• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سجدہ سہو کا مسئلہ

غرباء

رکن
شمولیت
جولائی 11، 2019
پیغامات
86
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
46
مسئلہ سجدہ سہو کا

************

✍ الشيخ محمد صالح العثيمين
ترجمہ: عبد الرحمن فیض اللہ، (الوجہ دعوہ سنٹر)

سوال: کیا سجدہ سہو کبھی سلام سے پہلے اور کبھی سلام کے بعد؟ اور سجدہ سہو کرنے کا کیا طریقہ ہے؟

جواب: دو مقام پر سجدہ سہو سلام سے پہلے ہوتا ہے:

(۱) نمبر ایک: نماز میں کوئی نقص (کمی) واقع ہو جانے پر،
مثلا: پہلا تشہد بھول جانے پر، رکوع میں "سبحان ربي الاعلی" اور سجدہ میں "سبحان ربي العظیم" بھول جانے پر اسی طرح رکوع سے اٹھتے ہوئے "سمع اللہ لمن حمدہ" بھول جانے پر، یہ اور اس جیسے دوسرے واجبات کے چھوٹ جانے پر سلام سے پہلے سجدہ سہو کرنا واجب ہے، اس لئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا تشہد بھول جانے پر سلام سے پہلے سجدہ سہو کیا تھا جیسا کہ بخاری اور مسلم کی حدیث وارد ہے.

(۲) نمبر دو: جب رکعت کی تعداد بھول جائے اور پتہ نہ ہو کہ کتنی رکعت پڑھا یعنی مشکوک رکعتوں میں ترجیح کی صورت نہ بن پائے تو کم کو بنیاد بنا کے اپنی نماز مکمل کرے، یعنی اگر شک ہو جائے کہ تین رکعت پڑھا ہے یا چار اور دونوں میں سے کسی پر دل مطمئن نہ ہو تو تین مان کر چوتھی رکعت مکمل کرے اور سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے، کیونکہ صحیح مسلم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اگر تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہو جائے اور معلوم نہ ہو کہ تین رکعت پڑھی ہے یا چار تو شک سے کنارہ کشی اختیار کرے اور یقین (تین) کو بنیاد بنا کے اپنی نماز مکمل کرے اور سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے.


دو مقام پر سجدہ سہو سلام کے بعد ہوتا ہے:
نمبـــــر ایک: نماز میں کوئی زیادتی واقع ہونے پر، مثلا بھول کر ایک رکعت میں دو رکوع یا تین سجدے کر لے یا بھول کر نماز مکمل ہونے سے پہلے سلام پھیر دے پھر نماز مکمل کرے وغیرہ جیسی غلطیوں پر سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا واجب ہے، کیونکہ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھول کر ظہر یا عصر کی نماز پانچ رکعت پڑھ لی تو صحابہ کے یاد دلانے پر آپ سجدہ نے (سلام کے بعد) سجدہ سہو کیا اور پھر دوبارہ سلام پھیرا، اسی طرح ایک بار آپ نے بھول کر ظہر یا عصر کی نماز میں دو رکعت کے بعد ہی سلام پھیر دیا جب صحابہ نے بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی دو رکعت نماز پڑھ کے سلام پھیر دیا پھر سجدہ سہو کیا اور دوبارہ سلام پھیرا.

نمبـــــر دو: جب نماز کی رکعتوں میں شک ہو جائے لیکن نمازی اس پوزیشن میں ہو کہ کسی ایک عدد کو ترجیح دے سکے، (یعنی کسی ایک پر اس کا دل مطمئن ہو) تو راجح عدد کو بنیاد بنائے اور نماز مکمل کرے، پھر سلام کے بعد سجدہ سہو کرے اور دوبارہ سلام پھیر دے.
یعنی اگر کسی کو نماز میں شک ہو جائے کہ تین رکعت پڑھی ہے یا چار لیکن تین رکعت پر دل مطمئن ہو تو چوتھی رکعت پڑھے اور سلام پھیرنے کے بعد سجدہ سہو کرے، اور دوبارہ سلام پھیر دے. اسی طرح اگر دو اور تین رکعت میں شک ہو جائے اور تین رکعت پر دل مطمئن ہو تو چوتھی رکعت پڑھ کے سلام پھیر دے پھر سجدہ سہو کرے اور دوبارہ سلام پھیر دے، کیونکہ بخاری مسلم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جب تم میں سے کوئی نماز کے اندر شک میں پڑ جائے تو اسے چاہئے کہ صحیح تعداد معلوم کرنے کی کوشش کرے اور اسی کے مطابق اپنی نماز مکمل کرے اور سلام کے بعد سجدہ سہو کرے.

نوٹ: سلام سے پہلے سجدہ سہو کرنا ہو تو التحیات، درود اور درود کے بعد کی دعا سے فارغ ہو کر دو سجدہ کریں اور بلا کچھ پڑھے فوراً سلام پھیر دے، اور سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا ہو تو صرف دو سجدہ کر کے سلام پھیر دیں پہلے اور بعد میں کچھ پڑھنے کی ضرورت نہیں.
 
Last edited by a moderator:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
سجدہ سہو کے اسباب کا بیان


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوال :

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سجدہ سہو کن اسباب کی وجہ سے کیا جاتا ہے؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز میں سجدہ سہو کے عموماً درج ذیل تین اسباب ہیں:

(۱) نماز میں اضافہ کا صدورہوجانا۔

(۲) یا نمازکمی کا وقوع ہو جانا

(۳) یانمازی کاشک میں مبتلا ہو جانا

اضافے کی مثال یہ ہے کہ انسان نماز میں رکوع یا سجدہ یا قیام یا قعدہ کا اضافہ کر دے۔ اور کمی کی مثال یہ ہے کہ نماز کے کسی رکن کو کم کر دے یا واجبات میں کسی واجب کی ادائیگی میں نقص واقع ہوجائے۔ اور شک کی مثال یہ ہے کہ نمازی اس شک میں مبتلا ہو جائے آیا اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار؟ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر نماز میں رکوع یا سجدہ یا قیام یا قعدہ کا اضافہ کر دے تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی کیونکہ اس نے نماز کو اس طرح ادا نہیں کیا جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

«مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ اَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ)) صحيح مسلم، الاقضية باب نقض الاحکام الباطلة ح:۱۷۱۸، ۱۸۔

’’جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا امر نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘

اگر بھول کر اضافہ ہو جائے تو اس سے نماز باطل نہیں ہوگی، البتہ سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا ہوگا اس کی دلیل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ظہر یا عصر کی نماز میںـ ایک بار دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا تھا اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی ماندہ نماز پڑھائی، پھر سلام پھیر ااور سلام پھیرنے کے بعد دوسجدے کیے۔ صحیح البخاری، الصلاۃ، باب تشبیک الاصابع فی المسجد وغیرہ، حدیث: ۴۸۲۔

اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ ایک بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی پانچ رکعتیں پڑھا دیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو عرض کیا گیا: کیا نماز میں اضافہ کر دیا گیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ کیسے؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعتیں پڑھائی ہیں، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں پاؤں کو موڑا، قبلہ کی طرف رخ کیا اور دو سجدے کیے۔ صحیح البخاری، الصلاۃ، باب باب ماجاء فی القبلۃ ومن لم یر الاعادۃ… حدیث: ۴۰۴۔

اگر کمی کا تعلق نماز کے ارکان میں سے کسی رکن سے ہو تو اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:

(۱) اسے یہ بات دوسری رکعت میں اس مقام پر پہنچنے سے پہلے یاد آئے تو اس صورت میں لازم ہوگا کہ وہ اس رکن کو ادا کرنے کے بعد باقی نماز کو ادا کرے۔

(۲) اگر اسے یہ بات دوسری رکعت میں اس مقام پر پہنچنے کے وقت یاد آئے تو یہ رکعت اس رکعت کے قائم مقام ہوگی جس میں اس نے رکن کو ترک کر دیا تھا اور اس دوسری رکعت کے بدلے میں اور رکعت پڑھنی چاہیے اور ان دونوں حالتوں میں اسے سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا چاہیے۔

پہلی صورت اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص پہلی رکعت میں پہلے سجدہ کے بعد ہی اٹھ کھڑا ہو اور نہ بیٹھا ہو نہ اس نے دوسرا سجدہ کیا ہو اب جب اس نے قراء ت شروع کی تو اسے یاد آیا کہ اس نے سجدہ نہیں کیا ہے اور نہ وہ دو سجدوں کے درمیان بیٹھا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ لوٹ کر دو سجدوں کے درمیان بیٹھے، پھر سجدہ کرے اور پھر کھڑے ہو کر باقی نماز ادا کرے اور سلام کے بعد سجدئہ سہو کرے۔

دوسری صورت کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص پہلی رکعت میں پہلا سجدہ کرنے کے بعد اٹھ کھڑا ہو اور اس نے دوسرا سجدہ نہ کیا ہو اور نہ وہ دونوں سجدوں کے درمیان میں بیٹھا ہو اس کے بعد پھر اسے یہ بات اس وقت یاد آئی ہو۔ جب وہ دوسری رکعت میں دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھا ہو، اس حال میں اس کی یہ دوسری رکعت پہلی رکعت ہوگی اور اسے ایک رکعت اور پڑھنا ہوگی اور پھر سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا ہوگا۔

جب کسی واجب میں کمی رہ جائے اور وہ اس کی جگہ دوسری جگہ منتقل ہو جائے، مثلاً: وہ سجدہ میں ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی‘‘ پڑھنا بھول گیا اور سجدے سے سر اٹھانے کے بعد اسے یاد آیا کہ اس نے اسے نہیں پڑھا۔ اس نے بھول کر واجبات نماز میں سے ایک واجب کو ترک کر دیا ہے، تو اسے نماز کو جاری رکھنا چاہیے اور سلام سے قبل سجدہ سہو کر لینا چاہیے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد اول کو بھول گئے تھے تو آپ نے نماز کو جاری رکھا تھا، واپس نہیں آئے تھے اور آپ نے سلام سے پہلے سجدہ سہو کر لیا تھا۔

شک کی صورت یہ ہوتی ہے کہ آدمی کو کمی اور بیشی میں تردد ہوتا ہے، مثلاً: یہ کہ اسے تردد ہو کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار، تو اس کی دو حالتیں ہو سکتی ہیں:

(۱) کمی یا بیشی میں سے کوئی ایک صورت اس کے نزدیک راجح ہو تو جو صورت راجح ہو اسے اختیار کرکے نماز پوری کر لے اور سلام کے بعد سجدہ سہو کر لے اور اگر کوئی ایک صورت راجح نہ ہو تو پھر یقین پر انحصار کرے اور وہ کم تعداد ہے، اس کے بعد باقی نماز کو پورا کرنے کے بعد سلام سے پہلے سجدہ سہو کر لے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص ظہر کی نماز پڑھ رہا تھا کہ وہ اس شک میں مبتلا ہوگیا کہ وہ تیسری رکعت پڑھ رہا ہے یا چوتھی؟ اسے یہ بات راجح معلوم ہوئی کہ یہ اس کی تیسری رکعت ہے، اس صورت میں وہ ایک رکعت اور پڑھ کر سلام پھیر دے اور پھر سجدہ سہو کر لے۔

دونوں صورتوں میں برابری کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص کو نماز ظہر ادا کرتے ہوئے یہ شک ہوا کہ یہ اس کی تیسری رکعت ہے یا چوتھی اور اس کے نزدیک یہ بات راجح نہ تھی کہ یہ تیسری رکعت ہے اور نہ ہی یہ بات راجح تھی کہ یہ چوتھی رکعت ہے تو اس صورت میں اسے یقین پر انحصار کرنا ہوگا اور ظاہر ہے کہ وہ کم تعداد ہے، لہٰذا وہ اسے تیسری رکعت قرار دے، پھر ایک رکعت اور پڑھے اور سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ سجدہ سہو قبل از سلام اس وقت ہوگا، جب نمازی واجبات نماز میں سے کسی واجب کو ترک کر دے یا نماز کی رکعات کی تعداد میں اسے شک ہو جائے اور کوئی ایک پہلو اس کے نزدیک راجح نہ ہو۔ اور جب نماز میں اضافہ ہو جائے یا شک کی صورت میں کوئی ایک پہلو اس کے نزدیک راجح ہو تو پھر سجدہ سہو بعد از سلام ہوگا۔

وباللہ التوفیق


فتاویٰ ارکان اسلام
نمازکےمسائل:صفحہ293
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
سجدہ سہو کے طریقے

غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سجدہ سہو (نماز میں بھول چوک کے سجدے )کے تین طریقے ثابت ہیں :
پہلا طریقہ :
نمازی نماز مکمل کرے ، پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کر لے ، پھر نماز کا سلام پھیر دے ۔
١٭ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن بحینہ الاسدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ِ ظہر میں (بھول کر)درمیانی تشہد پڑھے بغیر کھڑے ہو گئے ، جب نماز پوری کر لی تو:
سجد سجدتین یکبّر فی کلّ سجدۃ وہو جالس قبل أن یّسلّم وسجدہما النّاس معہ مکان ما نسی من الجلوس ۔
”(اس بھولے ہوئے تشہد کے بدلے میں )آپ نے بیٹھے بیٹھے سلام سے پہلے دو سجدے کر لیے ، لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا ۔”(صحیح بخاری : ١/١٦٤، ح : ١٢٣٠، صحیح مسلم : ١/٢١١، ح : ٥٨٠)
٢٭ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک پڑ جائے کہ اس نے تین رکعتیں ادا کی ہیں یا چا ر تو اسے چاہیے کہ شک ختم کر ے ، یقین پر بنیاد ڈالے ثمّ یسجد سجدتین قبل أن یسلّم ۔(پھر سلام سے پہلے دو سجدے کرلے )، اگر اس نے (بھول کر )پانچ رکعتیں پڑھ لیں ، وہ (ان دو سجدوں کی وجہ سے)اس کی نماز کو جفت کر دیں گی ، اگر چار پوری کرنے کے لیے (ایک رکعت)پڑھی ہے ، وہ دونوں (سجدے )شیطان کی تذلیل کے لیے ہیں ۔ (صحیح مسلم : ١/٢١١، ح : ٥٧١)
امام مکحول شامی تابعی اور امامِ اہلِ سنت زہری فرماتے ہیں :
سجدتان قبل أن یسلّم ۔ ”سلام سے پہلے دو سجدے ہیں ۔”(مصنف ابن ابی شیبہ : ٢/٣٠ ، وسندہ، حسن)

دوسرا طریقہ :
٭سلام کے بعد دو سجدے کرے ، پھر سلام پھیرے ، جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ، ابراہیم (راویئ حدیث )کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے (بھول کر نماز میں )کمی کی یا زیادتی کی ، جب آپ نے سلام پھیرا تو عرض کیا گیا ، اے اللہ کے رسول ! کیا نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم آگیا ہے ، آپ نے فرمایا ، وہ کیا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا ، آپ نے ایسے ایسے نماز ادا فرمائی ہے ، اس پر آپ نے اپنے پاؤں مبارک کو دوہرا کیا ، قبلہ کی طرف رخِ انور فرمایا ، وسجد سجدتین، ثمّ سلّم ۔ ”اور دو سجدے کیے ، پھر سلام پھیرا ” جب ہماری طرف متوجہ ہوئے تو فرمایا ، اگر نماز میں کوئی نیا حکم آتا تو میں تمہیں آگاہ کرتا ، لیکن میں بشر ہوں ، جیسے تم بھول جاتے ہو ، اسی طرح میں بھی بھول جاتا ہوں ، جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد کروا دیا کرو ، جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک پڑ جائے تو درستی کے لیے سوچ بچار کرے اور اسی پراپنی نماز پوری کر لے ، ثمّ یسلّم ، ثمّ یسجد سجدتین۔ ”پھر سلام پھیرے ، پھر دو سجدے کرے ۔”(صحیح بخاری : ١/٥٨، ح : ٦٠١)
٭٭سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھائی ، تین رکعات کے بعد سلام پھیر دیا ، پھر اپنے گھر تشریف لے گئے ، خرباق نامی آدمی کھڑاہوا ، جس کے ہاتھ قدرے لمبے تھے ، اس نے کہا ، اے اللہ کے پیغمبر ! اس نے آپ کا یہ فعل مبارک ذکر کیا ، آپ غصے میں چادر گھسیٹتے ہوئے آئے اور فرمایا ، کیا یہ سچ کہتا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا ، جی ہاں ! اس پر آپ نے ایک رکعت پڑھی ، پھر سلام پھیرا ، ثمّ سجد سجدتین ، ثمّ سلّم ۔ ” ُپھر دو سجدے کیے ، پھر سلام پھیرا ۔” (صحیح مسلم : ١/٢١٤، ح : ٥٧٤)

٭٭٭سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے سجدہئ سہو کے بارے میں فرمایا :
یسلّم ، ثمّ یسجد ، ثمّ یسلّم ۔ ”سلام پھیرے ، پھر سجدہ کرے ، پھر سلام پھیرے ۔” (شرح معانی الآثار للطحاوی : ١/٤٤٢، وسندہ، حسن)

تیسرا طریقہ :
نماز مکمل کرے ، سلام کے بعد دو سجدے کر ے ، پھر تشہد پڑھے ، پھر سلام پھیرے ، جیسا کہ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
انّ النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم صلّٰی بھم ، فسہا ، فسجد سجدتین ، ثمّ تشہّد ، ثمّ سلّم ۔
”نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نماز پڑھائی ، آپ بھول گئے ، (سلام پھیرنے کے بعد )دو سجدے کیے ، پھر تشہد بیٹھے ، پھر سلام پھیرا ۔”(سنن ابی داو،د : ١٠٣٩، سنن ترمذی : ٣٩٥، وسندہ، صحیح)
اس حدیث کو امام ترمذی نے ” حسن غریب صحیح ” امام ابنِ خزیمہ(١٠٦٢) نے ”صحیح ” اور امام ابنِ حبان (٢٦٧٠، ٦٧٢ ٢ ) ، امام حاکم (١/٣٢٣)نے بخاری و مسلم کی شرط پر ”صحیح ” کہا ہے ، حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ۔
ثمّ تشہّد کے الفاظ محمد بن سیرین کے شاگردوں میں سے صرف اشعث بن عبدالملک الحرانی نے بیان کئے ہیں اور وہ ”ثقہ ” ہے ، لہٰذا یہ زیادت محفوظ ہے ،باقی رہا ابنِ سیرین کا یہ کہنا کہ لم أسمع فی التّشہّد وأحبّ الیّ أن یتشہّد ۔ ”میں نے تشہد کے بارے میں (کچھ )نہیں سنا ، تشہد بیٹھنا ہی مجھے محبوب ہے ۔”(سنن ابی داؤد : ١٠١٠) تو یہ اس روایت کے لیے موجبِ ضعف نہیں ، یہ ”نَسِیَ بعد ما حدّث ” کی قبیل سے ہے ،لہٰذا اما م ابن المنذر (الاوسط : ٣/٣١٧)، امام بیہقی(٢/٣٥٥) ، امام ابن عبدالبر(التمہید : ١٠/٢٠٩) وغیرہ کا ثم تشہد کے الفاظ کو خطاء اور غیر ثابت کہنا صحیح نہیں ۔
فائدہ نمبر ١: حدیث ابنِ مسعود (مسند الامام احمد : ١/٤٢٨۔٤٢٩،سنن ابی داؤد: ١٠٢٨، السنن الکبرٰی للنسائی : ٦٠٥، السنن الکبرٰی للبیہقی : ٢/٣٥٥۔٣٥٦)مرسل ہونے کی وجہ سے ”ضعیف” ہے ، ابو عبیدہ کا اپنے باپ سے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ،حافظ ابنِ حجر لکھتے ہیں : والرّاجح أنّہ لا یصحّ سماعہ من أبیہ ”راجح یہ ہے کہ اس (ابو عبیدہ )کا اپنے والد سے سماع صحیح ثابت نہیں ۔”(التقریب : ٨٢٣١)

نیز فرماتے ہیں : فانّہ عند الأکثر لم یسمع من أبیہ ۔
”اکثر (محدثین )کے نزدیک ابو عبیدہ کا اپنے باپ سے سماع نہیں ۔”(موافقۃ الخبر الخبر لابن حجر : ١/٣٦٤)
امام ابن المنذر فرماتے ہیں : الخبر غیر ثابت ۔”یہ روایت ثابت نہیں ہے ۔”(الاوسط : ٣/٣١٧)
امام بیہقی فرماتے ہیں : وہذا غیر قویّ ومختلف فی رفعہ ومتنہ ۔(السنن الکبرٰی للبیہقی : ٢/٣٥٦)
فائدہ نمبر ٢: حدیث مغیرۃ بن شعبہ (السنن الکبرٰی للبیہقی : ٢/٣٥٥)کی سند ”ضعیف ” ہے ، اس میں محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ جمہور کے نزدیک ”ضعیف ” اور ”سیئ الحفظ ” ہے ،اس کے بارے میں حافظ ابنِ کثیر فرماتے ہیں : سیّیئ الحفظ ، لا یحتجّ بہ عند أکثرہم ۔(تحفۃ الطالب لابن کثیر : ٣٤٥)
حافظ بیہقی لکھتے ہیں : وہٰذا ینفرد بہ ابن أبی لیلیٰ ہٰذا ، ولا حجّۃ فیما ینفرد بہ لسوء حفظہ وکثرۃ خطئہ فی الرّوایات۔(معرفۃ السنن والآثار للبیہقی : ٣/٢٨٢)
امام ابنِ سیرین (سنن ابی داؤد : ١٠١٠، وسندہ، صحیح)،امام شافعی (الام : ١/١٣٠)،اما م احمد بن حنبل (مسائل احمد لابی داؤد : ٥٣)،اما م ابراہیم نخعی (مصنف ابن ابی شیبہ : ١/٣١، وسندہ، صحیح)، حکم بن عتیبہ اور امام حماد بن ابی سلیمان (مصنف ابن ابی شیبۃ)​
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
رکوع میں "سبحان ربي الاعلی" اور سجدہ میں "سبحان ربي العظیم" بھول جانے پر اسی طرح رکوع سے اٹھتے ہوئے "سمع اللہ لمن حمدہ" بھول جانے پر، یہ اور اس جیسے دوسرے واجبات کے چھوٹ جانے پر
ملون فقروں کے بھول جانے پر سجدہ سہو لازم ہونے پر دلیل درکار ہے۔

دو مقام پر سجدہ سہو سلام کے بعد ہوتا ہے:
نمبـــــر ایک: نماز میں کوئی زیادتی واقع ہونے پر، مثلا بھول کر ایک رکعت میں دو رکوع یا تین سجدے کر لے یا بھول کر نماز مکمل ہونے سے پہلے سلام پھیر دے پھر نماز مکمل کرے وغیرہ جیسی غلطیوں پر سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا واجب ہے، کیونکہ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھول کر ظہر یا عصر کی نماز پانچ رکعت پڑھ لی تو صحابہ کے یاد دلانے پر آپ سجدہ نے (سلام کے بعد) سجدہ سہو کیا اور پھر دوبارہ سلام پھیرا، اسی طرح ایک بار آپ نے بھول کر ظہر یا عصر کی نماز میں دو رکعت کے بعد ہی سلام پھیر دیا جب صحابہ نے بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی دو رکعت نماز پڑھ کے سلام پھیر دیا پھر سجدہ سہو کیا اور دوبارہ سلام پھیرا.
جواب: دو مقام پر سجدہ سہو سلام سے پہلے ہوتا ہے:

(۱) نمبر ایک: نماز میں کوئی نقص (کمی) واقع ہو جانے پر،
ملون فقروں کو بغور پڑھین ان میں تضاد لگتا ہے۔ وضاحت فرما دیں؟
چار کی بجائے دو رکعت پڑھنا کمی ہے یا زیادتی؟
 

غرباء

رکن
شمولیت
جولائی 11، 2019
پیغامات
86
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
46
اسحاق سلفی صاحب نے سجدہ سہو کے بارے میں مکمل رہنمائی فرما دی ہے الحمدللہ تو آپ میری پوسٹ کو نظر انداز کرکے ان کی پوسٹ سے فائدہ اٹھائے جزاک اللہ خیر
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
اگر کمی کا تعلق نماز کے ارکان میں سے کسی رکن سے ہو تو اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:

(۱) اسے یہ بات دوسری رکعت میں اس مقام پر پہنچنے سے پہلے یاد آئے تو اس صورت میں لازم ہوگا کہ وہ اس رکن کو ادا کرنے کے بعد باقی نماز کو ادا کرے۔

(۲) اگر اسے یہ بات دوسری رکعت میں اس مقام پر پہنچنے کے وقت یاد آئے تو یہ رکعت اس رکعت کے قائم مقام ہوگی جس میں اس نے رکن کو ترک کر دیا تھا اور اس دوسری رکعت کے بدلے میں اور رکعت پڑھنی چاہیے اور ان دونوں حالتوں میں اسے سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا چاہیے۔

پہلی صورت اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص پہلی رکعت میں پہلے سجدہ کے بعد ہی اٹھ کھڑا ہو اور نہ بیٹھا ہو نہ اس نے دوسرا سجدہ کیا ہو اب جب اس نے قراء ت شروع کی تو اسے یاد آیا کہ اس نے سجدہ نہیں کیا ہے اور نہ وہ دو سجدوں کے درمیان بیٹھا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ لوٹ کر دو سجدوں کے درمیان بیٹھے، پھر سجدہ کرے اور پھر کھڑے ہو کر باقی نماز ادا کرے اور سلام کے بعد سجدئہ سہو کرے۔
اس پر کوئی نص ہے یا کسی نص پر قیاس کیا گیا ہے؟
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
جب کسی واجب میں کمی رہ جائے اور وہ اس کی جگہ دوسری جگہ منتقل ہو جائے، مثلاً: وہ سجدہ میں ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی‘‘ پڑھنا بھول گیا اور سجدے سے سر اٹھانے کے بعد اسے یاد آیا کہ اس نے اسے نہیں پڑھا۔ اس نے بھول کر واجبات نماز میں سے ایک واجب کو ترک کر دیا ہے، تو اسے نماز کو جاری رکھنا چاہیے اور سلام سے قبل سجدہ سہو کر لینا چاہیے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد اول کو بھول گئے تھے تو آپ نے نماز کو جاری رکھا تھا، واپس نہیں آئے تھے اور آپ نے سلام سے پہلے سجدہ سہو کر لیا تھا۔
کیا رکوع و سجود میں تسبیحات پڑھنا واجب ہیں؟
فرض واجب سنت مستحب وغیرہ کی اصطلاحات کس بنا پر استعمال کی جاتی ہیں؟
کیا ان سب کے احکام ایک جیسے ہیں یا مختلف؟
قرآن و حدیث سے واضح فرما دیجئے۔
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
دونوں صورتوں میں برابری کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص کو نماز ظہر ادا کرتے ہوئے یہ شک ہوا کہ یہ اس کی تیسری رکعت ہے یا چوتھی اور اس کے نزدیک یہ بات راجح نہ تھی کہ یہ تیسری رکعت ہے اور نہ ہی یہ بات راجح تھی کہ یہ چوتھی رکعت ہے تو اس صورت میں اسے یقین پر انحصار کرنا ہوگا اور ظاہر ہے کہ وہ کم تعداد ہے، لہٰذا وہ اسے تیسری رکعت قرار دے، پھر ایک رکعت اور پڑھے اور سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے۔
چار رکعت والی نماز میں کسی کو پہلی رکعت ہے یا دوسری میں شک ہو گیا۔
اب بقیہ نماز کیسے پڑھے؟
قرآن و حدیث کی روشنی میں مکمل طریقہ بتا دیجئے۔
 
Top