت امام تکبیر کہتے ہوئے سجدہ کرے گا اور مقتدی کو الزامی طور پر امام کے ساتھ سجدہ کرنا ہوگا پھر تکبیر کہتے ہوئے کھڑا ہوگا، سجدہ سے اٹھتے وقت تکبیر نماز کے ساتھ خاص ہے،بغیر نماز والے سجدہ میں اٹھتے وقت تکبیر نہیں ہے۔
٭ بہتر یہ ہے کہ امام سری نماز میں لوگوں میں تشویش ہونے کی باعث سجدہ تلاوت نہ کرے البتہ منفرد کے لئے کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
٭ قاری کے علاوہ سامع پر بھی سجدہ تلاوت مسنون ہے یعنی نے جس نے قاری کو آیت سجدہ تلاوت کرتے سنا اس کو سجدہ کرنا چاہئے جیساکہ نبی ﷺ جب کوئی سجدہ کی آیت تلاوت کرتے تو سجدہ کرتے اور آپ کے ساتھ موجود صحابہ بھی سجدہ کرتے۔
٭ کوئی گاڑی چلاتے ہوئے ٹیپ رکارڈسے تلاوت کی آیت سنے تو ممکن ہو تو سجدہ کرلے ورنہ چھوڑ بھی سکتا ہے کیونکہ واجب نہیں ہے ، عدم وجوب کی دلیل اوپر گزری ہے۔ ٹرین، جانورکی سواری اور جہاز وغیرہ پر سفر کرتے وقت آیت سجدہ پڑھنے یا سننے یا لاؤڈسپیکرسے آیت سجدہ سننے کا بھی یہی حکم ہے۔ سواری پہ سجدہ نہ کرسکنے کی صورت میں ہاتھ کے اشارے کے ساتھ تھوڑا سا جھک جائے اور دعا پڑھ لےیہ بھی کافی ہے۔
٭سجدہ تلاوت کرتے وقت کوئی اونچی چیز نہ ملے توقرآن پاک فرش پہ رکھ سکتے ہیں ، کوئی موجود ہو تو اس کو تھمادے اور اگر ریحل ، ٹیبل یا طاق وصندوق وغیرہ ہوتواس پر رکھ دے یا خود اپنے ہاتھ میں تھام کر بھی سجدہ کرسکتا ہےاس حال میں کہ ہاتھ زمین پر ہو۔
٭ دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ حائضہ بھی قرآن پڑھ سکتی ہے وہ اگر سجدہ تلاوت سے گزرے تو شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے کہا ہےکہ حیضاء اور نفساء کے سجدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
٭ عورت سجدہ کرے تو سر ڈھانپنا ضروری نہیں ہے تاہم بہتر ہے اور بعض اہل علم نے ضروری قرار دیا ہے مگر اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
٭جب قاری یا حفظ کرنے والا بار بار سجدہ والی آیت پڑھے تو ایک بار سجدہ کرنا کافی ہےاور چھوڑ دینے میں گناہ نہیں ہےکیونکہ واجب نہیں ہے۔
٭جس طرح اسباب والی نمازیں مکروہ اوقات میں بھی ادا کرسکتے ہیں اسی طرح سجدہ تلاوت بھی کرسکتے ہیں خواہ سورج ڈوب رہاہو یا نکل رہاہو۔
٭کوئی تلاوت کرے اور تھوڑی دیر بعد سجدہ کرے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن آیت سجدہ کی تلاوت پہ طویل وقت گزر جائے اور سجدہ نہیں تھا تو اب سجدہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
٭ قرآن کریم میں سورہ حج کے آخر میں باہری صفحہ پر"السجدة عند الشافعي" (یعنی امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک یہاں سجدہ تلاوت ہے) لکھا ہوتا ہے ۔ یہ فقہی مسلک کے اعتبار لکھا ہوا ہے کہ اسے امام شافعی یہاں سجدہ مانتے ہیں جبکہ امام ابوحنیفہ نہیں مانتے ۔ میں نے اوپر حدیث کا حوالہ دیا ہے کہ سورہ حج میں دو سجدے ہیں اس لئے حدیث رسول کے بعد کسی چیز کی ضرورت نہیں رہتی یعنی ہمیں اس بات کو محمد ﷺ کی جانب نسبت کرنے کی ضرورت ہے۔
سجدہ تلاوت کے متعلق رائج چند غلط طریقے :
1/ بعض لوگ سجدہ کے لئے کھڑے ہوتے ہیں ، زبان سے نیت بھی کرتے ہیں اورسجدہ سے اٹھتے ہوئے تکبیر کہتے ہیں سو ان کاموں کی کوئی دلیل نہیں ہےاس لئے ایسا نہیں کرنا چاہئے، سجدہ کرنے کا طریقہ اوپر بیان ہوا ہے اس کےمطابق کریں ۔
2/بعض لوگوں میں یہ طریقہ رائج ہےکہ مکمل قرآن ختم کرکے اکٹھے سارے سجدے کرتے ہیں بطور خاص تراویح پڑھانے والے آخر رمضان میں ختم قرآن کے دن ساری سجدہ والی آیتیں اکٹھے پڑھ کر اکٹھے سجدہ کرتے ہیں ۔ یہ دین میں نئی ایجاد ہے ۔ اسی طرح بعض لوگ تلاوت مکمل کرکے سجدے کرتے ہیں یہ بھی غلط ہے۔
3/ تلاوت کرتے ہوئے سجدہ والی آیت کو چھوڑ دینا اور آگے تلاوت کرنا جائز نہیں ہے جیساکہ بعض حفاظ کرتے ہیں ،بھلے سجدہ نہ کرے مگر آیت سجدہ کی تلاوت ترک نہ کرے ۔
4/بعض لوگ سجدہ کی جگہ بجائے سجدہ کرنے کےبعض قسم کے اذکار کرتے ہیں مثلا "سمعنا وأطعنا غفرانك ربنا وإليك المصير" یا "سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر" یا چار دفعہ"لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير" یہ بھی دین میں نئی ایجاد ہے ، ذکرسجدہ کا بدل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اسلاف میں سے کسی نے ایسا کیا ہے ۔ مختصر یہ ہے کہ ایسی کوئی دعا نہیں ہے جو سجدہ تلاوت سے مستغنی کردے۔
5/ بعض لوگ سور ج ڈوبتے اور نکلتے وقت سجدہ تلاوت نہیں کرتے ایسے لوگ اس معاملہ میں خطا پر ہیں ، صحیح بات یہی ہے کہ ایسے وقتوں میں سجدہ کرسکتے ہیں ۔
6/احناف کےیہاں لکھا ہے کہ کلاس میں جتنے طالب علم سجدہ کی آیت پڑھے استاد کو اتنی دفعہ واجبی طور پرسجدہ کرنا ہوگا۔ یہ تکلیف مالا یطاق ہے۔ اولا سجدہ تلاوت واجب ہے ہی نہیں ،ثانیا ایسی حالت میں ایک بار سجدہ کافی ہے۔
7/ قرآن خوانی میں ایک شخص دوسرے کی طرف سے سجدہ کرتا ہے۔ معلوم رہے قرآن خوانی کامروجہ طریقہ شریعت کے خلاف ہے اور یہ بھی خلاف سنت ہے کہ کوئی دوسرے کی جانب سے سجدہ تلاوت کرے۔
Last edited by a moderator: