• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سعودی عرب میں طلاق کا بڑھتا رجحان

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,424
پوائنٹ
521
سعودی عرب میں طلاق کا بڑھتا رجحان

طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے سعودی خواتین میں اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے شادی سے قبل اعلیٰ تعلیم کے حصول سمیت دیگر آپشنز کا استعمال بڑھ رہا ہے۔

سعودی عرب دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں طلاق کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور یہاں 2012 میں 31 ہزار سے زیادہ طلاقیں ہوئیں جس کی شرح 21 فیصد کے لگ بھگ بنتی ہے۔

سعودی وزارتِ انصاف کے اعداد وشمار کے مطابق اس برس شادی کے بندھن میں بندھنے والے ایک لاکھ 48 ہزار جوڑوں میں سے 31 ہزار سے زیادہ کی شادی طلاق پر منتج ہوئی جبکہ 3449 جوڑوں نے عدالت کے ذریعے شادی ختم کی۔

عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق طلاق کے واقعات میں سے اکثر معمولی اور کچھ مضحکہ خیز وجوہات کی بنا پر پیش آئے۔ مثال کے طور پر 2012 میں ایک شخص نے اپنی بیوی کو اس لیے طلاق دینے کی کوشش کی کیونکہ اس نے شوہر کے کہنے پر اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ بند نہیں کیا تھا۔

اس کے علاوہ ایک نامعلوم سعودی شہری نے شادی کے دس ماہ بعد اپنی اہلیہ کو سمارٹ فون کی ایپ کی مدد سے طلاق کا پیغام بھیجا اور پھر کہا کہ یہ پیغام حادثاتی طور پر چلا گیا تھا۔ تاہم اس کی اہلیہ نے یہ پیغام مقامی جج کی عدالت میں پیش کیا جس نے طلاق کو صحیح قرار دے دیا۔

جدہ میں صحافی راشد حسین کے مطابق طلاق کے اس روز افزوں رجحان کی وجہ سے سعودی حکام شادی سے قبل نوجوان جوڑوں کے لیے 'کاؤنسلنگ' کو لازمی قرار دینے پر غور کر رہے ہیں۔ اس تجویز کے مطابق نکاح نامے کی تصدیق کے لیے شادی کی تربیت کا سرٹیفیکیٹ پیش کرنا لازم ہوگا۔

جدہ سے تعلق رکھنے والی 'میرج کاؤنسلر' ڈاکٹر عالیہ ہانی ہاشم کا کہنا ہے کہ 'شادی سے قبل میرج کاؤنسلر سے تربیت کی تصدیق کروانا لازمی قرار دیا جانا چاہیے۔ اس سے جوڑے کو ایک دوسرے کے لیے اپنی ذمہ داریوں کا بہتر طریقے سے احساس ہو گا۔'

معاشرتی معاملات کی سعودی مبصر ثمر فتانی کا کہنا ہے کہ ملک میں تقریباً 40 فیصد طلاقیں اس لیے ہوتی ہیں کہ شوہر اپنی بیویوں پر نوکری چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں جبکہ 60 فیصد کا تعلق بیوی کی تنخواہ پر شوہر کے کنٹرول کے معاملے سے ہوتا ہے۔

خیال رہے کہ سعودی عرب میں قانوناً ایک خاتون اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کام نہیں کر سکتی۔ وہ اسے کام کرنے سے روک سکتا ہے اور اس امر کا تعین بھی کر سکتا ہے کہ وہ کہاں کام کرے اور کہاں نہیں۔

طلاق کے رجحان میں اضافے کی وجہ سعودی شوہروں کی جانب سے اپنی بیویوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کو بھی قرار دیا جاتا ہے۔

ثمر فتانی کا کہنا ہے کہ اس ملک میں ہر چھ میں سے ایک خاتون کو روزانہ بدکلامی اور ذہنی اور جسمانی طور پر استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ استحصال کرنے والوں میں سے 90 فیصد ان کے شوہر یا والد ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر عالیہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ طلاق لینے والے جوڑوں میں سے زیادہ تر جوان جوڑے ہیں جو کہ شادی کے ایک یا دو سال بعد ہی علیحدگی چاہتے ہیں۔

طلاق کے ان واقعات کی وجہ سے نوجوان سعودی خواتین میں شادی سے قبل اپنی تعلیم مکمل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے تاکہ مستقبل میں ایسی کسی صورتحال میں انھیں اپنے بل بوتے پر زندگی گزرانے میں مشکلات درپیش نہ ہوں۔

منگل 28 جنوری 2014
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,424
پوائنٹ
521
سعودی شوہر نے خلع مانگنے پر بیوی کو گولی مار دی
ملزم کی خودکشی کی کوشش، دونوں اسپتال داخل

سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں بیوی کی جانب سے خلع مانگنے پر شوہر نے اس پر سرعام گولیاں چلا دیں، جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوگئی ہے۔ ملزم نے فائرنگ کے بعد خودکشی کی کوشش کی تاہم اسے بھی تشویشناک حالت میں اسپتال میں انتہائی نہگداشت وارڈ میں داخل کرا دیا گیا ہے۔

مکہ مکرمہ کے پولیس ترجمان کیپٹن زکی الرحیلی نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کی گذشتہ روز ایک شخص نے پاگل پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بیوی کو خلع مانگنے پر گولیاں ماریں۔ پانچ گولیاں بیوی کے جسم میں پیوست ہو گئی ہیں، تاہم اس کی حالت اب قدرے بہتر ہے۔

پولیس ترجمان کا کہنا تھا کہ انہوں نے زخمی خاتون کو اس کے شوہر کی جانب سے آنے والی ٹیلیفون کالز اور ایس ایم ایس کا ریکارڈ بھی حاصل کر لیا ہے جن کی روشنی میں وہ تحقیقات کا عمل آگے بڑھا رہے ہیں۔

کیپٹن الرحیلی کا کہنا تھا کہ زخمی خاتون کے موبائل میں موجود شوہر کی طرف سے آئے ایس ایم ایس میں اسے خلع کا مطالبہ واپس نہ لینے پر قتل کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ وہ یہ جانچنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بیوی کے خلع کا مطالبہ کرنے پر بیوی کو گولیاں مارنے والا کسی نفسیاتی یا دماغی عارضے میں مبتلا تو نہیں تھا۔ تاہم فی الوقت وہ اسپتال میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل ہے جسے پوچھ تاچھ نہیں کی جا سکتی ہے۔

ادھر مکہ معظمہ میں محکمہ صحت کے ترجمان بسام مغربی کا کہنا کے کہ خاتون کو کئی گولیاں لگی ہیں تاہم اس کی حالت خطرے سے باہر ہے، البتہ اس کا شوہر اب بھی انتہائی نہگداشت وارڈ میں ہے جہاں اس کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ نے اپنے طورپر بیوی کو گولیاں مارنے کے بعد خود کشی کی ناکام کوشش کرنے والے شخص کے بارے میں معلومات اکٹھی کی ہیں۔ ان معلومات سے پتہ چلا ہے کہ وہ ملٹری سروس میں ایک اہم عہدے پر رہا ہے لیکن اس نے بوجوہ قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔

کچھ عرصے سے اس کے اپنی بیوی کے ساتھ بھی تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔ عزیز واقارب کی جانب سے صلح کی تمام کوششیں بھی رائیگاں گئیں۔ آخر کار بیوی نے اس سے طلاق کا مطالبہ کیا۔

شوہر کی جانب سے طلاق نہ ملنے پر خاتون نے معاملہ عدالت میں اٹھایا۔ کیس کی پہلی سماعت میں شوہر پیش نہیں ہوا۔ کیس کی دوسری سماعت میں پیشی سے کچھ دیر قبل اس نے بیوی پر فائرنگ کر کے خود کو بھی گولی مار دی، جس کے بعد دونوں کو شدید زخمی حالت میں اسپتال لے جایا گیا۔

جمعرات 6 ربیع الثانی 1435هـ - 6 فروری 2014م
مکہ مکرمہ ۔ عبدالقادر محمد
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ویسے سعودی بلکہ عرب معاشرے میں شادی اور طلاق دونوں "معمولاتِ زندگی" میں شمار ہوتے ہیں۔ یہاں برصغیر پاک و ہند کی طرح شادی اور طلاق "زندگی اور موت" کا مسئلہ نہیں ہے۔ پاک و ہند اور دیگر معاشروں میں شادی زندگی کا "اہم ترین معاملہ" شمار ہوتا ہے، جو پوری زندگی میں صرف ایک بار ہی "وقوع پذیر" ہوتا ہے (الا ماشاء اللہ)۔ اور طلاق، بالخصوص خواتین کے لئے طلاق "زندگی کی موت" جیسا ہوتا ہے۔ ان کی دوبارہ شادی تقریباً ناممکن ہونے کے ساتھ ساتھ مطلقہ (اور بیوہ بھی) کو معاشرے میں انتہائی "خراب مقام" مل جاتا ہے اور ان کے شب و روز بڑی مشکل سے کٹتے ہیں۔

عرب معاشرے میں اور کسی حد تک ایک خالص اسلامی معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں شادی اور طلاق زندگی کی دیگر سرگرمیوں کی طرح ایک معمول کی سرگرمی ہے۔ مرد بیک وقت بھی عموماً ایک زائد شادی کرتے ہیں اور ایسا بار بار کرتے ہیں اور اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ اسلام مین "بے جوڑ شادی" کا کوئی تصور نہیں ہے۔ کسی بھی عمر، حیثیت اور ذات و نسل کے افراد ایک دوسرے سے شادی کرسکتے ہیں (گو کہ 'کفو' میں شادی کو پسند کیا گیا ہے، تاکہ شادی کے بعد زندگی بسر کرنا آسان ہو، لیکن یہ لازمی نہیں ہے)۔ مطلقہ اور بیوہ خواتین کے عقد ثانی میں کوئی خاص رکاوٹ نہیں ہوتی اور نہ ہی انہیں معاشرے میں کمتر یا اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے مطلقہ اور بیوہ خواتین دیگر معاشروں کی طرح "بہت زیادہ پریشان " نہیں ہوتیں۔

آپ اسلام کے اولین عہد ہی کو دیکھ لیجئے۔ ہماری عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ اور صحابیات (رضی اللہ تعلیٰ عنہم) بہترین انسان اور بہترین مسلمان تھے۔ لیکن ان میں بھی شادی اور طلاق "معمولاتَ زندگی" ہی تھے۔ یہ کوئی "دین و ایمان" یا "زندگی اور موت" کا مسئلہ نہ تھا۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقہ و بیوہ خواتین سے شادیاں کیں۔ اور اس خالص "نجی معاملہ" میں متعدد صحابہ و صحابیات (رضی اللہ تعلیٰ عنہم) نے کسی سے نکاح کرنے اور کسی کو طلاق نہ دینے کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے "مشورے" کے برعکس بھی عمل کیا ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا بُرا بھی نہیں منایا۔

گویا اسلامی شریعت کی حدود میں ہر مسلمان شادی کرنے اور طلاق دینے یا لینے میں بہت حد تک آزاد ہے۔ یہ دنیا کی دیگر سرگرمیوں کی طرح کی ایک معمول کی سرگرمی ہے۔ نہ تو یہ اس اعتبار سے دین و ایمان کا مسئلہ ہے کہ شادی نہ کرنے والا یا والی کوئی کمتر درجہ کا مسلمان ہے یا شادی کرکے طلاق لینے یا دینے والا خراب مسلمان ہے۔ دو اچھے مسلمان مرد اور عورت ایک دوسرے کے لئے 'خراب جوڑا' ثابت ہوسکتے ہیں اگر یہ ایک دوسرے سے مس۔میچ ہوں۔ چونکہ اسلام میں کورٹ شپ یا بوائز۔گرلز فرینڈشپ کی اجازت نہیں ہے، اس لئے شادی کے بعد ہی پتہ چلتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ چل سکتے ہیں یا نہیں۔ اسی طرح اسلام میں دنیوی زندگی کوئی "بہت بڑی شئے" نہیں ہے بلکہ یہ اُخروی زندگی کے مقابلہ اور موازنہ میں "کچھ بھی نہیں" جیسی ہے۔ لہٰذا دین و ایمان کی سلامتی کے ساتھ اگر دوچار شادیاں کامیاب یا ناکام ہوجائیں تو ایک سچا مسلمان اسے بہت زیادہ "اہمیت" نہیں دیتا۔ لیکن جن کے نزدیک یہ دنیا ہی "سب کچھ"، ان کی زندگی اچھی تعلیم، اچھا کیریئر اور اچھی شادی کے تکون کے گرد ہی گھومتی ہے۔ لہٰذا ان کے لئے شادی، کامیاب شادی، زندگی بھر کے لئے کامیاب شادی کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ اسی لئے ایسے لوگ شادی کے لئے کئے گئے عشق میں "ناکامی" پر نفسیاتی مریض بھی بن جاتے ہیں، اپنی جان دے کر خود کشی بھی کرلیتے ہیں اور دوسروں کی جان لے کر قاتل بھی بن جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک مرضی کی شادی میں ناکامی زندگی کی ناکامی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ان کے نزدیک کیریئر یا حصول معاش میں مطلوبہ کامیابی میں ناکامی، زندگی کی ناکامی شمار ہوتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب
 
Top