وزارتِ اطلاعات اور مغرب نوازوں کا بلاد حرمین میں سینما کھولنے کا فیصلہ
تحریر : علامہ عبدالمحسن العباد، حفظہ اللہ
ترجمہ : عبدالغفار سلفی، بنارس
الحمد لله رب العالمين، وصلى الله وسلم وبارك على عبده ورسوله نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين.
حمد و صلاۃ کے بعد :
میری نظر سے وہ فرمان گزرا ہے جسے وزارت ثقافت و اطلاعات کی ویب سائٹ سے نکالا گیا ہے اور جس کا عنوان ہے "وزارتِ ثقافت و اطلاعات مملکت سعودی عرب میں سنیما کا لائسنس دینے پر راضی ہو گئی ہے" اس عنوان کے تحت لکھا ہے :
"مسموعات و مرئيات کے جنرل اتھارٹی بورڈ نے وزیرِ ثقافت و اطلاعات ڈاکٹر عواد بن صالح العواد کی صدارت میں سوموار کو ہونے والی میٹنگ میں یہ پاس کیا ہے کہ مملکت سعودی عرب میں سنیما کھولنے کے لائسنس جاری کیے جائیں گے. میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ لائسنس اس شرط پر دیے جا رہے ہیں کہ 90 دنوں کے اندر اندر عوامی مقامات پر پیش کیے جانے والے تمام آڈیو اور ویڈیو مواد کو حکومتی ضوابط کے مطابق مرتب کر لیا جائے. وزارتِ ثقافت و اطلاعات نے اپنی پریس ریلیز میں کہا: آڈیو وزول میڈیا کی جنرل اتھارٹی ایسے ضروری اقدامات کرے گی جن سے سعودی عرب میں مقامی قوانین و ضوابط کے مطابق سنیما کھل سکیں. پریس ریلیز میں مزید کہا گیا : "اس سلسلے میں جو بھی مواد نشر کیا جائے گا وہ حکومت کی نشریاتی پالیسی کے معیار کے مطابق سنسر شپ کے ماتحت ہوگا". نیز اس پر بھی زور دیا گیا کہ : "جو بھی مواد پیش کیا جائے گا وہ اخلاقی قدروں کے مطابق ہوگا، مفید اور با مقصد ہوگا، شرعی احکام کے خلاف نہ ہوگا، ملک میں رائج اخلاقی قاعدے قانون سے ٹکرانے والا نہ ہوگا.
اس پورے کلام کے تعلق سے میں تنبیہاً کچھ کہنا چاہتا ہوں :
یہ فرمان چند ایام قبل پچھلے مہینے (ربیع الاول) کے اواخر میں صادر ہوا ہے. بلاد حرمین کے لیے یہ بہت خطرناک اور عجیب چیز ہے جو وزیر ثقافت و اطلاعات ڈاکٹر عواد العواد اور ان کے مغرب نواز ہمنوا شروع کرنے جا رہے ہیں. ابھی تک سنیما کھلنے کی اس مصیبت سے صرف بلادِ حرمین مملکت سعودی عرب (اللہ اسے ہر شر سے محفوظ رکھے) ہی محفوظ تھا لیکن وزیرِ اطلاعات کی صدارت میں بورڈ نے یہ ارادہ کر لیا ہے کہ یہ ملک بھی اب برائی میں دوسرے ملکوں کے نقش قدم پر چلے گا جب کہ ہونا یہ چاہیے کہ یہ ملک ایسا ہو کہ بھلائی کے سلسلے میں اس کی پیروی کی جائے،خاص طور سے اس صورت میں جب کہ حرمین شریفین اور دونوں عظیم مسجدیں اسی ملک میں ہیں، مسلمانوں کا وہ قبلہ یہیں ہے جس کی ہر جگہ نماز میں اقتدا کی جاتی ہے،یہیں مسلمانانِ عالم مناسک حج ادا کرتے ہیں، یہیں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا جسم شریف مدفون ہے، لہٰذا اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ یہ ملک ان تمام برائیوں سے محفوظ ہو جن میں دوسرے ممالک ملوث ہیں. اس برائی کا شاہ سلمان حفظہ اللہ کے دور میں شروع ہونا دراصل ان مغرب نوازوں کی طرف سے ان کے دور کو داغدار کرنے کی کوششش ہے کیونکہ اگر یہ چیز شروع ہو گئی تو تاریخ میں یہ درج ہو جائے گا کہ یہ برائی اسی عہد میں شروع ہوئی اور اس طرح یہ چیز ان مغرب نوازوں کی طرف سے شاہ سلمان (اللہ انہیں ان کاموں کی توفیق دے جن سے وہ راضی اور خوش ہو) کے ذمے بہت بڑا جرم ڈالنے کی کوشش ہوگی .
وزارت اطلاعات کی جانب سے اس چیز کا جاری ہونا درحقیقت خواہشات کی پیروی کی قبیل سے ہے. اللہ تعالٰی فرماتا ہے :
وَيُرِيدُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الشَّهَوَاتِ أَنْ تَمِيلُوا مَيْلًا عَظِيمًا
جو لوگ خواہشات کے پیروکار ہیں وہ یہ چاہتے ہیں کہ تم لوگ (اللہ کی راہ سے) پوری طرح منحرف ہو جاؤ. (النساء :27)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں :
«حفت الجنة بالمكاره وحفت النار بالشهوات
جنت کو ناپسندیدہ چیزوں سے اور جہنم کو خواہشات سے گھیر دیا گیا ہے (مسلم)
یہ ساری حرکتیں جو لوگ شروع کرنے جا رہے ہیں اور جو ان پر عمل کریں گے انہیں یہ سب قبر میں اور بعد کی زندگی میں کچھ کام نہ دے گا بلکہ دنیا اور آخرت دونوں میں نقصان کا سبب بنے گا. جو لوگ یہ برائی شروع کریں گے ان کے ذمے بعد والوں کے بھی گناہ ہوں گے. اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
ومن سن في الإسلام سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيء
"جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ رائج کیا تو اس کے اوپر اس کا بھی گناہ ہوگا اور ان لوگوں کا بھی گناہ ہوگا جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی کی جائے" (مسلم :235)
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا :
«لا تُقتل نفس ظلما إلا كان على ابن آدم الأول كفل من دمها؛ لأنه أول من سن القتل
"جب بھی کسی کو ظلماً قتل کیا جائے گا اس کے خون کا بوجھ آدم کے پہلے بیٹے (قابیل) کے سر بھی ہوگا اس لیے کہ اسی نے قتل کی شروعات کی" (بخاری :3335،مسلم:4379)
اللہ تعالٰی نے بھی اپنی کتاب عزیز میں یہ واضح کر دیا ہے کہ لہو و لعب میں غرق ہو جانا، خواہشات کی پیروی کرنا اور نعمتوں کی ناشکری کرنا عذاب الہی کے اسباب میں سے ہے. اللہ فرماتا ہے :
وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا
اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کر لیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو ( کچھ ) حکم دیتے ہیں اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر ( عذاب کی ) بات ثابت ہو جاتی ہے پھر ہم اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں ۔ (بنی اسرائیل :16)
نیز اللہ نے یہ بھی فرمایا :
وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ بَطِرَتْ مَعِيشَتَهَ
کتنی بستیوں کو ہم نے ہلاک کر دیا جنہوں نے اپنی معیشت پر غرور کیا. (القصص:58)
نیز فرمایا :
أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَى أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنَا بَيَاتًا وَهُمْ نَائِمُونَ. أَوَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَى أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ. أَفَأَمِنُوا مَكْرَ اللَّهِ فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ
کیا پھر بھی ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب شب کے وقت آپڑے جس وقت وہ سوتے ہوں ۔
اور کیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آ پڑے جس وقت کہ وہ اپنے کھیلوں میں مشغول ہوں. کیا پس وہ اللہ کی اس پکڑ سے بے فکر ہوگئے ۔ سو اللہ کی پکڑ سے بجز ان کے جن کی شامت ہی آگئی ہو اور کوئی بے فکر نہیں ہوتا. (الأعراف :97-99)
نیز اللہ نے فرمایا :
{وَمَنْ يُبَدِّلْ نِعْمَةَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی نعمتوں کو اپنے پاس پہنچ جانے کے بعد بدل ڈالے ( وہ جان لے ) کہ اللہ تعالٰی بھی سخت عذابوں والا ہے ۔(البقرة :211)
مزید اللہ نے فرمایا :
ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَى قَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ}،
یہ اس لئے کہ اللہ تعالٰی ایسا نہیں کہ کسی قوم پر کوئی نعمت انعام فرما کر پھر بدل دے جب تک کہ وہ خود اپنی اس حالت کو نہ بدل دیں جو کہ ان کی اپنی تھی (الأنفال:53)
اور فرمایا :
وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ
تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہے، وہ تو بہت کچھ معاف کر دیتا ہے. (شورى :30)
اور فرمایا :
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ
تمہارے رب نے یہ اعلان کر دیا کہ اگر تم شکر ادا کروگے تو میں تمہیں مزید دوں گا اور اگر ناشکری کروگے تو میرا عذاب بہت سخت ہے. (ابراہیم :7)
اور فرمایا :
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ
اللہ تعالٰی اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن و اطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس با فراغت ہر جگہ سے چلی آرہی تھی ۔ پھر اس نے اللہ تعالٰی کی نعمتوں کا کفر کیا تو اللہ تعالٰی نے اسے بھوک اور ڈر کا مزہ چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا ۔ (النحل:112)
میں اللہ عزوجل سے یہ دعا کرتا ہوں کہ وہ اس ملک کے امن و ایمان کو، سلامتی اور اسلام کو محفوظ رکھے، اسے اشرار کے شر سے اور فجار کے مکر سے بچائے، اس کے حکمرانوں کو ان چیزوں کی توفیق دے جن میں ملک اور عوام کی بھلائی ہو. بیشک اللہ ہی دعائیں سننے والا قبول کرنے والا ہے.
وصلى الله وسلم وبارك على نبينا محمد وعلى آله وصحبه.