ومن لم یذق لم یدر
یعنی جس نے چکھا ہی نہیں وہ نہیں جان سکتا؟
زبان محسوسات کا مزہ چکھنے کے لئے ہے۔ دماغ معقولات کے سمجھنے کے لئے ہے اور وجدانیات و کوائف روحانیہ و لطائف قلبیہ کے لئے خالق اکبر نے دل پیدا کیا ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے ہر عضو کا فعل الگ الگ رکھا ہے۔ ایک کو دوسرے کے فعل سے کوئی واسطہ نہیں۔
اللھم اذقنا من حلا وۃ افضالک وافض علینا من برکا تک و اشرح صدورنا و نو ر قلوبنا بانو ارک
لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم !
چنانکہ حرف عصاگفت مو سیٰ اندر طور
حدیث دوم
چشمہ فیض و برکت رسول کریمﷺ کے چچازاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں :۔
ضمنی النبی صلے اللہ علیہ وسلم الی صدرہ وقال اللھم علمہ الحکمۃ ومن طریق ابی معمراللھم علمہ الکتاب
’’یعنی مجھ کو (مصدر فیض و کرم) حضرت نبی کریمﷺ نے اپنے سینے مبارک سے لگایا۔ اور یہ دعا دی۔ باری تعالیٰ ! اسے حکمت (سمجھ کی درستی) عطا کر اور ابو معمر کی روایت میں یوں ہے کہ اسے اپنی کتاب (قرآن مجید) کی سمجھ عطا کر۔ ‘‘
چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ قرآن شریف کے فہم میں صحابہؓ میں ممتاز تھے۔ یہ سب کچھ آنحضرتﷺ کے سینہ مبارک سے لگنے اور آپﷺ کی دعا کی برکت تھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ مجہتدین صحابہؓ میں سے ہیں۔ ان کا قول فتح الباری میں منقول ہے۔
’’نعم ترجمان القران ابن عباسؓ’’ یعنی حضرت ابن عباسؓ بہت اچھے ترجمان قرآن ہیں۔
الغرض یہ احادیث اور ان جیسی دیگر احادیث ہمارے مقصد صدری کے ثابت و واضح کرنے میں بالکل صاف ہیں۔ اس کے بعد ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کا سینہ مبارک تو تھا ہی مصدر فیض و کرم۔ آپ کی یہ فیض گستری تو اتنی زبر دست اور موثر تھی کہ آپﷺ ایک ایک جزو بدن اطہر حتی کہ آپ کا بال بال بلکہ آپﷺ کے جسد مبارک کے عوارض و متعلقات و فضلات بھی موجب فیض و برکت تھے .پڑھتے جائیے اور گنتے جائیے۔
دست مبارک کی برکات
۱۔ حدیث اول
حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہ کو حضورﷺ نے یمن میں قاضی مقرر کر کے بھیجنا چاہا۔ انہوں نے عرض کیا۔ حضور !میں نے یہ کام کبھی کیا نہیں۔ یعنی مجھے سابقاًاس کا تجربہ و مشق نہیں۔ حضورﷺ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سینہ مبارک پر ہاتھ مارا اور دعا کی:۔
اللھم اھد قلبہ و سدد لسانہ۔ یعنی باری تعالیٰ اس کے دل کو اور اس کی زبان کو پختہ (حق ترجمان) رکھ اور ساتھ یہ ہدایت بھی فرمائی کہ جب تک دوسرے فریق کی بات سن نہ لیا کرو۔ تب تک دونوں فریقوں کے فیصلہ کا حکم نہ سنایا کرنا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں :۔
افواللہ ما شککت بعد ھا فی قضاء بین اثنین
اللہ کی قسم اس واقعہ کے بعد مجھے کبھی دو فریقوں میں فیصلہ کرنے کے متعلق شک وتر لاحق نہیں ہوا۔
اور حضرت علیؓ کا یہ کمال صحابہؓ میں عام طور پر مشہورومسلم تھا چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عمر فاروقؓ کا قول منقول ہے۔’’ افضانا علی’‘ ’’یعنی ہم (جماعت صحابہؓ) میں سے حضرت علیؓ سب سے بڑے قاضی ہیں۔ ‘‘
حضرت علیؓ میں یہ کمال آنحضرتﷺ کے دست مبارک اور دعا کی برکت سے تھا۔
۲۔ حدیث دوم
حضرت جریر بن عبداللہ بجلی جب مشرف باسلام ہوئے۔ تو آنحضرتﷺ نے ان کو ذی الخلصہ بت خانے کے گرانے پر مامور فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا حضور!میں گھوڑے کی پشت پر قائم نہیں رہ سکتا یعنی میں پختہ سوار نہیں ہوں گر پڑتا ہوں۔ آنحضرتﷺ نے اپنا دست مبارک ان کے سینے پر مارا اور دعا دی۔ اللھم ثبتہ واجعلہ ھادیا مھدیا۔ یعنی اے اللہ ! (اسے گھوڑے پر) قائم رکھیو اور اسے ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنائیو۔ حضرت جریرؓ کہتے ہیں۔ فما و قعت عن فرسی بعد۔ یعنی میں اس کے بعد پھر کبھی گھوڑے سے نہیں گرا۔
خاتمۃالحفاظؓ نے اس حدیث کی شرح میں امام حاکم ؒ سے بتفصیل نقل کیا۔ کہ (جب) حضرت جریرؓ نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں گھوڑے پر سے گر پڑنا عرض کیا۔ تو حضورﷺ نے فرمایا۔ ’’نزدیک آؤ۔ ‘‘ حضرت جریرؓ نزدیک ہوئے تو آپﷺ نے اپنا دست مبارک ان کے سر پر رکھا اور چہرے سر اور سینے پر پھیرتے ہوئے زیر ناف تک پہنچے۔ پھر (دوبارہ) ان کے سر پر دست مبارک رکھا اور پشت پر پھیرتے ہوئے زیر کمر تک پہنچے اور پہلے کی طرح دعا دی۔ اس کے بعد حافظ ابن حجرؓ لکھتے ہیں۔
’’فکان ذلک للتبر ک بیدہ المبارکۃ۔ ’’یعنی یہ اپنے دست مبارک سے برکت دینے کے لئے تھا۔
۳۔ حدیث سوم
مسند داری ؒ میں حضرت ابن عباس ؒ کی روایت ہے کہ ایک عورت اپنے بیٹے کو آنحضرتﷺ کی خدمت میں لائی اور کہنے لگی۔ یا رسول اللہﷺ میرے اس بیٹے کو جنون ہے۔ جو اسے دن کے کھانے اور رات کے وقت گرفت کرتا ہے۔ آنحضرتﷺ نے اس کے سینہ کو مسح کیا۔ یعنی اس پر اپنا دست مبارک پھیرا اور دعا کی۔ اس لڑکے نے خوب کھل کر قے کی اور اس کے پیٹ سے ایک شے (کوئی) بلا کتے کے پلے شکل کی نکلی اور دوڑ گئی۔ (مشکوۃٰ صفحہ ۵۳۳)
۴:۔ حدیث چہارم
ابو الحقیق ابو رافع آنحضرتﷺ کے جانی دشمنوں میں سے تھا۔ آنحضرتﷺ کی ہجو کیا کرتا تھا اور خیبر میں جا کر اسے مرکز شرارت بنا رکھا تھا۔ قبیلہ خزرج کے غیرت مندوں نے آنحضرتﷺ سے اس کی سزا دہی کی اجازت مانگی اور پانچ بہادر جن کا سردار عبد اللہ بن عتیک تھا روانہ ہوئے۔ حضرت عبداللہ بن عیتکؓ نے اس کی کا کام تمام کر دیا۔ واپسی پر سیڑھی سے پاؤں اکھڑ گیا، اور پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ ان کے ساتھی ان کو پٹی باندھ کر اور ان کو اٹھا کر آنحضرتﷺ کی خدمت میں لے آئے۔ ۔ حضرت عبداللہ کہتے ہیں، کہ میں نے یہ ماجرا آنحضرتﷺ سے عرض کیا آپﷺ نے فرمایا، ابسط رجلک، یعنی اپنا پاؤں (سیدھا کر کے) پھیلاؤ۔ فمسحا آپﷺ نے اپنے دست مبارک سے اسے مسح کیا، یعنی اس پر اپنا دست مبارک پھیرا۔ فکانمالم اشتکھاقط یعنی تو میں ایسا صحیح سلامت ہو گیا۔ کہ مجھے اس کے متعلق کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔ (رواہ البخاری ؒ)
قاضی عیاض رحمۃاللہ علیہ نے اپنی بے نظیر کتا ب شفا میں آنحضرتﷺ کے دست مبارک کی برکت سےپانی۔ غلہ اور کھانے میں کثرت ہو جانے کے متعلق صحیح بخاری مسلم، موطا امام مالک ؒ، جامع ترمذی وغیرہ کتب حدیث سے حضرت انسؓ، حضرت جابرؓ اور حضرت ابن مسعودکی روایات ذکر کی ہیں۔ جن کی نقل موجب طوالت ہے۔
لعاب مبارک کی برکت
لعاب (آب دہن) ایک قسم کا فضلہ ہے جو زبان کی جڑ کے نیچے کے دوسوراخوں سے منہ میں آتا رہتا ہے تاکہ زبان اور منہ ہر وقت تر رہے۔ ہر چند کہ یہ ایک فضلہ ہے۔ لیکن نہایت کار آمد ہے اور چونکہ زبان کی جڑ سے پیدا ہوتا ہے اور پیغمبر ان خدا کی زبان وحی الہی کی ترجمان ہوتی ہے۔ اس لئے اس میں یمن و برکت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تسبیح و تہلیل وغیرہ اذکار اور تلاوت قرآن مجید اور درود شریف میں مشغول رہنے اور خطبہ و تذکرہ اور خلق اللہ کو ارشاد و ہدایت اور تفسیر و حدیث کی تدریس میں لگےرہنےسے بزرگان دین کے لعاب و دم میں بھی برکت پیدا ہو جاتی ہے اور ان سے بیمار شفاء پاتے ہیں۔
اس کے بر خلاف جن لوگوں کی زبانیں جھوٹ۔ بیہودہ بکواس، گالی گلوچ غیبت و بد گوئی اور دیگر منکر باتوں میں لگی رہتی ہیں، ان کے لعاب میں ایک روحانی زہر پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ دوسروں کے لئے باعث ضرر ہو جاتا ہے بلکہ ان کا سانس بھی اس سے متکیف ہو جاتا ہے۔ جس طرح کسی کو مسوڑھوں میں یا منہ کے اندرونی حصے میں کوئی طبی و خلطی بیماری ہو یا زخم کے سبب اس میں پیپ پڑ گئی ہو۔ تو اس کا لعاب دوسروں کے لئے موجب حدوث مرض ہو جاتا ہے۔ بلکہ اس کا سانس بھی خطرناک ہو جاتا ہے۔
اس تمہید کو سمجھ جانے کے بعد احادیث ذیل کو مطالعہ فرمائیں :۔
پہلی حدیث
جنگ خیبر کے موقع پر آنحضرتﷺ نے حضرت علی مرتضی ؓ کو جھنڈا دینے کے لئے یاد فرمایا۔ صحابہؓ نے عرض کیا۔ ھو یا رسول اللہ یشتکی عینیہ۔ یعنی حضور ! ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے۔ آپﷺ نے بلوایا۔ فبصق رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم فی عینہ۔ (یعنی) آنحضرتﷺ نے ان کی دونوں آنکھوں میں تھوکا۔ فبرء حتے کان لم یکن بہ وجع (یعنی) پس آپ کو عافیت ہو گئی۔ گویا کہ آپ کو کوئی تکلیف و بیماری تھی ہی نہیں۔ (متفق علیہ صفحہ ۱)
دوسری حدیث :۔ صحیح بخاری ؒ میں یزید بن ابی عبید کی روایت ہے کہ میں نے حضرت سلمہ بن اکوع (صحابیؓ) کی پنڈلی پر ضرب کا نشان دیکھا۔ میں نے پو چھا اے ابو سلمہ !یہ ضرب کیسی ہے ؟فرمایا یہ وہ ضرب ہے جو مجھے خیبر (کی لڑائی (کے دن لگی تھی۔ جس پر لوگ کہتے تھے کہ سلمہ مر گیا۔ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ا۔ تو آپﷺ نے اس پر تین دفعہ تھوکا۔ پھر مجھے اس ساعت تک شکایت نہیں ہوئی۔ (مشکوۃ صفحہ ۵۲۲)
حضورﷺ کے پسینہ میں خوشبو
پسینہ ہضم رابع کا فضلہ ہے۔ جس سے رفیق مواد خارج ہو تے ہیں اور وہ بد بو دار ہوتا ہے۔ لیکن حبیب خداﷺ کا پسینہ بھی خوشبودار تھا۔ چنانچہ مشکوٰۃ شریف میں بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت سے منقول ہے کہ حضورﷺ کبھی اپنے خادم خاص حضرت انسؓ کے گھر جاتے تو ان کی والدہ حضرت ام سلیمؓ آپﷺ کے لئے چمڑے کا بستربچھادیتیں۔ اور آپ اس پر قیلولہ فرماتے۔ آنحضرتﷺ کو پسینہ زیادہ آتا تھا حضرت ام سلیمؓ حضورﷺ کے پسینہ کو ایک شیشی میں لے لیتیں اور کسی دوسری خوشبو میں ملا کر اپنے پاس رکھتیں (اور نئی دلہن یا لڑکیوں کو بطور تحفہ دیتیں) آنحضورﷺ نے (ایک دن) دریافت کیا۔ ام سلیمؓ !یہ کیا ؟ (کرتی ہو) اس نے عرض کیا حضور ! (میرے ماں باپ آپ پر سے قربان ہوں) ہم اسے دوسری خوشبو میں ملا دیتی ہیں تو وہ بہت عمدہ (قسم کی) خوشبو ہو جاتی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ ہم اس سے اپنے بچوں کے لئے برکت کی امید رکھتی ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا اصت یعنی ام سلیمؓ تو نے ٹھیک کیا۔ (متفق علیہ ) ۔ آنحضرتﷺ کے خادم حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی رنگت نہایت روشن تھی اور آپﷺ کے پسینہ (کے قطرے) گویا کہ موتی (دانے) تھے چلنے کے وقت کچھ آگے کو جھک کر چلتے اور میں نے ریشم یا پٹ آپﷺ کی ہتھیلی مبارک سے زیادہ نرم نہیں چھوا اور نہ کوئی کستوری نہ منبر۔ آپﷺ کے (جسدمبارک) کی خوشبو سے زیادہ خوشبو دار سونگھی۔ (متفق علیہ) مشکوٰۃ صفحہ ۵۰۸۔ ۵۰۹) ٍ
۳۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن سمرہؓ سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرتﷺ کے ساتھ پیشین (ظہر) کی نماز پڑھی۔ آپ (مسجد سے) گھر کو نکلے۔ تو میں بھی حضورﷺ کے ساتھ ہی نکلا۔ سامنے سے آپﷺ کو ( رستہ میں) چند بچے آتے ہوئے ملے۔ آپﷺ نے (بکمال شفقت و محبت) ایک ایک کے چہرے پر دست مبارک پھیرا اور میرے چہرے پر بھی پھیرا۔ میں نے آپﷺ کے دست مبارک کی ٹھنڈک اور خوشبو ایسی پائی۔ کہ گویا آپﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک کسی عطار کے ڈبے سے نکالا ہے۔ (مشکوٰۃ صفحہ ۵۰۹)
۴۔ اسی طرح جامع ترمذی میں حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ جس رستے سے چلتے تھے۔ آپﷺ کے بعد کا چلنے والا پہچان لیتا تھا کہ حضورﷺ اس رستے سے گزرے ہیں۔ آپﷺ کی خوشبو کی وجہ سے۔ ‘‘ (مشکوٰۃ صفحہ ۵۰۹)
الغرض حضور انور ﷺسراپا برکت تھے اور سب انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کی وحی کے سبب ہر امر میں ایمن و برکت والے ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ کی زبانی نقل کیا کہ انہوں نے آغوش مادر میں کہا۔ وجعلنی مبارکا اینماکنت۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھ کو صاحب برکت بنایا ہے۔ جہاں کہیں میں ہوں۔ (زمین پر یا آسمان پر۔ سفر میں یا حضر میں) اور حضرت ابراہیم و اسحاق (علیہاالسلام) کے حق میں فرمایا :۔ وبارکنا علیہ وعلے اسحق۔ (صافات پ 23) یعنی ’’ ہم نے برکت رکھی اس پر یعنی ابراہیم ؑ پر اور اسحاق پر (بھی) ‘‘۔
اور اہل صلاحیت کے دم قدم کی برکت سے بیماریوں اور آفتوں کا دور ہونا اور بارشوں کا بوقت ضرورت برسنا اور رزق و مال میں افزائش احادیث صحیحہ مرفوعہ اور آثار صحابہ اور دیگر بزرگان دین کے واقعات سے ثابت ہے اور یہ متواترات کی جنس سے ہے اس سے انکار کی گنجائش نہیں۔ ھذا واللہ الھادی۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام قرآن مجید کی نسبت فرمایا:۔
کتاب انزلنہ الیک مبارک۔ (ص پ ۲۳) یعنی (اے پیغمبرﷺ!) ہم نے (یہ) برکت والی کتاب آپ کی طر ف اتاری ہے۔ ‘‘
نیز فرمایا:۔ وھذا ذکر مبارک انزلنہ (انبیا پ 17) یعنی یہ برکت والا ذکر (نصحت نامہ) ہے، جسے ہم نے مقام عظمت سے) اتارا ہے۔ ‘‘
نیز فرمایا:۔ و ھذا کتاب انزل مبارک۔ (انعام پے ۷) یعنی یہ کتاب برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے (مقام عظمت سے) نازل کیا ہے۔
۔ الغرض یہ برکت والی کتاب حضورﷺ کے قلب پاک پر اتاری گئی جیسا کہ فرمایا۔
فانہ نذلہ علے فلبک باذن اللہ (بقرہ پ)
’’یعنی حضرت جبرئیلؑ تو یہ قرآن آپﷺ کے قلب پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے لے کر آئے ہیں (پھر ان کی دشمنی کے کیا معنی ؟)
نیز فرمایا :۔ نزل بہ الروح الامین علے قلبک (الشعرا پ 19) یعنی ’’اے پیغمبر !) آپﷺ کے قلب پر اس قرآن کو الروح الامین لیکر آئے ہیں۔ ‘‘
ان آیات سے واضح ہو گیا کہ حضورﷺ کا قلب فیوض و برکات رحمانیہ کا خزینہ اور انوار واسرار رہاانیہ کا گنجینہ ہے۔ جس کسی کو عبداللہ بن عباسؓ وغیرہ کی طرح اس سے اتصال و انضمام نصیب ہو گیا۔ اس کا سینہ نور و سکینہ سے بھر گیا اور جس کی کسی پر آپﷺ کی نظر کرم پڑ گئی۔ اس کا دل خدا کی طرف متوجہ ہو گیا۔
چنانچہ تفسیر سراج منیر میں خطیب شربیتی ؒ آیت ویزکبھم ( جمعہ پ 28) کے ضمن میں فرماتے ہیں :۔
ویذکیھم’ یعنی یہ نبی امیﷺ پاک کرتا ہے۔ ان کو شرک اور رذیلے اخلاق اور ٹیڑھے عقائد سے اور آنحضرتﷺ کا یہ تزکیہ اپنی حیات طیبہ میں ان لو گوں کی طرف نظر (کرم) کرنے اور ان کو علم دین کے سکھانے اور ان پر قرآن شریف کے تلاوت کرنے سے تھا۔ پس کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپﷺ کسی انسان کی طرف نظر محبت سے دیکھتے تو اللہ تعالیٰ اس کی قابلیتوں کے موافق اور ان امور کے مطابق جن کی نسبت اللہ تعالیٰ نے عالم قضا و قدر میں مقرر رکھا ہے۔ ‘‘کہ وہ عالم اسباب میں مہیا ہوں۔ اس شخص کا تزکیہ کر دیتا۔ پس وہ شخص آپﷺ کا نہایت درجے کا عاشق (صادق) اور آپﷺ کی اتباع (پیروی) کو اچھی طرح سے لازم پکڑنے والا اور اللہ کی کتاب اور آپﷺ کی سنت میں نہایت درجہ کا راسخ و پختہ ہو جاتا۔ (انتہی مترجما)
یہ اثر بالمشافہ ان ارباب عقیدہ پر تھا جن کو اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی پاک صحبت کے لئے منتخب کر لیا تھا اور اب بعد وفات شریف کے آپﷺ کے انوار کی برکت کے لئے اللہ کی کتاب تو وہی ہے اور آپﷺ کے نفس طیبہ کی بجائے آپﷺ کے انفاس طیبہ ہیں۔ جو آپﷺ کے علمی اور تعلیمی فیوض و برکات کے حامل ہیں اور اسفار حدیث قلب کو پاک صاف کرنا نزول برکات موجب ہے اور جو لوگ شب و روز آپﷺ کے آثار و احادیث طیبہ کا شغل و ذکر کر رکھتے ہیں۔ ان کو آپﷺ کی معنوی صحبت کا رتبہ ملتا ہے۔ چنانچہ اسی معنی میں کہا گیا ہے۔
اھل الحدیث ھمواھل النبی وان
لم یضحبوا نفسہ انفا سہ صحبوا
یعنی اہل حدیث۔ نبی کریمﷺ کے اہل ہیں۔ اگر چہ انہوں نے آپﷺ کی ذات گرامی کی صحبت کا شرف نہیں پایا۔ لیکن آپﷺ کے انفاس طیبہ کی صحبت تو حاصل ہے۔ ‘‘
حضرت شاہ عبداللہ مجدوی ؒ المعروف شاہ غلام علی صاحب ؒ مقامات مظہری میں بضمن ذکر حاجی محمد افضل صاحب سیالکوٹی حضرت مرزا مظہر جانجاناں شہید کا قول نقل فرماتے ہیں۔
حضرت (مرزا جانجاناں ؒ) صاحب فرماتے تھے کہ اگرچہ میں نے حضرت (حاجی محمد افضل) صاحبؒ سے بظاہر (سلوک فقر) کا حضرت (حاجی) صاحب کاستفادہ نہیں کیا۔ لیکن حدیث شریف کے سبق کے ضمن میں آپ کے باطن شریف سے فیوض فائض ہوتے تھے اور عرض نسبت میں قوت پہنچی تھی۔ حضرت (حاجی) صاحب کو حدیث شریف کے بیان میں رسو ل اللہﷺ کی نسبت میں استغرق ہو جاتا ہے تھا اور بہت سے انوار و برکات ظاہر ہوتے تھے گویا کہ معنوی طور پر پیغمبر خداﷺ کی صحبت حاصل کی صحبت حاصل ہو جاتی تھی۔ الخ ( مقامات مظہری)
الغرض حضور اکرمﷺ چشمہ فیض کے و برکت ہیں اور آپﷺ کا فیض بوجہ آپﷺ کے خاتم النبین ہونے کے تا قیام دنیا جاری ہے اور ان فیوض کے حصول کے ذرائع قرآن و حدیث کی اتباع اور محدثین عظام کی صحبت ہے قرآن و حدیث تو اصل منبع و مخزن شریعت ہیں اور محدثین و اولیاء اللہ آنحضرتﷺ کے علوم و اعمال کے محافظ و رہنما ہیں۔ بس ان کی رہنمائی میں سیدھے چلے جاؤ اور دائیں بائیں نہ دیکھو۔ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی محبت بھر ثمرہ پا لو گے۔ حضرت مرزا مظہر جانجاناں فرماتے ہیں:۔
اللہ تعالیٰ طبیعت مرا رد رغایت اعتدال آفرید ہ است، و در طینت من رغبت اتباع سنت نبویﷺ ودیعت نہادہ۔ (مقامات مظہری صفحہ ۱۶)
روحانی استعداد میں ترقی:۔ روحانی ترقی کی صورت یہ ہے کہ روح میں جذب الی اللہ کی صفت حاصل ہو جائے اور یہ بات دائمی توجہ الی اللہ اور کثرت ذکر سے حاصل ہوتی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب حقیقت نسبت کے بیان میں فرماتے ہیں۔
اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ جب بندہ طاعات اور طہارت اور اذکار پر ہمیشگی کرتا ہے تو اس کو ایک صفت حاصل ہوتی ہے جس کا قیام نفس ناطقہ میں ہوتا ہے اور اس توجہ کا ملکہ راسخہ پیدا ہو جا تا ہے۔ (انتہی مترجماً القول الجمیل)
پھر حضرت شاہ صاحب اس شبہ کا حل کہ متاخرین صوفیہ ؒ کا طریق ذکر صحابہ و تابعین سے منقول نہیں ہے یوں کرتے ہیں :۔
میرے نزدیک ظن غالب یہ ہے کہ حضرات صحابہ اور تابعین سکینہ یعنی نسبت کو اور ہی طریقوں سے حاصل کرتے تھے۔ سو منجملہ ان کے مواظبت (ہمیشگی) ہے۔ صلوات اورتسبیحات پر خلوت میں خشوع اور خضوع کی شرط کے ساتھ اور منجملہ ان کے مواظبت ہے طہارت پر اور لذتوں کی تو ڑ نے والی (موت) کی یاد پر، اور (یاد کرنا) اس کو جو حق تعالیٰ نے مطیعوں کے واسطے ثواب تیار کر رکھا ہے نیز (یاد کرنا اس کو جو نافرمانوں (گنہگاروں) کے لئے عذاب معین کر رکھا ہے تو اس مواظبت اور یادسے لذات حسیہ سے جدائی اور انقطاع ہو جاتا ہے اور منجملہ ان کے مواظبت ہے قرآن مجید کی تلاوت پراور اس کے معانی میں تدبر کرنے پر اور واعظین کی پند و عظت سننے پر اور ان حدیث کے سننے سمجھنے پر جن سے دل نرم ہو جاتے ہیں۔ حاصل کلام یہ کہ (صحابہؓ اور تابعین) اشیائے مذکورہ پر مدت دراز تک (پختگی سے) مواظبت کرتے تھے۔ پس ان کو اس سے ملکہ سے راسخہ اور ہیات نفسانیہ حاصل ہو جاتی تھی۔ پھر باقی تمام عمر تک اس کی محافظت کرتے تھے۔ (کہ متاع بے بہا کہیں ضائع نہ ہو جائے) اور یہ معنی متوارث ہے رسول کریمﷺ سے ہمارے مشائخ کے طریق سے، اس میں کسی قسم کا شک نہیں رہتا ہے اگر چہ رنگ مختلف ہیں اور حاصل کرنے کے طریقے جدا جدا ہیں۔
ّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّمولانا خرم علی صاحب القول الجمیل کے ترجمہ شفاء العلمین میں اس عبارت کے ترجمہ کے بعد فرماتے ہیں:۔
خلاصہ جواب یہ ہے کہ جس امر کے واسطے اولیائے طریقت رضی اللہ عنہم نے یہ اشغال مقرر کئے ہیں۔ وہ زبان رسالت سے اب تک برابر چلا آیا ہے۔ گو یا طریق اس کی تحصیل کے مختلف ہیں۔ تو فی الواقع اولیائے طریقت مجتہدین شریعت کے مانند ہوئے۔
یہ عاجز خاک پائے حضرات بزرگان دین کہتا ہے کہ کثرت ذکر اور تسبیحات اور تلاوت قرآن مجید پر حدیث شریف میں بکثرت ہے۔ ہم قارئین کے لئے بعض مقامات مع ترجمہ اور تشریحات کے نقل کرتے ہیں حق تعالیٰ نے سورہ احزاب پارہ ۲۲ میں فرمایا:۔
یا یھا الذین امنو اا ذکرواللہ ذکرا کثیرا و سبحوہ بکرۃ واصیلا
اے لو گو! جو ایمان لائے ہو ( تمہارے ایمان کا مقتضےٰ یہ ہے کہ) تم خدا کو بہت بہت یاد کیا کرو اور تسبیح پڑھتے رہا کرو اس کی صبح و شام۔ (تاکہ ان ہر دو اوقات میں تسبیح کرنے سے ان کے درمیانی اوقات یعنی باقی دن اور رات میں بھی کثرت تسبیحات کا اثر جاری وساری رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر اور تسبیحات سے نو ر قلب اور تصفیہ و تزکیہ باطن حاصل ہو تا ہے۔ پھر فرمایا :۔
ھوالذی یضلے علیکم وملا ئکتہ لیخر جکم من الظلمت الیالنور وکان بالمومنین رحیما
اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جو تم پر (دائماً) برکات نازل کرتا ہے اور فرشتے بھی تمہارے لئے مغفرت و رحمت کی دعائیں کرتے ہیں۔ تاکہ (اللہ تعالیٰ) تم کو) کفر و شرک اور بدعات و توہمات اور معاصی و شبہات اور نا پاک اخلاق و عادات اور نفسانی حجابات کی) ظلمتوں سے نکال کر ایمان و اتباع سنت اور طاعات و خیرات اور کسوف و مشاہدات کی) روشنی میں لے کر آئے۔ اور وہ مو منوں پر (تو خصوصیات سے) مہربان ہے چنانچہ قیامت کے دن اور بھی لطف و کرم کرے گا کہ ان ذاکرین و مسبحین کواس کے دربار سے سلام کا تحفہ ملے گا جو ہر طرح کی آفت سے سلامتی کا ضامن ہو گا۔ چنانچہ اس کے بعد فرمایا:۔
تحیتھم یو م یلقونہ سلام’‘ یعنی جس دن (یہ مومن) اس کی ملاقات کریں گے تو ان کا تحفہ سلام ہو گا اور مزید برآں یہ کہ واعدلھم اجر کریما۔ ( احزاب پ ۲۲) یعنی اور تیار کر رکھا ہے ان کے لئے اجر نہایت عزت و قدر والا۔
ذکر کثیر
احادیث و آیات سے ثابت ہے کہ فر شتوں کی پیدائش نور سے ہے ان کا مایہ حیات ذکر خدا ہے تسبیحات ان کا دن رات کا شغل ہے نہ وہ اس تھکتے ہیں نہ اکتاتے ہیں انسان خاکی ہے پھر سر کش نفس بھی اس پر سوار ہے۔ سفلیات میں گرنا اس کا کام ہے اس لئے اس خاک کے پتلے کو نورانی لوگوں سے مناسبت و مشابہت تب حاصل ہو۔ جب وہ روزانہ مشق اور دائمی ریاضت سے ممنوع نفسانی خواہشوں سے تو کل پاک ہو جائے اور مباحات میں تقلیل (کمی) کر کے نفس کے اضطراب اور نفسانی خواہشوں کی کشمکش سے سلامت رہے اور سکون خاطر اور فراغ قلب سے اپنے اوقات کو طاعات و ذکر خدا سے معمور رکھے اور یقین جانیے کہ قلب کی حقیقی طمانیت تو بس ذکر میں ہے اگر کسی کا دل اس کے سوا کسی اور چیز سے مانوس ہو گیا اور وہ سمجھتا ہے کہ میں اس حالت میں مطمئن ہوں تو یہ اس کی نادانی ہے جیسے کہ بچوں کا کھیل یا کھلونے سے سکون و قرار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح دنیا دار جو ذکر خدا کی لذت سے آشنا ہیں۔ وہ امور دنیا اور اس نہ رہنے والی زندگی کی لذت میں اپنا سکون و قرارسمجھ لیتے ہیں۔ اسی معنی میں فرمایا۔
ان الذین لا یر جون لقاء نا ورضوا بالحیوہ الدنیا و اطمانو ا بھا والذین ھم عن ایا تنا غافلون اولئک ماوھم النار کانو ا یکسنون (یونس پ ۱۱)
’’یعنی جو ہماری ملاقات کا ڈر نہیں رکھتے اور دنیوی زندگی پر راضی ہو گئے اور اسی سے مطمئن ہو گئے اور وہ ہمارے احکام سے غافل ہو گئے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ان کا ٹھکانہ جہنم میں ہو گا۔ اس کمائی کے بدلے جو وہ کرتے رہے۔ ‘‘
اور خدا یاد لوگوں کی نسبت فرمایا:۔
الذین امنو و تطمئن قلوبھم بذکر اللہ الا بذکراللہ تطمئن القلوب۔ (رعد پ ۱۳)
’’یعنی) خدا کی طرف وہ لوگ رجوع لاتے ہیں۔ جوا یمان لے آتے اور خدا کے ذکر سے ان کے دل پکڑتے ہیں۔ سن رکھو کہ دلوں کو اطمینان (حقیقی) صرف یاد خدا ہی ملتا ہے‘‘
حاصل مطلب :۔ یہ کہ امور دنیا میں کمی کر کے ذکر خدا کے لئے فراغت حاصل کی جائے اور اطمینان قلب اور سکون خاطر سے خدا کو یاد کیا جائے اور مشق روزانہ اور دائمی چاہیے کیونکہ ناغوں سے استعداد ناقص رہتی ہے اور کمال حاصل نہیں ہوتا۔ حضرت عائشہؓ صدیقہ فرماتی ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا
احب الا عمال الی اللہ ادومھا وان قل۔ متفق علیہ (مشکوٰۃ صفحہ ۱۰۲)
(یعنی) حضورﷺ نے فرمایا کہ خدا کے نزدیک سب سے پیارے اعمال وہ ہیں جو دائمی ہوں۔ اگرچہ تھوڑے ہی ہوں۔ ‘‘
اسی لئے ذکر خدا کے حکم یا ترغیب کے ساتھ قرآن شریف میں کثیرا کا لفظ بکثرت وارد ہے۔
ملاحظہ ہو آیات ذیل :۔
۱۔ حضرت یحیٰ کی ولادت کی بشارت کے سلسلہ میں حضرت زکریا ؑ کو حکم دیا
واذکر ربک کثیرا۔ (آل عمران پ ۳)
۲۔ جہادی دشمنوں کے مقابلہ میں ڈٹے رہنے کے ساتھ یاد الہی میں مشغول رہنے کا حکم دیا۔ واذکرواللہ کثیرا (انفال ۱۰) یعنی یاد کرتے رہو خدا کو بہت بہت۔
۳۔ حضرت موسیٰ ؑ نے حضرت ہارون کو معاون بنانے کے سلسلے میں عرض کیا تھا۔ کہ نسبحک کثیرا و نذکرک کثیر (طہٰ پ ۱۶) یعنی ہم دونوں مل کر تسبیح کریں تیری بہت بہت اور یاد کریں تجھ کو بہت بہت۔
۴۔ مساجد کی شان میں فرمایا۔ و مساجد یذکرفیھا اسم اللہ کثیرا (حج پ۱۷) یعنی مسجدیں جن میں خدا کا نام بہت بہت یاد کیا جاتا ہے۔
۵۔ ایماندار اور نیکوکار شاعروں کے وصف میں فرمایا۔ وذکراللہ کثیرا (شعراء پ ۱۶) یعنی یاد کرتے ہیں وہ خدا کو بہت بہت۔ ‘‘
۶۔ اتباع سنت کے سلسلے میں مومنوں کی شان میں فرمایا۔ و ذکراللہ کثیرا۔ (احزاب پ ۲۲) یعنی مومن متبع سنت ہو کر یاد کرنا چاہیے خدا کو بہت بہت۔
۷۔ مومنوں کے اوصاف میں فرمایا۔ والذاکرین اللہ کثیراوالذاکرت (احزاب پ۲۲) یعنی وہ مرد اور عورتیں جو یاد کرتے ہیں خدا کو بہت بہت۔
۸۔ مومنوں کو یاد خدا کے حکم خصوصی میں فرمایا :۔ یایھا الذین امنو ااذکراللہ ذکراکثیرا۔ (احزاب پ ۲۲) یعنی اے مومنو ! یاد کیا کرو اللہ تعالیٰ کو بہت بہت۔
۹۔ نماز جمہے کے بعد دنیا کے کاموں میں لگ جانے پر بھی یاد خدا کا حکم کیا۔ واذکر اللہ کثیرا (الجمہو پ ۲۸) یعنی یاد کیا کرو خدا کو بہت بہت
قرآن شریف میں ان نو مقامات پر ذکر خدا کے ساتھ کثیرا کا لفظ وارد ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنا ذکر کثیر مطلوب ہے اور ذکر قلیل اسے پسند نہیں۔ چنانچہ منافقوں کی حالت یوں بیان فرمائی۔
ولا یذکرون اللہ الا قلیلا مذبدبین ذلک۔ (النساء پ ۵) یعنی منافق نہیں یاد کرتے خدا تعالیٰ کو مگر تھوڑا۔
سابقاً حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒ کے کلام سے بھی گذر چکا ہے اور اس عاجز نے بھی برکات محمدیہ کے سلسلہ کی سب سے پہلی تصنیف قنوت نوازل و اذکار مسنونہ۔ ‘‘(طبع اول) میں بالتصریح لکھ دیا تھا۔ ’’قرآن و حدیث کی تصریحات و اشارات اور بزرگان دین کے تجربات سے اس عاجز نے قرب نوافل میں سب زیادہ موثر چار چیزوں کو پایا۔ ‘‘
اول دوم سوم چہارم
نماز تہجد تلاوت قرآن مجید کثرت درود شریف کثرت استغفا دہ
’’پس جملہ ارادت مند احباب ان ہر چہار کو ( عملی طور پر) اپنے اوپر گردانیں۔ اگر پہلے طبیعت پر بوجھ پڑے تو اکتا نہ جائیں۔ بغیر ریاضت و مشتم کے کوئی کام پورا نہیں ہو سکتا۔ اگر بالفرض رات کو ناغہ ہو جائے تو دن کو اور دن کو ہو جائے تو رات کو پورا کر لیں۔
پھر صفحہ ۱۴ پر پانچویں چیزتسبیحات بھی لکھی ہیں اور اب چھٹی چیز تہلیل (لا الہ الا اللہ) بھی لکھتا ہوں۔ کیونکہ حدیث پاک میں اسے افضل الذکر کہا گیا ہے۔ (مشکوٰۃ شریف)
سو نماز تہجد کے متعلق ایک مستقل جامع رسالہ بنام نماز تہجد مدت سے شائع ہو چکا ہے۔ اسی طرح تلاوت قرآن مجید کے متعلق بھی بہت جامع اور بے نظیر رسالہ بنام حلاوت الایمان بتلاوۃ القرآن چھپ چکا ہے۔اب اس مقام پر خدا کی توفیق سے استعفادہ و تسبیحات و تہلیلات وغیرہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔ واللہ الموفق۔
استغفار
جمعے بدت گر یہ و آہ آورند جمعے ھمہ دید ہ و نگا ہ آوردند !!
جمعے شنید ند آوازہ عفوترا رفتند و جہاں جہاں گناہ آوردند
ا
ستغفار :۔ باب استفعال ہے، مادہ غفرسے۔ اس کے معنی ہیں لغزشوں اور خطاؤں کی بخشش و پردہ پوشی چاہنا۔ چنانچہ صراح میں ہے۔ استغفار ’’آمر ز ش خواستن۔ ‘‘ خطیات چھوٹی بھی ہوتی ہیں اور بڑی بھی عمداً اور ارادہ سے بھی کی جاتی ہیں اور بھول سے غلطی سے بھی ہو جاتی ہیں۔ کسی خاص اثر سے متاثر ہو کر بھی کی جاتی ہیں اور دلیری اور بیباکی اور ضد و عناد سے بھی ان کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ غرض مختلف حالتوں اور مختلف صورتوں میں انسان سے ایسے افعال سر زد ہو جاتے ہیں جو منا سبب نہیں ہوتے۔ پھر اس مناسبب کے بھی کئی پہلو ہیں۔ بعض امر شرع کی رو سے مناسب بلکہ ممنوع ہیں اور بعض شرعاً تو نا درست نہیں۔ لیکن تفاضائے وقت اور مصلحت کے خلاف ہیں بعض اخلاقاً مذموم ہیں اور بعض سو سائٹی کے لحاظ سے ناموزوں ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں کہ ایک حالت میں تو نامناسب ہیں لیکن دوسری جہت سے بالکل با مصلحت بلکہ ضروری ہو جاتے ہیں اور بعض وقت اشخاص کے رویہ سے بھی مناسب کا حکم لگ جاتا ہے۔ عوام عموماً بازاروں میں اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے کھاتے پیتے شور و غوغا کرتے رہتے ہیں ان کی نسبت ان باتوں کی پرواہ نہیں کی جاتی۔ لیکن اگر یہی حرکات خواص سے سر زد ہوں تو ان کے وقار و منصب کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ عرض اس کا طول و عرض بہت وسیع ہے اور اس کی شقیں بکثرت ہیں جن کی بنا پر اس کی تقسیم صغیرہ و کبیرہ اور خطا و عمدہ اور سہو و نسیان اور اقرار و عناد میں کی گئی اور پھر اس پر پشماپن و شرمندہ ہونے یا اس پر ضد و اصرار کرنے کی وجہ سے ان کا حکم بھی الگ الگ رکھنا پڑتا ہے ان سب حالتوں کا جامع علاج استغفار ہے۔ اس سے طبیعت میں تواضع و انکساری پیدا ہوتی ہے اور غرور نخوت اور کبر و رعونت دور ہو جاتی ہے۔ اس لئے استغفار کا وظیفہ صرف گنہگاروں۔ سیاہ کاروں اور خطا کاروں ہی کے لئے ہی نہیں بلکہ خدا کے مقرب و پاکباز بندے اسے بدل و جان کثرت سے رٹتے رہتے ہیں۔ بلکہ گنہگار تو بوجہ دل کی سیاہی کے اس پر مشکل سے عمل کرتے ہیں۔ محض عقل و ذہن سے نہیں۔ بلکہ نظر و مشاہدہ سے، حقیقی نیکوں اور بدوں کے حالات کو دیکھوں۔ تو تو ان میں نمایاں امتیاز پاؤ گے۔ قرآن شریف میں عام طور پر استغفار کرنا نیک لو گوں کا شعار کہا گیا ہے اور متمردو سر کشوں کا کام ضد اور اصرار بتایا گیا ہے۔ آیات ذیل سے یہ بات واضح ہو جائے گی۔
الذین یقولون ربنا اننا امنا فا غفرلنا ذنو بنا و قنا عذاب النار الصدبر ین و الصادقین والقانتین والمنفقین والمستغفرین با لا سحار (ال عمران پ ۳)
(جنت ان متقین کیلئے تیار رکھی ہوئی ہے) جو کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار ! ہم ضرور ایمان لے آئے ہیں۔ پس بخش ہم گناہ گار ہمارے۔ اور بچا ہم کو عذاب دوزخ سے، وہ جو صبر کرتے ہیں اور سچ بولتے ہیں اور عاجزی کرتے ہیں اور (اللہ تعالیٰ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں اور سحر گاہ استغفار کرتے ہیں
نیز فرمایا :۔ ان المتقین فی جنت و عیون ۰ اخذین ما اتھم ربھم انھم کا نو قبل ذلک محسنین ۰ کا نوقلیلامن الیل ما یھجعون ۰ وبا لا سحار ھم یستغفرون ( زاریات پ۲۶) بیشک پرہیز گار بیچ باغوں اور چشموں کے ہو نگے لینے والے ہو نگے وہ جو کچھ دے گا انکو ان کا پروردگار تحقیق وہ تھے اس سے پہلے (دنیا میں) نیکو کار وہ رات کو تھوڑا سوتے اور سحر گاہ کو استغفار کرتے تھے ہیں ‘‘
یہ خدا یاد۔ پرہیز گار نیکوکار لوگوں کا حال ہے۔ اس کے بر خلاف ضدی سرکشوں کا حال حضرت نوحؑ کی زبانی ذکر کیا کہ انہوں نے جناب خداوندی میں اپنی قوم کی شکایت ان الفاظ میں بیان کی۔
وانی کلما دعوتھم لتغفر لھم جعلو ا اصا بعھم فی اذانھم واستغشواثیا بھم واصر و او ستکبروا استکبارا۔ ( نوح۲۹)
’’اور میں نے جب کبھی ان کو بلایا۔ تاکہ تو ان کو مغفرت کرے تو انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑے سمیٹ لئے (تاکہ وہ مجھے نہ چھوئیں) اور انہوں نے ضد کی اور نہایت درجے کا تکبر کیا۔ ‘‘
الغرض پرہیز گار نیکو کار استغفار کر کے اپنے قلوب کو کبر و نخوت اور رعونت و پنداشت سے پاک کرتے ہیں اور ضدی و سرکش استغفار کو مو جب عار جان کر گناہ پر اصرار کرتے ہیں۔
استغفار کا بہتر وقت
بعد از نماز تہجد ہے۔ جیسا کہ آیات مندرجہ بالا سے ظاہر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تجلی خصوصی کے نزول کا یہی وقت ہے جیسا کہ حدیث النزول سے ثابت ہے۔ تفسیر معالم التنزیل میں آیت سوف استغفر لکم ربی (یوسف ۱۳) کے ذیل میں اکثر مفسرین کا قول نقل کیا ہے کہ (حضرت یعقوب ؑ نے اپنے بیٹوں کے لئے فوراً استغفار نہ کیا بلکہ ان سے وعدہ کیا کہ عنقریب بخشش مانگوں گا) اس سے ان کی مراد سحر کے وقت دعا کرنا تھی۔ ‘‘ (جلد ۲ صفحہ ۴۷۵)
فضائل استغفار کے بیش از پیش ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا جالب ہے۔ گناہ اور گناہ کرانے والی قوتوں (کے میل) کے لئے صابن کا حکم رکھتا ہے۔ حدیث ابن ماجہ میں ہے۔ ’’خوشخبری ہے اس کے لئے جس نے پایا اپنے نامہ اعمال میں استغفار کثیر۔ (مشکوٰۃ شریف)
سید الا ستغفار:۔ صیغے استغفار کے بہت ہیں۔ سب کا سردار یہ صیغہ ہے :۔
اللھم انت ربی لا الہ الاانت خلقتی وانا عبدک وانا علے عھدک وو عدک ما استطعت اعوذبک من شرما صنعت ابوء لک بنعمتک علی و ابوء بذنبی فاغفرلی فلا یغفر الذنوب الا انت۔
الہی ! تو میرا پروردگار ہے۔ تیرے سوا کوئی بھی مستحق عبادت نہیں۔ تو ہی نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا ہی بندہ ہوں۔ میں تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں جہاں تک میری استطاعت ہے۔ میں اپنے اعمال کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ مجھے پر جو تیری نعمتیں ہیں۔ میں ان کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا بھی قرار کرتا ہوں۔ پس مجھے بخش دے۔ بات یہی ہے کہ تیرے سوا کوئی بھی گناہ نہیں بخش سکتا۔ ‘‘
ان کلمات کی نسبت آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ان کو دل کے یقین سے دن کے وقت کہے اور پھر اس دن میں شام سے پہلے فوت ہو جائے تو جنتی ہے اور جو کئی ان کو دل کے یقین سے رات کے وقت کہے اور پھر اس رات صبح ہونے سے پہلے فوت ہو جائے۔ تو وہ بھی جنتی ہے۔ روایت کیااس حدیث جو امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں۔
حدیث ابن عباسؓ میں ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا۔ جس نے لازم پکڑا استغفار کو کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی سے خلاصی (کی صورت) اور ہر غم فکر سے کشائش اور رزق پہچاحتا ہے اسے جہاں سے گمان نہیں ہوتا۔ روایت کیااس حدیث کو امام احمد، اور امام ابو داؤد امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام طبرانی ؒ نے حضرت ابو دردا صحابیؓ سے روایت کیا۔ کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ جو شخص سب مومن مردوں اور مومن عورتوں کیلئے ہر روز پچیس یا ستائیس دفعہ بخشش مانگتا ہے۔ وہ ان لوگوں میں سے ہو جاتا ہے۔ جن کی دعا مستجاب ہوتی ہے اور اہل زمین کو ان کی برکت سے رزق ملتا ہے۔ (حصن حصین ص ۵۴، ۱۲منہ)
تحدیثاً بنعمۃاللہ یہ بندہ حْیر سراپا تفصیر محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اللہ تعالیٰ کے حسن توفیق سے سالہاسال سے عموماً ہر شب کو بوقت تہجد اس حدیث کے مطابق خاص خاص فوت شدہ اور زندہ احباب اور ان کی ازواج اور اپنے تمام اساتذہ کرام اور ان کی ازواج اور اپنے تمام اقربا (ذکور اناث) اور اپنے تمام اور اپنے ارادتمند مبایعین اور مخلص خدام اور محسنین و محبین اور جن کی میں نے کبھی غیبت کی یا جس کی کسی پر ناحق ظلم کیااورجس کسی کا میرے ذمہ حق باقی رہ گیا ہو اور میں نہیں جانتا۔ ان سب کے لئے دعائے مغفرت کرنے کے بعد ستائیس دفعہ حضرت نوح علیہ السلام والا استغفارپڑھا کرتا ہوں وہ بہت جامع ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل عمیم سے مجھے اس کی برکت سے متمتع کرے۔ آمین ورنہ میں بہت بڑا گناہ گار ہوں۔ سوائے اس کے فضل کے کوئی سہارا نہیں۔
اللھم مغفرتک اوسع من ذنوبی ورحمتک ارجی عندی من عملی۔ (ترجمہ) اے اللہ تیری بخشش میرے گناہوں سے زیادہ وسیع ہے اور مجھے اپنے عمل کی نسبت تیری رحمت کی زیادہ امید ہے۔
۵۔ نیز امام طبرانی ؒ نے حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت کیا کہ آنحضرت نے فرمایا۔ جو شخص مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے بخشش مانگنا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر مومن مرد اور مومن عورت کے عوض ایک نیکی لکھتا ہے۔ ۱۲ (حصن حصین صفحہ ۲۰۶)
۶۔ امام احمدؒ نے حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت کیا کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ شیطان نے اللہ تعالیٰ سے کہا تھا۔ تیری عزت و جلال کی قسم ہے کہ جب تک بنی آدم میں ارواح باقی رہیں گے میں ان کو گمراہی میں ڈالتا ہوں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ مجھے بھی اپنی عزت و جلال کی قسم ہے کہ جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں ان کو بخشتا رہوں گا۔ (حصن حصین صفحہ ۲۰۵، مشکوٰۃ۱۹۶)
7۔
نماز توبہ:۔ سنن اربعہ میں حضرت صدیق اکبرؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ جس شخص سے کوئی گناہ ہو جائے تو وہ طہارت کر کے دو رکعت نماز پڑھے اور اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگے تو اس کو گناہ بخشا جاتا ہے۔ ( (حصن حصین صفحہ ۱۵۴)
۸۔ نیز مستدرک حاکم میں حضرت جابر انصاریؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص آنحضرتﷺ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا۔ ہائے گناہ !ہائے گناہ ! حضورﷺ نے فرمایا تو کہہ :۔
اللھم مغفرتک اوسع من ذنوبی ورحمتک ارجی عندی من عملی۔ (حصن حصین صفحہ ۱۵۴)
’’یا اللہ ! تیری بخشش زیادہ کشادہ ہے میرے گناہ ہوں سے اور تیری رحمت میرے نزدیک بہت لائق امید ہے۔ میرے عمل کی نسبت ‘‘
اس شخص نے یہ کلمات کہے تو حضورﷺ نے فرمایا۔ پھر دوبارہ کہہ۔ اس نے پھر یہ کلمات کہے۔ آپﷺ نے فرمایا پھر کہہ۔ اس نے پھر تیسری بار) کہے تو آپ نے فرمایا۔ اٹھ ! اللہ تعالیٰ نے تجھے بخشش دیدی۔ (حصن حصین صفحہ ۱۵۴)
تنبیہ :۔ یہی مذکور ہ بالا دعا نماز توبہ کے تشہد میں بعد درود شریف کے مانگے یا کوئی اور مسنون دعا جس میں استغفار کا مضمون ہو تو اختیار ہے
حضرات انبیاء (علیھم السلام) کے استغفار
قرآن مجید میں حضرت انبیاء علیہم السلام کے استغفار کرنے کا بھی ذکر ہے۔ مثلاً:۔
۱۔ ابو البشر حضرت آدم (علیہ السلام) نے کہا۔ ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلناو تر حمنا لنکونن من الخاسرین۔ (اعراف پ ۸)
یعنی اے پروردگار ! ہم دونوں (میاں بیوی) نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو نے ہمیں بخشش نہ دی اور ہم پر رحمت نہ کی تو ہم زیاں کاروں میں سے ہو جائیں گے۔
۲۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے کہا :۔ رب اغفرلی ولوالدی ولمن دخل بیتی مومناوللمومنین والمومنات (سورت نوح پ ۲۹)
یعنی اے میرے پروردگار !بخش دے مجھے بھی اور میرے والدین کو بھی اور اسے بھی جو میرے گھر میں مومن ہو کر داخل ہوا۔ (بیوی یا مہمان یا ملاقاتی) اور باقی تمام مومن مردوں کو بھی اور مومن عورتوں کو بھی۔ ‘‘
۳۔ حضرت ابراھیم (علیہ السلام) نے کہا :۔ رب اجعلنی مقیم الصلوۃ ومن ذریتی ربنا و تقبل دعاء ربنا اغفرلی ولوالدی وللمومنین یوم یقوم الحساب۔ (ابراہیم پ ۱۳)
۴۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا :۔ رب اغفرلی ولا خی واذ لنا فی رحمتک وانت ارحم الرحمین۔ (اعراف پ)
۵۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) وظن داؤد انما فتنہ فاستغفر ربہ وخر راکعا واناب (ص پ ۳)
یعنی داؤد ؑ نے گمان کیا کہ بات تو صرف یہ ہے کہ ہم نے (اس واقعہ) اسے صرف آزمایا ہے۔ پس اس نے اپنے رب سے بخشش مانگی اور جھک کر (سجدے میں) گرا اور رجوع لایا۔ ‘‘
۶۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) رب اغفر لی وھب لی ملکا لا ینبغی لا حد من بعد ی انک انت الوھاب (ص پ ۲۳)
اے میرے پروردگار ! مجھے بخش دے اور عطا کر مجھے ایسی بادشاہی کہ نہ شایاں ہو کسی کو میرے بعد بے شک تو بہت کچھ عطا کرنے والا ہے۔
۷۔ حضرت یونس (علیہ السلام) لا الہ الا انت سبحنک کنت من الظلمین (انبیاء پ ۱۷)
یعنی تیرے سوا کوئی بھی لائق عبادت نہیں کہ اس کے سامنے التجا کی جائے اور پنا ہ لی جائے بیشک میں بیجا کرنے والوں سے ہو گیا ہوں۔ ‘‘
تنبیہ :۔ حضرت یونس ؑ کی اس تسبیح میں استغفار کی تصریح نہیں ہے لیکن چونکہ اس میں قصور کا اعتراف ہے اور انبیاء السلام کا اعتراف متضمن استغفار بھی ہوتا ہے۔ جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی دعا میں اعتراف بھی اور استغفار کی تصریح بھی ہے اس لئے ہم نے اس دعا کو استغفار کے ذیل میں بیان کیا ہے اور انشاء اللہ آئندہ تسبیح کے ذیل میں بھی ذکر کریں گے۔
۸۔ سید المرسلینﷺ کو قرآن مجید میں کئی مقام پر استغفار کرنے کا حکم ہوا ہے۔ اپنے لئے اور دیگر مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے بھی۔ (سورت محمد وغیرہ پ ۲۶) اور حضور اکرمﷺ اس حکم کی تعمیل میں بہت بہت دفعہ (صد ہا دفعہ) استغفار کیا کرتے ہیں۔ بعض بزرگوں نے اس کی تاویل کی ہے کہ اس سے امت کے لئے استغفار کرنا مراد ہے۔ لیکن اس تاویل کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ سورت محمدﷺ کی محولہ بالا آیت میں آپﷺ کا اور آپﷺ کی امت کے بلکہ تمام مومن مردوں ور عورتوں کا صریح لفظ ہے۔ ہاں اس کی حقیقت وہی ہے۔ جو دیگر انبیاء علیہم السلام کے استغفار کی ہے۔ جسے ہم خدا کی توفیق سے مستقل طور پر الگ فصل میں ذکر کرتے ہیں۔
حقیقت استغفار انبیاء (علیہم الصلوۃ والسلام)
انبیاء اعلیہم السلام کے استغفار کرنے سے بعض لوگوں کو یہ وہم گزرا ہے کہ) معاذاللہ) ان سے بھی گناہ ہو جاتا تھا۔ خواہ کبھی کبھی ہو۔ یہ لوگ سخت غلطی پر ہیں۔ حضرات انبیاء علیہم السلام کے استغفار کی حقیقت دیگر لوگوں کے استغفار جیسی نہیں ہے بلکہ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے حضرت مو لانا رومی ؒ فرماتے ہیں۔
کار پا کاں راقیاس از خود مگیر
گرچہ ماند در نوشین شیرو شیر
اور حضرت سعدی ؒ شیرازی اس سے بھی زیادہ صفائی سے بالتصریح فرماتے ہیں
عاصیاں از گناہ توبہ کنند !
عارفاں از اطاعت استغفار
اس کی مختصر تفصیل یوں ہے کہ گناہ کہتے ہیں عمداً و قصداً جاننے بوجھتے خلاف شرع کام کرنے کو انبیاء علیہم السلام اس قسم کے ارتکاب سے قبل از نبوت بھی پاک ہوئے تھے چہ جائیکہ بعد از نبوت ان سے ایسے افعال سرزد ہوں۔
آپ کہیں گے کہ پھر جو آیات قرآنیہ اوپر مذکور ہوئی ہیں اور آنحضرتﷺ جو کثرت سے استغفار کرتے رہتے تھے۔ ان کے معنی کیا ہوں گے ؟ تو اس کا مجمل جواب یہ ہے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام کبھی تو محض اظہار عبدیت اور تواضع و انکساری کیلئے استغفار کرتے تھے اور کبھی ان سے اجتہاد میں خطا ہو گئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کواس خطا پر قائم نہیں رہنے دیا۔ بلکہ فوراً بذریعہ وحی اصلاح کر دی جیسے طعمہ بن ابیرق کے قصے میں زید بن سیمن یہودی کے گھر سے مال مسروقہ بر آمد ہونے پر آپﷺ نے اس کو چور سمجھا لیکن یہ کام اس نے نہیں کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے آگاہ کر دیا۔ سورت النساء پارہ پنچم کی آیات انا انذلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس بما ارک اللہ کی تفسیر و شان نزول میں یہ قصہ مذکور ہے اور کبھی ان کو سہو و نسیان ہو گیا اور یہ منافی عصمت نہیں کیونکہ رسالت سے بشریت کلیہ زائل نہیں ہو جاتی جیسے کہ آدمؑ کی نسبت فرمایا :۔ ولقد عھد نا الی ادم قبل فنسی ولم نجدلہ عر ما (پ طہ)
’’یعنی البتہ تحقیق عہد بھیجا ہم نے طرف آدم ؑ کی پہلے آپ سے۔ پس وہ بھول گیا اور ہم نے (اس خطاپر) اس کا عزم نہیں پایا۔
اور کبھی دو اختیاری کاموں میں ایک تو اختیار کردہ امر خلاف مصلحت وقت پڑ گیا اس صورت میں بھی اللہ تعالیٰ ان کو آگاہ کر دیتا ہے۔ جیسے کہ سفر تبوک میں نہ جانے کے لئے بعض لوگوں نے آنحضرتﷺ کے سامنے اپنے عذر پیش کر کے اجازت چاہی۔ آنحضرتﷺ کو اجازت دینے یا نہ دینے ہر دو امر کا اختیار تھا۔ آپﷺ کی اجازت نے دیدی۔ اللہ تعالیٰ نے اللہ تعالیٰ نے اس پر فرمایا:۔
عفا اللہ عنک لم اذنت لھم حتی یتبین لک الذین صدقواوتعلم الکا ذبین (توبہ ۱۰) یعنی ’’ (اے پیغمبر ﷺ!) اللہ نے آپ کو معاف کیا یا معاف کرے۔ آپﷺ نے ان کو کیوں اجازت دیدی تھی، حتیٰ کہ آپ صادق بھی ظاہر ہو جاتے۔ اور آپ کا زبوں کو بھی معلوم کر لیتے۔)
اور کبھی دو اختیاری کام کہ دونوں حد شرع میں جائز ہیں۔ بیک وقت جمع ہو گئے۔ لیکن عمل میں اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ ایک پہلے (مقدم) کرنا پڑتا ہے دوسرے کو پیچھے (موخر) کرنا پڑتا ہے اور بعض وقت یہ تقدیم و تاخیر خلاف مصلحت و خلاف موقع ہو جاتی ہے اور یہ گناہ نہیں ہے کیونکہ خلاف مصلحت اور خلاف شرح میں فرق ہے۔ جیسے کہ آنحضرتﷺ صنادید قریش میں عور کی تلقین اور تبلیغ احکام الہی فرما رہے تھے کہ اس حالت میں عبداللہ بن ام مکتوم نابینا صحابیؓ نے آ کر آپﷺ سے کچھ دریافت کرنا چاہا۔ آنحضرتﷺ وعظ تبلیغ میں مشغول تھے۔ سلسلہ کلام میں حضرت عبداللہ کا دخل اندازہ ہو نا۔ آپﷺ کو پسند نہ آیا۔ آپﷺ نے توجہ نہ کی۔ اور بیان جاری رکھا۔ یہ دونوں کام بہ یک وقت تو نہیں ہوسکتے تھے، عبداللہ وہ مسئلہ پھر بھی پوچھ سکتا تھا۔ کیونکہ وہ مخلص مومن تھا۔ لیکن قریش کی مجلس کی یہ صورت اختیاری نہ تھی۔ شاید پھر ایسا موقع کب بنتا۔ آپﷺ کولو گوں کے اسلام لانے اور ان کے نجات پانے کی فکر تھی۔ اس لئے آپﷺ نے تبلیغ کو ترجیح دی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے عبداللہ کی مسکینی اور شوق قلبی کی قدر کر کے آپﷺ پر وحی نازل فرمائی۔ کہ اس موقع پر ان کے سامنے عبداللہ کی قدر افزائی کرنی چاہیے تھی۔ تعلیم و تبلیغ ہر دو صورتیں ہیں۔ آپﷺ کو بہر حال اپنے فرض کی بجا آوری کا ثواب مل ہی جاتا اور عبداللہ کی خاطر داری اور اس سے صنادید قریش کے دل اچھا اثر پڑتا۔ وہ علاوہ تھا۔ ظاہر ہے کہ امر یہ عصیان و نافرمانی نہیں، کہ اسے گناہ سمجھیں اور عصمت کے منافی جانیں۔
ایسی ہی تقدیم و تا خیر کی نسبت اللہ تعالیٰ نے سورت انا فتحنا میں فرمایا۔ لیغفر لک اللہ ما تقدمن ذ نبک وما تا خر۔ یعنی اس فتح (صلح حدیبیہ کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی لغزشیں جو قسم تقدیم و تاخیر ہیں۔ تمام بخش دے گا۔ ‘‘
یہ سورت سفر حدیبیہ سے واپسی پر اتر ی تھی۔ سیاسی نقل و حرکت و انتظامات میں بعض امور میں ضرورۃً بعض میں اجہامداً اور بعض میں سہواً اور بعض میں اضطراراً تقدیم و تا خیر ہو جاتی ہے۔ پس خوشخبری سنادی کہ اس قسم کی سب باتیں مغفور ہیں کیونکہ نتیجہ اس صلح کا بہت بابرکت ہے اور اس لئے اس کو فتح مبین کہا گیا ہے۔
اس جگہ تقدیم و تاخیر کے معنی وہ ہیں جو بعض نے لکھے ہیں کہ ان سے قبل اور بعد نبوت کے گناہ مراد ہیں (معاذ اللہ)
آنحضرتﷺ تہجد کے وقت ایک لمبی دعا میں یہ بھی کہا کرتے تھے۔ فا غفرلی ماقدمت وما اخرت (حصن حصین صفحہ ۷۰) یعنی (الہی) مجھے بخش دے وہ جو مقدم میں نے (جسے مو خر کرنا چاہیے تھا) ۔ ‘‘
کبھی یوں اتفاق ہو گیا کہ دو کام ہیں۔ ایک رتبہ میں اولیٰ و افضل ہے دوسرا اس سے ادنیٰ ہے لیکن۔ حد شرع میں جائز دونوں ہیں۔ بعض وقت کسی خاص وجہ سے اولیٰ و افضل ترک ہو جاتا ہے اور اس سے کمتر رتبہ والا مل آ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں گناہ بھی نہیں ہے۔ اس کی مثال میں بھی حضرت عبداللہ بن مکتوم والا واقعہ پیش ہو سکتا ہے۔
چنانچہ امام رازی ؒ سورت عبس پ ۳۰ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :۔
کان ذلک جا ریا مجری ترک الا فضل فلم یکن ذنبا البتہ ( جلد ا خیر ہ صفحہ ۳۳۲) ’’ یعنی یہ کام ترک افضل کی طرح ہے گناہ ہر گناہ نہیں ہے ‘‘۔
حاصل کلام یہ کہ انبیاء علیہم السلام کے وہ امور جو کسی منکر عصمت کی نظر میں کھٹک سکے ان حقائق سے باہر نہیں ہیں اور قران و حدیث کسی نبی کے متعلق ایک دفعہ بھی ایسا مذ کور نہیں ہے کہ اس میں دیدہ دانستہ اللہ کے حکم کے خلاف ورزی پائی جائے
چونکہ ان کے باطن پاک ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال ان کے قلوب پر از حد پر تو افگن ہو تا ہے۔ اس لئے وہ اپنی اس حالت سے اپنی طہارت و پاکیزگی کی وجہ سے استغفار کرتے ہیں ۔ جس سے ان کو مراتب قرب الہی میں ترقی حاصل ہوتی ہے۔
نہ کہ وہ معاذاللہ دوسرے لوگوں کی طرح دیدہ دانستہ قوائے نفسانیہ سے مغلوب ہو کر ارتکاب گناہ کرتے ہیں اور پھر استغفار کرتے ہیں اس امر کو ذہن نشین کرنے کے لئے حضرت مولا نا رومیؒ اور حضرت شیخ سعدی ؒ کے اشعار پھر پڑھیں۔ بلکہ بار بار پڑھیں۔ حتیٰ کہ آپ کے ذہین اور قلب میں اور یہ بات مستقرہو جائے
کار پاکاں را قیاس از خود مگیر گرچہ ماند در نوشین شیروشیر
عاصیاں از گناہ توبہ کنند عارفاں از عبادت استغفار
صیغے استغفارکے بہت ہیں۔ قرآن شریف میں سے بعض اوپر گزر چکے ہیں۔ اب بعض وہ ذکر کئے جاتے ہیں۔ جو حدیث شریف میں وارد ہیں۔ ان میں سے جو چا ہو پڑھو !
۱۔ استغفار اللہ الذی لا الہ الاھو الحی القیوم و اتوب الیہ۔ (تین یا پانچ دفعہ) (۱) میں بخشش مانگتا ہوں، مانگتی ہوں۔ اللہ سے جس کے سوائے کوئی بھی معبود نہیں۔ سدا زندہ ہے۔ سدا قائم ہے اور میں اس کی طرف رجوع کرتا یا کرتی ہوں۔
۲۔ رب اغفرلی و تب علی انک انت التوب الرحیم (سو دفعہ)
اے میرے پروردگار بخش دے مجھ کو اور مہربانی سے رجوع کر مجھ پر۔ بیشک تو ہی ہے تو بہ قبول کرنے والا۔ رحم کرنے والا۔
۳۔ اللھم اغفرلی ماقدمت وما اخرت وما اسررت وما اعلنت وما اسرفت وماانت اعلم بہ منی انت المقدم وانت المو خرانت الھی۔
یا اللہ! بخش دے مجھ کو جو کچھ میں نے آگے اور جو کچھ میں نے پیچھے کیا اور جو کچھ میں نے چھپ کر کیا اور جو کچھ میں نے علانیہ کیا اور جو کچھ زیادتی کی میں نے اور جس بات کو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے تو ہی آگے کرنے والا ہے اور تو ہی پیچھے ہٹانے والا ہے۔ تو ہی میرا معبود ہے۔
لا الہ الا انت ولا حول ولا قو ۃ الا باللہ۔
نہیں طاقت (نیکی کرنے کی) اور نہیں قوت (بدی سے بچنے کی) مگر اللہ ( توفیق) سے۔ ‘‘
۴۔ رب اغفرو ارحم انک انت الاعذالا کرم۔
’’ اے میرے پروردگار بخش دے اور رحم کر بیشک تو ہی بہت عزت والا اور بزرگی والا۔ ‘‘
۵۔ اللھم اغفرلی ذنبی کلہ دفہ وجلہ واو لہ واخررہوعلا نیتہ و سرہ۔
یا اللہ ! بخش دے مجھ کو میرے گناہ سارے کے سارے چھوٹے بھی اور بڑے بھی اور پہلے کے بھی اور پیچھے بھی اور علانیہ کئے ہوئے اور پوشیدہ کئے ہوئے بھی۔ ‘‘