رانا ابوبکر
تکنیکی ناظم
- شمولیت
- مارچ 24، 2011
- پیغامات
- 2,075
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 432
سقوط طالبان
(تجزیہ و تجاویز)
شیخ سفر الحوالی
ترجمہ :محمد زکریا
اس کائنات میں کوئی واقعہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا پہلے سے لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے اور علیم وحکیم کے لکھے ہوئے اس نوشتہ کے عین مطابق رونما ہوتا ہے۔ اس ذات کے علم سے کائنات میں ہونے والے کسی چھوٹے سے چھوٹے ذرے کی جنبش بھی پوشیدہ نہیں ہوتی۔ اہل ایمان کا طریقہ قضا و قدر کے معاملے میں یہ ہے کہ ”لا یُسئلُ عما یفعل وھم یسئلون“ وہ جو چاہے کرتا ہے، کوئی اس سے نہیں پوچھ سکتا‘ ہاں انسان اپنے اعمال کے جواب دہ ہوںگے مسلمان قضا، و قدر کے معاملے کو اللہ تعالی کے سپرد کرتے ہیں اور اس سے مغفرت اور رحمت کے طلبگار ہوتے ہیں۔
ان ھی الا فتنتک تضل بہا من تشاءوتھدی من تشاء انت ولینا فا غفر لنا وارحمنا انت خیر الغا فرین (اعراف ١٥٥)
(اس کائنات کے اسرار و رموز) ایک آزما ئش ہیں جس کے ذریعہ سے آپ جسے چا ہتے ہیںگمراہی میں مبتلا کر دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں ہدایت بخش دیتے ہیں ہمارے حامی و ناصر آپ ہیں پس ہمیں معاف کر دیجئے اور ہم پر رحم فرما ئیے آپ سب سے بڑھ کر معاف فرما نے والے ہیں۔
ایک بات اور ذہن نشین کرنے کی ہے کہ اس کائنات میں رونما ہونے والے واقعات اور ان کے عواقب کے لیے خدا نے ایک ضا بطہ مقرر کر رکھا ہے جو کسی زمانے یا حا لات میں تبدیل نہیں ہوتا خواہ کوئی قوم کتنی طاقتور ہو جائے اور سر کشی میں آخری حدوں تک پہنچ جائے بالاخر خدائی ضابطہ اس کی تطہیر کرکے ہی رہتا ہے۔امریکہ اس پابند قواعدوضوابط کائنات کی ایک چھو ٹی سی بستی ہے جس نے سر کشی سے اپنی بقاءکو خطرے میں ڈال دیا ہے جیسے قوم عاد‘ قومِ ثمود اور دوسری سرکش قومیں اترایا کرتی تھیں پھر ان پر خدا کے عذاب کا ایسا کوڑا برسا کہ کوئی ان کے مردوں کی خاک بردی کے لیے بھی دستیاب نہیں تھا، خدا جب انتقام لینے پر آتا ہے تو ایسے ہی ہوتا ہے ۔۔
فکلاً ا خذ نا بذنبہ فمنھم من ارسلنا علیہ حا صباً ومنھم من اخذتہ الصیحہ ومنھم من خسفنا بہ الارض ومنھم من اغرقنا۔ (العنکبوت٤٠ )
” آخر کار ہم نے ایک ایک کو اس کے گناہ کی پاداش میں پکڑا، پھر ان میں سے کسی پر پتھراؤ کرنے والی آندھی بھیجی اور کسی کو ایک زبردست دھماکے نے آلیا اور کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کسی کو غرق آب کر دیا“۔
ان کے چشمے خشک ہو گئے مکانات اجڑ گئے پختہ عمارتیں شہر آشوب کی کتھا کا منہ بولتا ثبوت فراہم کرتی ہیں یہ منظر دیکھ کر آسمان سے آواز آئی
لا ترکضوا وارجعو ا الی ما اترفتم فیہ و مساکنکم( انبیاء١٣)
” بھاگو نہیں،جائو اپنے انہیں گھروں اور عیش کوشی کے سامانوں میں جن کے اندر تم چین کیا کرتے تھے“
ہائے ہائے:کیسی قیامت ٹوٹی ۔رہتی دنیا تک خدا نے انہیں نشان عبرت بنا دیا اور آخرت کا عذاب اس دنیاوی آفت سے کہیں بھیانک ہو گا۔
اللہ تعالی کس قدر برد بار ہے ۔ابھی تک امریکہ جیسے سرکش ملک کی رسی دراز کئے ہوئے ہے وہ ملک جو ظلم و تعدی میں قوم عاد سے بڑھ کر‘ سر کشی اور خود سری میں قوم ثمود سے بڑھ کر، گھمنڈ اور تکبر میں فرعون سے بڑھ کر، رذالت اور سفلہ پن میں قوم لوط سے بڑھ کر، بے غیرتی اور بے شرمی میں اہل مدین سے بڑھ کر‘ پھر اس ملک کے جرائم کا کچھ اندازہ تو کرو جس نے چالبازی میں یہودیوں کو مات دے دی ہے زندہ رہنے کی چاہت اور الفاظوں کے ہیر پھیر میں بھی یہ قوم یہودیوں سے چار ہاتھ آگے ہے احساس برتری کے دعوے میں بھی یہ یہودیوں سے بڑھ کر ہیں جو اپنے آپ کو خدا کی اولاد سمجھتے ہیں ۔ایسی قوم پر اس عذاب کے رونما ہونے کے لوگ برسوں سے منتظر ہیں جو اس سے کم تر قوموں پر ٹوٹا تھا۔ خود اس قوم کے ایک سر کردہ پادری نے گیارہ ستمبر کے ہولناک حادثے کے بعد تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا، ابھی تو شروعات ہیں!
اس قوم کو صفحہ ہستی سے نہ مٹانے کی اصل وجہ تو خدا ہی جانتا ہے‘ شاید اس قوم کی نسل سے خدا نے ایسے لوگوں کو پیدا کرنا ہو جو صرف اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریںاور ایسا ہونا خدا کی قدرت سے کچھ بعید بھی نہیں ہے۔
اللہ تعا لی کے انتقام لینے کے ان گنت طریقے ہیں
وما یعلم جنودربک الا ھو وما ھی الا ذکری للبشر
”اور تیرے رب کے لشکروں کو خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اوریہ فرمان تو بس اس لیے بیان کیا جاتا ہے کہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں“ ۔
امریکہ کی خوں چکا ں داستان بہت طویل ہے۔ براعظم امریکہ کو اپنا وطن بنانے والے نوواردوں نے مقامی با شندوں کا قتل عام کیا اور ریڈ انڈین پرنسل کشی کی جنگ مسلط کی تھی ۔امریکہ کی تا ریخ میں سیاہ کاری کا یہ نشان ہمیشہ نمایاں رہے گا۔ مقا می باشندوں کے زندہ رہ جانے والے افراد کی اولاد آج امریکہ میں ہر سال تین لاکھ امر یکیوں کو قتل کرتی ہے اور یوں یورپی نسل سے اپنا بدلہ لیتے ہیں۔
امت اسلام کی امتیازی صفات:
امت اسلام خدا کی پسندیدہ امت ہے صرف یہ امت اللہ تعالی کی رحمت اور نصرت کی مستحق قرار دی گئی ہے خواہ حالات کی سنگینی اور امت کی نا توانی کتنی ہی ہو۔
جہاں تک اس امت کے پسندیدہ ہونے کاتعلق ہے تو اس کی دلیل یہ ہے اللہ تعالی نے اپنی کتاب ،حکمت اور لوگوں پر گواہی دینے کی ذمہ داری اس امت کو سونپی ہے اس امت میں رہتے ہوئے ایک ظالم مسلمان بھی اس سپاس کا مستحق ہے صا لحین کی تو بات ہی کچھ اور ہے ا گر چہ ظالم سے اس کے ظلم کی باز پرس ضرور ہو گی چناچہ اللہ تعالی فرماتا ہے۔
ثم اورثنا الکتاب ا لذ ین اصطفینا من عبادنا فمنھم ظالم لنفسہ ومنھم مقتصد ومنھم سابق بالخیرات۔(سورہ فاطر: ٣٢)
” پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنا دیا ان لوگوں کو جنہیںہم نے (اس وراثت کے لیے ) اپنے بندوں میں سے چن لیا۔ اب کوئی تو ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے اور کوئی بیچ کی راس ہے‘ اور کوئی اللہ کے اذن سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے“۔
اگر کسی قوم میں کو ئی بھلائی ہے تو امت اسلام میں وہ بھلائی اس قوم سے بڑھ کر ہوتی ہے اور بدی میں بھی دوسری ہر قوم امت اسلام سے بڑھ کر ہو گی۔ اس امت کا تمدن بر مبنی عدل و انصاف، خیر خواہی اور عفوودرگزر سے عبارت ہے۔ مغربی فلسفیوں میں اس فلسفی کا یہ کہنا کہ ”فاتحین کی طویل تاریخ میں صرف مسلمان ہی رحم دل فاتح ہو گزرے ہیں“ با لکل درست ہے۔ اس فلسفی کی گواہی ہے کہ مغرب انسانی قدروں سے بہت بعد میں آشنا ہوا اور مغرب کی تاریخ پر آشوب داستانوں، قتل و غارت اور باہمی رقابتوں سے بھری ہوئی ہے۔ آج بھی آئیرلینڈ اور مشرقی یورپ باہم برسر پیکار ہتے ہیں وہ لکھتا ہے کہ مغربی استعمار نے اپنی فتوحات کے دوران صرف تین صدیوں کے اندر دس کروڑ انسانوں کو ہلاک کیا‘ ایک دوسرے فلسفی کے نزدیک ہلاک ہونے والوں کی تعداد تیس کروڑ ہے۔
امت اسلام پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے اور یہ امت مرحومہ ہے کیونکہ اللہ تعالی دنیا میں ہی مختلف سزائوں سے ان کی تطہیر کرتا رہتا ہے کبھی بیرونی دشمن کو ان کے کسی گروہ پر مسلط کرکے، کبھی باہمی پھوٹ پڑ جاتی ہے، کبھی بھوک غربت افلاس اور پس ماندہ رکھ کر اس کی تطہیر کی جاتی ہے جس سے یا تو اسے مکمل طور پر گناہوں سے پاک کرنا ہوتا ہے یا پھر آخرت میں یہ سزائیں ان کے لیے باعث تخفیف ہوتی ہیں یا پھر چنیدہ لوگوں کو جنتوں کا وہ مقام ملنا ہوتا ہے جو کسی آفت میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں ملا کرتا حدیث میں آپ نے فرمایا: ”ان ھذہ الامہ مرحومہ عذابہا با یدیھا“ بیشک یہ امت امت مرحومہ ہے اس امت پر مصیبت ان کے پنے ہاتھوں سے پڑے گی ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا اس امت کی سزا تلوار کے ذریعے ہوا کرے گی قیامت کے روز ہر برسر پیکار رہنے والے مسلمان کی طرف سے ایک مشرک کو پکڑا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ مشرک تمھاری بجائے آگ میں ڈالا جاتا ہے۔
اس امت کو تائید ایزدی حاصل رہے گی اور یہی طائفہ منصورہ ہے خود اہل کتاب کے مذہبی لٹریچر میں اس امت کو ایک پہاڑ سے تشبیہ دی گئی ہے جو جس چیز پر پڑے اسے پیس کر رکھ دے‘ جیسا کہ اس وقت کی دو عالمی طاقتیں قیصر اور کسری کا انجام ہوا تھا۔ اور اگر کوئی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گیا تو اس کے قدم ڈگمگا جائیںگے جس طرح مسلمانوں پر حملہ آور ہونے والے تاتاری اہل کتاب اور یورپی استعمار اپنا توازن قائم نہ رکھ سکے۔ تمام سچائیوں کے سردار حضرت محمد نے فرمایا:
لا تذال طائفہ منھا منصورہ لا یضرھا من خالفھا ولا من خذلھا، یجاھدون علی الحق حتی یاتی امراللہ“
”ہمیشہ اس امت میں سے ایک گروہ تائید یافتہ رہے گا اس کی مخالفت کرنے والے/یا اس سے غداری کرنے والے اسے کچھ نقصان نہ پہنچا پائیں گے وہ حق کے ساتھ تا قیامت جہاد کرتے رہیں گے“۔
اس امت کو ان امتیازی صفات سے اس لیے بہرہ مند کیا گیا ہے تاکہ وہ مایوسی کا شکار نہ ہوں ان کے سان گمان میں بھی یہ بات نہ آئے کہ وہ کبھی صفحہ ہستی سے مٹ کر ر ہ جائے گی اس امت کی طویل تاریخ میں شکست اور فتح ساتھ ساتھ رہے ہیں ڈوبنا اور ڈوب کر ابھرنا، ایک دوسرے سے ٹوٹ جانا اور پھر ٹوٹ کر یکجا ہو جانا بھی اس کی تاریخ رہی ہے لیکن ایک صفت جو اس امت کے لیے مخصوص ہے وہ قا ئم ہی رہی ہے یعنی بالاَخر راہ راست پر آجانا ۔کسی باطل قوت کو خواہ مشرقی ہو یا مغربی یا حملہ آور تاتار ہوں یا صلیبی یہ نہیں سمجھنا چا ہیئے کہ اس امت کو اپنی سپاہ میں شامل کر کے دنیا کے آخری کونے تک فتو حات کے قلعے گاڑتے جائیں گے۔
مصائب بوجہ کبائر:
احادیث مبارکہ کی روشنی سے جو عقیدہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ اس امت پر جو مصائب آتے ہیں خواہ بظاہر اس کا سبب ضعف ہو یا نا کامی یا ناداری یا پستی اس کی اصل وجہ گناہ اور باہمی لڑائی جھگڑے ہوتے ہیںاللہ تعالی کیونکہ اس امت کے ساتھ نہایت مہربان ہے اس لیے کوئی طاقت اسے صفحہ ہستی سے نہیں مٹا سکے گی البتہ ان مصائب کے ذریعے امت میں سے کچھ کو شہادت کے اعلی درجے پر پہنچنا ہوتا ہے یا کسی عاصی مسلمان کے لیے اس کا قتل ہو جانا با عث مغفرت بن جاتا ہے یا پھر اس کے اخروی عذاب میں تخفیف ہونی ہوتی ہے اگرسب کے سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور توبہ و استغفار کرتے ہوئے اپنے رب کی طرف رجوع کریں تو پھر اس امت کے لئے یقینی فتح و کامرانی اور دنیا میں عزت اور تمکن حا صل ہوتا ہے۔ اس لیے ہمارے لیے سب سے پہلا مرحلہ توبہ اور اللہ کی طرف رجوع کرنے کا ہے۔ عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کے ظلم سے تنگ آکر جب اہل عراق نے بغاوت کرنے کاارادہ کیا تو امام حسن بصری نے یہ کہ کر انہیں تلوار اٹھانے سے منع کر دیا کہ ” عراق کے لوگو: حجاج تمھارے گنا ہوں کیوجہ سے تم پر مسلط ہوا ہے خدا کے اس عذاب کو طاقت سے نہیں توبہ اور استغفارسے ٹالنے کی کوشش کرو اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
”ولقد اخذ نا ھم بالعذاب فما استکانوا لر بھم وما یتضر عون (المو منون ٧٦)۔
”ان کا حال تو یہ ہے کہ ہم نے انہیں تکلیف میں مبتلا کیا پھر بھی یہ اپنے رب کے آگے نہ جھکے اور نہ عاجزی اختیار کرتے ہیں“۔
توبہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ امر با لمعروف اور نہی عن ا لمنکر کا فریضہ پوری قوت سے ادا کیا جائے، اسی طرح اللہ کے لیے دوستی اور اللہ کے لیے دشمنی رکھی جائے توبہ کے اس عملی اظہار سے ہمارے اپنے حکمرانوں کا ظلم اللہ کے حکم سے رفع ہو جائے گا اور جب حکمران بھی توبہ کا عملی اظہار کریں گے اور اللہ تعا لی کی حدود کو اپنی قلمرو میں نافذ کریں گے تو بیرونی دبائو اور کفر کی طاقتوں سے بھی نجات کی صورت نکل آئے گی مثلاً کفر کے اپنے گھر میں عوامی بغاوت کی صورت میں یا کافروں کی باہمی جنگوں کی صورت میں مغربی مما لک میں بسنے والے مسلمان اگر گنا ہوں کی تلچھٹ سے اپنے آپ کو نکال کر توبہ کریں ، جس کا لازمی اظہار عقیدہ ولاءاور برا ءہے اور دوسرا فسق اور فجور کی محفلیں ترک کرنا ہے تو ان مما لک میں جو امتیازی سلوک ان سے کیا جاتا ہے اس سے نجات مل جا ئے گی یہ مسئلہ سمجھ لینا چا ہیئے کہ بلا د کفر میں کسی ضروری کام کے لیے عارضی قیام یا بامر مجبوری کے علاوہ رہنا عصیان ہے یا پھر اس کے پیش نظر دعوت دینا ہے اور جلد ہی دار الکفر سے نکل کر نو مسلم سمیت ہجرت کرنا مقصود ہے۔
کتاب و سنت کو اٹھا ئیے کتنی آیتیں ایسی ہیں جو ہمارے موجودہ حالات پر پوری طرح چسپا ں ہوتی ہیں گویا وہ آج نازل ہوئی ہیں۔ میدان جہاد میں برسر پیکار مجاہدین کے لیے فہم دین کا یہ طریقہ ہے کہ وہ عوام سے رائے لینے کی بجائے علمائے امت سے رجوع کریں اور انہیں سے مشاورت حاصل کریں تا کہ دشمن کو کوئی کم زور رخنہ نہ ملے اور مجاہدین کی قوت میں بھی اضافہ ہو جب قابل ذکر علمائے امت کی پشت پناہی حاصل ہو گی تو پھر ایسے مجاہدین کی مخا لفت کرنے والا خود بخود منافق، جس کا نفاق بیان کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی، کہلائے گا۔
مفتیان کرام، اسلام پر لکھنے والے لکھاری، خطیب اور واعظ اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے منسلک افراد اگر موجودہ حا دثا ت کوقرآن کی کسوٹی پر جانچنے کی کوشش کریں تو بہترین نتا ئج سامنے آئیں گے جنہیں پیش نظر رکھ کر مستقبل میں بہتر نتا ئج حا صل کیے جا سکتے ہیں اور مزید غلطیوں سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ اس حا دثے کے بعد اگرچہ صد مے کے لحاظ سے سارے مسلمان یکساں تھے مگر قیاس آرائیاں کرتے ہوئے مختلف الخیال۔ اہل اسلام کے ذ مہ دار افراد اگر اسے قران کی روشنی میں دیکھتے تو پھر مختلف آراءسامنے آنے کی بجائے متفقہ رائے اور لا ئحہ عمل سامنے آتا۔
مسلما نوں کے خلاف کا فروں کی اعانت کا حکم
مسلمانوں کے خلاف کافروں کی کسی طرح کی مدد اور تعاون کفر بواح کے ارتکاب اور صریح نفاق ہے خواہ اس تعاون کی صورت محض معلومات فراہم کرنے تک ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے فعل کرنے والا شخص نوا قض اسلام کا مرتکب ہوتا ہے اس کی وضا حت آئمہ کرام مھدین نے کھول کر بیان کی ہے۔ ایسے شخص کا اس فعل کے بعد عقیدہ ولاءاور براءپر ایمان نہیں رہتا۔ اس لیے افغا نستان کے طالبان مخالف دھڑے فی الفور خدا کی طرف رجوع کرتے ہوئے توبہ کریں اور اس کی ہر ممکن تلافی کریں خواہ دعائے خیر اور اچھی بات کرتے ہی ہو ئے۔ ایسا نہ ہو کہ ابلیس روس کی تبا ہی کے ثمرات امریکہ سے وفاداری کی بناءپر ضائع کرا دے۔ طالبان مخالفین کومعتصد بن عباد کے اس قول کو مثال بنانا چا ہیئے جب ایک طرف یہودی تھے اور دوسری طرف ابن تا شفین کا اس کی امارت پر قبضہ ہونے والا تھا ”مجھے ابن تاشفین کے ریوڑ ہا نکنا اس سے کہیں بہتر لگتا ہے کہ میں عیسائیوں کے فرماروا فنسو کے خنزیروں کی پرورش کروں“۔ اگر کوئی کافر ملک کسی دوسرے کافر ملک کے اقتدار کو تسلیم کر لے تو ایسا شخص جو یہ کام کرے اپنے عوام میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ملعون قرار دیا جاتا ہے جیسا کہ فرانس کے عوام اپنے جنرل بیٹن سے نفرت کر تے ہیں کیو نکہ وہ ہٹلر کی نازی حکومت میں فرانس کے الحا ق کا حامی تھا۔
ہم دنیا بھر کی معتدبہ شخصیات کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتے ہیں کہ ا پنے مواقف کے اظہار میں خدا خوفی کا مظا ہرہ کریں ایسا نہ ہو کہ آپ کے کسی ایک لفظ سے کسی مسلمان کی جان چلی جائے۔ ایسا کرنے سے تمام اعمال برباد اور دنیا و آخرت کی رسوائی ہے نبی علیہ السلام نے فرمایا، بسا اوقات ایک آدمی خدا کو ناراض کرنے والے الفاظ کو غیر سنجیدگی سے ادا کرتا ہے حا لانکہ اس وجہ سے وہ دوزخ کی اتھاہ گہرائیوں میں پڑنے والا ہوتا ہے۔
اس وقت صلیبی بلاک اپنی پے درپے ہزیمتوں کے انتقام میں بو کھلا ہٹ کا شکار ہے اور انتقام کی آگ میں جل رہا ہے وہ مسلم امہ کو بیخ و بن سے اکھا ڑنا چا ہتے ہیں ۔
تخریب کاری کابہا نہ بنا کر جس ہولناک جنگ کا آغاز پہلے افغا نستان سے پھر اس بہانے امریکہ میں مسلمانوں کے ظلم اور بعد ازاں ان دونوں ممالک کے ادھر بسنے والے نہتے مسلمانوں پر کیا جا رہا ہے اس کی تا ئید اور حمایت کی آواز ممبر رسول سے بلند ہو نا، قابل فہم ہے۔ مجاہدین کو دہشت گرد قرار دینا اور دہشت گردی کے عنوان سے یہ کہنا کہ تخریب کاری اسلام میں حرام ہے یا اسلام میں تخریب کاری کی کوئی گنجائش نہیں اور اللہ دہشت اور رعب بٹھانے کو نا پسند کرتا ہے قران کی رو سے غلط ہے اللہ تعا لی کا ارشاد ہے:
وا عدوا لہم ما استطعتم من قوہ و من رباط الخیل تر ھبون بہ عدواللہ و عدو کم (انفال ١٠٦)
”اور تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے زیا دہ سے زیا دہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھو ڑے ان کے مقا بلے کے لیے مہیا رکھو‘ تا کہ اس ہمہ وقت تیاری سے اللہ کے اورا پنے دشمنوں کو خوف زدہ کر دو“۔
رعب اور دبدبے سے دشمن کو خوف میں مبتلا کرنا اس دین کی امتیازی صفت ہے‘ اللہ تعالی اس کو اپنے کلام میں بیان کرتا ہے”لا نتم اشد رھبہ فی صدورھم من اللہ“ ان کے دلوں میں تمہا ری دہشت اللہ کے ڈر سے بھی زیادہ بیٹھ گئی ہے۔
لفظ دہشت یا تخریب کاری (terror) کی اصطلا ح ہر ملک اپنے مفادات کے پیش نظر کرتا ہے لیکن آج کل عرف عام میں اس سے مراد وہ تما م مجاہدین ہیں جو فلسطین، لبنان ، چیچنیا، کشمیر، فلپا ئن اور اریٹر یا میں بر سر پیکار ہیں۔ بلکہ ہر وہ مسلمان تخریب کار ہو سکتا ہے جو ان کی سر حد میں داخل ہو۔
قا رئین کو یاد ہو گا کہ امریکہ خلیج عرب میں عراق کی کویت پر مہم جوئی کا بہا نہ بنا کر دا خل ہوا تھا اور اب خلیجی مما لک کے کہنے پر بھی عراق سے معا شی پابندیاں ہٹانے پر آمادہ نہیں ہے۔ امریکہ کا بس چلے تو اس علاقے کے ہر سچے مومن سے زندہ رہنے کا حق چھین لے۔
اہل سنت و الجماعت کے نزدیک جہاد کا حکم:
مسلمانوں کا یہ متفق عقیدہ ہے کہ”الجہا د ماض الی یوم القیا مہ “ جہا د تا قیامت جاری و ساری رہے گا۔ دین اسلام کی حما یت میں اس کام کا بیڑا خواہ صا لح شخص اٹھا ئے یا معا صی کا مرتکب ،جہاد ہر دوصورت میں جائز ہے۔ یہ بات نفسیا تی شکست خوردگی کی علا مت ہے کہ جہا د کے مفہوم کو بگاڑا جائے یا اس کا دائرہ کار تنگ کر دیا جا ئے یاایسی شرا ئط لا ز می قرار دی جائیں جن کاپورا ہونا محال ہو یا اسے ماضی میں کیا جانے والاایک تا ریخی کارنا مہ سمجھا جائے اور اب اس کی ضرورت سے انکار کیا جا ئے۔
جہاد کا صحیح تصور دونوں فریقین کے بیچ کی راس ہے ہر دو قسم کے جہاد میں واضح فرق ہے۔ جہاد کی ایک قسم کفار سے بدلہ لینے کی غرض سے اسے نقصان پہنچانا ہے اور دوسری قسم پورے فہم اور ادراک کے ساتھ ایک انسانی کاوش کی حد تک مکمل تربیت یافتہ اور اصلاح عقیدہ کے بعد مسلم امت کو اس کا سابقہ بین الا قوامی مقام دلا نا اور اللہ کے کلمے کو بلند کرنا ہے۔ایک حالت وہ تھی جب نبی علیہ اسلام کے زمانے میں مسلمان ایک نازک مرحلے میں تھے اور کافروں کے ایک سردار کے قتل کرنے کایقینی موقع سے حضرت حذیفہ بن یما ن نے اس لیے فا ئدہ نہیں اٹھا یا کہ آپ نے قتل نہ کرنے نصیحت کی تھی۔
دوسرا مرحلہ بیعت رضوان کا ہے جب آپ نے تمام ہم سفر صحا بہ سے حضرت عثمان غنی کے انتقا م پر بیعت لی اور ایک شخص نے بیعت نہیں کی تو وہ منافق قرار دیا گیا۔ اسی طرح غزوہ تبوک میں پیچھے رہنے والے لوگ بھی منافق کہلا ئے سوائے کعب بن مالک اور ان کے دو ساتھی ۔
سیرت نبوی کے صفحا ت میں غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہر شخص کے لیے دعوت کے مرا حل کے سمجھنے کے لیے واقعات موجود ہیں یہ امر قا بل ذکر ہے کہ تاریخ اسلا می کے متا خر دور میں جو ذہنیت کار فرما رہی ہے وہ ٹھیٹھ اور پختہ ذہنیت کی بجائے جذباتی ذہنیت رہی ہے ۔وہ قبل از وقت اپنی تمام صلا حیتوں کے ساتھ اپنی اس جذباتی کیفیت میں میدان قتال میں کود پڑنا چاہتے ہیں ممکن ہے کہ سال بھر میں وہ ایسی اسکیم بنانے پر قادر ہو جائیں جو زیا دہ ثمر آور اور نتا ئج کے لحا ظ سے دیر پا ہو۔
امت کے سرکردہ قا ئدین:
داعی حضرات اور منھج نبوی کو اپنا اسوہ بنانے وا لے حضرات کو چا ہیے کہ وہ دین اسلام کے تمام پہلووں سے آگاہ ہوں سیرت نبوی کے مراحل میں ہمیں بنی شیبان کا واقعہ بھی ملتا ہے۔ بنی شیبان کے ایک نمائندہ وفد نے نبی علیہ اسلام کی حفا ظت کی ذمہ داری عربوں کے مقابلے میں اٹھا نے پر آمادگی ظا ہر کی تھی مگر وہ ایرا نیوںکے مقابلے میں آپ کی حفا ظت کا ذمہ لینے پر آمادہ نہیں تھے۔ اس موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا: دین اسلام کی ایسی کوئی حفا ظت معتبر نہیں جو دین کے ہر پہلو اور ہر گوشے کی حفا ظت نہ کر سکے۔
یہ افتخا ر انصار کے حصے میں آنا تھا جنہوں نے اپنی جان اور مال سے آپ کی حفاظت کا عہد کیا تھا۔ تمام دنیا کے مسلمان ایک امت ہیں ان کی حفاظت ہر شخص پر مقدور بھر لازم ہے۔ وہ اپنے دشمن کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہیںبنا بریں جو مسلمان دین کے کسی ایک پہلو کا ذمہ اٹھا تا ہے مثلاً ایک فریق علم پھیلا نے میں مصروف ہے دوسرا دعوت الی الحق کا کام کرتا ہے تیسرا جہا د کا فریضہ انجام دیتا ہے ان سب سے محبت کرنا اور تعا ون کرنا واجب ہے یہا ں تک کہ تمام مسلمان مل کر دین اسلام کی ساری کڑیا ں ملا دیں۔ اگر علم پھیلا نے کا کام کرنے والے جہاد کرنے والوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا لیں یا اہل جہا د اسا تذہ کو ،تو مسلمانوں کا شیرا زہ اور ان کی قوت ٹوٹ پھو ٹ کا شکار ہو جائے گی اور وہ یا تو گمراہ ہونے والے فریق میں شمار ہوں گے یا جن پر خدا کا غضب ہوا ان میں شمار ہوں گے جیسا کہ نصاری کو گمراہ اور یہو دیوں کو مغضوب کہا جاتا ہے امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں دو گمرا ہیا ں اس طرح بنتی ہیں کہ دین سے وابستہ رہنے والے ان ضروری امور کا اظہار بھی نہ کریں جن پر سخن گوئی ضروری ہو جیسے خلافت، جہاد اور انفا ق فی سبیل اللہ جیسے امور ہیں اور دوسرے وہ لوگ جنہیں اقتدار ملا مال دار ہوئے اور معرکوں میں بھی شامل ہوتے ہیں لیکن اس سے ان کا مقصود اقامت دین نہیں ہوتا پہلا گروہ گمراہ اور دوسرا مغضوب علیھم ہے ۔
وہ فر ماتے ہیں دین کی استقا مت کتاب ہدایت اور قوت کو لازمی پکڑ نے میں ہے اللہ تعالی نے ان دونوں چیزوں کو سورہ حدید کی پچیسو یں آیت میں یوں بیان کیا ہے۔ ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صا ف نشانیوں اور ہدا یا ت کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تا کہ لوگ انصاف پر قائم ہوں اور لوہا اتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کومعلوم ہو جا ئے کہ کون اس کو دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کر تا ہے۔ یقینااللہ بڑی قوت والا اور زبر دست ہے۔
اب دیکھئے اللہ تعالی کا کلام ہم پر کس طرح صا دق آیا ہے ہماری فوجوں نے مغضوب علیھم کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے مسلمان بھا ئیوں کےخلاف دشمن کی حمایت کی اور دوسرے فریق نے ضا لین کا کردار ادا کرتے ہوئے سرے سے جہاد اور اس کی تیا ری سے مسلسل اعرا ض برتا اس طرح ہم اپنے اعمال کے نتیجے میں خدا کے عذاب میں مبتلا ہوئے ہیں اب چاہے تودشمن ہمارے مقد سات کو روندتا رہے ہماری عزت و نا موس سے کھیلے اس کے مسلح دستے ایک بعد دوسرے جتھہ بندی کریں ایسی صورت میں یہی متوقع تھا کہ جہاد کرنے اور جہاد کی تعریف ایسے گروہ کرتے رہیں جو کسی ایک قیا دت کے تحت نہ ہوں اور نہ ہی مناسب تربیت اور منھج سے بہرہ مند ہوں اگر وہ بہتر کریں تو اللہ کی طرف سے اور غلط کریں تو اس کی ذمہ داری ایسے علماءپر آئے گی جو جہاد اور اس کی تیاری سے صرف نظر کرتے رہے ہیں ۔
سقوط خلافت کے بعد
خلافت جو پوری امت کو متحد کئے ہوئے تھی کے سقوط کے بعد ہر علاقہ ایک مستقل ریاست بن گیا۔ ہر ریاست اپنے مفادات اور تحفظا ت کے تحت اپنی سیا ست کرنے لگی دوسری اسلامی ریا ستوں کے قطع نظر ہر ملک جنگ وامن صلح اور معا ہدوں میں آزاد ہو گیا۔ ایک اسلامی ریاست کا دوست ملک دوسری اسلامی ریاست کا دشمن۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہی حال اسلامی تنظیموں کا ہے۔ بلا شبہ ایسی صورت میں جبکہ ہر ملک اور ہر تنظیم کوئی بھی عہد اور معا ہدہ اپنی آزادانہ رائے سے کرتی ہے دوسرے ملک اور تنظیم پر اس کی کوئی پابندی نہیں رہتی لیکن ایک بات ایسی ہے جو قطعی طور پر درست نہیں ہو سکتی وہ کسی اسلامی ریا ست یا اسلامی تنظیم کے خلاف کافر کی حمایت اور نصرت ہے۔
صحابی ابو بصیر نے اپنی آزادانہ مرضی سے جو راہ اختیار کی تھی فقہا ئے عظام کے لیے اس میں سمجھنے کے بہت سے پہلو ہیں ہوا یہ کہ صلح حدیبیہ میں قریش اورنبی علیہ ا لسلام کے درمیان یہ معا ہدہ ہوا کہ وہ قریش کے ان تمام مردوں کو واپس مکہ کے سپرد کر دیں گے جو اسلام لا کر مدینے میں آئیں گے ابو بصیر اسلام لاکر مدینہ ہجرت کر آئے قریش نے ان کی سپردگی کے لیے اپنے دو آدمی مدینے روانہ کیے انہوں نے معاہدے کا حوالہ دیا اور آپ نے ابو بصیر کو ان کی سپردگی میں دے دیا وہ دونوں انہیں لیے ہوئے جب ذو حلیفہ کے مقام پر پہنچے تو ابو بصیر نے ایک شخص سے بہا نے سے تلوار لے کر اسے ہلا ک کر دیا اور دوسرا بھا گ کر مدینے چلا گیا اس کے پیچھے ابو بصیر بھی پہنچ گئے اور فر ما نے لگے اے اللہ کے نبی آپ نے اپنا عہد مجھے سپرد کرکے پورا کر لیا ہے مجھے اللہ نے ان سے نجات دلائی ہے آپ نے فر ما یا اس کے کچھ ساتھی ہوتے: ابو بصیر جانتے تھے کہ مدینے میں رہنے کی صورت میں آپ انہیں دوبارہ مکہ والوں کے سپرد کر دیں گے اس لیے آپ ایک سا حلی علاقے میں چلے گئے ادھر مکہ سے ابوجندل بھی قریش سے پیچھاچھڑا کر ابو بصیر سے مل گئے اب کیا تھا جو بھی اہل مکہ میں سے اسلام لاتا اس گروہ میں آکر مل جاتا اور ایک بری جمعیت فراہم ہو گئی اب شام کی طرف جانے والے قریش کے قافلے ان کے حملوں کا شکار ہوتے یہ حضرات قافلے وا لوں کو قتل بھی کرتے اور ان کا مال بھی مال غنیمت کی طرح اپنے قبضے میں کر لیتے تھے ۔
محو لہ بالا قصے سے مندرجہ ذیل فقہی احکام مستنبط ہوتے ہیں :
١۔ قریش نے جن دو اشخا ص کو ابو بصیرکی واپسی کے لئے بھیجا تھا وہ سفیر تھے اور سفیر کو قتل نہیں کیا جاتا لیکن اس کے باو جود جو شخص ابو بصیر کے ہا تھوں قتل ہوا تھا آپ نے نہ ابو بصیر سے اس کی باز پرس کی اور نہ ہی مکہ والوں کواسکی دیت دلائی ایک روایت میں ابو بصیر کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں :اے اللہ کے نبی میرے اور ان دو اشخاص کے درمیا ن کسی قسم کا کوئی معا ہدہ نہیں ہوا تھاآپ کا یہ سن کر کچھ نہ کہنا اس بات کا اظہا ر تھا کہ ابو بصیر کا اقدام درست تھا ابو بصیر اپنے قول اور عمل کے خود ذمہ دار تھے وہ اسلامی ریاست سے الگ اپنا تشخص رکھتے تھے ایسی صورت میں جبکہ ایک سفیر کا قتل جائز اور درست تھا عام کافر کا قتل کرنا با لا ولی درست اور صحیح ہو گا۔
امام ابن قیم نے صلح حدیبیہ کے وا قع سے یہ حکم مستنبط کیا ہے کہ اگر دو فریق جب معا ہدہ کر لیں اور ان میں سے کوئی گروہ اپنے طور پر فریق مخا لف سے بلا اجازت جنگ کرے اور مال لوٹے تو امام پر نہ ان کی حفا ظت کی ذمہ داری ہے اور نہ ان کا ساتھ دینے کی ذمہ داری ہے خواہ معا ہدے کے وقت وہ شریک تھے یا نہیں تھے صلح حد یبیہ نبی علیہ السلام اور قریش کے درمیان طے پا ئی تھی ا بو بصیراور ان کے ساتھی اس میںکوئی فریق نہیں تھے لہذا ان کا قریش کے قافلوں پر حملہ آور ہونا درست تھا اسی طرح یہ بھی درست ہو گا کہ اگر مسلمانوں کے چند حکمران عیسائیوں سے کوئی صلح کا معا ہدہ کریں اور مسلمانوں کا کوئی اور حکمران جو معا ہدے کا فریق نہ ہو عیسا ئیوں پر حملہ کر دے تو یہ اقدام درست ہو گا وہ فر ما تے ہیں کہ ہمارے استاد امام ابن تیمیہ کا بھی یہی فتوی ہے۔
یہ ایک بین الا قوامی قانون بھی ہے کہ ہر ملک اپنے اپنے معا ہدے کا پابند ہے دوسرے غیر جا نبدار ملک پر معا ہدے کا اطلاق نہیں ہوتا مغربی مما لک بھی اس قانون سے آ گاہ ہیں اگر اس قانون کو تسلیم نہ کیا جا ئے تو پھر پا پا ئے روم کو عیسا ئیوں کی ہر اس دہشت پسند کا روائی کا ذمہ دار ٹھہرا یا جا ئے گا جوکیتھو لک فرقے والے آئےرلینڈ میں کرتے ہیں۔
اس قاعدے کی رو سے امریکہ کو جان لینا چاہئے کہ اس کی دشمنی اور اس سے دشمنی امریکہ اور القا عدہ تنظیم کے ما بین ہے یا دوسرے لفظوں میں وہ گروہ جس نے عیسا ئیوںکے خلاف جہاد کا با ضا بطہ اعلان کیا ہے دنیا بھر کے دیگر مسلمان اس اعلان جہا د سے مستثنی ہیں امریکی حکمران بل کلنٹن کی صدارت سے یہی کہتے رہے ہیں کہ ان کی کا رروائی مخصوص لوگوں کے خلاف ہے تمام مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے موجودہ امریکی حملے سے پہلے بھی امریکہ نے افغا نستان پر بمباری اسی بنیاد پر کی تھی کہ اس کا دشمن وہا ں مو جو د ہے جب امریکہ نے ان پر حملہ کیا ہے انہیں بھی حملہ کرنے کا حق حا صل ہے دونوں فریقین میں صلح کا کو ئی معا ہدہ نہیں ہے اس لیے اس فریق پر کوئی شرعی اخلاقی پابندی نہیں ہے وہ اپنے افعال میں آزاد ہیں اور وہ اس طرح کی انتقامی کاروائی کے مجاز ہیں جس کا انہیں خود سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
اب اگر یہ ثابت بھی ہو جا ئے کہ گیا رہ ستمبر کے حا دثے کے پیچھے القا عدہ کا ہا تھ ہے تو کیا ان کی اس کارروا ئی کو شرعاً درست قرار دیا جا سکتاہے؟ ہم اس کا جواب قا رئین پر چھو ڑتے ہیں البتہ قران مجید نے جو کلیہ اور اصول بتایا ہے وہ یہ ہے فمن اعتدی علیکم ما عتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم۔ جو تم پر دست درازی کرے تم بھی اسی طرح دست درازی کرو اس آیت کا منشا یہ نہیں ہے کہ جتنی تعداد میں مسلما نوں کے افراد قتل ہوں اس قدر حملہ آور کے افراد قتل کیے جا ئیں کیونکہ جانی اور مالی نقصان میں تسا وی ایک نا ممکن امر ہے اس آیت سے وہ طریقہ کار مراد ہے جو دشمن اپنا تا ہے قتل کے بدلے قتل اگر قیدی بنا ئیں تو قیدی بنا ئے جائیں اور اگر وہ تخریب کاری کا راستہ اختیار کریں تو تخریب کاری اختیار کی جا ئے گی۔