سرفراز فیضی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 22، 2011
- پیغامات
- 1,091
- ری ایکشن اسکور
- 3,807
- پوائنٹ
- 376
سر سید احمد خان ماسونی تھے؟
تحریر : نظرراجی
-----------------------
سرسید احمد خان(1817ء ۔1898ء) نے بہت بڑا ''کام'' کیا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے کام کا اثر ابوالکلام آزاد جیسے قد آور شخص پر بھی نظر آتا ہے اور یہ سلسلہ یہیں تک آکر رک نہیں جاتا بلکہ اور آگے چل کر ایک بہت ہی خوبصورت نام اختیار کرلیتا ہے جس کے پروان چڑھانے والوں میں ابوالاعلیٰ مودودی، حمید الدین فراہمی اور امین احسن اصلاحی کا نام لیا جاسکتا ہے۔ نگاہ ذرا اور اوپر اٹھائیں تو مفتی محمد عبدہ اور سید رشید رضا مصری بھی نظر آجاتے ہیں۔مگر یہاں بھی انہی کا اثر تھا اس بات کی کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی جا سکتی،ہاں اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ جس ''اعتراض''(استشراقی؟) کے سامنے سرسید کی قد آوری بونی ہو گئی تھی یعنی اپنے بے داغ چہرے کو ''داغ''چھڑانے میں داغدار کر بیٹھے تھے بعینہ اسی صورت حال کا سامنا یہاں بھی تھا۔ تھے تو وہ بھی صلاحیتوں والے مگر ذہنی مرض میں یکساں یعنی اپنے آپ کو منوانے کے لیے ''حضور'' کی ہر تنبیہ پر کان دھرنے میں آگے۔ گو کہہ دیں تمہاری ناک لمبی ہے جو زمانے سے ہم آہنگ نہیں تو چھیل کر برابر کرنے کے لیے تیار ،مجال کیا کہ وہ دوبارہ''حضور''کے سامنے ان کی مبارک فرمائش پوری کیے بغیر نظر آئیں۔سرسید''نیک تھے،مخلص تھے،مسلمانوں کے خیرخواہ تھے''۔ (اے اللہ !ان اوصاف سے ہمیں بھی متصف کردے) لیکن ماسونی بھی تھے؟ اس بات کی واضح دلیل کسی کے پاس نہیں ہے۔(اس لیے کہ ماسونی ہونے کا مطلب ہی یہی ہوتا ہے کہ کام تو کسی طریقے سے ہو مگر ''دست شفقت''نظر نہ آئے،جس قوم کے لوگوں کو پھانسنا ہو لیبل اسی کا رہے تاکہ اس سے براء ت کا اظہار کرنے والوں کو آسانی سے ''باغی قوم'' قرار دیا جا سکے ۔اور کام بھی دور بینی اور دور اندیشی کے نام پر ہوتا کہ مخالفین کو ''کوتاہ عقلی ''کا طعنہ دے کر کے پوری قوم کو برگشتہ کیا جا سکے) البتہ چند رابطوں کی رودادہے جس سے ان کے ماسونی ہونے کا گمان ہوتا ہے لیکن ہم تو ایسا کرنے سے رہے کہ اللہ نے اس سے روکا ہے: ''اے ایمان والو! بہت بدگمانیوں سے بچو، یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں''۔(الحجرات:12)
مگر سرسید جب یہ کہتے ہیں کہ (۱)''معراج و شق صدر افعال رؤیاہیں (۲)حساب کتاب ،میزان اور جنت و دوزخ سے متعلق تمام قرآنی ارشادات بہ طریق مجاز و استعارہ تمثیل ہیں(۳) ابلیس اور ملائکہ سے کوئی خارجی وجود مراد نہیں ہے (۴)قرآن مجید کی کسی آیت سے ثابت نہیں ہوتا کہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام بن باپ کے پیدا ہوئے یا زندہ آسمان پر اٹھائے گئے(۵) نسخ قرآنی کا نظر یہ غلط ہے (۶) سورہ محمد کی آیت ''فاما منا'' سے اسلام نے غلامی کو ہمیشہ کے لیے موقوف کر دیا(۷)قرآن میں جن و اجنہ کے الفاظ سے چھپے ہوئے پہاڑی اور صحرائی لوگ مراد ہیں نہ کہ وہ وہمی مخلوق جو دیو اور بھوت کے الفاظ سے مفہوم ہوتی ہے ۔''(وغیرہ) تو ان کی تقریر کا وہ ٹکڑا یاد آجاتا ہے کہ ''اس زمانے میں...ایک جدید علم کلام کی حاجت ہے جس سے یا تو ہم علوم جدیدہ کے مسائل کو باطل کر دیں یا مشتبہ ٹھہرا دیں یا اسلامی مسائل کو ان کے مطابق کر کے دکھا دیں'' (شیخ محمد اکرام :موج کوثر:ص 159) اگر ''اس کے سوا سرسید کا کوئی قصور نہ تھا کہ وہ دوسرے علماء کی بہ نسبت زیادہ دور اندیش اور دور بین تھے''(شیخ اکرام) تو افسوس ان کی اس دور اندیشی اور دور بینی ''پر کہ وہ ان دو انتہائوں کے درمیان کوئی تیسرا راستہ نہ ڈھونڈ سکے۔
کیا سرسید احمد خان واقعی ماسونی تھے؟یہ سوال اپنے اندر معنویت رکھتا ہے۔کوئی صرف یہ کہہ کر آگے نہیں بڑھ سکتا کہ سرسید کی خدمات بہت زیادہ ہیں جس کے متحمل کم ہی لوگ ہوا کرتے ہیں۔ اس قسم کا مبہم جواب دینے والے کو یہ بھی بتانا پڑے گا کہ سرسید کی خدمات کیا تھیں؟ کیا ان کی خدمات مستشرقین کی خدمات کے مشابہ نہیں تھیں؟
استشراقی فتنہ کی تفہیم سرسید کی تفہیم میں معاون ثابت ہو سکتی ہے بلکہ ان کی خدمات کی حقیقت کا علم اسی سے ممکن ہے بالخصوص سادہ لوحوں کے لیے،اس ناطے کہ ان کی ترجیحات بس رواج زمانہ تک محدود ہیں جب کہ زمانے کی اونچ نیچ سمجھنے اور کھرا کھوٹا پہچاننے کے لیے ایک انصاف پسند نظر کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ سرسید کی ''قد آوری '' اور پائدار''زندگی'' کو دلیل صحت نہیں بنایا جاسکتا،دلیل تو بس ان کی ''قدآوری''اور پائدار ''زندگی''کا رخ متعین کرے گی۔ اس لیے کہ سفید و سیاہ دونوں قسم کی زندگیاں پائدار ہوتی ہیں۔اب یہ کارنامہ پر منحصر ہوتا ہے کہ فلاں نے (۱)عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ (۲)ابو جہل (۳)عبداللہ بن ابی بن سلول (۴)عبداللہ بن سبا میں سے کس کے مشن کو آگے بڑھایا ہے؟ (ظاہراً ہم نے چار رموز ذکر کیے ہیں لیکن درحقیقت وہ دو ہی ہیں۔اول الذکر رمز حق ہے اور باقی رموز باطل ،فرق صرف اتنا ہے کہ احتیاطاً باطل کی مختلف مشہور شکلیں ذکر کر دی گئیں ہیں)
''اقرأ'' کے شور میں لوگوں کو ''باسم ربک الذی خلق '' یاد نہیں رہا تو نتیجہ سامنے ہے۔جس کھیپ کی تیاری میں لوگوں نے ساری محنتیں صرف کر دیں اور اس سے مسائل کے حل کی امیدیں باندھے رہے وہی دین کی جڑیں کھودنے لگا۔''تعلیم یافتہ'' ہونے کے بعد شریعت (قرآن و سنت )کو ڈیٹ اسپائر کہہ کر ایک نئے دین کی تخلیق کرنے لگا۔ اور عقل و فکر کے بحران کا یہ عالم ہے کہ ان کے ہوش اب تک ٹھکانے نہیں آئے اور بیچارے اب بھی''ہل من مزید'' کا نعرہ لگاتے نہیں تھکتے۔''تعلیم''مسائل کا حل ثابت ہونے بجائے ایک نیا مسئلہ بن گیا ہے۔ اب اس مسئلہ کا حل کیا ہو؟
مستشرقین نے عقل کا حوالہ دے کر مسلمانوں کے ذہنوں میں تشکیک کے بیج بوئے جو الحاد پر جاکر منتج ہوا ۔ انھوں نے شکوک و شبہات کا ایک وافر ذخیرہ جمع کر دیا جس کی خوشہ چینی کر کے کچھ لوگوں نے اپنا ''علمی وفکری''رعب جمانے کی ناکام کوشش کی اور وہ بیچارے''انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون'' کا مطلب نہیں سمجھ سکے کہ اللہ کسی نہ کسی کو ان کے افکار کا پوسٹ مارٹم کرنے کے لیے ضرور کھڑا کرے گا ۔ آج بھی راشد شاز جیسے''مفکر''قسم کے لوگ وہی حرکتیںکر رہے ہیں جس کی واضح دلیل ان کی تصنیفات ''ادراک زوال امت'' اور ''ہندوستانی مسلمان :ایام گم گشتہ کے پچاس برس'' ہیں۔ سرسید بھی عقل پرستی میں دین کی الٹی تعبیر کر بیٹھے تو وہ مصلح ہوگئے؟جس کی عقل میں فتور ہوگا اس کے علاوہ اور کون کہہ سکتا ہے کہ انھیں مصلح مانو۔ اور جو حق جاننے سننے کہنے اور ماننے کی جرأت رکھتا ہے اسے جان لینا چاہیے کہ :
http://thefreelancer.co.in/show_article.php?article=939''ماسونیت... انسانی عقل کو دین پر حاکم بناتی ہے چنانچہ جب ایک شخص اپنے دین میں کوئی ایسی بات دیکھتا ہے جو اس کی عقل کے موافق نہیں ہے تو اس کو ترک کر دیتا ہے،یہی ماسونیت کی روح ہے۔''
(محمد صفوت سقاامینی/سعدی ابو حبیب۔اردو ترجمہ: عبد الوہاب حجازی: ماسونیت،ایک تاریخی دستاویز:ص72)