• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سعودی عرب کی حمایت کیوں؟

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,424
پوائنٹ
521
سعودی عرب کی حمایت کیوں؟​

کالمِ: رانا شفیق پسروری
01 اپریل 2015


پاکستان کے سیاسی و عسکری رہنماؤں نے بیک زبان سعودی عرب کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے تمام وسائل مہیا کرنے کا پُرزور عندیہ دیا ہے۔ اس پر پاکستان کی غالب ترین اکثریت نے خوشی کا اظہار کیا ہے، حتیٰ کہ حکومتی پارٹی کے ساتھ ساتھ بڑی اپوزیشن پارٹی نے بھی اس حکومتی اعلان و اقدام کو سراہا ہے، جبکہ بعض افراد اور مخصوص پس منظر رکھنے والے طبقے کی طرف سے منفی تاثرات ابھارے جا رہے ہیں، جو افراد سعودی عرب کی مکمل حمایت کے حکومتی اعلان پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں وہ کھل کر سعودی عرب کی مخالفت کرنے کی بجائے، اس کو دوسرے ممالک میں مداخلت کہہ کر اس کے خطرناک اثرات کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سمجھنا چاہئے کہ لڑائی سعودی عرب اور یمن کے درمیان نہیں ہو رہی، بلکہ جن باغیوں پر سعودی عرب ( تنگ آ کر) حملہ آور ہوا ہے وہ باغی، حکومت یمن کے بھی دشمن ہیں اور ان کی حیثیت تقریباً وہی ہے جو پاکستان میں موجود ان مسلح گروہوں کی ہے جو پاکستان میں تخریب کار اور دہشت گرد قرار دیئے جاتے ہیں۔ یمن کے ان باغیوں کے علاوہ یمنی عوام کی اکثریت نے تو سعودی اقدامات کی نہ صرف تحسین کی ہے بلکہ انہیں نجات کا باعث قرار دیا ہے۔

یمن کے حوثی قبائل، کسی فرقے یا مسلک کی شناخت کی بجائے اپنے قبائل کے نام سے سامنے آئے ہیں۔ یہ اسی طرح کے باغی ہیں جس طرح کے باغی سری لنکا میں ’’تامل ٹائیگرز‘‘ تھے۔ پاکستان کے وہ افراد بہت زیادتی کر رہے ہیں جو اس بغاوت کو شیعہ بغاوت کا نام دے کر سعودی عرب کے خلاف ذہن بنانے کی خاطر، اس کو ’’شیعہ سنی‘‘ لڑائی بنانے پر تُلے ہیں اور پاکستان میں (سعودیہ کی حمایت کے جواب میں) ایران کی مداخلت کا خدشہ ابھار رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی عقل و فہم کو کیا ہوا ہے؟ وہ کیوں پاکستان میں ’’فرقہ ورانہ فسادات‘‘ کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں؟

کیا وہ مُلک کے باغیوں کو فرقہ واریت کا لبادہ پہنانا ضروری جانتے ہیں؟ انہیں ’’طالبان‘‘ کی دہشت گردی کے خلاف پاکستانی افواج کے اقدامات کے وقت ان ’’طالبان‘‘ کے مسلک کی وابستگی کا ذکر تو یاد نہ رہا کہ باغی کی بغاوت اور دہشت گرد کی دہشت گردی کو دیکھا جاتا ہے، فقہی وابستگی کو نہیں!

یمن کے حوثی قبائل سے تعلق رکھنے والے سارے افراد شیعہ نہیں کہلاتے اور جو ہیں وہ بھی ہمارے شیعہ احباب کے مسلک اور فقہی وابستگی سے بہت الگ اور بہت دور ہیں، حوثی قبائل کے اکثر لوگ انہی ’’قرامطہ‘‘ کی اولاد ہیں، جنہوں نے عباسی حکمران مکنفی باللہ کے دور317 ہجری میں بیت اللہ (خانہ کعبہ) پر حملہ کر کے بیت اللہ کے دروازے اکھاڑ لیے، غلاف کعبہ اور حجر اسود کی چوری کر کے یمن لے گئے تھے (جنہیں بعد ازاں واپس لا کر بیت اللہ میں نصب کیا گیا تھا) یمن میں شیعہ کہلانے والوں کی اکثریت ’’زیدی شیعہ‘‘ ہے، جن کا ہمارے اور ایران کے ’’اثنا عشری شیعہ‘‘ سے بہت زیادہ اختلاف ہے، بلکہ ’’زیدی شیعہ‘‘ تو سنی مسالک کے زیادہ قریب ہیں۔ یمن میں ’’شیعہ سنی‘‘ کا کوئی جھگڑا نہیں، یہ معاملہ خالصتاً یمن کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سعودی عرب اور بالخصوص حجاز مقدس پر تسلط کا معاملہ ہے (اور کچھ نہیں!)

سعودی عرب صرف ایک عام ملک یا پاکستان کا ’’دوست مُلک‘‘ ہی نہیں، دُنیا بھر کے مسلمانوں کی مقدس سرزمین بھی ہے۔

حجاز مقدس کی یہ مقدس دھرتی، مسلمانوں کے لئے مرکزِ ایمان اور محور عقیدت و محبت بھی ہے، کوئی گیا گزرا مسلمان بھی ایسا نہ ہو گا جو مکہ و مدینہ کی حرمت و تحفظ پر اپنا سب کچھ قربان کرنا اپنے لئے باعثِ فخر نہ جانتا ہو۔ مکہ و مدینہ کی زیارت تو ہر ایک مسلمان کے لئے دُنیا کی سب سے عظیم سعادت ہے، جنہوں نے زیارت نہیں کی وہ زیارت کے لئے ترستے رہتے ہیں اور جو کر چکے ہیں وہ پھر زیارت کرنے کو تڑپتے رہتے ہیں۔ حجاز مقدس کی گلیوں کی خاک آنکھوں کا سرمہ، کوئی اس مقدس سرزمین کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھے، ہم کبھی گوارا نہیں کر سکتے۔۔۔

معاملہ صرف ارضِ مقدس کے تقدس و حرمت اور اس کے تحفظ تک ہی محدود نہیں، معاملہ تو یہ بھی ہے سعودی عرب تنہائی کے اس دور میں پاکستان کا مخلص ترین اور بے لوث دوست، محب اور سب سے بڑا معاون مُلک ہے۔ پاکستانی مُلک و قوم کے ہر کڑے اور مشکل وقت میں سعودی عرب نے پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا ہے۔ سعودی عرب کے حکمران پاکستان کو ہمیشہ اپنا دوسرا گھر کہتے اور امداد و اعانت سے ثابت کرتے رہے ہیں، جب بھی پاکستان پر کوئی ارضی و سماوی آفت آئی، سعودی عرب کے حکمران اور شہری اپنا دل اور بانہیں کھول کر آگے بڑھے اور ہمارے دُکھوں کو سُکھوں کے جلوے سے ہمکنار کر دیا۔

پاکستان (1971ء) دو لخت ہوا تو سعودی عرب کا بوڑھا حکمران (شاہ فیصل شہید ؒ ) بچوں کی طرح ہچکیاں لے لے کر روتا رہا کہ ’’ آج اسلام کا قلعہ دو لخت ہو گیا ہے‘‘۔ پاکستان نے بھارت کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کئے تو استعماری طاقتوں اور دُنیا کے ممالک نے پاکستان پر پابندیاں لگا دیں، سعودی عرب نے کہا تھا ’’ گھبرانے کی ضرورت نہیں ‘‘ ہمارے خزانوں کے مُنہ پاکستان کے لئے کھلے ہیں ۔

30 لاکھ افغان مجاہدین کا بوجھ ہو یا دُنیا کی مہنگی ترین سیاچن گلیشیر کی لڑائی کا خرچ، ایف 16طیاروں کی قیمت ہو یا کہوٹہ پلانٹ کے معاملات محصور پاکستانیوں کی آباد کاری سے لے کر موجودہ دور میں ڈالر کی قیمت گرانے کی خاطرخطیر رقم کی فراہمی یا عرصہ دراز تک مفت تیل کی سپلائی ، سعودی عرب نے ہر ہر معاملے اور ہر ہر مرحلہ پر پاکستان اور پاکستانیوں کی بے لوث اور بھر پور امداد و اعانت کرکے اپنی محبت اور مخلصانہ دوستی کا مظاہرہ کیا ہے۔

سعودی عرب اور حجاز مقدس پر بری نظر رکھنے والے یمن کے راستے ، تخریب کار ی اور دہشت گردانہ کارروائیوں کو بڑھا رہے تھے، سعودی شہروں میں خون بہا رہے تھے اور بڑھکیں مار رہے تھے کہ ’’ ہم مکہ و مدینہ پر قبضہ کر کے چھوڑیں گے ‘‘ ۔ ایسے میں سعودی عرب نے اپنی سلامتی اور حرمین شریفین کے تحفظ کی خاطر، اپنے دشمنوں اور اپنے پڑوسی ملک یمن کے باغیوں کے خلاف ( دیگر عرب ممالک کے اتحاد سے ) کارروائی کی ہے اور پاکستان کی طرف بھی نگا ہ اُٹھا کر دیکھا ہے تو پاکستان کو آ گے بڑھ کر اپنے مخلص و معاون دوست کے کندھے کے ساتھ کندھا ضرور ملانا چاہئے!

پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے بہت خوب اور بر موقع فیصلہ کیا، سعودی عرب کا ساتھ دینے کا فیصلہ ہر طرح اور ہر لحاظ سے قابل تحسین اور بہترین ہے یہ فیصلہ حب الوطنی کا بھی مظہر ہے اور حجاز مقدس کی محبت سے بھرپور بھی ہے ۔ خدانخواستہ ‘ اگر مشکل وقت میں آ ج پاکستان سعودی عر ب سے الگ رہتا تو انہیں فرق نہ پڑتا البتہ ہمارا مخلص دوست بھی ناراض ہو جاتا اور پھر (خدانخواستہ ) کسی مشکل مرحلے میں ہم کس کی دوستی کے منتظر رہتے ؟؟؟

ح
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
کنعان بھائی یہ مت بھولیے گا کہ یہ عظیم اسرائیل کے لیے اٹھائے گئے ابتدائی اقدامات سے بات بہت اآگے بڑھ گئی ہے
چہار اطراف سے
اسرائیل ایک جانب سے
دوسری جانب سے شیعہ عراق کی جانب سے
تیسری جانب سے شیعہ شام کی جانب سے
چوتھی جانب سے شیعہ یمن کی جانب سے

اور سعودی عرب کی اسی جانب کے سرحدی قبائل میں معقول تعداد خاموش حمایت کر رہی ہے
اور صرف انتظار ہے حتمی حرکت کا لہذا صرف اقتدار کی جنگ نہیں بلکہ شیخ عبدالرحمن السدیس حفظہ اللہ نے بالکل صحیح کہا ہے کہ
یہ شیعہ اور اہل سنت کی جنگ ہے جس میں صہیونی اور یہودی عناصر کے ساتھ ساتھ ہنود اور عیسائی عناصر بھی بھرپور ساتھ دے رہے ہیں بلکہ روس اور مغربی بلاک کی خاموش اور خفیہ حمایت بھی چہار اطراف کو احاصل ہو چکی ہے
اور ایک عجیب بات ہے کہ مشرق وسطی میں کہیں بھی کچھ ہو ان سب کا ھدف مکہ مدینہ ہی ہوتا ہے یہود ہوں یا مجوس یا داعش یا کوئی حرکت ؟
اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے ؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
٨٠ اکی دہائی میں ایران و عراق جنگ کے دوران سابقہ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر جو کٹر یہودی ہیں انہوں نے کہا تھا " مجھے خوف کہ عنقریب یہ ایران و عراق جنگ ختم ہو جائے گی - اس کو ابھی مزید جاری رہنا چاہیے - تا کہ آنے والے وقتوں میں یہ ہمارے لئے تر نوالہ ثابت ہوں" -

یہودی (الله کی ان پر لعنت ہو) ان کا مقصد و ہدف یہی ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑوا کرجنگ کو طول دیا جائے - تک کہ کمزور سے کمزور ہوتے چلے جائیں- اور پھر ان کی حساس تنصیبات پر قبضہ جمایا جا سکے -

ان سے نمٹنے کا اک ہی طریقہ ہے کہ تمام مسلم ممالک اپنی حدود کو ختم کرکے ایک بلاک بن جائیں اور نظام خلافت قائم کرلیں -یہود و نصاریٰ کے نافذ کردہ جمہوری نظام حکومت اور بادشاہت میں رہ کر ہم ان کافروں کی چالوں کا کبھی مقابلہ نہیں کرسکتے-

مزید یہ کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دینا خود اسلام سے مزاق ہے- یہود و نصاریٰ کے ٹکڑوں پر پلنے والی یہ ریاست اسلام کا قلعہ کبھی نہیں ہو سکتی - کیا ہمارے ایٹم بم ان یہودیوں نصاریٰ پر ان جہازوں سے گراے جائیں گے جو خود ہمیں ان ہی کی بھیک سے ملے ہیں؟؟ - جن یہود و نصاریٰ کے حکم کے بغیر ہماری کوئی جنگی اسٹریٹجی تکمیل کو نہیں پہنچتی -؟؟؟ جن کے جنرل ہمارے جنرل کے ساتھ بند کمروں میں خفیہ میٹنگز کرتے ہیں ؟؟؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
حرف اخیر یہ عقیدے کی جنگ ہے میں نہیں جانتا یہ حتمی معرکہ آرائی کے ابتدائی اقدامات ہیں یا نہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ حتمی معرکہ آرائی بھی اسی علاقے میں لڑی جائے گی اور کچھ علامات یا قرائن اشارہ ضرور کرتے ہیں جیسا کہ
11102606_10203961447653015_881836786641016479_n.jpg

یہ ایک بہت بڑا سوال ہے لہذا اسے علاقائی پس منظر ، جزوی طور پر دیکھنا ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
اسلئے کہ یہ ملک توحید و سنت پر قائم ہے ۔ اسلئے کہ یہاں مسلمانوں کا کعبہ و قبلہ ہے ۔ اسلئے کہ یہاں حرمین شریفین ہےاسلئے کہ یہیں جبریل علیہ السلام اسلام لیکر ائے تھے۔
 

محمدجان

مبتدی
شمولیت
مارچ 11، 2015
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
11
یمن کا حالیہ بحران اور اِس کا پس منظر



یمن کا جغرافیہ اور جیو اسٹریٹیجک اہمیت سرزمین یمن دنیا کے نقشے پر براعظم ایشیا کے جنوب مغرب اور جزیرۃ العرب و مشرق وسطی کے جنوب میں واقع ہے۔ اس کی آبادی مسلمان اور تعداد میں لگ بھگ 2 کروڑ 40 لاکھ ہے۔ اس کا رقبہ 527229 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ یمن کے مغربی کنارے پر بحر احمر اور جنوبی کنارے پر بحر عرب واقع ہے۔ یمن کے مغربی کنارے پر واقع تنگ بحری راستہ باب المندب جیو اسٹراٹیجی کے اعتبار سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے، اور مشرق وسطٰی سے نکلنے والا تیل اپنی منزل یورپ کے لئے پہلے آبنائے ہرمز (جو ایران اور عمان کے درمیان واقع ہے) سے ہوتا ہوا، اسی تنگ بحری راستے پر پہنچتا ہے اور پھر اگلے مرحلے پر نہر سویز سے نکل کر یورپ کی طرف جاتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس تنگ بحری راستے سے سالانہ 20,000 بحری جہاز گزرتے ہیں۔ یمن کے شمال میں اس کی 1800 کلو میٹر طویل سرحد سعودی عرب سے ملتی ہے جبکہ اس کی مشرقی سرحد پر عمان واقع ہے۔ یہاں کی آبادی میں تقریباً 30 فیصد آبادی زیدیہ شیعہ اور 12 فیصد شیعہ اثناء عشری اور اسماعیلی شیعہ مسالک پر مشتمل ہے۔ گویا یمن کی کل آبادی کا تقریباً 40 فیصد شیعہ مسالک پر مشتمل ہے، بقیہ آبادی سنی مسالک پر مشتمل ہے۔ جس میں اکثریت شافعی اہلسنت مسلمانوں کی ہے۔ ملک کی زیادہ تر زیدیہ مسلک کی آبادی شمالی حصے صعدہ میں آباد ہے، جس کی سرحد سعودی عرب سے ملتی ہے اور سرحد کے اُس پار سعودی عرب کا علاقہ نجران (جو پہلے یمن کا حصہ تھا، نجران اورجا زان کے علاقے پر سعودی عرب نے 1934ء میں قبضہ کیا تھا) ہے، جس کے لگ بھگ 300 دیہاتوں میں بھی شیعہ زیدیہ مسلمان بستے ہیں۔ گویا سرحد کے دونوں اطراف شیعہ زیدیہ مسلک کے لوگ آباد ہیں۔ یمن کی 85فیصد آبادی قبائل کی صورت میں رہتی ہے اور ان کا مسلح رہنا معمول کی بات ہے۔ زیدیہ شیعہ مسلمانوں کی اکثریت کا تعلق حوثی قبائل سے ہے اور یمن پر لگ بھگ ایک ہزار سال تک انہی زیدیہ کی حکومت رہی ہے۔

بیداری اسلامی اور یمن کی تحریک:
2011ء میں خطے میں اسلامی بیداری شروع ہوئی اور اس کے نتیجے میں تیونس، مصر اور لیبیا کی حکومتیں گریں، تو یمن میں بھی یمنی عوام صدر علی عبداللہ صالح (جوکہ امریکہ اور سعودی عرب کا پٹھو تھا) کے خلاف مظاہرے ہونے لگے۔ ان مظاہروں میں حوثی شیعہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اہلسنت شافعی مسلمانوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ مظاہرے پر امن تھے اور لاکھوں افراد دارالحکومت صنعا اور صعدہ کی سڑکوں پر بدستور نکل کر ایسی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ دہراتے رہے، جس کی بدعنوانی کی وجہ سے یمنی عوام کی زندگی دوبھر ہو چکی تھی۔ علی عبداللہ صالح ان مظاہروں سے تنگ آ کر فروری 2013ء میں اپنے آقا سعودی عرب روانہ ہوگیا۔ اس کے بعد سعودی عرب نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اس کے نائب عبدالرب منصور ہادی کو عبوری صدر بنا دیا۔ لیکن منصور ہادی نے اپنے پیشرو کی پالیسیوں پر عمل جاری رکھا اور عوامی مطالبات کو پس پشت ڈال دیا۔ 2014ء کے آخر میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا، جس سے عوامی بے چینی بڑھی۔ اسی دوران وزارت داخلہ اور دفاع کی ناقص پالیسیوں کے نتیجے میں القاعدہ جو مغربی یمن میں پچھلے کئی سال سے موجود تھی، اس نے پیش قدمی شروع کر دی۔ ان حالات میں حوثی شیعہ مسلمانوں کی تنظیم انصار اللہ فعال ہوئی اور اس نے دو محاذوں پر کام شروع کیا۔ ایک تو القاعدہ کے خلاف حکومتی سکیورٹی فورسز کو پسپا ہوتا دیکھ کر انصاراللہ کے مجاہدین میدان میں آگئے اور یمن کے دفاع کی جنگ شروع کر دی اور نتیجتاً القاعدہ کو واپس دور افتادہ علاقوں میں دھکیل دیا۔

اس عمل کے نتیجے میں یمنی عوام میں یہ شعور بیدار ہوا کہ جس میدان میں ہماری کٹھ پتلی حکومت ناکام ہو گئی ہے، اس میدان میں انصاراللہ یعنی حوثی شیعہ مسلمانوں کی تنظیم نے ملکی دفاع کو یقینی بنایا ہے، ورنہ القاعدہ کے درندے یمن میں بھی وہی داستان رقم کرتے جو شام اور عراق میں آج داعش کے درندے رقم کر رہے ہیں۔ دوسرا حوثی شیعہ عوام نے صفا میں حکومت کے خلاف مظاہروں کو شدید تر کر دیا، چونکہ یمن کے اہلسنت عوام دیکھ چکے تھے کہ القاعدہ کے ناسور کے خلاف حکومتی ناکامی کے بعد انصاراللہ کے جوانوں نے ملکی دفاع کیا ہے لہٰذا ان کا اعتماد بھی انصاراللہ یعنی حوثی تحریک پر بڑھ گیا اور یمن کے اہلسنت عوام بھی ان مظاہروں میں بڑھ چڑھ کر شامل ہو گئے۔ پھر اس تحریک کے مطالبات بھی عوامی تھے، یعنی کسی موقع پر انہوں نے حکومت کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کی بلکہ عوامی مطالبات کو بھرپور طریقے سے اٹھایا۔ ان کے مطالبات یہ تھے۔ ۱۔ پٹرول کی قیمت میں اضافے کو واپس لیا جائے ۲۔ چونکہ حکومت بدعنوان ہے لہٰذامستعفی ہواور ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنائی جائے۔ ۳۔ قومی مذاکرت کے نتیجے میں ہونے والی سفارشات کی روشنی میں آئینی اصلاحات کی جائیں۔
مندرجہ بالا مطالبات میں سے کوئی مطالبہ بھی مسلکی نہیں تھا بلکہ تمام مطالبات قومی تھے۔

یمنی حکومت کی مکمل ناکامی:
شدید ترین مظاہروں کے بعدستمبر 2014ء میں ہونے والے معاہدے میں حکومتی کمیٹی نے یہ تسلیم کیا تھا، کہ ایک مہینے کے اندر اہلیت کی بنیاد پر حکومت قائم کرے گی اور انصاراللہ اور جنوبی یمن کی پر امن تحریک سے سیاسی مشیر مقرر کرے گی۔ اور مشاورت کے ساتھ یمن کے تمام حلقوں کی نمائندگی والی اچھی ساکھ کی حامل کابینہ نامزد کی جائے گی۔ ملک میں قائم ہونے والی دستوری کونسل میں توسیع کی جائے گی اور انتخابی اصلاحات عمل میں لائی جائیں گی۔ لیکن ایک ماہ کی ڈیڈ لائن گزر جانے کے بعد 7 نومبر 2014ء کو منصور ہادی نے تاخیر کے ساتھ 36 رکنی کابینہ کا اعلان کیا تو اس میں جانبدار اور بری ساکھ کے حامل افراد کو وزارتوں کاقلمدان سونپا گیا تھا۔ اس اعلان پر عوامی رد عمل اتنا شدید تھا کہ اگلے ہی روز خود منصور ہادی کی پارٹی نے منصور ہادی کو General Peoples Congress کے جنرل سیکرٹری کے عہدے سے فارغ کر دیا۔ اس 36 رکنی کابینہ میں حوثی مسلمانوں کی نمائندگی کے لئے صرف 6 وزراء کا کوٹہ مقرر کیا گیا، جبکہ آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو 36 رکنی کابینہ میں ان کے 14 سے 15 وزراء ہونے چاہیے تھے۔ دوسری طرف یمن میں شدت پسندوں نے عراق کی طرح یہاں بھی بم دھماکوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ نتیجتاً حوثیوں کی قیادت میں دیگر سنی مسلمانوں نے all out جانے کا فیصلہ کیا اور صدارتی محل کا گھیراؤ کر لیا۔ صدر منصور ہادی نے استعفٰی دے دیا اور اپنے محل میں محصور ہو گئے۔ چند روز محاصرے میں رہنے کے بعد حوثیوں نے انہیں فرار کا پراُمن راستہ مہیا کر دیا۔ اب منصور ہادی نے اپنی کابینہ کے ساتھ یمن کے جنوب میں موجود شہر عدن میں پہنچ کر اعلان کیا کہ وہ اپنا استعفٰی واپس لیتے ہیں اور عدن میں متوازی حکومت تشکیل دے دی۔ سعودی عرب سمیت دیگر عرب کٹھ پتلی حکومتوں نے اپنے سفارت خانے صنعا سے عدن منتقل کرلئے۔ اب ملک انتشار کا شکار ہونے لگا۔

منصور ہادی کے حمایت یافتہ مسلح جتھے صنعا کی طرف کاروائیاں کرنے لگے اور حکومت نام کی کوئی چیز یمن میں نہ رہی۔ ایسی حالت میں انصار اللہ نے ملکی دفاع کی خاطر فیصلہ کیا کہ وہ ملک کو منصور ہادی (جوکہ قانونی طور پر مستعفی ہوچکے تھے) کے مسلح گروہوں سے آزاد کرائے گی۔ لہٰذا انصار اللہ نے پہلے تعزّ اور پھر عدن کی طرف پیش قدمی شروع کر دی اور عملی طور پر یمن کی حکومت خود سنبھال لی۔ انصاراللہ کی پیش قدمی دیکھ کر منصور ہادی اپنے پیشرو کی طرح سعودی عرب کے شہر ریاض فرار ہو گیا۔ اگلے ہی روز سعودی عرب کی قیادت میں GCC کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ منصور ہادی کی درخواست پر ہم یمن پر فضائی حملے شروع کرتے ہیں۔ اس فیصلے کی تائید کے لئے امریکہ سے رابطہ کیا گیا اور تائید ملنے کے بعد واشنگٹن میں مقیم سعودی سفیر نے اپنی پریس کانفرنس بھی اس شہر یعنی اپنے سیاسی قبلہ واشنگٹن میں کی اور حملوں کا اعلان کر دیا۔ اگلے دن سعودی عرب کے 100 جنگی طیارے اور ڈیڑھ لاکھ فوجی یمن کی سرحد پر تعینات کر دئیے گئے اور تقریباً ایک ہفتے سے غریب یمنی عوام پر سعودی اتحاد میں شامل ممالک آگ برسا رہے ہیں۔ اب تک بیسیوں بچے، خواتین، اور عام شہری ان حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ لیکن انصار اللہ کے سربراہ عبدالمالک حوثی نے اعلان کیا ہے کہ وہ سعودی جارحیت سے خوفزدہ نہیں ہو نگے اور اپنی مقاومت اور سرزمین یمن کا دفاع جاری رکھیں گے۔ سعودی جنگی جنون اپنی سفاکیت میں اتنا آگے نکل چکا کہ پناہ گزیں کیمیوں اور فیکٹریوں پر حملہ کرکے نہتے شہریوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ (جاری ہے)



Bottom of Form


 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
٨٠ اکی دہائی میں ایران و عراق جنگ کے دوران سابقہ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر جو کٹر یہودی ہیں انہوں نے کہا تھا " مجھے خوف کہ عنقریب یہ ایران و عراق جنگ ختم ہو جائے گی - اس کو ابھی مزید جاری رہنا چاہیے - تا کہ آنے والے وقتوں میں یہ ہمارے لئے تر نوالہ ثابت ہوں" -

یہودی (الله کی ان پر لعنت ہو) ان کا مقصد و ہدف یہی ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑوا کرجنگ کو طول دیا جائے - تک کہ کمزور سے کمزور ہوتے چلے جائیں- اور پھر ان کی حساس تنصیبات پر قبضہ جمایا جا سکے -

ان سے نمٹنے کا اک ہی طریقہ ہے کہ تمام مسلم ممالک اپنی حدود کو ختم کرکے ایک بلاک بن جائیں اور نظام خلافت قائم کرلیں -یہود و نصاریٰ کے نافذ کردہ جمہوری نظام حکومت اور بادشاہت میں رہ کر ہم ان کافروں کی چالوں کا کبھی مقابلہ نہیں کرسکتے-

مزید یہ کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دینا خود اسلام سے مزاق ہے- یہود و نصاریٰ کے ٹکڑوں پر پلنے والی یہ ریاست اسلام کا قلعہ کبھی نہیں ہو سکتی - کیا ہمارے ایٹم بم ان یہودیوں نصاریٰ پر ان جہازوں سے گراے جائیں گے جو خود ہمیں ان ہی کی بھیک سے ملے ہیں؟؟ - جن یہود و نصاریٰ کے حکم کے بغیر ہماری کوئی جنگی اسٹریٹجی تکمیل کو نہیں پہنچتی -؟؟؟ جن کے جنرل ہمارے جنرل کے ساتھ بند کمروں میں خفیہ میٹنگز کرتے ہیں ؟؟؟
خضر حیات بھائی - پوسٹ کو نا پسند کرنے کی وجہ بھی بتا دیں ؟؟؟ -
 

محمدجان

مبتدی
شمولیت
مارچ 11، 2015
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
11
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سعودیہ امریکہ اور اسرائیل کی گود میں پل رہا ہے اور کھبی فلسطین کی حمایت اور قبلہ اول کی آزادی کیلے کوئی بیان دیا اب اپنی شہنشاہیت کو خطرہ دیکھتے ہوے یمن میں ظلم کی انتہا کردی ہے
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
٨٠ اکی دہائی میں ایران و عراق جنگ کے دوران سابقہ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر جو کٹر یہودی ہیں انہوں نے کہا تھا " مجھے خوف کہ عنقریب یہ ایران و عراق جنگ ختم ہو جائے گی - اس کو ابھی مزید جاری رہنا چاہیے - تا کہ آنے والے وقتوں میں یہ ہمارے لئے تر نوالہ ثابت ہوں" -

یہودی (الله کی ان پر لعنت ہو) ان کا مقصد و ہدف یہی ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑوا کرجنگ کو طول دیا جائے - تک کہ کمزور سے کمزور ہوتے چلے جائیں- اور پھر ان کی حساس تنصیبات پر قبضہ جمایا جا سکے -

ان سے نمٹنے کا اک ہی طریقہ ہے کہ تمام مسلم ممالک اپنی حدود کو ختم کرکے ایک بلاک بن جائیں اور نظام خلافت قائم کرلیں -یہود و نصاریٰ کے نافذ کردہ جمہوری نظام حکومت اور بادشاہت میں رہ کر ہم ان کافروں کی چالوں کا کبھی مقابلہ نہیں کرسکتے-

مزید یہ کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دینا خود اسلام سے مزاق ہے- یہود و نصاریٰ کے ٹکڑوں پر پلنے والی یہ ریاست اسلام کا قلعہ کبھی نہیں ہو سکتی - کیا ہمارے ایٹم بم ان یہودیوں نصاریٰ پر ان جہازوں سے گراے جائیں گے جو خود ہمیں ان ہی کی بھیک سے ملے ہیں؟؟ - جن یہود و نصاریٰ کے حکم کے بغیر ہماری کوئی جنگی اسٹریٹجی تکمیل کو نہیں پہنچتی -؟؟؟ جن کے جنرل ہمارے جنرل کے ساتھ بند کمروں میں خفیہ میٹنگز کرتے ہیں ؟؟؟
متفق۔
 
Top