بھائی اگر ناراض نہ ہوں تو اس فورم میں ان خبروں کی تشہیر کا مقصد کیا ہے؟؟؟مونٹ ایورسٹ پر چڑھ کر ان خواتین نے انسانیت کی کون سی معراج پائی ہے ؟کیا خواتین کے کرنے یہی کام ہیں ؟ اور معذرت کے ساتھ کہ پوری دنیا کے الحادی ذرائع ابلاغ کی ترجیحات(عورت خصوصآ مسلمان خاتون کی عصمت و حرمت کو تقدیس دینے کی بجائے‘اسے بازار کی نظر کیا جانااور موضوع بحث بنانا) ہماری ترجیحات کیوں ہوتی جارہی ہیں ؟اللہ سبحانہ ہم سب علم وفہم سے نوازیں‘امین
آج ہم پرآشوب وپرفتن دور سے گذر رہے ہیں، کفار نے عورت کے حساس موضوع کو اچھالنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے اور اب اس فتنے نے بڑے پیمانے پر اپنا رخ اختیار کرلیا ہے۔مردوعورت کے درمیان مساوات کے علم بردارہر جانب سے صدا لگارہے ہیں۔حالاں کہ اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے:
''وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰ''اور (نذر کے لیے) لڑکا (موزوں تھا کہ وہ) لڑکی کی طرح (ناتواں) نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ نے صنف نازک کوعزت بخشی اور اسے جاہلیت کی گندگیوں سے بچا کر مرد کے برابر اپنے پاس بدلہ مقرر فرمایا، ارشاد ربانی ہے:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ۔
جو شخص نیک اعمال کرے گا مرد ہو یا عورت وہ مومن بھی ہوگا تو ہم اس کو (دنیا میں) پاک (اور آرام کی) زندگی سے زندہ رکھیں گے اور (آخرت میں) اُن کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ دیں گے۔
نیک مرد اور نیک خواتین کے لئے اللہ تعالیٰ نے عظیم اجر کا اعلان فرمایا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا''۔
(جو لوگ خدا کے آگے سر اطاعت خم کرنے والے ہیں یعنی) مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور فروتنی کرنے والے مرد اور فروتنی کرنے والی عورتیں اور خیرات کرنے والے مرد اور اور خیرات کرنے والی عورتیں اور روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور خدا کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں۔ کچھ شک نہیں کہ ان کے لئے خدا نے بخشش اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے پاس مرد وعورت کے لئے بدلے میں برابری اور مساوات ہے: ارشاد ہے:
فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ ۖ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ۖ[آل عمران 195]
تو ان کے پرردگار نے ان کی دعا قبول کر لی (اور فرمایا) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو مرد ہو یا عورت ضائع نہیں کرتا
یاد رکھیے ! مادر پدر ازاد مغربی تہذیب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت امت مسلمہ کے گلے میں بے حمیتی و بے غیرتی کا طوق ڈالنا چاہتی ہے ۔
تاریخ قدیم میں عورت جاہلوں کے پاس ناقص، بے کار اور کم حقوق والی تصورکی جاتی تھی،
یونانیوں کے پاس عورت کی آزادی کو چھین لیا گیا تھا، اور اسے شجر مسموم سمجھا جاتا تھا،
بدھوں کے پاس عورت قابل اغواء تھی
چینیوں کے پاس اسے خرید وفروخت کیا جاتا تھا، یا پھر قرضوں کی ادائیگی کے طور پر اسے رکھا جاتا تھا،
ہندؤں کے پاس عورت کا مقام حیوان اور درندوں کے مساوی تھا، اگر شوہر مرجاتا تو اسے بھی شوہر کے ساتھ آگ کے حوالے کردیا جاتا تھا۔
اور جاہلیت میں عربوں کا حال کچھ یہ تھا کہ وہ، بچی پیدا ہونے پر اسے زندہ درگور کردیا کرتے اور گھر میں بچی کے پیدائش کو حقیر جانتے تھے۔
محرفہ تورات میں عورت کو موت کہا گیا اور نیک آدمی اسے بتایا گیا جس کے پاس کوئی عورت نہیں ہے،
دین مسیحی نے عورت کے تعلیمی حق کو سلب کرلیا تھا، پولس کہتا ہے: میں عورت کی تعلیم کو جائز نہیں قرار دیتا ہوں بلکہ اس کا کام تو ہمیشہ خاموش رہنا ہے''۔
دین اسلام آیا اور عورت کو مکمل انسانیت کا تحفہ دیا، اس نے عورت کو قابل مثال بنایا، اسے قابل اتباع وتقلید قرار دیا، اور اسے ایک ایسا زرخیز ذریعہ بنایا جس کے ذریعےانسانی شکلوں میں مضبوط قلعے نمودار ہوئے۔
لیکن جب مسلمان دنیاوی امور میں اندھا دھند پڑ گئے اور دشمنانان اسلام نے پیش قدمی کرکے مملکت اسلامیہ پر غلبہ حاصل کرلیا تو دشمنوں کو زہراگلنے کے مواقع ملے، اور جب منافقین کے ہاتھ میں اقتدار آیا تو انھوں نے عورت کو گھر سے باہر نکالنے کی پوری کوشش کی اور عورتوں کے گھر میں ٹھہرے رہنے پر واویلا مچایا۔
داعیان مغرب کی کوششیں رنگ لائیں کہ شریعت اسلامیہ کے قوانین پر یلغار کی گئی اور اپنے زعم کے مطابق احکام طلاق میں فیصلے کرکے شریعت اسلامی کی بربادی میں حصہ لیا ڈالا گیا،
تعدد ازدواج پر واویلا مچایا گیا حتی کہ نبی عصمت و عفت صلی اللہ علیہ وسلم‘جن پر ہم اور ہمارے ماں باپ فدا‘ کی ذات مبارک کو موضوع بحث بنا کر امت کے سینوں پر نشتر چلائے گئے ۔
حقوق نسواں کا مطالبہ ہوا،
پھر مردوخواتین کے مابین مساوات ،
پھرصنعتی انقلاب کے بعد آزادی نسواں،
پھر سستےمحرکات کو عورت کی ضرورت پیش آئی تو اہل ثروت ودولت افراد کی کمینی آنکھیں خواتین پر پڑیں اور ان خبثا نےعورت ایک ایسا عنصر بنا کر رکھ دیا کہ جس کے ذریعے اہل ثروت ودولت نفع حاصل کرنے لگے،
مغربی معاشروں کے ساتھ مشرقی فضائوں میں بھی عورت کا استحصال اس حد کو پہنچ گیا کہ مردوخواتین کے درمیان مکمل مساوات اور مطلق اختلاط کے مطابق عمل کیا جانے لگا،
اسی نہج کو تمام شعبوں،کمپنیوں اپنا لیا، اور عورت کو اس حال پر پہنچادیا گیا کہ ہر میدان میں اتار کر‘ ذلت آمیز کاموں کے ذریعے اس کی نسوانیت کا استحصال کیا،
افس اور پرسنل سیکرٹری بنا مرد‘ عورت کے ذریعے اپنی شیطانی خواہشات اور شہوت کی تکمیل کرنے لگا،
اور اب عورت کا مسئلہ اس حد کو پہنچ گیا ہے کہ نہ کوئی دین ہے، نہ ادب ہے نہ اخلاق ہے نہ کوئی سرزنش کرنے والا کہ سرزنش کرے بلکہ وہ کفر واباحیت کا سرچشمہ بن کر رہ گئی ہے۔
اور وحی کی انکاری اور ھویٰ کی غلام دنیا کی نظر میں یہ مساوات کہلائی ۔ جسے یہ لوگ فطرت انسانی، عقل اور شریعت کے مطابق قرار دیتے ہیں؟ کیا مرد وخواتین کے درمیان کچھ فرق بھی باقی رہا؟ کیا مرد فطرت وخلقت میں عورت کی طرح ہے؟
جو لوگ اہل مضرب کی تقلید میں مساوات کے قائل ہوئے ، یقینا انھوں نے صنف نازک پر ظلم عظیم کیا، وہ صنف نازک کو اس کے فطری مقام سے ہٹا دینا چاہتے ہیں حالاں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[الاحزاب: 33]
اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور گزشتہ زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو اور نماز پڑھو اور زکواة دو اور الله اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ لوگ عورت کو اس کی حقیقی ذمہ داریوں سے ہٹانا چاہتے ہیں اور اس کی گھریلو ذمہ داریوں کو بے نتیجہ سمجھتے ہیں،کیونکہ ان کا خیال ہے کہ گھرمیں عورت کا کوئی دخل نہیں اور نہ ہی یہ اس کا مال ہے یہی وجہ ہے اس طرح کی سوچ رکھنے والے لوگوں کےپاس کوئی گھر کا ذمہ دار نہیں ہوتا ہے۔ جبکہ مسلمانوں کے پاس عورت کا اپنے گھر میں رہنا سب سے عزت اور احترام والا کام ہے ، شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ فرماتے ہیں: ''جس نے یہ کہا کہ اسلام مساوات کا دین ہے اس نے غلط کہا''۔ بلکہ دین اسلام عدل وانصاف کا دین ہے، یہ دین تو دومساوی چیزوں کو جمع کرتا ہے اور دو الگ الگ چیزوں میں فرق کرتا ہےیہی وجہ ہے کہ قرآن میں اس موضوع کو بار بار دھرایا گیا ہے:
قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ [الرعد:16]
(یہ بھی) پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہیں؟ یا اندھیرا اور اُجالا برابر ہوسکتا ہے؟
درحقیقت عورت کا اپنے گھرسے باہر نکلنا اس کے لئے کوئی سعادت مندی ثابت نہیں۔۔۔۔۔۔۔تو پھر کیوں ہم ایسی راہ پر چلیں گے جس کی انتہا ناکامی اور بدبختی ہے،
پھر کیوں منافقین اور جہلاء اور مغرب سے متاثرافراد کتابیں لکھ کر،
عورت کی حشمت وعزت پر حملہ کرکے،
کلبوں کے قیام اور کھیلوں کے لیے خواتین کی ٹیموں کی تشکیل کرنے
عورتوں کو اعلی عہدوں پر فائز کرنے کی اپیل کررہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ لوگ تو یہ چاہتے ہیں کہ عورتوں کی ضرورتوں کا استحصال کیا جائے اور تمام میدانوں میں عورتوں کوداخل کیا جائے۔
''مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ''[القلم:36]
(تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسی تجویزیں کرتے ہو؟ )
ان حالات میں ہم پر ضروری ہے کہ ہم نیکی کا حکم دیں اور برائی سے منع کرتے رہیں،
اختلاط پر مبنی تقریبات اور مقامات سے دور رہیں،
زیب و زینت کی چیزوں سے بچیں،
ہم پر ضروری ہے کہ کھلے فسق وفجور والے اعمال کے خلاف جنگ کریں،
نیز ہماری خواتین میں ایسی باہمت ،خواتین ہوں جو جوہرِ علم سے آراستہ ہوں اور وہ اپنا دفاع آپ کرسکیں،
نیز اس شر اور برائی کو دبانے کے لئے سرگرم داعیان کی جماعت کے ساتھ تعاون کیا جائے، اسی کے ساتھ بہترین انداز سے اس برائی کاجواب دیا جائے،جس میں دلائل اور حسن پیش کش ہو،
عورتوں کی دینی تعلیم کا اہتمام کیا جائے، خصوصا ایسی خواتین تیار کی جائیں جو دیگر خواتین میں دعوت کے کام کو کرنے والی بنیں، دوسری جانب نوجوانوں کی اصلاح کی بھی فکر کی جائے، اور بروقت اور بلوغت کع پہنچتے ہی شادیوں کا اہتمام کیا جائے،
خطباء‘‘ منافقین کے منصوبوں سے لوگوں کو متنبہ کریں،
لڑکیوں کی بچپن ہی سے بہترین تربیت اور انہیں دین الہٰی پر مضبوطی سے کاربند رکھنے کی کوشش کی جائے تاکہ مستقبل میں انہیں پیش آنے والی برائیوں سے ان کی حفاظت ہو،
امت کے سامنے اس بات کو عام کیا جا ئے کہ اختلاط، امت میں کمزوری اور اس کے فساد کا باعث ہے نیز ہر موقع محل سے اختلاط کے فتنے سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے، کیونکہ بخدا خواتین اسلام ہماری عزت ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری سرزمینوں کی ہر برائی سے حفاظت فرمائے،
ہمیں امن وامان کی نعمتوں سے نوازے،
اچھی زندگی عطا فرمائے،
پاکدامنی اور عفت کی دولت سے نوازے،
فسق وفجور اور تمام برائیوں سے ہمیں دور رکھے ،
اور ہم اللہ تعالیٰ ہی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ کفار کے شرور سے ہماری حفاظت فرمائے اور مسلمانوں کی طرف سے ان کے لئے کافی ہوجائے۔
وہی ذات باری تعالیٰ ہے جو سننےوالی اور قبول کرنے والی ہے۔وصلی اللہ علی سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین۔