• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سعودی عالم دین کا فتویٰ۔۔۔کیا کہیں گے اہل فورم؟

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
ریاض: سعودی عالم دین الشیخ عبداللہ المطلق نے اپنے فتویٰ میں کہا ہے کہ غیر محرم مردوں اور خواتین کے درمیان انٹرنیٹ چیٹنگ حرام ہے۔
عرب ویب سائیٹ میں شائع کردہ خبر کے مطابق سعودی عرب کے ممتاز عالم دین اور علماء کونسل کے رکن الشیخ عبداللہ المطلق نے اپنے فتویٰ میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں سوشل میڈیا شیطانی افکار و خیالات کو فروغ دینے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔ بعض اوقات مرد و زن چیٹنگ کے دوران غیر محرموں سے ایسی باتیں بھی کہہ بیٹھتے ہیں جنہیں وہ اور ان کا رب جانتا ہے۔ خاص طور پر خواتین کے ساتھ چیٹنگ کے دوران شیطان مردوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس لئے تمام مسلمانوں کو بالعموم اور مسلمان نوجوانوں کو بالخصوص اس کے استعمال میں احتیاط سے کام لینا چاہئے۔​
الشیخ عبداللہ المطلق کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے کسی نامحرم مرد اور نامحرم خاتون کے درمیان تنہائی میں مُکالمہ غیر شرعی ہے۔ اس کے ذریعے نامحرم مرد و زن کے مابین چیٹنگ کے دوران شیطان انہیں گمراہ کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں وہ کسی غلط کام میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ وہ خاص طور پر خواتین کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ اجنبی اور نامحرم مردوں کے ساتھ انٹرنیٹ پر کسی بھی قسم کی بات چیت سے سختی سے گریز کریں۔​
ایکسپریس نیوز۔۔۔جمعرات29 مئی ، 2014​
رائے!
میں کافی دن سے تذبذب کا شکار ہوں کہ فورم پر مرد حضرات کے بیچ خواتین کا آنا ، مختلف موضوعات پر مخلوط تبصرے ، شریعت سے ہمیں کوئی ایسی ’’گنجائش‘‘ ملتی ہے؟ ، کیا فورم پر دین سیکھنے اور سکھانے میں غیر مرد و خواتین کی اکھٹے شمولیت پر کسی عالم دین کا فتویٰ یا تبصرہ بھی ہے؟؟​
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
ریاض: سعودی عالم دین الشیخ عبداللہ المطلق نے اپنے فتویٰ میں کہا ہے کہ غیر محرم مردوں اور خواتین کے درمیان انٹرنیٹ چیٹنگ حرام ہے۔
عرب ویب سائیٹ میں شائع کردہ خبر کے مطابق سعودی عرب کے ممتاز عالم دین اور علماء کونسل کے رکن الشیخ عبداللہ المطلق نے اپنے فتویٰ میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں سوشل میڈیا شیطانی افکار و خیالات کو فروغ دینے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔ بعض اوقات مرد و زن چیٹنگ کے دوران غیر محرموں سے ایسی باتیں بھی کہہ بیٹھتے ہیں جنہیں وہ اور ان کا رب جانتا ہے۔ خاص طور پر خواتین کے ساتھ چیٹنگ کے دوران شیطان مردوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس لئے تمام مسلمانوں کو بالعموم اور مسلمان نوجوانوں کو بالخصوص اس کے استعمال میں احتیاط سے کام لینا چاہئے۔​
الشیخ عبداللہ المطلق کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے کسی نامحرم مرد اور نامحرم خاتون کے درمیان تنہائی میں مُکالمہ غیر شرعی ہے۔ اس کے ذریعے نامحرم مرد و زن کے مابین چیٹنگ کے دوران شیطان انہیں گمراہ کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں وہ کسی غلط کام میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ وہ خاص طور پر خواتین کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ اجنبی اور نامحرم مردوں کے ساتھ انٹرنیٹ پر کسی بھی قسم کی بات چیت سے سختی سے گریز کریں۔​
ایکسپریس نیوز۔۔۔جمعرات29 مئی ، 2014​
رائے!
میں کافی دن سے تذبذب کا شکار ہوں کہ فورم پر مرد حضرات کے بیچ خواتین کا آنا ، مختلف موضوعات پر مخلوط تبصرے ، شریعت سے ہمیں کوئی ایسی ’’گنجائش‘‘ ملتی ہے؟ ، کیا فورم پر دین سیکھنے اور سکھانے میں غیر مرد و خواتین کی اکھٹے شمولیت پر کسی عالم دین کا فتویٰ یا تبصرہ بھی ہے؟؟​
فورم یا فیس بک ٹائپ میڈیمز میں بات چیت ”تنہائی“ میں نہیں بلکہ ”سب کے سامنے“ ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ مکالمات سب ہی پڑھ رہے ہوتے ہیں، یا سب ہی پڑھ سکتے ہیں۔ لہٰذا اس فتویٰ کا اطلاق یہاں نہیں ہوتا۔

اسی طرح اگر ای میل، ذاتی مکالمہ یا چیٹنگ سائٹ کے ذریعہ بھی اگر کوئی خاتون کسی صاحب علم مرد سے کوئی علمی معاملہ پوچھے تو اس کی بھی اسی طرح گنجائش ہے، جس طرح گھر پر مرد نہ ہونے کی صورت میں ان سے ملنے آنے والے ان کے مرد احباب سے دروازہ کے پیچھے سے خاتون خانہ ضروری معلومات کا تبادلہ کر سکتی ہے یا یہی عمل ٹیلی فون پر انجام دے سکتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
انس
خضر حیات
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
اگر فورم پر موجود خواتین ایسی آئی آڈی کا استعمال کریں جس سے معلوم نہ ہو کہ وہ طبقہ خواتین سے ہیں اور بات کرتے ہوئے ایسا صیغہ میں کلام نہ کریں جن سے ان کا موئنث ہونا عیاں ہوں تو میرے خیال میں کافی حد تک یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے
واللہ اعلم
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
حلال و حرام میں ایک حد فاصل ہے۔ اس حد کے اندر رہتے ہوئے کام کیا جائے تو وہ حلال ہی ہے حرام نہیں۔ اور اگر یہ حدود پار کر لی جائیں تو یہ کام حرام ہی ہیں حلال نہیں ہو سکتے۔
دوسری صورت یہ ممکن ہے کہ کوئی کام مالک کی اجازت سے کر لیا جائے تو حلال ہے اور اگر اس کی اجازت کے بغیر کیا جائے تو زمرہ حرام میں داخل ہونے کا قوی امکان ہے۔ مثلاً کسی شخص کی کوئی کتاب کسی ناشر کو پسند آگئی۔ وہ اس کتاب کو شائع کرنا چاہتا ہے۔ مالک سے وہ اس لئے نہ پوچھے کہ یہ تو اسلام کو پھیلانے کا ذریعہ ہے لہٰذا اس میں پوچھنے کی کیا ضرورت ہے میں خود ہی چھاپ لیتا ہوں۔ تو اس کا معاملہ اس ناشر سے مختلف ہے جس نے کتاب کے مالک سے پوچھا اور اجازت سے کتاب چھپوا کر اسلام کو پھیلانے کا ذریعہ بنا دیا۔
تیسری بات یہ بھی قابل غور ہے کہ گری پڑی چیز کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا۔ آپ ﷺ نے اس کا حکم ارشاد فرمایا۔ صحابی رضی اللہ عنہ نے گمشدہ بکری ملنے پر استفسار کیا۔ آپ ﷺ نے اسے لے لینے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ صحابی رضی اللہ عنہ نے گمشدہ اونٹ کے متعلق سوال کیا۔ آپ ﷺ نے اظہارِ ناراضگی کے ساتھ اُسے چھوڑنے کا حکم صادر فرمایا۔
مندرجہ بالا دوسری اور تیسری صورت سے ہمیں کچھ حدود کا پتہ چلتا ہے کہ کس حد تک کوئی کام جائز ہے اور کون سا ناجائز۔
اب نفس مضمون کی طرف
دین اسلام کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے خواتین کا غیر محرم سے مکالمہ کرنا جائز ہے۔ صحیح البخاری میں رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو ایک مقام پر خاص دن میں جمع ہونے کا حکم فرمایا اور انہیں دین کے متعلق رہنمائی فرمائی۔ اسی طرح صحیح بخاری ہی کے حوالے سے عید کی نماز میں جمع ہونے والی خواتین کے پاس جا کر رسول اللہ ﷺ کا عورتوں کو وعظ و نصیحت فرمانا بھی غیر محرم سے علم دین حاصل کرنے پر دال ہے۔
بعض اوقات ایسی بھی صورت حال پیش آ سکتی ہے کہ کوئی محرم مرد خواتین کو بعض شرعی اُمور بتانے کا اہل نہیں ہوتا لہٰذا خواتین کو غیر محرم سے پوچھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ جس کی دلیل یہ ہے کہ بعض اوقات صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول اللہ ﷺ سے ایسے شرعی مسائل پوچھ لیا کرتی تھیں جن پر بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بسا اوقات غصہ بھی آجاتا تھا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پرواہ نہیں کی اور شرعی مسائل بتا دیئے۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ کوئی غیر محرم عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور اُس نے رسول اللہ ﷺ سے کسی مسئلے کی کیفیت پوچھی۔ رسول اللہ ﷺ نے حیا کے تقاضے کو ملحوظ خاطر رکھا اور بالکل کھل کر جواب ارشاد نہیں فرمایا۔ حتی کہ اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا نے اس خاتون کو اپنی طرف متوجہ کیا اور رسول اللہ ﷺ کا موقف اور مدعا بیان فرما دیا۔ تفصیل کے لئے صحیح بخاری کی پہلی جلد دیکھی جا سکتی ہے۔ خاص طور پر کتاب العلم۔ کتاب الغسل۔ کتاب الصلوٰۃ۔ وغیرہ وغیرہ۔
یہاں سے ہمیں چند حدود و قیود کا پتہ چلتا ہے کہ کس حد تک کسی غیر محرم سے دین کا علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔
محترم شیخ کےفتوے سے صراحتا پتہ چلتا ہے کہ بعض سائیٹس پر بے تحاشا اور بےہنگم دلی بیمار لوگ اپنی بیہودگی کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔ اور قرآن و سنت میں بیان کی گئی غیرت ایمانی اور غیرت اسلامی کی دھجیاں بکھر رہی ہوتی ہیں۔ لہٰذا ایسے ماحول میں کھلے عام غیر محرم سےچیٹنگ کرنا وغیرہ وغیرہ کم از کم اس فتنے سے خالی معلوم نہیں ہوتا کہ آج نہیں تو کل دس بیس سال بعد جاہل قسم کے لوگ آج کے بڑے پکے ایماندار لوگوں کی فیس بک آئی ڈی وغیرہ کو دلیل کے طور پر پیش کریں گے۔ کہ اتنے بڑے بزرگ رہنما نے بھی فیس بک استعمال فرمائی وغیرہ وغیرہ۔
چنانچہ جہاں برائی کی بھرمار ہو۔ کثرت ہو۔ اور دھوکہ کھانے کے بےشمار مواقع موجود ہوں ایسے حالات و واقعات کو سامنے رکھ کر شیخ کا یہ فتوی دیکھا جائے تو بےجا نہ ہو گا بلکہ مفید ہو گا۔
اس لئے بھی کہ
راقم کی پیش کردہ تمام مثالیں دنیا کے بہترین معاشرے کی ہیں اور شرعی مسائل بتانے والے وہ (رسول ﷺ) ہیں جن سے عرب کی کنواری عورتیں حیا کا سبق سیکھا کرتی تھیں۔ اور پوچھنے والی خواتین رسول اللہ ﷺ کے گھر چل کر آتی تھیں۔ لوگوں کے علم میں بھی یہ بات آتی تھی کہ میری گھر والی یا میری فلاں عزیزہ یا ایمان والوں کی فلاں عورت رسول اللہ ﷺ کے گھر گئی ہے۔ اس انداز سے اپنے محلے، گاؤں یا شہر کے بزرگ عالم سے شرعی مسائل پوچھنا وغیرہ وغیرہ بالکل حرام نہیں ہوں گے ان شاء اللہ العزیز
اس کے برعکس
ایسی سائیٹس جن پر نہ تو پوچھنے والے کا پتہ ہے اور نہ بتانے والے کا پتہ ہے۔ الا ماشاء اللہ۔ چند ایک واقعات چھوڑ کر زیادہ تر فتنہ و فساد کے واقعات ہی رونما ہوئے ہیں۔ حواس باختگی اور شرم و حیاء کی دھجیاں بکھیرنے والے واقعات ہی زیادہ تر رونما ہوئے ہیں۔
اسی لئے احتیاطاً شیخ کے فتوے کو اپنے دل میں جگہ دے دی جائے تو کم از کم ہماری اہل ایمان خواتین ایسے دلخراش واقعات سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
فورم یا فیس بک ٹائپ میڈیمز میں بات چیت ”تنہائی“ میں نہیں بلکہ ”سب کے سامنے“ ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ مکالمات سب ہی پڑھ رہے ہوتے ہیں، یا سب ہی پڑھ سکتے ہیں۔ لہٰذا اس فتویٰ کا اطلاق یہاں نہیں ہوتا۔

اسی طرح اگر ای میل، ذاتی مکالمہ یا چیٹنگ سائٹ کے ذریعہ بھی اگر کوئی خاتون کسی صاحب علم مرد سے کوئی علمی معاملہ پوچھے تو اس کی بھی اسی طرح گنجائش ہے، جس طرح گھر پر مرد نہ ہونے کی صورت میں ان سے ملنے آنے والے ان کے مرد احباب سے دروازہ کے پیچھے سے خاتون خانہ ضروری معلومات کا تبادلہ کر سکتی ہے یا یہی عمل ٹیلی فون پر انجام دے سکتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
انس
خضر حیات
فیس بک پر تو سب کے سامنے نہیں ہوتی!
فورم میں تو گنجایش ہے،اگرچہ احتیاط لازم ہے لیکن فیس بک بہت بڑا فتنہ ہے،بے شمار بربادی کی داستانیں سننے دیکھنے میں آئی ہیں؛اللہ رب العزت ہماری عزت و ناموس کی حفاظت فرمائے،آمین
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
موضوع حساس ہے۔۔ہماری حالت تو یہ ہے کہ خوہش نفسانی کو "الٰہ" بنا بیٹھے ہیں۔۔جو جی نے درست جانا۔۔وہی کریں گے!!جسے پسند ہے وہ رد میں ڈھیر لگائے گاجسے نا پسند ہے وہ اسے ہر صورت قبول کروائے گا۔۔اللہ سبحانہ وتعالٰی سے دعا ہے کہ ہمیں صاف ،سیدھی،سچی اور کھری بات کرنے اورپھر اس پر سب سے پہلے کہنے والے اور پھر دیگر کوعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
میں پہلے بھی یہ بات کہہ چکی ہوں کہ بے مقصد،فضول بات کی ممانعت ہے چاہے وہ کزنز ہوں یا نیٹ نا محارم۔۔اگراخلاق کی حدود میں لطیف پیرائے میں کوئی بات کی جاتی ہے تو درست ہے۔۔
مزیدلازم تو نہیں کہ ف ب یا فورم پر محض تنہائی میں ہی لغو بات کی جائے۔۔معاشرے میں برائی اس قدر ہے کہ سرراہ گناہ کرنے والے کی بھی پکڑ نہیں ہوتی!!یہاں یہ بات ذہن میں رکھین کہ تنہائی یا پی ایم(ذپ) وغیرہ سے تو حتی الامکان گریز کریں۔۔اصل مصیبت وہاں اترتی ہے!!
بے سراغ نام رکھنا:چیٹ رومز پر تو یہ صورت نکل سکتی ہے اور عام سائیٹس،فارمز پر اگر محض اپنے کام سے کام اور دینی مسائل،علم ہی حاصل کرنا ہے۔۔بصورتِ دیگر یہ معاملہ خاصا پیچیدہ اور برائی لیے آتا ہے!!
فارمز پر یہ سہولت ہے کہ اگر آپ کو کسی مشکل کا سامنا ہے تو آپ ایڈمینسٹریٹر سے شکایت کر سکتے ہیں۔۔ف ب پر کس کو شکایت لگائیں گے؟؟سب سے اہم کہ اپنے گھر والوں کو بتائے بغیر ،چھپ کرنیٹ استعمال کرنا اس قسم کے معاملات جنم دیتا ہے۔۔آئی ڈی اس طور کی ہو کہ کسی کو اپنی آئی ڈی تحوالے کرتے وقت شرمندگی یا ہچکچاہٹ نہ ہو!!!
یہ سوچ رکھیں کہ اگر گھر کے محارم نے آئی ڈی اور پوسٹس دیکھیں تو تاثرات کیا ہوں گے؟؟اگراس حوالےسے دل مطمئن ہے تو بہت بہتر نہیں تو ہمیں ابھی بدلنے کی ضرورت ہے!!
اللہ سبحانہ وتعالٰی ہمارے دلوں کو نیکی پر ثبات عطا فرمائے اور ہمارے حالوں پر رحم فرمائے۔آمین
اس کے برعکس ایسی سائیٹس جن پر نہ تو پوچھنے والے کا پتہ ہے اور نہ بتانے والے کا پتہ ہے۔ الا ماشاء اللہ۔ چند ایک واقعات چھوڑ کر زیادہ تر فتنہ و فساد کے واقعات ہی رونما ہوئے ہیں۔ حواس باختگی اور شرم و حیاء کی دھجیاں بکھیرنے والے واقعات ہی زیادہ تر رونما ہوئے ہیں۔
اسی لئے احتیاطاً شیخ کے فتوے کو اپنے دل میں جگہ دے دی جائے تو کم از کم ہماری اہل ایمان خواتین ایسے دلخراش واقعات سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
متفق۔۔ایسے فتاوٰی جات کی یاددہانی سے تذکیر ہوتی رہتی ہے اور تذکیریقینا کام آسان بنا دیتی ہے!!
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
محترم محمد آصف مغل بھائی ،
آپ نے بہت عمدگی سے سمجھایا۔ماشاء اللہ
اصل بات تو یہی ہے بھائی کہ فورم پر بتانے والے کا کچھ پتا نہیں۔بلکہ عامیانہ خیالات ہی ہیں ، اور اوپن ہی سہی مگر عورت اور مرد کے مابین گفتگو جاری رہتی ہے۔مجھے اس مسئلے کے لیے علماء سے جواب چاہیئے۔محدث فورم کے علاوہ ، فیس بک یا دیگر کسی سائٹ سے منسلک نہیں ہوں ۔الحمد للہ علی ذلک
لیکن کیا خواتین دین کی آگہی کے لیے لازم وملزوم فورم جوائن کریں؟ جبکہ جوائن کیئے بغیر بھی استفادہ کی صورت موجود ہے۔
کیا باپ بھائی ، یا شوہر کی اجازت بھی اس میں ضروری ہے؟
کیا ان مکالمات کا روز قیامت حساب ہو گا ، جو کہ خواتین وضاحت کے پیش نظر بیان کرتی ہیں۔
علماء بہتر رہنمائی کر سکتے ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اس طرح کے مسائل میں علماء سے رہنمائی کے ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی پیش نظر رہنی چاہیے :
الاثم ما حاك في صدرك و كرهت أن يطلع عليه الناس ( مسند احمد )
جو حرکات و سکنات خود اپنے دل میں کھٹکیں ،اور لوگوں کا اس پر اطلاع پانا نا پسند ہو ، وہ گناہ ہی ہے ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
اس طرح کے مسائل میں علماء سے رہنمائی کے ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی پیش نظر رہنی چاہیے :
الاثم ما حاك في صدرك و كرهت أن يطلع عليه الناس ( مسند احمد )
جو حرکات و سکنات خود اپنے دل میں کھٹکیں ،اور لوگوں کا اس پر اطلاع پانا نا پسند ہو ، وہ گناہ ہی ہے ۔
محترم شیخ!
کوئی ایک مثال دے کر سمجھائیں. زیر بحث مسئلہ کی.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
محترم شیخ!
کوئی ایک مثال دے کر سمجھائیں. زیر بحث مسئلہ کی.
کسی کی تحریر کو اس کا نام ختم کرکے شیئر کرتے ہوئے ، یہ رویہ دل میں کھٹکتا ہے کہ نہیں ؟
یہ ہمارے دل کا فتوی ہے ۔
کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے ۔
 
Top