- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
''مدینہ منورہ'' میں ایک ایسی مسجد ہے جس کے دو نام ہیں: پہلا ''مسجد شکر'' ہے اور ''مسجد سجدہ'' دوسرا نام ہے، آج جس جگہ یہ مسجد ہے میرے حضورؐ کے دور میں یہاں ایک باغ ہوا کرتا تھا۔ مسند احمد کی روایت کے مطابق حضورؐ گھر سے نکلے اور اس باغ کی طرف چل دیئے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے دیکھا کہ حضورؐ اکیلے ہی جا رہے ہیں تو دبے پاؤں ذرا فاصلہ رکھ کر پیچھے پیچھے وہ بھی چل دیئے۔ بتلاتے ہیں کہ حضورؐ باغ میں داخل ہو گئے اور رب کریم کے حضور سجدہ ریز ہو گئے۔ میں فاصلے پر بیٹھ گیا، حضورؐ نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ میں نے دل میں خیال کیا کہ شاید حضورؐ اپنے اللہ کے ہاں تشریف نہ لے گئے ہوں۔ چنانچہ میں ذرا آگے بڑھا تاکہ حضورﷺ کو دیکھوں، اتنے میں آپؐ کو کسی کی موجودگی کا احساس ہوا، تو سجدے سے فارغ ہو کر فرمانے لگے۔ کون؟ میں نے عرض کیا، عبدالرحمن ہوں اور ساتھ ہی اپنے خدشے سے آگاہ کیا۔ اب میں حضورؐ کے پاس چلا گیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ میرے پاس ابھی کچھ دیر پہلے حضرت جبریل آئے تھے اور انہوں نے اللہ کا یہ پیغام دیا تھا کہ اے میرے رسولؐ! جو شخص آپؐ پر صلوٰۃ (درود) بھیجے گا اس پر دس رحمتیں نازل کروں گا اور جو سلام بھیجے گا اسے سلامتی عطا فرماؤں گا، تو میں اللہ کا شکر ادا کرنے کیلئے یہاں چلا آیا۔
قارئین کرام! آج اسی جگہ مسجد شکر یا مسجد سجدہ بنائی گئی ہے، سعودی عرب کے سابق بادشاہ خادم الحرمین الشریفین فہد بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے یہاں خوبصورت مسجد بنوائی۔ مدینہ منورہ میں جانے والا زائر یہ مسجد دیکھتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حضورؐ عزت کی نعمت ملنے پر اللہ کا شکر بجا لانے کے لئے خلوت کی تلاش میں تھے، مگر وہ خلوت باقی نہ رہی اس لئے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے اسے امت کے لئے جلوت بنا دیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا شکریہ کہ انہوں نے امت کی جھولی میں شکریے کایاقوت ڈال دیا۔
اللہ اللہ! میرے حضورؐ کا تو یہ بھی فرمان ہے کہ ''جس نے انسانوں کا شکریہ ادا نہیں کیا اس نے اللہ کا شکریہ بھی ادا نہیں کیا''۔ یہ بھی حقیقت اور ایمان کی بات ہے کہ حضورؐ کی ہر حدیث اللہ کا الہام اور وحی کا پیغام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ پاک چاہتے یہ ہیں کہ انسان پر کوئی انسان احسان کرے تو انسان پر لازم ہے کہ اپنے محسن کا شکریہ ادا کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو انسانیت تو دور کی بات ہے، اس انسان نے حیوانیت کو بھی نہیں سمجھا۔ انسان جب حیوانوں پر اتنا ساہی احسان کرتا ہے کہ ان کو خوراک دیتا ہے تو کتا رکھوالی کرتا ہے، باز اس کا حکم مانتا ہے، بھیڑ بکریاں اس کے پیچھے چلتی ہیں، پرندے اس سے مانوس ہوتے ہیں حتیٰ کہ شیر چیتے جیسے درندے بھی اس سے پیار کرتے ہیں۔
قارئین کرام! پاکستان ابھی بنا نہ تھا، بنانے کی تحریک جاری تھی، ان دنوں سعودی عرب نے قائداعظم کی مسلم لیگ کو دس لاکھ پاؤنڈ کی امداد دی، یعنی پاکستان کی بنیادوں میں سعودی عرب کا پیسہ لگا ہوا ہے۔ اس وقت تیل نہ نکلا تھا، یہ پیسہ حاجیوں کی کمائی والا تھا۔ اللہ اللہ! اس قدر پاکیزہ مال کہ رب کے مہمانوں کا مال پاکستان کی بنیاد میں لگایا تو سعودی عرب نے لگایا۔ مزید سنئے! پاکستان بننے سے پہلے حضرت قائداعظمؒ نے ایم ایچ اصفہانی کو مسلم لیگ کے ایک وفد کا سربراہ بنا کر امریکہ میں بھیجا تاکہ وہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں پاکستان کا مقدمہ پیش کریں۔ یہ وفد امریکہ میں جا کر ''یو این'' کی بلڈنگ کے سامنے کھڑا ہو گیا مگر اسے اندر جانے کی اجازت نہ دی گئی اور کہا گیا کہ یہاں جماعتوں اور تحریکوں کو نمائندگی نہیں دی جاتی۔ یہاں تو ملکوں کے نمائندوں کو نمائندگی ملتی ہے۔ اتنے میں شاہ فیصل جو سعودی عرب کے وزیر خارجہ تھے۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے باہر آئے تو انہوں نے مسلمانان برصغیر کو دیکھا۔ ان سے ملے اور حالات معلوم کیے تو انہوں نے حوصلہ دلایا اور کہا: آپ واپس اپنی قیام گاہ پر چلے جائیں، میں آپ کو بلاؤں گا۔۔۔ اب شاہ فیصل نے کیا کیا، انہوں نے جنرل اسمبلی کے تمام ارکان کی دعوت کر دی اور نیو یارک کے ایک بڑے ہوٹل جس کا نام ''اسٹوویا'' تھا میں بلا لیا۔ تمام مہمان جب وہاں آ گئے تو شاہ فیصل رحمہ اللہ نے مسلم لیگی وفد سے کہا کہ آپ اپنا موقف یہاں پیش کریں۔ اب ایم ایچ اصفہانی اور جی الانہ اپنا موقف پیش کر رہے تھے۔ بتلا رہے تھے کہ پاکستان کا قائم ہونا کیوں ضروری ہے؟
قارئین کرام! ذرا سوچیے! شاہ فیصل نے جنرل اسمبلی کا اجلاس اپنی دانائی اور حکمت سے ہوٹل میں بلا لیا اور وہاں تفصیل سے پاکستان کا مقدمہ پیش کر دیا گیا اور پاکستان قائم ہو گیا۔۔۔ یوں پاکستان بننے سے قبل پاکستان کی بنیاد میں عالمی سطح کا کردار ادا ہوا تو سعودی عرب نے کیا۔ مجھے کہنے دیجئے کہ 23 مارچ 1940ء کا دن جب لاہور میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی تھی تو یہ برصغیر کے مسلمانوں کی قرار داد تھی اور اس کے مقابلے میں عالمی سطح پر جو قرار داد تھی وہ سعودی عرب نے پیش کروائی تھی۔ اس لئے میں کہوں گا کہ 23 مارچ 1940ء کی یاد میں لاہور کا مینار پاکستان بنا ہے تو اسلام آباد کی فیصل مسجد ہمیں اس بات کی یاد دلاتی ہے کہ شاہ فیصل رحمہ اللہ نے کتنا بڑا کردار ادا کیا تھا۔ میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کروں گا کہ شاہ فیصل مسجد کے مینار پر شاہ فیصل رحمہ اللہ کے مندرجہ بالا کردار کو تاریخ کی ایک یادگار حیثیت دے کر اسے اسی طرح تحریر کیا جائے جس طرح مینار پاکستان پر ''قرار داد پاکستان'' کا متن تحریر کیا گیا ہے، شکریے اور سپاس گزاری کا یہ بہترین طریقہ ہے اور ہمارا فریضہ ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ آج سعودی عرب نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر دے دیئے تو بعض لوگوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ میں پوچھتا ہے۔
(1) پاکستان بننے سے پہلے مسلم لیگ کو دس لاکھ پونڈ جو دیئے گئے، ان کا کیا مطلب تھا؟
(2) شاہ فیصل رحمہ اللہ نے جو کردار ادا کیاتھا، اس کا کیا مطلب تھا؟
(3) ایٹمی دھماکوں پر جو مفت تیل دیا گیا اس کا کیا مطلب تھا؟
(4) ہر آفت کے آنے پر جو امداد دی گئی اس کا کیا مطلب تھا۔۔۔ 2005ء کے زلزلے میں سعودی شاہی خاندان نے جو ذاتی عطیات دیئے ان کا کیا مطلب تھا؟ عام سعودی خواتین نے اپنے زیور اتار کر دیئے اس کا کیا مطلب تھا؟ جو مطلب آئے روز کی امدادوں کا تھا وہ مطلب آج ہے۔ دوسرا کوئی مطلب نہیں ہے۔
ہم سمجھتے ہیں سارا پاکستان حرمین شریفین کے تحفظ اور خدمت کے لئے ہے۔ حرمین کے خدمت گاروں کی خدمت کے لئے ہے۔ اور یہ وہ اعزاز ہے کہ جس کا استحقاق پاکستان کو حاصل ہے۔ شکریے کے بجائے آج جو انداز پاکستان کے بعض لوگ اختیار کئے ہوئے ہیں اور ڈیڑھ ارب ڈالر پر دور کی کوڑیاں لا رہے ہیں۔ ان کے اس انداز پر مکہ مدینہ سے محبت کرنے والوں کو شرمندگی کا احساس ہو رہا ہے کہ ہم مدینہ منورہ جائیں گے تو مسجد شکر اور مسجد سجدہ میں کس منہ سے جائیں گے؟ کہ حضورؐ نے تو محسنوں کا شکریہ ادا کرنے کا انداز سکھلایا ہے۔ مسجد نبوی شریف میں ''ریاض الجنۃ'' میں کس منہ سے بیٹھیں گے کہ یہ ''جنتی باغیچہ'' جن کے پاک نام پر ر جسٹر ہے وہ پاک نبی کریمؐ تو یہ بتلاتے ہیں کہ جس کسی نے اپنے محسن کا شکریہ ادا نہیں کیا اس نے اللہ کا شکر ا دا نہیں کیا۔۔۔ آیئے! اپنے محسن سعودی عرب کا شکریہ ا دا کریں۔ بھانت بھانت کی بولیاں بول کر ناشکری نہ کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شرمندگی کے پیالے میں پھر ناک ڈبوتے پھریں۔ (امیر حمزہ کا کالم مطبوعہ روزنامہ نئی بات 2 اپریل 2014ء)
قارئین کرام! آج اسی جگہ مسجد شکر یا مسجد سجدہ بنائی گئی ہے، سعودی عرب کے سابق بادشاہ خادم الحرمین الشریفین فہد بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے یہاں خوبصورت مسجد بنوائی۔ مدینہ منورہ میں جانے والا زائر یہ مسجد دیکھتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حضورؐ عزت کی نعمت ملنے پر اللہ کا شکر بجا لانے کے لئے خلوت کی تلاش میں تھے، مگر وہ خلوت باقی نہ رہی اس لئے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے اسے امت کے لئے جلوت بنا دیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا شکریہ کہ انہوں نے امت کی جھولی میں شکریے کایاقوت ڈال دیا۔
اللہ اللہ! میرے حضورؐ کا تو یہ بھی فرمان ہے کہ ''جس نے انسانوں کا شکریہ ادا نہیں کیا اس نے اللہ کا شکریہ بھی ادا نہیں کیا''۔ یہ بھی حقیقت اور ایمان کی بات ہے کہ حضورؐ کی ہر حدیث اللہ کا الہام اور وحی کا پیغام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ پاک چاہتے یہ ہیں کہ انسان پر کوئی انسان احسان کرے تو انسان پر لازم ہے کہ اپنے محسن کا شکریہ ادا کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو انسانیت تو دور کی بات ہے، اس انسان نے حیوانیت کو بھی نہیں سمجھا۔ انسان جب حیوانوں پر اتنا ساہی احسان کرتا ہے کہ ان کو خوراک دیتا ہے تو کتا رکھوالی کرتا ہے، باز اس کا حکم مانتا ہے، بھیڑ بکریاں اس کے پیچھے چلتی ہیں، پرندے اس سے مانوس ہوتے ہیں حتیٰ کہ شیر چیتے جیسے درندے بھی اس سے پیار کرتے ہیں۔
قارئین کرام! پاکستان ابھی بنا نہ تھا، بنانے کی تحریک جاری تھی، ان دنوں سعودی عرب نے قائداعظم کی مسلم لیگ کو دس لاکھ پاؤنڈ کی امداد دی، یعنی پاکستان کی بنیادوں میں سعودی عرب کا پیسہ لگا ہوا ہے۔ اس وقت تیل نہ نکلا تھا، یہ پیسہ حاجیوں کی کمائی والا تھا۔ اللہ اللہ! اس قدر پاکیزہ مال کہ رب کے مہمانوں کا مال پاکستان کی بنیاد میں لگایا تو سعودی عرب نے لگایا۔ مزید سنئے! پاکستان بننے سے پہلے حضرت قائداعظمؒ نے ایم ایچ اصفہانی کو مسلم لیگ کے ایک وفد کا سربراہ بنا کر امریکہ میں بھیجا تاکہ وہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں پاکستان کا مقدمہ پیش کریں۔ یہ وفد امریکہ میں جا کر ''یو این'' کی بلڈنگ کے سامنے کھڑا ہو گیا مگر اسے اندر جانے کی اجازت نہ دی گئی اور کہا گیا کہ یہاں جماعتوں اور تحریکوں کو نمائندگی نہیں دی جاتی۔ یہاں تو ملکوں کے نمائندوں کو نمائندگی ملتی ہے۔ اتنے میں شاہ فیصل جو سعودی عرب کے وزیر خارجہ تھے۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے باہر آئے تو انہوں نے مسلمانان برصغیر کو دیکھا۔ ان سے ملے اور حالات معلوم کیے تو انہوں نے حوصلہ دلایا اور کہا: آپ واپس اپنی قیام گاہ پر چلے جائیں، میں آپ کو بلاؤں گا۔۔۔ اب شاہ فیصل نے کیا کیا، انہوں نے جنرل اسمبلی کے تمام ارکان کی دعوت کر دی اور نیو یارک کے ایک بڑے ہوٹل جس کا نام ''اسٹوویا'' تھا میں بلا لیا۔ تمام مہمان جب وہاں آ گئے تو شاہ فیصل رحمہ اللہ نے مسلم لیگی وفد سے کہا کہ آپ اپنا موقف یہاں پیش کریں۔ اب ایم ایچ اصفہانی اور جی الانہ اپنا موقف پیش کر رہے تھے۔ بتلا رہے تھے کہ پاکستان کا قائم ہونا کیوں ضروری ہے؟
قارئین کرام! ذرا سوچیے! شاہ فیصل نے جنرل اسمبلی کا اجلاس اپنی دانائی اور حکمت سے ہوٹل میں بلا لیا اور وہاں تفصیل سے پاکستان کا مقدمہ پیش کر دیا گیا اور پاکستان قائم ہو گیا۔۔۔ یوں پاکستان بننے سے قبل پاکستان کی بنیاد میں عالمی سطح کا کردار ادا ہوا تو سعودی عرب نے کیا۔ مجھے کہنے دیجئے کہ 23 مارچ 1940ء کا دن جب لاہور میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی تھی تو یہ برصغیر کے مسلمانوں کی قرار داد تھی اور اس کے مقابلے میں عالمی سطح پر جو قرار داد تھی وہ سعودی عرب نے پیش کروائی تھی۔ اس لئے میں کہوں گا کہ 23 مارچ 1940ء کی یاد میں لاہور کا مینار پاکستان بنا ہے تو اسلام آباد کی فیصل مسجد ہمیں اس بات کی یاد دلاتی ہے کہ شاہ فیصل رحمہ اللہ نے کتنا بڑا کردار ادا کیا تھا۔ میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کروں گا کہ شاہ فیصل مسجد کے مینار پر شاہ فیصل رحمہ اللہ کے مندرجہ بالا کردار کو تاریخ کی ایک یادگار حیثیت دے کر اسے اسی طرح تحریر کیا جائے جس طرح مینار پاکستان پر ''قرار داد پاکستان'' کا متن تحریر کیا گیا ہے، شکریے اور سپاس گزاری کا یہ بہترین طریقہ ہے اور ہمارا فریضہ ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ آج سعودی عرب نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر دے دیئے تو بعض لوگوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ میں پوچھتا ہے۔
(1) پاکستان بننے سے پہلے مسلم لیگ کو دس لاکھ پونڈ جو دیئے گئے، ان کا کیا مطلب تھا؟
(2) شاہ فیصل رحمہ اللہ نے جو کردار ادا کیاتھا، اس کا کیا مطلب تھا؟
(3) ایٹمی دھماکوں پر جو مفت تیل دیا گیا اس کا کیا مطلب تھا؟
(4) ہر آفت کے آنے پر جو امداد دی گئی اس کا کیا مطلب تھا۔۔۔ 2005ء کے زلزلے میں سعودی شاہی خاندان نے جو ذاتی عطیات دیئے ان کا کیا مطلب تھا؟ عام سعودی خواتین نے اپنے زیور اتار کر دیئے اس کا کیا مطلب تھا؟ جو مطلب آئے روز کی امدادوں کا تھا وہ مطلب آج ہے۔ دوسرا کوئی مطلب نہیں ہے۔
ہم سمجھتے ہیں سارا پاکستان حرمین شریفین کے تحفظ اور خدمت کے لئے ہے۔ حرمین کے خدمت گاروں کی خدمت کے لئے ہے۔ اور یہ وہ اعزاز ہے کہ جس کا استحقاق پاکستان کو حاصل ہے۔ شکریے کے بجائے آج جو انداز پاکستان کے بعض لوگ اختیار کئے ہوئے ہیں اور ڈیڑھ ارب ڈالر پر دور کی کوڑیاں لا رہے ہیں۔ ان کے اس انداز پر مکہ مدینہ سے محبت کرنے والوں کو شرمندگی کا احساس ہو رہا ہے کہ ہم مدینہ منورہ جائیں گے تو مسجد شکر اور مسجد سجدہ میں کس منہ سے جائیں گے؟ کہ حضورؐ نے تو محسنوں کا شکریہ ادا کرنے کا انداز سکھلایا ہے۔ مسجد نبوی شریف میں ''ریاض الجنۃ'' میں کس منہ سے بیٹھیں گے کہ یہ ''جنتی باغیچہ'' جن کے پاک نام پر ر جسٹر ہے وہ پاک نبی کریمؐ تو یہ بتلاتے ہیں کہ جس کسی نے اپنے محسن کا شکریہ ادا نہیں کیا اس نے اللہ کا شکر ا دا نہیں کیا۔۔۔ آیئے! اپنے محسن سعودی عرب کا شکریہ ا دا کریں۔ بھانت بھانت کی بولیاں بول کر ناشکری نہ کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شرمندگی کے پیالے میں پھر ناک ڈبوتے پھریں۔ (امیر حمزہ کا کالم مطبوعہ روزنامہ نئی بات 2 اپریل 2014ء)