• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سری اور جہری نماز کا مسئلہ ؟؟؟؟؟

شمولیت
مئی 28، 2016
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
70
السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ! !!!!!
شیخ محترم ایک بھائی نے سوال کیا ہیں کہ ظہر و عصر کی نماز میں سری تلاوت اور فجر مغرب و عشاء میں جہری تلاوت کیوں ہوتی ہیں اسکی کیا حکمت ہیں.
سوال تھوڑا عجیب ہیں میں پوچھنا نہیں چاہتا تھا لیکن اس بھائی نے بہت زور دیا اس لیے پوچھ رہا ہے.

محترم شیخ@اسحاق سلفی صاحب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ! !!!!!
شیخ محترم ایک بھائی نے سوال کیا ہیں کہ ظہر و عصر کی نماز میں سری تلاوت اور فجر مغرب و عشاء میں جہری تلاوت کیوں ہوتی ہیں اسکی کیا حکمت ہیں.
سوال تھوڑا عجیب ہیں میں پوچھنا نہیں چاہتا تھا لیکن اس بھائی نے بہت زور دیا اس لیے پوچھ رہا ہے.
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
ـــــــــــــــــــــــــــــ
سوال: ما حكم الدين الإسلامي في السر في الصلاة الجهرية مثل السر في الركعتين الأولين من صلاة المغرب أو العشاء؟
ـــــــــــــــــــــ
جواب: ثبت أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يجهر بالقراءة في ركعتي الصبح وفي الأوليين من صلاة المغرب وصلاة العشاء فكان الجهر في ذلك سنة، والمشروع في حق أمته أن تقتدي به لقوله تعالى: {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا} (1) ولما ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «صلوا كما رأيتموني أصلي (2) » وإن أسر في موضع الجهر كان تاركا للسنة ولا تبطل صلاته بذلك.
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو ... عضو ... نائب رئيس اللجنة ... الرئيس
عبد الله بن قعود ... عبد الله بن غديان ... عبد الرزاق عفيفي ... عبد العزيز بن عبد الله بن باز
(فتاوى اللجنة الدائمة 8/394 )

ـــــــــــــــــــ
ترجمہ :
نماز ميں سری کی جگہ آہستہ پڑھنا > سوال: دین اسلامی میں جہری نمازوں میں آہستہ پڑھنے کا کیا حکم ہے جیساکہ مغرب یا عشاء کی نمازوں کی پہلی دو رکعتوں میں آہستہ پڑھنا؟
ــــــــــــــــــــــــــ
سوال نمبر2: فتوی نمبر:5127
سوال: دین اسلامی میں جہری نمازوں میں آہستہ پڑھنے کا کیا حکم ہے جیساکہ مغرب یا عشاء کی نمازوں کی پہلی دو رکعتوں میں آہستہ پڑھنا؟
جواب: نبی صلى الله عليه وسلم سے ثابت ہے کہ آپ فجر کی دونوں رکعتوں میں اور مغرب اور عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں اونچی قراءت کیا کرتے تھے، لہذا ان میں اونچی قراءت کرنا سنت ہے، اور آپ کی امت کے لئے مشروع ہے کہ وہ آپ کی اقتداء کرے؛ الله تعالى كے فرمان كی وجہ سے: ﯾﻘﯿﻨﺎ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍللہﻣﯿﮟ ﻋﻤﺪﮦ ﻧﻤﻮﻧﮧ ( ﻣﻮﺟﻮﺩ ) ﮨﮯ، ﮨﺮ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﻮ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﻛﯽ ﺍﻭﺭ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﻛﮯ ﺩﻥ ﻛﯽ ﺗﻮﻗﻊ ﺭﻛﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﻜﺜﺮﺕ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﻛﯽ ﯾﺎﺩ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ اور يہ نبی صلى الله عليه وسلم كى نسبت سے ثابت ہے كہ انہوں نے كہا:تم ویسے نماز پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتا ہوا دیکھتے ہو۔اور اگر کسی نے اونچا پڑھنے والی جگہ آہستہ پڑھا تو اس نے سنت كو چهوڑ ديا، اور اس کی نماز باطل نہیں۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر ممبر نائب صدر برائے کمیٹی صدر
عبد اللہ بن قعود عبد اللہ بن غدیان عبدالرزاق عفیفی عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سوال :
ظہر اورعصر کی نمازوں میں قراء ت خاموشی سے کی جاتی ہے ، جب کہ فجر ، مغرب اورعشاء کی نمازوں میں بلند آواز سے ۔ اس کی کیا حکمت ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب:
نماز ادا کرنے کا اجمالی حکم قرآن مجید میں دیا گیا ہے اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تفصیلی احکام بیان کیے ہیں ۔ آپ ؐ نے نماز ادا کرنے کا طریقہ بھی تفصیل سے بتایا ہے اورخودبھی نمازپڑھ کر دکھائی ہے ۔ حضرت مالک بن حویرث ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک وفد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا ۔ ہم لوگ ۲۰ دن ٹھیرے اور آپؐ سے دین سیکھتے رہے۔ جب واپس اپنے گھروں کوجانے لگے تو آپ ؐ نے ہمیں مختلف ہدایات دیں، جن میں یہ بھی فرمایا :
صَلُّوا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِی اُصَلِّی (بخاری:۶۳۱) جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ، اسی طرح نماز پڑھنا۔
نماز فجر میں ، اسی طرح مغرب اورعشا ء کی ابتدائی دو رکعتوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے قراء ت کرتے تھے ۔ صحابہ کرامؓ نے بھی اس پر عمل کیا اور اسی پر اب تک عمل چلا آرہا ہے ۔ اس کی کیا حکمت ہے؟ احادیث میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ حضرت ابوہریرہؓ کے کسی شاگرد نے ان سے سوال کیا کہ کیا ہررکعت میں قرآن پڑھا جاتا ہے ؟ اگر ہاں، توبعض رکعتوں میں بلند آواز سے اوربعض میں بغیر آواز کے کیوں تلاوت کی جاتی ہے ؟ انھوں نے جواب دیا :
فِیْ کُلِّ صَلاَۃٍ یُقْرَاُ ، فَمَا اَسْمَعَنَا رَسُوْلُ اللہِ اَسْمَعْنَاکُمْ ، وَمَا اَخْفٰی عَنَّا اَخْفَیْنَا عَنْکُمْ (بخاری :۷۷۲ ، مسلم: ۳۹۶)نماز (کی ہر رکعت) میں قراء ت کی جاتی ہے۔ جن رکعتوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی بلند آواز سے قراء ت کی کہ لوگ سن لیں، ان میں ہم بھی بلند آواز سے قراء ت کرتے ہیں، اورجن رکعتوں میں بغیر آواز کے قراء ت کی ہے ان میں ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔
بعض علما نے ظہر وعصر کی نمازوں میں خاموشی سے قراء ت کرنے اوردیگر نمازوں میں جہری قراء ت کرنے کی حکمت بیان کی ہے ۔ شاہ ولی اللہ ؒنے لکھا ہے :
ظہر اور عصر میں خاموشی سے قراء ت کرنے کی حکمت یہ ہے کہ دن میں بازاروں اور گھروں میں شورو شغب رہتا ہے ، جب کہ دیگر نمازوں کے اوقات میں ماحول پُرسکون رہتا ہے۔ اس لیے ان میں جہری قراء ت کا حکم دیا گیا تاکہ قرآن سن کرلوگوں کی تذکیر ہواور وہ عبرت ونصیحت حاصل کریں ۔ (حجۃ اللہ البالغۃ ، القاہرہ ، ج۲،ص ۱۵،۲۰۰۵ء)
بہر حال نماز کا اجمالی حکم تو قرآن کریم میںموجود ہے ، لیکن اس کے تفصیلی احکام اور طریقۂ ادایگی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے ۔ اس لیے ہمیں ٹھیک اسی طرح نماز ادا کرنی ہے جیسے آپؐ ادا کرتے تھے۔(مولانا ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مغرب،عشاءاورفجرکی نمازوں میں قرات جہری کیوں؟
ــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال :مغرب،عشاءاورفجرکی نمازوں میں قرات جہری کیوں ہوتی ہےاوردیگر فرض نمازوں میں کیوں نہیں؟اس حکمت کی دلیل کیا ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ سبحانہ وتعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ ان نمازوں میں جہر ی قرات میں کیا حکمت ہے؟لیکن بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ رات کی ان نمازوں میں اورصبح کی نماز میں لوگ جہری قرات سےزیادہ مستفید ہوسکتے ہیں اورظہر وعصر کی نمازوں کی نسبت ان نمازوں کے اوقات میں ان کی مشغولیت بھی کم ہوتی ہے۔واللہ اعلم۔

فتاویٰ ابن باز
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ظہر اور عصر کی نماز میں سری قراءت کی حکمت
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
منڈی احمدآباد سے محمد رفیق ساجد کہتے ہیں کہ ظہر اور عصر کی نماز میں سری قراءت کی کیا حکمت ہے۔۔۔؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے اسوہ حسنہ پر عمل کے لئے اس کی حکمتیں تلاش نہیں کرتے تھے ایمان کا تقاضا یہ ہے ککہ جب کوئی سنت صحیح سند سے ثابت ہوجائے تو اسے عمل میں لانا چاہیے اس کی حکمت معلوم ہونے تک توقف نہیں کرنا چاہیے صورت مسئولہ کے متعلق حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں قراءت کرتے تھے۔جہاں آپ نے باآواذ بلند پڑھا وہاں ہم بھی آہستہ سے پڑھتے ہیں۔ اور جہاں آپ نے آہستہ پڑھا وہاں ہم بھی اونچی آواز سے پڑھتے ہیں اور جہاں آپ نے آہستہ پڑھا ہم بھی وہاں آہستہ پڑھتے ہیںَ(صحیح بخاری :حدیث نمبر 771)

علماء نے بیان کیا ہے کہ زکر الٰہی کی دو اقسام ہیں(الف ) جہری۔(ب) سری۔رات کی نمازمیں با آواذ بلند قر اء ت ہوتی ہے اور دن کی نمازوں میں قراءت آہستہ ہوتی ہے تاکہ نمازی دونوں قسم کے اذکار پر عمل پیرا ہوسکے۔حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ:'' چونکہ دن کے وقت شور وشغب ہوتا ہے ایسی حالت میں جہری قراءت مفید نہیں ہوتی اس لئے دن کے وقت آہستہ قراءت کا حکم دیاگیا ہے۔ اس کے برعکس رات کے وقت سکون اور ٹھرائو ہوتا ہے۔لوگ جہری قراءت سے مستفید ہوتے ہیں اس لئے رات کے وقت جہری قراءت کا حکم رکھا گیا ہے جمہ وعیدین میں چونکہ مجمع کثیر ہوتا ہے اس لئے اجتماع کے پیش نظر جہر مناسب ہے ۔واللہ اعلم

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
ج1ص113
محدث فتویٰ
 
Top