1) ان باب میں چند آیات قرآنیہ کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔
2) غیر مقبول شفاعت کی بھی وضاحت ہوئی۔
3) اور مقبول شفاعت کا بیان بھی ہوا۔
4) شفاعت کبری کا ذکر بھی ہے جس کی اجازت نبیﷺکو ملے گی۔ اسی کو مقام محمود بھی کہتے ہیں۔
5) نبیﷺکسی طرح شفاعت کریں گے؟ نبی ﷺجاتے ہی شفاعت نہیں کریں گے بلکہ سب سے پہلے اللہ تعالی کے حضور سجدہ ریز ہوں گے۔ پھر اجازت ملنے پر شفاعت کریں گے۔
6) کون سا آدمی شفاعت کا سب سے زیادہ حقدار ہوگا؟ وہ جو خلوص دل سے کلمۂ توحید “لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّه”کا اقرار کے ۔
7) مشرکین ، کو یہ شفاعت حاصل نہ ہو سکے گی۔
8) شفاعت کی حقیقت بھی واضح ہوئی کہ دراصل یہ بھی اللہ تعالی کی رحمت کا ایک انداز ہے۔ جن کو شفاعت کرنے کی اجازت دی جائے گی یہ ان کے لیے اعزاز اور عزت افزائی کا باعث ہو گی۔ اور جن کے حق میں کی جائے گی یہ ان کے لیے اللہ تعالی کی خصوصی رحمت اور مہربانی ثابت ہو گی۔
(1) سابقہ دو ابواب کے بعد اس مسئلہ کی ازحد ضرورت تھی۔ کیونکہ جو لوگ نبی ﷺسے فریادیں کرتے یا دیگر اولیاء و انبیاء کے آگے ہاتھ پھیلاتے اور ان سے مدد طلب کرتے ہیں جب ان کے سامنے توحید ربوبیت کے دلائل ذکر کئے جائیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم بھی ان تمام باتوں کو مانتے اور ان پر اعتقاد رکھتے ہیں، البتہ یہ تمام بزرگ اللہ تعالی کے مقرب ہیں اور اللہ تعالی کے ہاں ان کا مرتبہ عظیم اور بلند ہے اور جو شخص ان بزرگوں کی طرف رجوع کرے تو یہ بزرگ اس کے حق میں سفارش کریں گے اور اللہ تعالی ان کی سفارش کو قبول فرمائےگا۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمتہ اللہ علیہ نے مشرکین کی حالت اور ان کے دلائل باطلہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے فرمایا کہ جب انہیں دلائل پیش کیے جائیں تو سوائے مسئلہ شفاعت کے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں رہتی۔ اسی لیے اس مسئلہ کی وضاحت کے پیش نظر مستقل باب قائم کیا ہے۔
شفاعت، سفارش اور دعا کو کہتے ہیں، کوئی شخص جب یوں کہے کہ میں نبیﷺکی شفاعت کا طلب گار ہوں تو اس کی بات کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے ہاں اپنے حق میں رسول اکرمﷺکی سفارش اور دعا چاہتا ہے۔ گویا سفارش اور دعا کی درخواست کو شفاعت کہتے ہیں۔
سابقہ دلائل اور ان کے علاوہ قرآن و سنت کے دیگر دلائل جن سے اللہ تعالی کے علاوہ کسی بھی غیر کو پکارنے کا ابطال ہوتا ہے، ان تمام دلائل سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو لوگ فوت ہو چکے اور اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ان سے شفاعت کی درخواست کرنا بھی باطل ہے۔ پس فوت شدہ سے شفاعت چاہنا بہت بڑا شرک ہے، البتہ زندہ آدمیوں سے شفاعت یعنی دعا کرانا جائز ہے کیونکہ وہ اس دنیا میں زندہ موجود ہیں اور ہماری درخواست کو پورا کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالی نے زندہ لوگوں سے دعا کرانے کی اجازت دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ کی زندگی میں بعض صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کی خدمت میں تشریف لا کر دعا کی درخواست کیا کرتے تھے۔ یاد رہے کہ ہر شفاعت کا قبول ہونا ضروری نہیں۔ کوئی شفاعت مقبول اور کوئی مردود(نامقبول)بھی ہوتی ہے۔ مقبول ہونے کی چند شرائط ہیں اور مردود ہونے کی بھی وجوہات ہیں۔الغرض قرآن و سنت سے شفاعت کی دوقسمیں ثابت ہیں۔
(الف) شفاعت منفیہ(غیر مقبولہ)
(ب) شفاعت مثبتہ(مقبولہ)
منفی شفاعت(غیر مقبول)وہ ہے جس کی اللہ عزوجل نے مشرکین کے حق میں نفی کی ہے، جیسا کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے اس کی سب سے پہلی دلیل ، سورۂ انعام کی آیت(51)پیش کی ہے۔
(2) شفاعت مثبتہ(مقبولہ)یہ وہ شفاعت ہے جس کی اہل توحید کے سوا تمام کے حق میں نفی کی گئی ہے۔
اہل توحید کے حق میں شفاعت قبول ہونے کی چند شرائط ہیں:
(الف)
شفاعت کرنے والے کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے شفاعت کی اجازت۔
(ب)
شفاعت کرنے والے اور جس کے حق میں سفارش کی جائے، دونوں کے لیے اللہ کی رضا اور خوشنودی۔ گویا اصل سفارشی اللہ تعالی کی ذات ہے۔ اس کے سوا کوئی اور نہیں۔ اس لیے مصنف رحمہ اللہ نے اس کے بعد دوسری آیت “قُلْ لِلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا”بیان کی ہے۔
(3) یعنی ہر قسم کی شفاعت (سفارش)اللہ تعالی کی ملکیت ہے۔ درحقیقت اہل ایمان اور غیر اہل ایمان ، سب کا اللہ تعالی کے سوا کوئی مدد گار یا سفارشی نہیں، بلکہ شفاعت اللہ عزوجل کی اجازت اور رضا مندی ہی سے ہوگی۔ اور چونکہ کوئی شفاعت مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ ہی مفید ہو سکتی ہے اس لیے مصنف رحمتہ اللہ علیہ نے اس کے بعد دو مزید آیات بیان کی ہیں:
(4) پہلی آیت “مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ”میں اجازت کی قید اور شرط ہے یعنی ملائکہ، انبیاء اور اللہ کے قرب پانے والوں میں سے کوئی بھی اس کی اجازت کے بغیر شفاعت نہ کرسکے گا۔ اللہ تعالی ہی شفاعت کا مالک ہے اور وہی اس کی توفیق بخشنے والا ہے۔ اسی طرح دوسری آیت “إِلَّا مِنْ بَعْدِ أَنْ يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَرْضَى”میں بھی یہی ارشاد ہے کہ وہ شفاعت کرنے والوں میں سے جسے چاہے گا اجازت بخشے گا اور شفاعت کرنے والے کے قول سے اور جس کی شفاعت کی جائے گی اس سے راضی ہونے کے بعد شفاعت کی اجازت ہو گی۔
شفاعت کی مذکورہ بالا شروط سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ مخلوق کے ساتھ حصول شفاعت کی غرض سے تعلق قائم کرنا اور یہ اعتقاد رکھنا کہ اللہ کے ہاں اسے اس قدر مقام و متبہ حاصل ہے کہ یہ ازخود شفاعت کا اختیار رکھتا ہے، قطعا درست نہیں۔ یہی اعتقاد مشرکین کا اپنے معبودان باطلہ کے بارے میں ہوتا ہے کہ وہ لازما ان کی شفاعت کریں گے اور اللہ تعالی ان کی شفاعت کو رد بھی نہیں کرے گا۔
زیر نظر آیات میں مشرکین کے اسی دعوی کا ابطال اور نفی ہے کہ اللہ تعالی کی اجازت اور جس کی شفاعت مقصود ہے اس کے متعلق اللہ کی رضا مندی کے بغیر بھی کوئی شفاعت کرسکتا ہے۔ جب یہ بات ثابت ہوچکی کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی دوسرا شفاعت کا مالک نہیں اور جو کوئی بھی کسی کی شفاعت کرےگا تو اللہ کے اذن اور اجازت ہی سے کر سکے گا تو پھر مخلوق کے ساتھ اس کی شفاعت کے حصول کے لیے لگاؤ رکھنا کیسے درست ہوا؟ تعلق و لگاؤ تو محض اسی کے ساتھ ہونا چاہئے جو شفاعت کا حقیقی مالک ہے۔
قیامت کے دن نبی کریم ﷺ یقینا شفاعت کریں گے لیکن ہم اس شفاعت کے حصول کی درخواست کس سے کریں؟ صرف اللہ وحدہ سے اور یوں دعا کریں کہ یا اللہ! ہمیں اپنے نبیﷺکی شفاعت نصیب فرما کیونکہ اللہ رب العزت ہی نبی کریم ﷺکو توفیق بخشے گا اور آپ کے دل میں الہام کرے گا کہ فلاں فلاں کے حق میں شفاعت کریں اور یہ شفاعت انھی لوگوں کے حق میں ہوگی جنھوں نے اللہ تعالی سے ، نبی کریمﷺکی شفاعت کے حصول کی دعا کی ہوگی۔
اسی لیے مصنف رحمہ اللہ نے اس کے بعد سورۂ سبا کی یہ آیت بیان کی ہے:
(قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ (22) وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ (سورة سبأ34: 23))
(5) اس آیت میں تین احوال ذکر ہوئے ہیں:
(الف)
اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالی کے علاوہ جن بزرگوں کو صاحب اختیار سمجھتے ہیں ان کو پکار کر توو یکھیں، کیا وہ زمین و آسمان میں کسی بھی چیز کے بذات خود مالک ہیں؟ یعنی وہ تو بے بس ، بے اختیار اور بے کس ہیں اور کسی بھی چیز کے مالک و مختار نہیں۔
(ب)
اللہ نے واضح فرمایا کہ یہ بزرگ اس کائنات میں، تدبیر امور میں، زمین و آسمان کی ملکیت میں یا کسی بھی امر میں اللہ کے شریک یا ساجھی نہیں ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اللہ کا وزیر، مشیر یا مدد گار نہیں۔
(ج)
ان لوگوں کا عقیدہ تھا اور وہ اس زعم کا شکار تھے کہ ان کے معبودان باطلہ اللہ تعالی کے ہاں سفارش کے مالک ہیں۔ اللہ تعالی نے ان کے اس عقیدہ کا بھی ابطال کیا اور فرمایا:
(وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ (سورة سبأ34: 23))
“اللہ تعالی کے ہاں سفارش اسی کے حق میں مفید ہو گی جس کے حق میں سفارش کےنے کی وہ خود اجازت دے گا۔”
جب یہ بات حتمی ہے تو پھر اللہ تعالی ، کسے سفارش کرنے کی اجازت دےگا؟ اور کس کے لیے پسند کرےگا کہ وہ سفارش کرے؟ اور کس کے حق میں راضی ہوگا کہ اس کی سفارش کی جائے؟ ان تینوں سوالوں کا جواب شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے کلام میں موجود ہے۔
(6) مشرکین کا اتقاد تھا کہ اللہ تعالی کی اجازت اور رضامندی کے بغیر شفاعت کاحصول ممکن ہے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ شفاعت کرنے ولا بذات خود شفاعت کا مالک ہوتا ہے۔قرآن نے اس بات کی نفی کی کہ جس شفاعت کے امیدوار اور طلب گار مشرکین ہیں وہ قیامت کے روز ہر گز حاصل نہیں ہوسکے گی جبکہ مذکورہ بالا شروط کے ساتھ شفاعت کا حصول ممکن ہوگا جیسا کہ کتا ب و سنت میں اس کا اثبات ہے۔
نبی کریم ﷺ شفاعت کے لیے اللہ کے حضور حاضر ہوں گے تو فورا شفاعت کرنے کے بجائے سجدہ ریزہوں گے اور اللہ کی تحمید و تقدیس کریں گے، پھر اللہ عزوجل فرمائے گا: سراٹھائیں اور بات کریں، آپ کی بات سنی جائے گی، سوال کریں، جواب عنایت کیا جائے گا، شفاعت کریں قبول ہوگی۔
یہ اللہ کی طرف سے اجازت کے کلمات ہوں گے۔ اجازت نبی کریم ﷺ کو بھی ملے گی اور دوسروں کو بھی۔ لیکن کوئی بھی ابتداء میں شفاعت نہیں کرے گا بلکہ پہلے اللہ سے شفاعت کی اجازت مانگیں گے تو اجازت ملے گی کیونکہ انہیں اللہ کی طرف سے شفاعت کا اختیار تو حاصل ہے لیکن شفاعت کا حقیقی مالک صرف اللہ رب العزت ہی ہے، چنانچہ اللہ کی رضا مندی اور شفاعت کی اجازت ملنے کے بعد نبی کریم ﷺ جن کے حق میں شفاعت کریں گے وہ اہل توحید اور اہل اخلاص ہی ہوں گے۔ مشرکین کو یہ شفاعت نصیب نہ ہوگی۔
اس سے معلوم ہوا کہ فوت شدگان ، انبیاء ورسل اور صالحین کی طرف رجوع کرنے والا اور ان سے شفاعت کا خواستگار مشرک ہے کیونکہ وہ غیر اللہ سے دعا کرتا اور اسے پکارتا ہے جبکہ وہ بذات خود شفاعت کے مالک ہی نہیں ۔ اللہ کی طرف سے اجازت اور رضا مندی کے بعد انہیں شفاعت کا حق حاصل ہوگا۔
لہذا جس شخص نے کسی فوت شدہ سے شفاعت کی درخواست کی اس نے اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرکے اپنے آپ کو شفاعت مصطفیﷺسے محروم کر لیا۔
بالآخر اللہ عزوجل شفاعت کے واسطے سے اہل توحید کی مغفرت فرمائے گا اور یہ شافع(شفاعت کرنے والے)کی تعظیم و اکرام اور اس پر اللہ کی خصوصی رحمت کے اظہار کے لیے ہوگا۔ درحقیقت یہ اللہ کافضل ہی ہوگا کہ خود شفاعت کی اجازت دے کر اسے قبول فرمائے گا۔ شافع (شفاعت کرنے والے)پر یہ فضل اس صورت میں ہوگا کہ اسے شفاعت کا حق دے کر اکرام و اعزاز سے نوازے گا اور مشفوع لہ(جس کے حق میں شفاعت کی جائے گی)پر یہ فضل اس طرح سے ہو گا کہ اس پر رحم فرماکر اس کے حق میں شفاعت قبول فرمائے گا۔ اہل عقل و دانش کے لیے یہ دلائل ، اللہ کی عظمت کا واضح ثبوت ہیں کہ وہ اپنی شہنشاہی میں یکتا ہے۔ شفاعت کا مکمل اختیار اسی کے پاس ہے اور سارے کے سارے نظام کا شاہ حقیقی بھی وہی ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ شفاعت کی امید میں بھی دل اسی کی طرف مائل ہوں۔
قرآن مجید نے اس شفاعت کی نفی کی ہے جس میں شرک ہو،
جیسا کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
(لَيْسَ لَهُمْ مِنْ دُونِهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ (سورة الأنعام6: 51))
“قیامت کے روز اللہ تعالی کے سوا کوئی مدد گار ہوگانہ سفارشی۔”
اس آیت میں اس شفاعت کی نفی ہے جس میں شرک کی آمیزش ہو یعنی جس قسم کی شفاعت کا اعتقاد مشرکین رکھتے ہیں وہ قیامت کے روز بالکل معدوم ہوگی۔ اس طرح مشرکین کے حق میں شفاعت کی نفی ہے کیونکہ اللہ تعالی ان سے راضی ہی نہ ہوگا۔ جب یہ بات ثابت ہوچکی کہ شفاعت کا حق دار وہی ٹھہرےگا جس پر اللہ عزوجل نے انعام کیا اور اسے توفیق بخشی کہ اس نے اللہ کی عظمت کو جانا پہچانا اور اپنا دلی لگاؤ اسی کے ساتھ رکھا، اس کے علاوہ کسی کی طرف اس کا قلبی میلان نہ ہوا تو پھر شرک اکبر کے مرتکب ہر شخص کے حق میں شفاعت کی نفی ہوگئی کیونکہ شفاعت، اہل اخلاص پر اللہ کا خصوصی فضل ہوگا۔ اللہ تعالی نے متعدد مقامات پر اذن اور اجازت کی شرط کے ساتھ شفاعت کا اثبات کیا ہے۔
اذن کی دو قسمیں ہیں:
(الف) اذن کونی
(ب) اذن شرعی
اذن کونی کا مطلب یہ ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ جسے شفاعت کی اجازت ہو وہ شفاعت کرسکے جب تک کہ اللہ کی طرف سے اسے اجازت نہ مل جائے۔ جب تک اللہ اسے شفاعت کرنے سے روک رکھے گا اس وقت تک وہ شفاعت کرسکے گا نہ اس کی زبان شفاعت کے لیے حرکت میں آسکے گی۔
اور اذن شرعی کا مطلب یہ ہے کہ شفاعت میں شرک نہ ہو اور جس کے حق میں شفاعت ہوگی وہ مشرک بھی نہ ہو۔
البتہ اس حکم عام سے نبی کریمﷺکے چچا ابوطالب مستثنی ہیں کیونکہ ان کے بارے میں نبی علیہ السلام شفاعت کریں گے اور یہ شفاعت جہنم سے رہائی کی نہین بلکہ تخفیف عذاب کے لیے ہوگی اور یہ صرف نبی علیہ السلام کا خاصہ ہے۔ اللہ رب العزت ہی نے آپ کی طرف یہ وحی کی اور وہی آپ کو اجازت بخشے گا کہ آپ ان کے حق میں شفاعت کرسکیں۔
اس ساری تفصیل سے واضح ہوا کہ مبتدعین اور غیر اللہ سے تعلق رکھنے والوں کے دلوں میں جس شفاعت کا گمان اور خیال ہے وہ باطل ہے اور ان کا یہ قول “وَهَؤُلَاءِ شُفَعَآءَ نَاعِنْدَ اللهِ ”(یہ ہستیاں، اللہ کے ہاں ہمارے حق میں شفاعت کریں گی) بھی باطل ہے کیونکہ شفاعت تو صرف اہل اخلاص کے حق میں نفع بخش ہوگی اور یہ لوگ تو ہمیشہ غیر اللہ سے شفاعت مانگتے اور غیر اللہ ہی سے سوال کرتے رہے، یہی ان کی شفاعت سے محروم ہو جانے کی علامت اور نشانی ہے۔
اس سارے باب کا خلاصہ یہ ہوا کہ اہل خرافات اور مشرکین کا غیر اللہ سے شفاعت کی امید رکھنا ان کے حق میں بہتر نہیں بلکہ نقصان دہ ہو گا کیونکہ وہ غیر اللہ سے شفاعت کی امید رکھ کر حقیقی شفاعت سے محروم ہوگئے اور ان کی یہ امید بھی ایسی تھی کہ اللہ نے شرعا اس کی اجازت ہی نہیں دی کہ وہ شرکیہ شفاعت کے خواہشمند ہوں اور غیر اللہ کی طرف رجوع کریں اور ان کے دل غیر اللہ کی طرف مائل ہوں۔ لنک