• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سحری کے وقت کا اختتام

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
سحری کے وقت کا اختتام

تحریر: حافظ عبدالرحمن المعلمي


مسلمانوں کا اتفاقی اور متواتر عمل ہے کہ دن کا آغاز طلوعِ فجر سے ہو جاتا ہے اور یہی سحری کے اختتام کا وقت ہے۔

حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (٤٦٣هـ) فرماتے ہیں :

والنَّهارُ الَّذِي يَجِبُ صِيامُهُ مِن طُلُوعِ الفَجْرِ إلى غُرُوبِ الشَّمْسِ عَلى هَذا إجْماعُ عُلَماءِ المُسْلِمِينَ.

’جس نہار کا روزہ واجب ہے وہ طلوع فجر سے غروب شمس تک ہے اور اس پر مسلمان علماء کا اجماع ہے۔‘‘ (التمهيد : ١٠/ ٦٢)

اسی طرح حافظ ابن القطان رحمہ اللہ (٦٢٨هـ) فرماتے ہیں :

اتفق العلماء على أن الليل من لدن غروب الشمس إلى طلوع الفجر المعترض في الأفق إلا من لا يعد خلافه.

’’علماء کا اتفاق ہے کہ رات غروب شمس سے اُفق میں ظاہر ہونے والی طلوع فجر تک ہوتی ہے، سوائے اس کے قول کے کہ جس کی مخالفت کا کوئی اعتبار نہیں۔‘‘ (الإقناع : ١٢٧٩)

امام ابو جعفر طحاوی رحمہ اللہ (٣٢١هـ) اس مسئلے میں مروی حدیثِ حذیفہ پر کلام کرتے ہوئے طلوعِ فجر پر سحری کے اختتام کی احادیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :

فَلا يَجِبُ تَرْكُ آيَةٍ مِن كِتابِ اللهِ تَعالى نَصًّا، وأحادِيثَ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ مُتَواتِرَةً قَدْ قَبِلَتْها الأُمَّةُ، وعَمِلَتْ بِها مِن لَدُنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ إلى اليَوْمِ قَدْ يَجُوزُ أنْ يَكُونَ مَنسُوخًا بِما ذَكَرْناهُ فِي هَذا البابِ.

’قرآن مجید کی کسی نصا آیت، پوری امت کی قبول کردہ متواتر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور سے آج تک امت کے ہاں معمول احادیث کو کسی ایسی حدیث کے لیے چھوڑنا واجب نہیں کہ جو ہو سکتا ہے ہماری اس باب میں ذکر کردہ احادیث کے ساتھ منسوخ ہو۔‘‘ (شرح معاني الآثار : ٢/ ٥٤)

طحاوی رحمہ اللہ کی اس عبارت سے دو باتیں معلوم ہوئیں؛

  1. طلوعِ فجر پر سحری کا اختتام ہو جاتا ہے اور اس پر دلیل قرآن مجید کی نص، متواتر و معمول بھا احادیث اور امت مسلمہ کا اجماعی عمل ہے۔
  2. صریح نصِ قرانی، متواتر احادیث اور اجماعی عمل کو کسی محتمل روایت کی بنیاد پر رد نہیں کیا جاسکتا ۔

علامہ ابو بکر الجصاص رحمہ اللہ (٣٧٠هـ) فرماتے ہیں :

لَا خِلافَ بَيْنَ المُسْلِمِينَ أنَّ الفَجْرَ الأبْيَضَ المُعْتَرِضَ في الأُفُقِ قَبْلَ ظُهُورِ الحُمْرَةِ يَحْرُمُ بِهِ الطَّعامُ والشَّرابُ عَلى الصّائِمِ.

’’مسلمانوں کے مابین اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں کہ سرخی ظاہر ہونے سے پہلے اُفق پر چوڑائی میں سفید فجر کے ساتھ ہی روزے دار پر کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے۔‘‘
(أحكام القرآن : ١/ ٢٨٥)

اس اجماع پر قرآن و سنت سے کئی دلائل ہیں :

دلیل نمبر 1:

قرآن مجید میں اللہ تعالی نے روزے کا وقت ذکر کیا ہے کہ طلوعِ فجر پر سحری کے وقت کا اختتام ہو جاتا ہے، فرمایا :

﴿وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ﴾.
’’فجر کے وقت جب تک سفید دھاری کالی دھاری سے واضح طور پر نمایاں نہ ہوجائے تم کھا پی سکتے ہو۔‘‘
(البقرہ : 187)

اس کی تفسیر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی واضح حدیث ہے کہ سحری کا وقت طلوعِ فجر کے وقت ختم ہو جاتا ہے، دن کے روشن ہونے کا انتظار نہیں کریں گے، بلکہ سحری کا وقت اُس اندھیرے میں ہی ختم ہو جاتا ہے جس میں آسمان کی روشنی تلے اگر دو دھاگے سفید اور سیاہ ساتھ رکھ جائیں تو ان میں فرق بھی نہ ہو سکے۔

جیسا کہ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ﴿حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمْ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ﴾۔ تو میں نے ایک سیاہ دھاگہ لیا اور ایک سفید اور دنوں کو تکیہ کے نیچے رکھ لیا اور رات میں دیکھتا رہا مجھ پر ان کے رنگ الگ الگ نہ ہوئے، جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے تو رات کی تاریکی ( صبح کاذب ) اور دن کی سفیدی ( صبح صادق ) مراد ہے۔ (صحیح بخاری : 1916، صحیح مسلم : 1090)

اگر سحری کا وقت دن کی واضح روشنی تک ہوتا ہے تو عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کا عمل درست ہونا چاہیے تھا جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں منع کر دیا ۔

دلیل نمبر 2 :

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سحری کا اختتام آذان فجر کو قرار دیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو مؤذن مقرر کیے تھے، ایک رات کے وقت میں آذان دیتے اور دوسرے طلوعِ فجر کے وقت فجر کی آذان دیتے، جیسا کہ حدیث میں ہے :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال تو رات کے وقت میں اذان دیتے ہیں۔ اس لیے تم لوگ کھاتے پیتے رہو۔ یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔ راوی نے کہا کہ وہ نابینا تھے اور اس وقت تک اذان نہیں دیتے تھے جب تک ان سے کہا نہ جاتا کہ صبح ہو گئی۔ صبح ہو گئی۔ (صحیح بخاری : 617، صحیح مسلم : 1092)

ایک دوسری حدیث میں ہے، سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہیں سحری کھانے سے بلال کی اذان باز نہ رکھے اور نہ ہی لمبی فجر باز رکھے، ہاں وہ فجر باز رکھے جو کناروں میں پھیلتی ہے۔ (سنن الترمذی : 706، صحیح مسلم : 1094)

اس کی وضاحت ایک حدیث میں آ گئی جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب تک ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان نہ دیں تم کھاتے پیتے رہو کیوں کہ وہ صبح صادق کے طلوع سے پہلے اذان نہیں دیتے۔ قاسم نے بیان کیا کہ دونوں ( بلال اور ام مکتوم رضی اللہ عنہما ) کی اذان کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہوتا تھا کہ ایک چڑھتے تو دوسرے اترتے۔ (صحیح بخاری : 1918)

یہ حدیث بھی بالکل واضح ہے کہ صبحِ صادق کے وقت آذان فجر ہوتی تھی اور یہ سحری کا اختتام ہے ۔

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں نماز فجر پورے اندھیرے میں ادا کی جاتی تھی ۔

جیسا کہ حدیث میں ہے :
صبح کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم اندھیرے میں پڑھتے تھے۔ (صحیح بخاری : 560)

ایک دوسری حدیث میں ہے :
فجر کی نماز آپ نے ایک بار اندھیرے میں پڑھی اور ایک دفعہ پڑھی تو روشن کر دی مگر اس کے بعد آپ کی نماز اندھیرے ہی میں ہوا کرتی تھی حتیٰ کہ آپ کی وفات ہو گئی اور کبھی روشنی میں نہ ادا کی ۔ (سنن ابی داود : 394)

اس کے علاوہ بھی کئی دلائل ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نماز فجر اندھیرے میں ادا کیا کرتے تھے جیسا کہ اہل حدیث کا عمل ہے ۔

اب اس حساب سے دیکھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں آذان فجر ہوتی تھی، اس پر سحری کا اختتام ہوتا اور اس کے بعد نماز فجر کی ادائیگی ہوتی۔ اور فجر کا آغاز اندھیرے میں ہوتا تھا، اس سے بھی ثابت ہوا کہ سحری کا وقت اندھیرے میں ختم ہو جاتا ہے۔

حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

فِي هَذا دَلِيلٌ عَلى أنَّ السُّحُورَ لا يَكُونُ إلّا قَبْلَ الفَجْرِ لِقَوْلِهِ إنَّ بِلالًا يُنادِي بِلَيْلٍ ثُمَّ مَنَعَهُمْ مِن ذَلِكَ عِنْدَ أذانِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ وهُوَ إجْماعٌ لَمْ يُخالِفْ فِيهِ إلّا الأعْمَشَ فَشَذَّ ولَمْ يُعَرِّج.

’یہ دلیل ہے کہ سحری طلوعِ فجر سے پہلے ہو گی، کیوں کہ آپ نے فرمایا : بلال رات کو آذان دیتے ہیں، پھر آپ نے انہیں ابن ام مکتوم کی آذان کے وقت (کھانے پینے سے) روک دیا، اس پر اجماع ہے۔ صرف امام اعمش رحمہ اللہ نے شاذ رائے اختیار کرتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے، لیکن ان کا قول یہاں معتمد نہیں۔‘‘ (التمهيد : ١٠/ ٦٢)

حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٧٦هـ) حدیثِ عدی کے متعلق فرماتے ہیں :

دليل على أن ما بعد الفجر هو من النهار لا من الليل ، ولا فاصل بينهما وهذا مذهبنا ، وبه قال جماهير العلماء ، وحكي فيه شيء عن الأعمش وغيره لعله لا يصح عنهم .

’’یہ دلیل ہے کہ طلوعِ فجر کے بعد کا وقت رات کا حصہ نہیں بلکہ دن ہے، اور ان کے مابین فاصل نہیں، جیسا کہ ہمارا (شوافع کا) اور جمہور علماء کا موقف ہے، البتہ امام اعمش وغیرہ سے اس کے متعلق کچھ مروی ہے، ہو سکتا ہے وہ ان سے صحیح ثابت نہ ہو۔‘‘
(شرح صحیح مسلم)

کتاب و سنت اور اہل اسلام کے اجماع سے یہ بات ثابت کی جا چکی ہے کہ سحری کا اختتام طلوعِ فجر کے ساتھ ہی ہو جاتا ہے اور اس کے بعد روزہ دار کے لئے کھانا پینا جائز و درست نہیں ہے۔

بعض روایات و آثار سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ روزہ رکھنے والا شخص اذانِ فجر کے بعد بھی کھا پی سکتا ہے۔

ہم ان شاء اللہ تعالیٰ اختصار کے ساتھ ان روایات و آثار کی حقیقت واضح کریں گے۔

1) اس سلسلہ میں مرفوع ایک ہی روایت پیش کی جاتی ہے۔

زر بن حبيش کہتے ہیں میں نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: تَسَحَّرْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟
کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کی ہے ؟ انہوں نے فرمایا:جی ہاں

میں نے پوچھا: کیا آدمی اس وقت تیر کے گرنے کی جگہ دیکھ سکتا تھا ؟


سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نَعَمْ، هُوَ النَّهَارُ إِلَّا أَنَّ الشَّمْسَ لَمْ تَطْلُعْ.
جی ہاں، وہ دن کا وقت ہوتا تھا مگر سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔


أخرجه الإمام أحمد في "المسند"(٢٣٤٤٢) وابن ماجه في "السنن" (١٦٩٥) و النسائي في "السنن"(٢١٥٢)

اس روایت سے متعدد وجوہ کی بنا پر استدلال کرنا درست نہیں ہے۔

١) یہ روایت "مرفوعًا" ثابت نہیں ہے۔ در حقیقت یہ سیدنا حذیفہ کا عمل ہے جسے عاصم بن ابی النجود نے خطأً مرفوع بیان کیا ہے۔

اس روایت کی تمام اسانید کا مدار عاصم بن ابی النجود پر ہے۔

عاصم بن ابی النجود کے حفظ پر اہل علم نے کلام کیا ہے جس کی تفصیل کتبِ رجال میں دیکھی جا سکتی ہے اور خصوصًا جب یہ زر بن حبیش سے روایت بیان کریں تو ان کی روایات میں اضطراب ہوتا ہے۔

امام احمد بن عبداللہ العجلی رحمہ اللہ(ت ٢٦١ه‍) فرماتے ہیں: وَكَانَ ثِقَة فِي الحَدِيث وَلَكِن يخْتَلف عَنهُ فِي حَدِيث زر وَأبي وَائِل(الثقات للعجلي ٦/٢)

حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ(ت ٧٩٥ه‍) فرماتے ہیں: عاصم بن أبي النجود الكوفي، القارىء، كان حفظه سيئاً، وحديثه ـ خاصة ـ عن زر، وأبي وائل، مضطرب. كان يحدث بالحديث تارة عن زر، وتارة عن أبي وائل. (شرح علل الترمذي ٧٨٨/٢)

پھر اسے مرفوع بیان کرنے میں عاصم متفرّد ہیں۔

امام العلل النسائی رحمہ اللہ(ت ٣٠٣ه‍) فرماتے ہیں:
لا نعلم أحداً رفعه غير عاصم
ہمارے علم کے مطابق عاصم کے علاؤہ کسی نے بھی اسے مرفوعًا بیان نہیں کیا۔
(تحفة الأشراف ٣١/٣)

امام نسائی رحمہ اللہ نے امام شعبہ کی سند سے یہ روایت ذکر کی ہے وہ عدی بن ثابت(ثقة) سے وہ زر بن حبیش سے بیان کرتے ہیں:

تَسَحَّرْتُ مَعَ حُذَيْفَةَ ، ثُمَّ خَرَجْنَا إِلَى الصَّلَاةِ، فَلَمَّا أَتَيْنَا الْمَسْجِدَ صَلَّيْنَا رَكْعَتَيْنِ، وَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا إِلَّا هُنَيْهَةٌ.

میں نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سحری کی پھر ہم نماز کی طرف نکلے۔جب ہم مسجد آئے تو ہم نے دو رکعات ادا کیں اور نماز کی اقامت کہی گئی۔ان دونوں کے درمیان مختصر سا وقفہ تھا۔
(سنن النسائی ٢١٥٣)

آپ غور فرمائیں کہ عدی بن ثابت کی بیان کردہ روایت کا متن بھی عاصم کی روایت سے مختلف ہے۔

امام جورقاني (ت ٥٤٣ ه‍) لکھتے ہیں:

هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ، وَقَوْلُ عَاصِمٍ، هُوَ النَّهَارُ إِلَّا الشَّمْسَ لَمْ تَطْلُعْ خَطَأٌ مِنْهُ، وَهُوَ وَهَمٌ فَاحِشٌ لِأَنَّ عَدِيًّا، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ بِخِلَافِ ذَلِكَ، وَعَدِيٌّ أَحْفَظُ وَأَثْبَتُ مِنْ عَاصِمٍ

یہ (عاصم کی بیان کردہ)حدیث منکر ہے اور عاصم کا یہ قول"هُوَ النَّهَارُ إِلَّا الشَّمْسَ لَمْ تَطْلُعْ" اس کی خطأ ہے اور یہ واضح وھم ہے کیونکہ عدی زر بن حبیش سے اس کے خلاف بیان کرتے ہیں اور عدی عاصم سے احفظ و اثبت ہیں۔
(الأباطيل والمناكير...١٣٣/٢)

یہی بات علامہ مقبل بن ھادی الوادعی رحمہ اللہ نے "أحاديث معلة ظاهرها صحة" (١١٧) میں لکھی ہے۔

اسی طرح امام عبدالرزاق رحمہ اللہ(ت ٢١١ه‍) اسرائیل سے وہ عامر بن شقیق سے وہ شقیق بن سلمہ سے بیان کرتے ہیں اور وہ فرماتے ہیں: میں اور زر بن حبیش سیدنا حذیفہ کے پاس گئے۔(المصنف ٧٤٣٢)

یہ واقعہ سیدنا حذیفہ سے موقوفًا اس سند کے علاؤہ دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

ابراھیم نخعی رحمہ اللہ صلۃ بن زفر سے بیان کرتے ہیں کہ ہم نے سیدنا حذیفہ کے ساتھ سحری کی۔(سنن النسائی ٢١٥٤)

ان تمام روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اصلًا موقوف اثر تھا جسے عاصم بن ابی النجود نے مرفوع بیان کر دیا۔

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ(ت ٧٥١ه‍) فرماتے ہیں:

وأما حديث حذيفة فمعلول، وعلته الوقف، وأن زِرًّا هو الذي تسحر مع حذيفة، ذكره النسائي

حذیفہ کی (مرفوع) روایت معلول ہے اور اس کی علت اس کا موقوف ہونا ہے۔ زر بن حبیش نے حذیفہ کے ساتھ سحری کی تھی جیسا کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔
(تهذيب السنن ٢٦/٢)

تفصیل کے ساتھ یہ بات بیان کی جا چکی ہے کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت "مرفوعًا" ثابت نہیں ہے۔

۲) اگر یہ روایت "مرفوعًا" ثابت بھی ہو تو اہل علم فرماتے ہیں کہ اس میں موجود وسعت شروع اسلام میں تھی لیکن بعد میں یہ منسوخ ہو گئی۔

علامہ ابوجعفر الطحاوی رحمہ اللہ (ت٣٢١ه‍)فرماتے ہیں:

فَلا يَجِبُ تَرْكُ آيَةٍ مِن كِتابِ اللهِ تَعالى نَصًّا، وأحادِيثَ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ مُتَواتِرَةً قَدْ قَبِلَتْها الأُمَّةُ، وعَمِلَتْ بِها مِن لَدُنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ إلى اليَوْمِ قَدْ يَجُوزُ أنْ يَكُونَ مَنسُوخًا بِما ذَكَرْناهُ فِي هَذا البابِ.

’’قرآن مجید کی کسی نصًّا آیت، پوری امت کی قبول کردہ متواتر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور سے آج تک امت کے ہاں معمول احادیث کو کسی ایسی حدیث کے لیے چھوڑنا واجب نہیں کہ جو ہو سکتا ہے ہماری اس باب میں ذکر کردہ احادیث کے ساتھ منسوخ ہو۔‘‘
(شرح معاني الآثار : ٢/ ٥٤)

علامہ طحاوی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:

وَقد يحْتَمل أَن يكون حَدِيث حُذَيْفَة وَالله أعلم قيل نزُول قَوْله تَعَالَى:وَكُلُوا۟ وَٱشۡرَبُوا۟ حَتَّىٰ یَتَبَیَّنَ لَكُمُ ٱلۡخَیۡطُ ٱلۡأَبۡیَضُ مِنَ ٱلۡخَیۡطِ ٱلۡأَسۡوَدِ مِنَ ٱلۡفَجۡرِ.

اس بات کا احتمال موجود ہے کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وارد واقعہ "سورۃ البقرۃ" کی اس آیت "وَكُلُوا۟ وَٱشۡرَبُوا۟ حَتَّىٰ یَتَبَیَّنَ لَكُمُ ٱلۡخَیۡطُ ٱلۡأَبۡیَضُ مِنَ ٱلۡخَیۡطِ ٱلۡأَسۡوَدِ مِنَ ٱلۡفَجۡرِ" کے نازل ہونے سے قبل کا ہو۔
(شرح معاني الآثار ٥٢/٢)

علامہ بدر الدین العینی الحنفی رحمہ اللہ(ت ٨٥٥ه‍) نے بھی علامہ طحاوی رحمہ اللہ کی رائے سے موافقت کی ہے۔(عمدة القاري ٢٩٩/١٠)

علامہ ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ(ت ٧٩٥ه‍) لکھتے ہیں:

وادعى طائفة: أن حديث حذيفة كان في أول الإسلام ونسخ.

اہل علم کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ سیدنا حذیفہ کی روایت میں وارد واقعہ شروع اسلام میں تھا اور پھر یہ حکم منسوخ ہو گیا۔
(فتح الباري لابن رجب ٤٢٥/٤)

اسی طرح حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ (ت ٨٥٢ه‍) نے بھی اس واقعہ کے نسخ کی طرف اشارہ کیا ہے۔(فتح الباري ١٣٩/٤)

یہ بات تفصیل کے ساتھ گزر چکی ہے کہ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی روایت "مرفوعًا" ثابت نہیں ہے اور اگر اسے ثابت مان بھی لیا جائے تو بعض اہل علم اس میں وارد وسعت کو منسوخ سمجھتے ہیں۔

٣) بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کا مقصود سحری میں تاخیر کا ذکر کرنا تھا نا کہ اس سے یہ مراد یہ تھی کہ حقیقتًا صبح طلوع ہو چکی تھی۔

یہ بات امام العلل و فقہ الحدیث النسائی رحمہ اللہ (ت ٣٠٣ه‍) اور امام المفسرین ابن جریر طبری رحمہ اللہ(ت ٣١٠ه‍) نے ذکر کی ہے(تفسير الطبري ٥٣٠/٣ تحفة الأشراف ٣١/٣)

امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فمعناه: أنَّه قرب النهار , كقول الله عزَّ وجلَّ: "فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ"معناه: إذا قاربن البلوغ؛ وكقول القائل: بلغنا المنزل إذا قاربه.

اس روایت سے مقصود دن کا قریب ہونا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب یہ خواتین اپنے وقتِ مقررہ کو پہنچ جائیں" یعنی پہنچنے کے قریب ہوں اور اسی طرح جب کوئی کسی جگہ پہنچنے والا ہو تو وہ یوں کہ دیتا ہے: ہم پہنچ گئے ہیں۔
(تحفة الأشراف ٣١/٣)

امام ابن کثیر رحمہ اللہ(ت ٧٧٤ه‍) امام نسائی رحمہ اللہ کا کلام نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

وَهَذَا الذِي قَالَهُ هُوَ المتعيَّن حملُ الْحَدِيثِ عَلَيْهِ: أَنَّهُمْ تَسَحَّرُوا وَلَمْ يَتَيَقَّنُوا طُلُوعَ الْفَجْرِ، حَتَّى أَنَّ بَعْضَهُمْ ظَنَّ طُلُوعَهُ وَبَعْضَهُمْ لَمْ يَتَحَقَّقْ ذَلِكَ

حدیث کو اس معنی پر محمول کرنا متعیّن ہے۔ صحابہ کرام نے سحری کی اور انہیں طلوعِ فجر کا یقین نہیں تھا تو بعض لوگوں نے گمان کیا کہ وقتِ فجر شروع ہو چکا ہے اور بعض نے سمجھا کہ وقت شروع نہیں ہوا۔
(تفسیر القرآن العظیم ٥١٤/١)

اہل علم نے ان تین وجوہات کے علاؤہ مزید وجوہات کا بھی ذکر کیا ہے لیکن میرے خیال میں ان تین کا ذکر کافی ہے۔

خلاصہ کلام :

١) سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت "مرفوعًا" ثابت نہیں ہے۔

٢) اگر ثابت بھی ہو تو اس میں وارد وسعت منسوخ ہو چکی ہے۔

٣) اس حدیث میں طلوع دن سے مراد سحری تاخیر سے کرنا ہے۔
 
Top