• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سقوط طالبان

رانا ابوبکر

تکنیکی ناظم
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
سقوط طالبان

(تجزیہ و تجاویز)
شیخ سفر الحوالی
ترجمہ :محمد زکریا


اس کائنات میں کوئی واقعہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا پہلے سے لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے اور علیم وحکیم کے لکھے ہوئے اس نوشتہ کے عین مطابق رونما ہوتا ہے۔ اس ذات کے علم سے کائنات میں ہونے والے کسی چھوٹے سے چھوٹے ذرے کی جنبش بھی پوشیدہ نہیں ہوتی۔ اہل ایمان کا طریقہ قضا و قدر کے معاملے میں یہ ہے کہ ”لا یُسئلُ عما یفعل وھم یسئلون“ وہ جو چاہے کرتا ہے، کوئی اس سے نہیں پوچھ سکتا‘ ہاں انسان اپنے اعمال کے جواب دہ ہوںگے مسلمان قضا، و قدر کے معاملے کو اللہ تعالی کے سپرد کرتے ہیں اور اس سے مغفرت اور رحمت کے طلبگار ہوتے ہیں۔
ان ھی الا فتنتک تضل بہا من تشاءوتھدی من تشاء انت ولینا فا غفر لنا وارحمنا انت خیر الغا فرین (اعراف ١٥٥)
(اس کائنات کے اسرار و رموز) ایک آزما ئش ہیں جس کے ذریعہ سے آپ جسے چا ہتے ہیںگمراہی میں مبتلا کر دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں ہدایت بخش دیتے ہیں ہمارے حامی و ناصر آپ ہیں پس ہمیں معاف کر دیجئے اور ہم پر رحم فرما ئیے آپ سب سے بڑھ کر معاف فرما نے والے ہیں۔
ایک بات اور ذہن نشین کرنے کی ہے کہ اس کائنات میں رونما ہونے والے واقعات اور ان کے عواقب کے لیے خدا نے ایک ضا بطہ مقرر کر رکھا ہے جو کسی زمانے یا حا لات میں تبدیل نہیں ہوتا خواہ کوئی قوم کتنی طاقتور ہو جائے اور سر کشی میں آخری حدوں تک پہنچ جائے بالاخر خدائی ضابطہ اس کی تطہیر کرکے ہی رہتا ہے۔امریکہ اس پابند قواعدوضوابط کائنات کی ایک چھو ٹی سی بستی ہے جس نے سر کشی سے اپنی بقاءکو خطرے میں ڈال دیا ہے جیسے قوم عاد‘ قومِ ثمود اور دوسری سرکش قومیں اترایا کرتی تھیں پھر ان پر خدا کے عذاب کا ایسا کوڑا برسا کہ کوئی ان کے مردوں کی خاک بردی کے لیے بھی دستیاب نہیں تھا، خدا جب انتقام لینے پر آتا ہے تو ایسے ہی ہوتا ہے ۔۔
فکلاً ا خذ نا بذنبہ فمنھم من ارسلنا علیہ حا صباً ومنھم من اخذتہ الصیحہ ومنھم من خسفنا بہ الارض ومنھم من اغرقنا۔ (العنکبوت٤٠ )
” آخر کار ہم نے ایک ایک کو اس کے گناہ کی پاداش میں پکڑا، پھر ان میں سے کسی پر پتھراؤ کرنے والی آندھی بھیجی اور کسی کو ایک زبردست دھماکے نے آلیا اور کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کسی کو غرق آب کر دیا“۔
ان کے چشمے خشک ہو گئے مکانات اجڑ گئے پختہ عمارتیں شہر آشوب کی کتھا کا منہ بولتا ثبوت فراہم کرتی ہیں یہ منظر دیکھ کر آسمان سے آواز آئی
لا ترکضوا وارجعو ا الی ما اترفتم فیہ و مساکنکم( انبیاء١٣)
” بھاگو نہیں،جائو اپنے انہیں گھروں اور عیش کوشی کے سامانوں میں جن کے اندر تم چین کیا کرتے تھے“
ہائے ہائے:کیسی قیامت ٹوٹی ۔رہتی دنیا تک خدا نے انہیں نشان عبرت بنا دیا اور آخرت کا عذاب اس دنیاوی آفت سے کہیں بھیانک ہو گا۔
اللہ تعالی کس قدر برد بار ہے ۔ابھی تک امریکہ جیسے سرکش ملک کی رسی دراز کئے ہوئے ہے وہ ملک جو ظلم و تعدی میں قوم عاد سے بڑھ کر‘ سر کشی اور خود سری میں قوم ثمود سے بڑھ کر، گھمنڈ اور تکبر میں فرعون سے بڑھ کر، رذالت اور سفلہ پن میں قوم لوط سے بڑھ کر، بے غیرتی اور بے شرمی میں اہل مدین سے بڑھ کر‘ پھر اس ملک کے جرائم کا کچھ اندازہ تو کرو جس نے چالبازی میں یہودیوں کو مات دے دی ہے زندہ رہنے کی چاہت اور الفاظوں کے ہیر پھیر میں بھی یہ قوم یہودیوں سے چار ہاتھ آگے ہے احساس برتری کے دعوے میں بھی یہ یہودیوں سے بڑھ کر ہیں جو اپنے آپ کو خدا کی اولاد سمجھتے ہیں ۔ایسی قوم پر اس عذاب کے رونما ہونے کے لوگ برسوں سے منتظر ہیں جو اس سے کم تر قوموں پر ٹوٹا تھا۔ خود اس قوم کے ایک سر کردہ پادری نے گیارہ ستمبر کے ہولناک حادثے کے بعد تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا، ابھی تو شروعات ہیں!
اس قوم کو صفحہ ہستی سے نہ مٹانے کی اصل وجہ تو خدا ہی جانتا ہے‘ شاید اس قوم کی نسل سے خدا نے ایسے لوگوں کو پیدا کرنا ہو جو صرف اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریںاور ایسا ہونا خدا کی قدرت سے کچھ بعید بھی نہیں ہے۔
اللہ تعا لی کے انتقام لینے کے ان گنت طریقے ہیں
وما یعلم جنودربک الا ھو وما ھی الا ذکری للبشر
”اور تیرے رب کے لشکروں کو خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اوریہ فرمان تو بس اس لیے بیان کیا جاتا ہے کہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں“ ۔
امریکہ کی خوں چکا ں داستان بہت طویل ہے۔ براعظم امریکہ کو اپنا وطن بنانے والے نوواردوں نے مقامی با شندوں کا قتل عام کیا اور ریڈ انڈین پرنسل کشی کی جنگ مسلط کی تھی ۔امریکہ کی تا ریخ میں سیاہ کاری کا یہ نشان ہمیشہ نمایاں رہے گا۔ مقا می باشندوں کے زندہ رہ جانے والے افراد کی اولاد آج امریکہ میں ہر سال تین لاکھ امر یکیوں کو قتل کرتی ہے اور یوں یورپی نسل سے اپنا بدلہ لیتے ہیں۔

امت اسلام کی امتیازی صفات:
امت اسلام خدا کی پسندیدہ امت ہے صرف یہ امت اللہ تعالی کی رحمت اور نصرت کی مستحق قرار دی گئی ہے خواہ حالات کی سنگینی اور امت کی نا توانی کتنی ہی ہو۔
جہاں تک اس امت کے پسندیدہ ہونے کاتعلق ہے تو اس کی دلیل یہ ہے اللہ تعالی نے اپنی کتاب ،حکمت اور لوگوں پر گواہی دینے کی ذمہ داری اس امت کو سونپی ہے اس امت میں رہتے ہوئے ایک ظالم مسلمان بھی اس سپاس کا مستحق ہے صا لحین کی تو بات ہی کچھ اور ہے ا گر چہ ظالم سے اس کے ظلم کی باز پرس ضرور ہو گی چناچہ اللہ تعالی فرماتا ہے۔
ثم اورثنا الکتاب ا لذ ین اصطفینا من عبادنا فمنھم ظالم لنفسہ ومنھم مقتصد ومنھم سابق بالخیرات۔(سورہ فاطر: ٣٢)
” پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنا دیا ان لوگوں کو جنہیںہم نے (اس وراثت کے لیے ) اپنے بندوں میں سے چن لیا۔ اب کوئی تو ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے اور کوئی بیچ کی راس ہے‘ اور کوئی اللہ کے اذن سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے“۔
اگر کسی قوم میں کو ئی بھلائی ہے تو امت اسلام میں وہ بھلائی اس قوم سے بڑھ کر ہوتی ہے اور بدی میں بھی دوسری ہر قوم امت اسلام سے بڑھ کر ہو گی۔ اس امت کا تمدن بر مبنی عدل و انصاف، خیر خواہی اور عفوودرگزر سے عبارت ہے۔ مغربی فلسفیوں میں اس فلسفی کا یہ کہنا کہ ”فاتحین کی طویل تاریخ میں صرف مسلمان ہی رحم دل فاتح ہو گزرے ہیں“ با لکل درست ہے۔ اس فلسفی کی گواہی ہے کہ مغرب انسانی قدروں سے بہت بعد میں آشنا ہوا اور مغرب کی تاریخ پر آشوب داستانوں، قتل و غارت اور باہمی رقابتوں سے بھری ہوئی ہے۔ آج بھی آئیرلینڈ اور مشرقی یورپ باہم برسر پیکار ہتے ہیں وہ لکھتا ہے کہ مغربی استعمار نے اپنی فتوحات کے دوران صرف تین صدیوں کے اندر دس کروڑ انسانوں کو ہلاک کیا‘ ایک دوسرے فلسفی کے نزدیک ہلاک ہونے والوں کی تعداد تیس کروڑ ہے۔
امت اسلام پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے اور یہ امت مرحومہ ہے کیونکہ اللہ تعالی دنیا میں ہی مختلف سزائوں سے ان کی تطہیر کرتا رہتا ہے کبھی بیرونی دشمن کو ان کے کسی گروہ پر مسلط کرکے، کبھی باہمی پھوٹ پڑ جاتی ہے، کبھی بھوک غربت افلاس اور پس ماندہ رکھ کر اس کی تطہیر کی جاتی ہے جس سے یا تو اسے مکمل طور پر گناہوں سے پاک کرنا ہوتا ہے یا پھر آخرت میں یہ سزائیں ان کے لیے باعث تخفیف ہوتی ہیں یا پھر چنیدہ لوگوں کو جنتوں کا وہ مقام ملنا ہوتا ہے جو کسی آفت میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں ملا کرتا حدیث میں آپ نے فرمایا: ”ان ھذہ الامہ مرحومہ عذابہا با یدیھا“ بیشک یہ امت امت مرحومہ ہے اس امت پر مصیبت ان کے پنے ہاتھوں سے پڑے گی ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا اس امت کی سزا تلوار کے ذریعے ہوا کرے گی قیامت کے روز ہر برسر پیکار رہنے والے مسلمان کی طرف سے ایک مشرک کو پکڑا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ مشرک تمھاری بجائے آگ میں ڈالا جاتا ہے۔
اس امت کو تائید ایزدی حاصل رہے گی اور یہی طائفہ منصورہ ہے خود اہل کتاب کے مذہبی لٹریچر میں اس امت کو ایک پہاڑ سے تشبیہ دی گئی ہے جو جس چیز پر پڑے اسے پیس کر رکھ دے‘ جیسا کہ اس وقت کی دو عالمی طاقتیں قیصر اور کسری کا انجام ہوا تھا۔ اور اگر کوئی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گیا تو اس کے قدم ڈگمگا جائیںگے جس طرح مسلمانوں پر حملہ آور ہونے والے تاتاری اہل کتاب اور یورپی استعمار اپنا توازن قائم نہ رکھ سکے۔ تمام سچائیوں کے سردار حضرت محمد نے فرمایا:
لا تذال طائفہ منھا منصورہ لا یضرھا من خالفھا ولا من خذلھا، یجاھدون علی الحق حتی یاتی امراللہ“
”ہمیشہ اس امت میں سے ایک گروہ تائید یافتہ رہے گا اس کی مخالفت کرنے والے/یا اس سے غداری کرنے والے اسے کچھ نقصان نہ پہنچا پائیں گے وہ حق کے ساتھ تا قیامت جہاد کرتے رہیں گے“۔
اس امت کو ان امتیازی صفات سے اس لیے بہرہ مند کیا گیا ہے تاکہ وہ مایوسی کا شکار نہ ہوں ان کے سان گمان میں بھی یہ بات نہ آئے کہ وہ کبھی صفحہ ہستی سے مٹ کر ر ہ جائے گی اس امت کی طویل تاریخ میں شکست اور فتح ساتھ ساتھ رہے ہیں ڈوبنا اور ڈوب کر ابھرنا، ایک دوسرے سے ٹوٹ جانا اور پھر ٹوٹ کر یکجا ہو جانا بھی اس کی تاریخ رہی ہے لیکن ایک صفت جو اس امت کے لیے مخصوص ہے وہ قا ئم ہی رہی ہے یعنی بالاَخر راہ راست پر آجانا ۔کسی باطل قوت کو خواہ مشرقی ہو یا مغربی یا حملہ آور تاتار ہوں یا صلیبی یہ نہیں سمجھنا چا ہیئے کہ اس امت کو اپنی سپاہ میں شامل کر کے دنیا کے آخری کونے تک فتو حات کے قلعے گاڑتے جائیں گے۔
مصائب بوجہ کبائر:
احادیث مبارکہ کی روشنی سے جو عقیدہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ اس امت پر جو مصائب آتے ہیں خواہ بظاہر اس کا سبب ضعف ہو یا نا کامی یا ناداری یا پستی اس کی اصل وجہ گناہ اور باہمی لڑائی جھگڑے ہوتے ہیںاللہ تعالی کیونکہ اس امت کے ساتھ نہایت مہربان ہے اس لیے کوئی طاقت اسے صفحہ ہستی سے نہیں مٹا سکے گی البتہ ان مصائب کے ذریعے امت میں سے کچھ کو شہادت کے اعلی درجے پر پہنچنا ہوتا ہے یا کسی عاصی مسلمان کے لیے اس کا قتل ہو جانا با عث مغفرت بن جاتا ہے یا پھر اس کے اخروی عذاب میں تخفیف ہونی ہوتی ہے اگرسب کے سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور توبہ و استغفار کرتے ہوئے اپنے رب کی طرف رجوع کریں تو پھر اس امت کے لئے یقینی فتح و کامرانی اور دنیا میں عزت اور تمکن حا صل ہوتا ہے۔ اس لیے ہمارے لیے سب سے پہلا مرحلہ توبہ اور اللہ کی طرف رجوع کرنے کا ہے۔ عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کے ظلم سے تنگ آکر جب اہل عراق نے بغاوت کرنے کاارادہ کیا تو امام حسن بصری نے یہ کہ کر انہیں تلوار اٹھانے سے منع کر دیا کہ ” عراق کے لوگو: حجاج تمھارے گنا ہوں کیوجہ سے تم پر مسلط ہوا ہے خدا کے اس عذاب کو طاقت سے نہیں توبہ اور استغفارسے ٹالنے کی کوشش کرو اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
”ولقد اخذ نا ھم بالعذاب فما استکانوا لر بھم وما یتضر عون (المو منون ٧٦)۔
”ان کا حال تو یہ ہے کہ ہم نے انہیں تکلیف میں مبتلا کیا پھر بھی یہ اپنے رب کے آگے نہ جھکے اور نہ عاجزی اختیار کرتے ہیں“۔
توبہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ امر با لمعروف اور نہی عن ا لمنکر کا فریضہ پوری قوت سے ادا کیا جائے، اسی طرح اللہ کے لیے دوستی اور اللہ کے لیے دشمنی رکھی جائے توبہ کے اس عملی اظہار سے ہمارے اپنے حکمرانوں کا ظلم اللہ کے حکم سے رفع ہو جائے گا اور جب حکمران بھی توبہ کا عملی اظہار کریں گے اور اللہ تعا لی کی حدود کو اپنی قلمرو میں نافذ کریں گے تو بیرونی دبائو اور کفر کی طاقتوں سے بھی نجات کی صورت نکل آئے گی مثلاً کفر کے اپنے گھر میں عوامی بغاوت کی صورت میں یا کافروں کی باہمی جنگوں کی صورت میں مغربی مما لک میں بسنے والے مسلمان اگر گنا ہوں کی تلچھٹ سے اپنے آپ کو نکال کر توبہ کریں ، جس کا لازمی اظہار عقیدہ ولاءاور برا ءہے اور دوسرا فسق اور فجور کی محفلیں ترک کرنا ہے تو ان مما لک میں جو امتیازی سلوک ان سے کیا جاتا ہے اس سے نجات مل جا ئے گی یہ مسئلہ سمجھ لینا چا ہیئے کہ بلا د کفر میں کسی ضروری کام کے لیے عارضی قیام یا بامر مجبوری کے علاوہ رہنا عصیان ہے یا پھر اس کے پیش نظر دعوت دینا ہے اور جلد ہی دار الکفر سے نکل کر نو مسلم سمیت ہجرت کرنا مقصود ہے۔
کتاب و سنت کو اٹھا ئیے کتنی آیتیں ایسی ہیں جو ہمارے موجودہ حالات پر پوری طرح چسپا ں ہوتی ہیں گویا وہ آج نازل ہوئی ہیں۔ میدان جہاد میں برسر پیکار مجاہدین کے لیے فہم دین کا یہ طریقہ ہے کہ وہ عوام سے رائے لینے کی بجائے علمائے امت سے رجوع کریں اور انہیں سے مشاورت حاصل کریں تا کہ دشمن کو کوئی کم زور رخنہ نہ ملے اور مجاہدین کی قوت میں بھی اضافہ ہو جب قابل ذکر علمائے امت کی پشت پناہی حاصل ہو گی تو پھر ایسے مجاہدین کی مخا لفت کرنے والا خود بخود منافق، جس کا نفاق بیان کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی، کہلائے گا۔
مفتیان کرام، اسلام پر لکھنے والے لکھاری، خطیب اور واعظ اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے منسلک افراد اگر موجودہ حا دثا ت کوقرآن کی کسوٹی پر جانچنے کی کوشش کریں تو بہترین نتا ئج سامنے آئیں گے جنہیں پیش نظر رکھ کر مستقبل میں بہتر نتا ئج حا صل کیے جا سکتے ہیں اور مزید غلطیوں سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ اس حا دثے کے بعد اگرچہ صد مے کے لحاظ سے سارے مسلمان یکساں تھے مگر قیاس آرائیاں کرتے ہوئے مختلف الخیال۔ اہل اسلام کے ذ مہ دار افراد اگر اسے قران کی روشنی میں دیکھتے تو پھر مختلف آراءسامنے آنے کی بجائے متفقہ رائے اور لا ئحہ عمل سامنے آتا۔
مسلما نوں کے خلاف کا فروں کی اعانت کا حکم
مسلمانوں کے خلاف کافروں کی کسی طرح کی مدد اور تعاون کفر بواح کے ارتکاب اور صریح نفاق ہے خواہ اس تعاون کی صورت محض معلومات فراہم کرنے تک ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے فعل کرنے والا شخص نوا قض اسلام کا مرتکب ہوتا ہے اس کی وضا حت آئمہ کرام مھدین نے کھول کر بیان کی ہے۔ ایسے شخص کا اس فعل کے بعد عقیدہ ولاءاور براءپر ایمان نہیں رہتا۔ اس لیے افغا نستان کے طالبان مخالف دھڑے فی الفور خدا کی طرف رجوع کرتے ہوئے توبہ کریں اور اس کی ہر ممکن تلافی کریں خواہ دعائے خیر اور اچھی بات کرتے ہی ہو ئے۔ ایسا نہ ہو کہ ابلیس روس کی تبا ہی کے ثمرات امریکہ سے وفاداری کی بناءپر ضائع کرا دے۔ طالبان مخالفین کومعتصد بن عباد کے اس قول کو مثال بنانا چا ہیئے جب ایک طرف یہودی تھے اور دوسری طرف ابن تا شفین کا اس کی امارت پر قبضہ ہونے والا تھا ”مجھے ابن تاشفین کے ریوڑ ہا نکنا اس سے کہیں بہتر لگتا ہے کہ میں عیسائیوں کے فرماروا فنسو کے خنزیروں کی پرورش کروں“۔ اگر کوئی کافر ملک کسی دوسرے کافر ملک کے اقتدار کو تسلیم کر لے تو ایسا شخص جو یہ کام کرے اپنے عوام میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ملعون قرار دیا جاتا ہے جیسا کہ فرانس کے عوام اپنے جنرل بیٹن سے نفرت کر تے ہیں کیو نکہ وہ ہٹلر کی نازی حکومت میں فرانس کے الحا ق کا حامی تھا۔
ہم دنیا بھر کی معتدبہ شخصیات کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتے ہیں کہ ا پنے مواقف کے اظہار میں خدا خوفی کا مظا ہرہ کریں ایسا نہ ہو کہ آپ کے کسی ایک لفظ سے کسی مسلمان کی جان چلی جائے۔ ایسا کرنے سے تمام اعمال برباد اور دنیا و آخرت کی رسوائی ہے نبی علیہ السلام نے فرمایا، بسا اوقات ایک آدمی خدا کو ناراض کرنے والے الفاظ کو غیر سنجیدگی سے ادا کرتا ہے حا لانکہ اس وجہ سے وہ دوزخ کی اتھاہ گہرائیوں میں پڑنے والا ہوتا ہے۔
اس وقت صلیبی بلاک اپنی پے درپے ہزیمتوں کے انتقام میں بو کھلا ہٹ کا شکار ہے اور انتقام کی آگ میں جل رہا ہے وہ مسلم امہ کو بیخ و بن سے اکھا ڑنا چا ہتے ہیں ۔
تخریب کاری کابہا نہ بنا کر جس ہولناک جنگ کا آغاز پہلے افغا نستان سے پھر اس بہانے امریکہ میں مسلمانوں کے ظلم اور بعد ازاں ان دونوں ممالک کے ادھر بسنے والے نہتے مسلمانوں پر کیا جا رہا ہے اس کی تا ئید اور حمایت کی آواز ممبر رسول سے بلند ہو نا، قابل فہم ہے۔ مجاہدین کو دہشت گرد قرار دینا اور دہشت گردی کے عنوان سے یہ کہنا کہ تخریب کاری اسلام میں حرام ہے یا اسلام میں تخریب کاری کی کوئی گنجائش نہیں اور اللہ دہشت اور رعب بٹھانے کو نا پسند کرتا ہے قران کی رو سے غلط ہے اللہ تعا لی کا ارشاد ہے:
وا عدوا لہم ما استطعتم من قوہ و من رباط الخیل تر ھبون بہ عدواللہ و عدو کم (انفال ١٠٦)
”اور تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے زیا دہ سے زیا دہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھو ڑے ان کے مقا بلے کے لیے مہیا رکھو‘ تا کہ اس ہمہ وقت تیاری سے اللہ کے اورا پنے دشمنوں کو خوف زدہ کر دو“۔
رعب اور دبدبے سے دشمن کو خوف میں مبتلا کرنا اس دین کی امتیازی صفت ہے‘ اللہ تعالی اس کو اپنے کلام میں بیان کرتا ہے”لا نتم اشد رھبہ فی صدورھم من اللہ“ ان کے دلوں میں تمہا ری دہشت اللہ کے ڈر سے بھی زیادہ بیٹھ گئی ہے۔
لفظ دہشت یا تخریب کاری (terror) کی اصطلا ح ہر ملک اپنے مفادات کے پیش نظر کرتا ہے لیکن آج کل عرف عام میں اس سے مراد وہ تما م مجاہدین ہیں جو فلسطین، لبنان ، چیچنیا، کشمیر، فلپا ئن اور اریٹر یا میں بر سر پیکار ہیں۔ بلکہ ہر وہ مسلمان تخریب کار ہو سکتا ہے جو ان کی سر حد میں داخل ہو۔
قا رئین کو یاد ہو گا کہ امریکہ خلیج عرب میں عراق کی کویت پر مہم جوئی کا بہا نہ بنا کر دا خل ہوا تھا اور اب خلیجی مما لک کے کہنے پر بھی عراق سے معا شی پابندیاں ہٹانے پر آمادہ نہیں ہے۔ امریکہ کا بس چلے تو اس علاقے کے ہر سچے مومن سے زندہ رہنے کا حق چھین لے۔
اہل سنت و الجماعت کے نزدیک جہاد کا حکم:
مسلمانوں کا یہ متفق عقیدہ ہے کہ”الجہا د ماض الی یوم القیا مہ “ جہا د تا قیامت جاری و ساری رہے گا۔ دین اسلام کی حما یت میں اس کام کا بیڑا خواہ صا لح شخص اٹھا ئے یا معا صی کا مرتکب ،جہاد ہر دوصورت میں جائز ہے۔ یہ بات نفسیا تی شکست خوردگی کی علا مت ہے کہ جہا د کے مفہوم کو بگاڑا جائے یا اس کا دائرہ کار تنگ کر دیا جا ئے یاایسی شرا ئط لا ز می قرار دی جائیں جن کاپورا ہونا محال ہو یا اسے ماضی میں کیا جانے والاایک تا ریخی کارنا مہ سمجھا جائے اور اب اس کی ضرورت سے انکار کیا جا ئے۔
جہاد کا صحیح تصور دونوں فریقین کے بیچ کی راس ہے ہر دو قسم کے جہاد میں واضح فرق ہے۔ جہاد کی ایک قسم کفار سے بدلہ لینے کی غرض سے اسے نقصان پہنچانا ہے اور دوسری قسم پورے فہم اور ادراک کے ساتھ ایک انسانی کاوش کی حد تک مکمل تربیت یافتہ اور اصلاح عقیدہ کے بعد مسلم امت کو اس کا سابقہ بین الا قوامی مقام دلا نا اور اللہ کے کلمے کو بلند کرنا ہے۔ایک حالت وہ تھی جب نبی علیہ اسلام کے زمانے میں مسلمان ایک نازک مرحلے میں تھے اور کافروں کے ایک سردار کے قتل کرنے کایقینی موقع سے حضرت حذیفہ بن یما ن نے اس لیے فا ئدہ نہیں اٹھا یا کہ آپ نے قتل نہ کرنے نصیحت کی تھی۔
دوسرا مرحلہ بیعت رضوان کا ہے جب آپ نے تمام ہم سفر صحا بہ سے حضرت عثمان غنی کے انتقا م پر بیعت لی اور ایک شخص نے بیعت نہیں کی تو وہ منافق قرار دیا گیا۔ اسی طرح غزوہ تبوک میں پیچھے رہنے والے لوگ بھی منافق کہلا ئے سوائے کعب بن مالک اور ان کے دو ساتھی ۔
سیرت نبوی کے صفحا ت میں غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہر شخص کے لیے دعوت کے مرا حل کے سمجھنے کے لیے واقعات موجود ہیں یہ امر قا بل ذکر ہے کہ تاریخ اسلا می کے متا خر دور میں جو ذہنیت کار فرما رہی ہے وہ ٹھیٹھ اور پختہ ذہنیت کی بجائے جذباتی ذہنیت رہی ہے ۔وہ قبل از وقت اپنی تمام صلا حیتوں کے ساتھ اپنی اس جذباتی کیفیت میں میدان قتال میں کود پڑنا چاہتے ہیں ممکن ہے کہ سال بھر میں وہ ایسی اسکیم بنانے پر قادر ہو جائیں جو زیا دہ ثمر آور اور نتا ئج کے لحا ظ سے دیر پا ہو۔

امت کے سرکردہ قا ئدین:
داعی حضرات اور منھج نبوی کو اپنا اسوہ بنانے وا لے حضرات کو چا ہیے کہ وہ دین اسلام کے تمام پہلووں سے آگاہ ہوں سیرت نبوی کے مراحل میں ہمیں بنی شیبان کا واقعہ بھی ملتا ہے۔ بنی شیبان کے ایک نمائندہ وفد نے نبی علیہ اسلام کی حفا ظت کی ذمہ داری عربوں کے مقابلے میں اٹھا نے پر آمادگی ظا ہر کی تھی مگر وہ ایرا نیوںکے مقابلے میں آپ کی حفا ظت کا ذمہ لینے پر آمادہ نہیں تھے۔ اس موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا: دین اسلام کی ایسی کوئی حفا ظت معتبر نہیں جو دین کے ہر پہلو اور ہر گوشے کی حفا ظت نہ کر سکے۔
یہ افتخا ر انصار کے حصے میں آنا تھا جنہوں نے اپنی جان اور مال سے آپ کی حفاظت کا عہد کیا تھا۔ تمام دنیا کے مسلمان ایک امت ہیں ان کی حفاظت ہر شخص پر مقدور بھر لازم ہے۔ وہ اپنے دشمن کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہیںبنا بریں جو مسلمان دین کے کسی ایک پہلو کا ذمہ اٹھا تا ہے مثلاً ایک فریق علم پھیلا نے میں مصروف ہے دوسرا دعوت الی الحق کا کام کرتا ہے تیسرا جہا د کا فریضہ انجام دیتا ہے ان سب سے محبت کرنا اور تعا ون کرنا واجب ہے یہا ں تک کہ تمام مسلمان مل کر دین اسلام کی ساری کڑیا ں ملا دیں۔ اگر علم پھیلا نے کا کام کرنے والے جہاد کرنے والوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا لیں یا اہل جہا د اسا تذہ کو ،تو مسلمانوں کا شیرا زہ اور ان کی قوت ٹوٹ پھو ٹ کا شکار ہو جائے گی اور وہ یا تو گمراہ ہونے والے فریق میں شمار ہوں گے یا جن پر خدا کا غضب ہوا ان میں شمار ہوں گے جیسا کہ نصاری کو گمراہ اور یہو دیوں کو مغضوب کہا جاتا ہے امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں دو گمرا ہیا ں اس طرح بنتی ہیں کہ دین سے وابستہ رہنے والے ان ضروری امور کا اظہار بھی نہ کریں جن پر سخن گوئی ضروری ہو جیسے خلافت، جہاد اور انفا ق فی سبیل اللہ جیسے امور ہیں اور دوسرے وہ لوگ جنہیں اقتدار ملا مال دار ہوئے اور معرکوں میں بھی شامل ہوتے ہیں لیکن اس سے ان کا مقصود اقامت دین نہیں ہوتا پہلا گروہ گمراہ اور دوسرا مغضوب علیھم ہے ۔
وہ فر ماتے ہیں دین کی استقا مت کتاب ہدایت اور قوت کو لازمی پکڑ نے میں ہے اللہ تعالی نے ان دونوں چیزوں کو سورہ حدید کی پچیسو یں آیت میں یوں بیان کیا ہے۔ ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صا ف نشانیوں اور ہدا یا ت کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تا کہ لوگ انصاف پر قائم ہوں اور لوہا اتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کومعلوم ہو جا ئے کہ کون اس کو دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کر تا ہے۔ یقینااللہ بڑی قوت والا اور زبر دست ہے۔
اب دیکھئے اللہ تعالی کا کلام ہم پر کس طرح صا دق آیا ہے ہماری فوجوں نے مغضوب علیھم کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے مسلمان بھا ئیوں کےخلاف دشمن کی حمایت کی اور دوسرے فریق نے ضا لین کا کردار ادا کرتے ہوئے سرے سے جہاد اور اس کی تیا ری سے مسلسل اعرا ض برتا اس طرح ہم اپنے اعمال کے نتیجے میں خدا کے عذاب میں مبتلا ہوئے ہیں اب چاہے تودشمن ہمارے مقد سات کو روندتا رہے ہماری عزت و نا موس سے کھیلے اس کے مسلح دستے ایک بعد دوسرے جتھہ بندی کریں ایسی صورت میں یہی متوقع تھا کہ جہاد کرنے اور جہاد کی تعریف ایسے گروہ کرتے رہیں جو کسی ایک قیا دت کے تحت نہ ہوں اور نہ ہی مناسب تربیت اور منھج سے بہرہ مند ہوں اگر وہ بہتر کریں تو اللہ کی طرف سے اور غلط کریں تو اس کی ذمہ داری ایسے علماءپر آئے گی جو جہاد اور اس کی تیاری سے صرف نظر کرتے رہے ہیں ۔
سقوط خلافت کے بعد
خلافت جو پوری امت کو متحد کئے ہوئے تھی کے سقوط کے بعد ہر علاقہ ایک مستقل ریاست بن گیا۔ ہر ریاست اپنے مفادات اور تحفظا ت کے تحت اپنی سیا ست کرنے لگی دوسری اسلامی ریا ستوں کے قطع نظر ہر ملک جنگ وامن صلح اور معا ہدوں میں آزاد ہو گیا۔ ایک اسلامی ریاست کا دوست ملک دوسری اسلامی ریاست کا دشمن۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہی حال اسلامی تنظیموں کا ہے۔ بلا شبہ ایسی صورت میں جبکہ ہر ملک اور ہر تنظیم کوئی بھی عہد اور معا ہدہ اپنی آزادانہ رائے سے کرتی ہے دوسرے ملک اور تنظیم پر اس کی کوئی پابندی نہیں رہتی لیکن ایک بات ایسی ہے جو قطعی طور پر درست نہیں ہو سکتی وہ کسی اسلامی ریا ست یا اسلامی تنظیم کے خلاف کافر کی حمایت اور نصرت ہے۔
صحابی ابو بصیر نے اپنی آزادانہ مرضی سے جو راہ اختیار کی تھی فقہا ئے عظام کے لیے اس میں سمجھنے کے بہت سے پہلو ہیں ہوا یہ کہ صلح حدیبیہ میں قریش اورنبی علیہ ا لسلام کے درمیان یہ معا ہدہ ہوا کہ وہ قریش کے ان تمام مردوں کو واپس مکہ کے سپرد کر دیں گے جو اسلام لا کر مدینے میں آئیں گے ابو بصیر اسلام لاکر مدینہ ہجرت کر آئے قریش نے ان کی سپردگی کے لیے اپنے دو آدمی مدینے روانہ کیے انہوں نے معاہدے کا حوالہ دیا اور آپ نے ابو بصیر کو ان کی سپردگی میں دے دیا وہ دونوں انہیں لیے ہوئے جب ذو حلیفہ کے مقام پر پہنچے تو ابو بصیر نے ایک شخص سے بہا نے سے تلوار لے کر اسے ہلا ک کر دیا اور دوسرا بھا گ کر مدینے چلا گیا اس کے پیچھے ابو بصیر بھی پہنچ گئے اور فر ما نے لگے اے اللہ کے نبی آپ نے اپنا عہد مجھے سپرد کرکے پورا کر لیا ہے مجھے اللہ نے ان سے نجات دلائی ہے آپ نے فر ما یا اس کے کچھ ساتھی ہوتے: ابو بصیر جانتے تھے کہ مدینے میں رہنے کی صورت میں آپ انہیں دوبارہ مکہ والوں کے سپرد کر دیں گے اس لیے آپ ایک سا حلی علاقے میں چلے گئے ادھر مکہ سے ابوجندل بھی قریش سے پیچھاچھڑا کر ابو بصیر سے مل گئے اب کیا تھا جو بھی اہل مکہ میں سے اسلام لاتا اس گروہ میں آکر مل جاتا اور ایک بری جمعیت فراہم ہو گئی اب شام کی طرف جانے والے قریش کے قافلے ان کے حملوں کا شکار ہوتے یہ حضرات قافلے وا لوں کو قتل بھی کرتے اور ان کا مال بھی مال غنیمت کی طرح اپنے قبضے میں کر لیتے تھے ۔
محو لہ بالا قصے سے مندرجہ ذیل فقہی احکام مستنبط ہوتے ہیں :
١۔ قریش نے جن دو اشخا ص کو ابو بصیرکی واپسی کے لئے بھیجا تھا وہ سفیر تھے اور سفیر کو قتل نہیں کیا جاتا لیکن اس کے باو جود جو شخص ابو بصیر کے ہا تھوں قتل ہوا تھا آپ نے نہ ابو بصیر سے اس کی باز پرس کی اور نہ ہی مکہ والوں کواسکی دیت دلائی ایک روایت میں ابو بصیر کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں :اے اللہ کے نبی میرے اور ان دو اشخاص کے درمیا ن کسی قسم کا کوئی معا ہدہ نہیں ہوا تھاآپ کا یہ سن کر کچھ نہ کہنا اس بات کا اظہا ر تھا کہ ابو بصیر کا اقدام درست تھا ابو بصیر اپنے قول اور عمل کے خود ذمہ دار تھے وہ اسلامی ریاست سے الگ اپنا تشخص رکھتے تھے ایسی صورت میں جبکہ ایک سفیر کا قتل جائز اور درست تھا عام کافر کا قتل کرنا با لا ولی درست اور صحیح ہو گا۔
امام ابن قیم نے صلح حدیبیہ کے وا قع سے یہ حکم مستنبط کیا ہے کہ اگر دو فریق جب معا ہدہ کر لیں اور ان میں سے کوئی گروہ اپنے طور پر فریق مخا لف سے بلا اجازت جنگ کرے اور مال لوٹے تو امام پر نہ ان کی حفا ظت کی ذمہ داری ہے اور نہ ان کا ساتھ دینے کی ذمہ داری ہے خواہ معا ہدے کے وقت وہ شریک تھے یا نہیں تھے صلح حد یبیہ نبی علیہ السلام اور قریش کے درمیان طے پا ئی تھی ا بو بصیراور ان کے ساتھی اس میںکوئی فریق نہیں تھے لہذا ان کا قریش کے قافلوں پر حملہ آور ہونا درست تھا اسی طرح یہ بھی درست ہو گا کہ اگر مسلمانوں کے چند حکمران عیسائیوں سے کوئی صلح کا معا ہدہ کریں اور مسلمانوں کا کوئی اور حکمران جو معا ہدے کا فریق نہ ہو عیسا ئیوں پر حملہ کر دے تو یہ اقدام درست ہو گا وہ فر ما تے ہیں کہ ہمارے استاد امام ابن تیمیہ کا بھی یہی فتوی ہے۔
یہ ایک بین الا قوامی قانون بھی ہے کہ ہر ملک اپنے اپنے معا ہدے کا پابند ہے دوسرے غیر جا نبدار ملک پر معا ہدے کا اطلاق نہیں ہوتا مغربی مما لک بھی اس قانون سے آ گاہ ہیں اگر اس قانون کو تسلیم نہ کیا جا ئے تو پھر پا پا ئے روم کو عیسا ئیوں کی ہر اس دہشت پسند کا روائی کا ذمہ دار ٹھہرا یا جا ئے گا جوکیتھو لک فرقے والے آئےرلینڈ میں کرتے ہیں۔
اس قاعدے کی رو سے امریکہ کو جان لینا چاہئے کہ اس کی دشمنی اور اس سے دشمنی امریکہ اور القا عدہ تنظیم کے ما بین ہے یا دوسرے لفظوں میں وہ گروہ جس نے عیسا ئیوںکے خلاف جہاد کا با ضا بطہ اعلان کیا ہے دنیا بھر کے دیگر مسلمان اس اعلان جہا د سے مستثنی ہیں امریکی حکمران بل کلنٹن کی صدارت سے یہی کہتے رہے ہیں کہ ان کی کا رروائی مخصوص لوگوں کے خلاف ہے تمام مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے موجودہ امریکی حملے سے پہلے بھی امریکہ نے افغا نستان پر بمباری اسی بنیاد پر کی تھی کہ اس کا دشمن وہا ں مو جو د ہے جب امریکہ نے ان پر حملہ کیا ہے انہیں بھی حملہ کرنے کا حق حا صل ہے دونوں فریقین میں صلح کا کو ئی معا ہدہ نہیں ہے اس لیے اس فریق پر کوئی شرعی اخلاقی پابندی نہیں ہے وہ اپنے افعال میں آزاد ہیں اور وہ اس طرح کی انتقامی کاروائی کے مجاز ہیں جس کا انہیں خود سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
اب اگر یہ ثابت بھی ہو جا ئے کہ گیا رہ ستمبر کے حا دثے کے پیچھے القا عدہ کا ہا تھ ہے تو کیا ان کی اس کارروا ئی کو شرعاً درست قرار دیا جا سکتاہے؟ ہم اس کا جواب قا رئین پر چھو ڑتے ہیں البتہ قران مجید نے جو کلیہ اور اصول بتایا ہے وہ یہ ہے فمن اعتدی علیکم ما عتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم۔ جو تم پر دست درازی کرے تم بھی اسی طرح دست درازی کرو اس آیت کا منشا یہ نہیں ہے کہ جتنی تعداد میں مسلما نوں کے افراد قتل ہوں اس قدر حملہ آور کے افراد قتل کیے جا ئیں کیونکہ جانی اور مالی نقصان میں تسا وی ایک نا ممکن امر ہے اس آیت سے وہ طریقہ کار مراد ہے جو دشمن اپنا تا ہے قتل کے بدلے قتل اگر قیدی بنا ئیں تو قیدی بنا ئے جائیں اور اگر وہ تخریب کاری کا راستہ اختیار کریں تو تخریب کاری اختیار کی جا ئے گی۔
 

رانا ابوبکر

تکنیکی ناظم
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
البتہ کسی مسلما ن گروہ کے لیے یہ جائز نہیں خواہ وہ موجودہ گروہ ہو یا کوئی اور کہ وہ اپنے کسی فعل سے پوری امت پر ایسی دشمنی مسلط کر دیں جس کی پوری تا ریخ انسانی میں مثال نہیں ملتی امت اس وقت کسی بڑے معرکے میں کودنے کے لیے نہ تیار ہے اور نہ ایسے کسی معرکے کے وقوع پزیر ہونے کی کوئی توقع تھی اگر یہ گروہ اپنی کاروائیوں پر مصر رہتا ہے اور علما ئے کرام سے رجوع نہیں کرتے اور اپنی آزاد را ئے سے اقدامات کرتے ہیں تو ہم ان کی کوئی ذمہ داری اٹھا نے کے لیے تیار نہیں ہیں افغانستان اور دوسرے مسلما نوں پر جو آفت آئی ہے وہ اسی وجہ سے ہے یہا ں تک یہ بات درست ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم دشمن کی حما یت کریں اور ان کے ساتھ مل کر اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف شریک کار ہوں یہ حمایت بہرحا ل ہر صورت میں حرام ہے ہمیں اپنے مسلمان بھا ئیوں سے بات چیت کی راہ ہموار کرنی چا ہئے اور ان کی غلطی اور عجلت پسندی کو وا ضح کرناچاہئے خواہ اس کے لیے ہمیں ان کی ناراضی بھی مول لینی پڑے ۔
یہ مسئلہ کا دا خلی مسئلہ ہے ایسی بات چیت میں کفر سے ہدایا ت لینا نا جا ئز ہے جو ہما رے لیے گھا ت لگائے بیٹھا ہے ۔
مجتھد مسلمان کا حکم:
اہل سنت و ا لجما عت کا ایک اور اصول یہ ہے کہ اگر کو ئی مسلمان دین کے لیے یا مسلمانوں پر کیے جانے والے ظلم کا بدلہ لینے کے لیے کا فروں کو ضرر پہنچا نے کے لیے کوئی اقدام کرے اور اس فیصلے میں وہ غلطی پر ہو تو اسے نیک نیتی کا اجر ملے گا اگرچہ عملی لحا ظ سے وہ غلطی پر سمجھا جا ئے گا ایسے مخلص مسلمان اور اس شخص میں بڑا فرق ہے جو محض لوٹنے اور نام وری کے لیے کوئی مہم جو ئی کرتا ہے ۔ایسے مجتھد مسلمان کے تمام وہ حقوق باقی ہیں جو ایک مومن کے دوسرے مومن پر وا جب ہیں ”المسلم ا خو ا لمسلم لایخذلہ ولا یسلمہ“ مسلمان ایک دوسرے کے بھا ئی بھا ئی ہیں نہ اسے تنہا چھوڑے اور نہ دشمن کے حوالے کرے۔
مسلمان کی مدد نہ کرنا اسے تنہا کرنا ہے اور اس سے لا تعلق ہونا اسے دشمن کے سپرد کرنا ہے کہ جو چاہے اس سے سلوک کرے اس مسلمان کا یہ اقدام جو دشمن سے انتقا م لینے کے جذبے کے تحت ہے اگر غلط بھی ہو تو زیا دہ سے زیا دہ ایک کبیرہ گناہ ہے اور اہل سنت و ا لجما عت کا کبیرہ گناہ کے مر تکب مسلمان کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ وہ اس کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں اس کی مغفرت ما نگتے ہیں کیو نکہ ان کا مسلمان ہونا ثابت ہے تو پھر حدیث کے مطا بق ”کل المسلم علی المسلم حرام دمہ و ما لہ و عرضہ“ ہر مسلمان پر کسی دوسرے مسلمان کا خون بہانا یا مال لو ٹنا یاہتک عزت کرنا حرام ہے۔ اللہ کے دشمنوں کے سامنے ان کی
خو شنودی کے لیے یا منا فقین کی دلجو ئی کے لیے ایسے مسلمان کی غیبت تو بہت بڑا گناہ ہے اور اگر کوئی ایسے کبیرہ گنا ہ کے مرتکب کو کا فر کہتا ہے تو اسے خدا کا خوف کرنا چا ہیے کہ یہ کلمہ خود اس پر نہ لوٹ آئے ۔
عرب ممالک میں رائے عامہ پر پابندی:
ہمارے عوام نے ان حضرات کے ہر اقدام کی جس طرح بھر پور تا ئید کی اس کا بڑا سبب ہمارے ملکوں میں را ئے عامہ کے اظہار پر سختی سے پابندی ہے اس سبب کی نشان دہی خود مغربی ابلا غ عامہ کے اہم جریدے وا شنگٹن پوسٹ نے بھی کی ہے۔ تحریک انتفا ضہ کے ایک کا رکن نے جب ان حا دثا ت پر اظہار خیال کیا یا وہ فتوی تقسیم کیا جسمیں امریکی مصنوعات سے با ئیکاٹ کرنے کا کہا گیا ہے، جب اسے اس اظہار رائے پر زدوکوب کیا گیاتو وہ اپنے ملک سے عا زم سفر ہو کر تحریک جہا د میں شامل ہو گیا جس قدر حکومتیں فلسطین میں اور دوسرے ممالک میں مسلما نوں پر کیے جانے والے ظلم کے اظہار پر سختی کرے گی،ردعمل میں تحر یک جہاد بڑھے گی۔ پھر مجا ہدین اپنی را ئے سے اقدامات کریں گے اور مشورہ لینا بھی گوارا نہیں کریں گے خواہ ان کے اقدامات کے نتا ئج کتنے سنگین نکلیں ماضی قریب کے واقعات شاہد ہیںکہ یہ نوجوان جو کہتے ہیں کر گزرتے ہیں۔ وہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو اپنے مقصد میں کھپا دینا ہے وہ پورے اخلاص سے کا روائی کرتے ہیں اللہ کے آگے گڑگڑاتے ہیں اور دعا ئیں کرتے ہیں اوپر سے صالح مسلمان ان کے لیے کم و بیش ہر نما ز میں دعا کرتے ہیں اس سب کے ساتھ وہ مظلوم اور بے گھر ہیں جو ان کے اور ان کی امت کے ساتھ ہو رہا ہے وہ ان کی آہ و فغاں کو اور بڑ ھا دیتا ہے پھر وہ کار ہا ئے نما یاں انجام دیتے ہیں جو کسی معجزے سے کم نہیں ہیں اب تک جو بین الا قوامی کا روائیاں ہو چکی ہیں اگر ان کے پیچھے یہی لوگ ہیں تویہ فرطہ حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی ہے۔
ان کی آواز کو مت دبائیں انہیں اپنا موقف شریعت کے دائرے میں اصول مصلحت اور اصول مفسدت کے تحت پوری طرح بیان کرنے کا موقع ملنا چا ہیئے اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو ہم ایسی راہ پر چل پڑیں گے جس کی کوئی منزل نہ ہو گی۔سب سے پہلے ہمیں ابلاغ عامہ کی اصلاح کرنی ہو گی اور حا دثات کو قران و حدیث پر پیش کر کے ایسی تعبیر کرنی ہو گی جو ہمارے مفاد میں ہو نہ کہ امریکہ کے ابلا غ عا مہ کا چربہ ہمارے نشر یا تی اداروں سے نشر ہو۔
امریکہ نے افغا نستان پر حملہ کرنے سے پہلے اقوام عالم کو یقین دلا یا تھا کہ شہریوں کو نشانہ نہیں بنا یا جائے گا۔مگر اب تک ہزاروں شہری ہلاک اور کئی بستیاں بمباری سے تباہ ہو چکی ہیں کیا ان مسلمانوں پر کیے جانے والے بہیمانہ خون ریزی پر ان لوگوں نے ایک لفظ بھی کہا ہے جو امریکہ میں معصوم جا نوں کی ہلا کت پر افسوس کرتے ہوئے نہیں تھکتے ہمیں اپنے بھا ئی کی آنکھ کا تنکا بھی نظر آجاتا ہے اور دشمن کی آنکھ کا شہتیر بھی نظر نہیں آتا۔
گزشتہ دو عشرے۔
بیس برس پہلے دنیا بھر کے ہزاروں مسلمانوں نے شوق شہادت اور جہاد کے احیاءکے لیے افغانستان کا رخ کیا اس وقت ان کے مما لک بھی بخوشی رضا مند تھے لیکن جب حالات بدل گئے تو پھر عرب مما لک نے اپنے امن اور سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ انہیں واپس آنے والے مجاہدین کو قرار دیا محض کسی مجاہد کا اپنے وطن میں قدم رکھنا اس کے دہشت گرد اور قا بل گرفت ہونے اورتوہین آمیز رویہ رکھنے کے لیے کافی تھا۔ ملک کے تمام خفیہ ادارے متحرک ہو جاتے اور گرفتار ہونے والے مجاہد کے لیے ظا لمانہ اسپیشل فو جی عدالتیں تشکیل پا گئیں۔
عرب مما لک نے جس طرح اپنے سابقہ موقف میں معکوس تبدیلی لا ئی ہے وہ معروف فہمی جیسے معتدل مفکر کے لیے حیرت انگیز ہے۔وہ لکھتا ہے کہ ایک وقت میں یہ مما لک افغا نستان کی ہر طرح کی حما یت کرتے تھے اور اب اسی ملک سے شدید ترین نفرت کرتے ہیں وہ مزید لکھتا ہے یہ حکو متیں کس طرح اپنے عوام الناس کی ذہن سازی کرتی ہیں اور اس کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلتی ہیں۔ ہمارا ہر موقف اور حکمت عملی واشنگٹن کا چربہ ہوتی ہے جس سے وہ راضی اس سے ہم راضی، جس سے وہ نالاں اس سے ہم نالاں۔
کیا واقعی جہاد افغانستان میں حصہ لینے والے ہزاروں مسلمان تخریب کار تھے، یا وہ ڈاکو اور لٹیرے تھے جن سے سر قے اور امن و سلامتی کو شدید خطرہ ہے، جس طرح مغرب اور ہمارے ملک کے خا یہ بردار پروپیگنڈہ کرتے ہیں یہ درست ہے کہ ان میں سے بعض مجاہدین نے اپنے ملک میں انتہا پسند انہ کا روا ئیاں کی ہیں لیکن انہیں ایسے اقدامات پر کیوں مجبور ہونا پڑا؟
دہشت گردی اور اس اصطلاح کا اطلاق کہاں ہو گا؟
یہ وہ سوال ہیں جس کے جوابات نیچے دینے کی کوشش کی جا رہی ہے:
قبل اس کے کہ ہم ان سوالات کے جواب تلاش کریں ہمیں ایمان اور کفر، حق اور باطل ،تکریم انسان اور تذلیل انسان کے ما بین جو تا ریخی کشمکش جاری ہے اور آج بھی مصر اس کی نمایاں مثال ہے اس کا پس منظر بیان کرتے ہیں ۔
مصر کے جمال عبدالناصر نے دعوت اسلامی کے خلاف جس ظا لمانہ کردار کی بنیاد رکھی تھی اس کی نظیر تاریخ انسانی میں ملنا مشکل ہے۔ دعوت اسلامی کو مسخ کرنے کے لیے اس نے جھوٹے الزا مات’ قتل‘ بلا جواز گرفتاریاں اور تخریب کاری کے ڈرامے ہر طریقہ جو اختیار کر سکتا تھا کیا تا کہ دعوت کو ختم کیا جا سکے جمال عبدالناصر سے لے کر تادم تحریر مصر میں اسلام اور اسلام پسندوں کو جس طرح مٹا نے میں پوری حکومتی مشینری لگی ہوئی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے مصر میںفطرتاً لوگ دین دار ہیں اس لیے حکومت پوری طرح اسلام کا قلعہ قمع نہیں کر سکی۔ مصر میں اس کی ابتدا اخوان المسلمین پر اس الزام سے شروع ہوئی کہ یہ تنظیم صہیو نیت کے لیے کام کرتی ہے جمال عبدالناصر نے اپنے اوپر ایک قا تلانہ حملے کا ڈرامہ رچایا اور اسے بہانہ بنا کر کئی علما کو پابند زنداں کر دیا حا لا نکہ اس قاتلانہ حملے کی صداقت پر کوئی ایک شخص بھی یقین نہیں کرتا سید قطب کو پھا نسی کی سزا دی اور الزام لگایا کہ امریکہ اور برطانیہ کے زیر اثر انہوں نے دو غیر ملکی سفیروں کو قتل کروانے کی کوشش کی ہے ۔
انور سادات کے قتل ہونے کا سبب بھی یہ تھا کہ مصر نے اسرائیل کے ساتھ گٹھ جوڑ کرلیا تھا حالا نکہ بغداد میں تمام عرب ملکوں نے اسرائیل سے سیاسی مقا طعے کا معاہدہ کیا تھا انور سادات کے اسرائیل سے تعلقات سے مسلمانوںکے مقدس ترین فریضے سے خیانت کی گئی اور پورا مصر ایسے خائن سے خلاصی کا متمنی تھا۔ انور سادات نے بظاہر آزادی کے نام پر مصر کی درس گاہوں میں اشتراکت پھیلا نے کی سرپرستی کی اس بدترین تشدد کے ردعمل میں بعض افراط کا شکار ہو کر اسلامی تنظیموں تک کی تکفیر کرنے لگے ان معدودے چند افراد کو جماعت تکفیر و ھجرہ کا نام دے کر حکومت نے ہر متدین اور ہربرقعہ پوش خاتون پر جیسے دھاوا بول دیا۔ سادات کی اندھا دھند پکڑ دھکڑ سے مصر کی جیلیں بھر گئیں اور مختلف افکار سے تعلق رکھنے والے تحریکی نوجوان جیلوں میں ایک دوسرے سے متاثر ہوئے اور ایک دوسرے کے تصورات قبول کرتے چلے گئے اس کے نتیجے میں پہلے جو چھو ٹے چھو ٹے مجمو عے تھے وہ ایک بڑا گروہ بن گئے اور اپنی بقاءاور دین کی بقا کے لیے مسلح جدو جہد کا آغاز ہوا اورٹھیک انہیں دنوں میں افغا نستان میں روس حملے کے بعد عوامی مزاحمت جہاد کی صورت اختیار کر گئی حکومتوں کے لیے اس مزاحمت میں دو طرح کی کشش تھی ایک امریکہ کی خوشنودی جو روس کو روکنے کے لیے ہر ممکن اور غیر ممکن پلاننگ کر رہا تھا اور دوسرا حکومتیں خود ان نوجوانوں کو محا ذ جنگ پر بھیج کر ان سے نجات حاصل کر سکتی تھیں نوجوان بھی ایسی پر تشدد قید و بند سے نجات چاہتے تھے اور اس طرح جہاد کے احیاءکی غرض سے افغانستان کا رخ کرنے لگے۔
افغا نستان میں یہ منتشر الخیال نوجوان ان پختہ کار افراد سے ملے جو با قا عدہ ایک منظم فکر اور حکومتوں کے ساتھ اپنی طویل کشمکش کا تجربہ رکھتے تھے ان میں سے ایک گروہ نے تشدد کا اپنا نصب العین بنا لیا اور اس فکر کی آبیاری بدستور مصر سے ہوتی رہی ادھر مصر میں متدین نوجوانوں کی گرفتاری کا سلسلہ جاری رہا اور مصر کی جیلوں میں انکی مقدار چالیس ہزار تک پہنچ گئی اسرائیل سے اپنے پختہ روابط میں بھی مصر نے کوئی کمی نہیں کی ملک میں فحاشی بڑھتی گئی اور شریعت کے احکام پس پشت ڈالے گئے اسلامی تنظیم اجلاس نہیں کر سکتی تھی اور نہ حکومت ان سے کسی قسم کی رعا یت کرنے پر تیا ر تھی۔
مصر کی اپنی داخلی پا لیسی سے تشدد کا راستہ نکلا کیونکہ حکومت نے اسلام پسندوں کی سرکوبی کے لیے ہر گھٹیا اور انسان سوز طریقہ اپنا لیا تھا۔ مصر کے اس بدترین انتقامی جذبے سے دنیا بھر کی حقوق انسانی کی تنظیمیں چیخ پڑیں اور خود امریکہ نے یہ انکشاف کیا کہ بعض اسلام پسندوں پر تہمت لگانے کے لیے حکومت نے ایڈز کا وائرس ان کے خون میں بذریعہ سوئی داخل کیا۔
اسلام پسندوں کے صبر کا پیما نہ چھلک پڑا لیکن حکومت اپنے ظلم و جبر وت سے نہیں رکی مصر کے دیکھا دیکھی تونس اور شام کی وزارت داخلہ نے یہ طریقہ اختیار کیا شام نے تو سنی مسلمانوں کے ایک بڑے شہر حمات کو ملیامیٹ کر دیا یہی حال لبنان اور لیبیا کا بھی تھا اور یہی صورت بعد ازاں ہر عرب ملک میں دیکھنے میں آتی رہی روس کے خلاف جہاد افغانستان کے اختتا م پر ان مجاہدین سے پہلے سے بھی بڑھ کر تشدد کیا گیا جنہوں نے افغان جہاد میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کیا تھا خواہ وہ امدادی اشیا کی تقسیم ہی کیوں نہ ہو عرب حکمرانوں نے اس طرز عمل کی ضرورت مغربی مما لک اور امریکہ پر اس طرح واضح کی کہ وہ خا موش تماشائی بنے رہے اور معصوم نوجوانوں کی پوری دنیا میں کوئی دادرسی کرنے والا نہیں رہا۔ نوجوانوں نے اپنے لیے ایسی جگہ کی تلاش شروع کر دی جہاں وہ جہاد بھی کر سکیں اور اپنے ملک کے بہیما نہ تشدد سے بھی بچ سکیں اس طرح یہ تمام نوجوان حر کہ طالبان کی صفوں میں شامل ہوتے گئے اپنے ملکوں میں ان کے لیے دعوت کا میدان بند تھا اور فحاشی و عریانی برھتی جارہی تھی ایسے ادارے یا تو نا پید تھے جو ان کی تعلیم و تربیت کا کام کرتے یا وہ ان نوجوانوں کے معیار کے مطابق نہیں تھے یہاں ان تمام تربیتی اداروں ، علماکرام اور دعوت کا کام کرنے والے قا ئدین کو اپنی کو تاہی کا اعتراف کرنا چاہیے کیو نکہ وہ اپنی ذمہ داری سے عہدہ بر آنہیں ہو سکے ہیں۔
اس کشیدگی کے ماحول میں ارض مقدس (فلسطین) میں ”تحریک انتفا ضہ“ نے جنم لیا اور دوسری طرف امریکہ کی اسرائیل نوازی نے پوری دنیا کو حیرت زدہ کر دیا یہ نوجوان ان تمام دشمنان اسلام سے آشنا تھے جنہوں نے مسلمانوں سے کیے ہوئے کتنے معا ہدے توڑے تھے بد ترین کردار ان مما لک نے بو سنیا، فلپین، صومال اور جنوبی سوڈان میں پیش کیا تھا وہ اس سے بھی آگاہ تھے ذہنی پختگی کے ساتھ کئی انجانے دشمنوں میں سے تحریک انتفا ضہ کی رہنمائی سے انہوں نے جان لیا کہ ہمارا حقیقی دشمن امریکہ ہے۔
اس طویل دور میں پہلی مرتبہ دنیا بھر کے مجاہدین متفقہ طور پر اس نتیجے پر پہنچے کہ امریکہ کی سیاست نا انصافی پر مبنی ہے اور عرب مما لک بھی یہی رائے رکھتے ہیں گزشتہ تابستان میں عرب ممالک اور امریکہ کے درمیان عداوت اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی کیونکہ یہ ممالک امریکہ سے کسی قسم کے انصاف سے مایوس ہو گئے کچھ ممالک نے تو واضح طور پر کہا کہ صیہونی پشت پناہ امریکہ ہے اور کچھ نے سنگین نتا ئج کی دھمکی دی مغربی ممالک میں سے بھی کئی ملکوں نے اسرائیلی دہشت گردی کی پشت پنا ہی کا بر ملا اظہار کیا ہے فلسطینی بے گنا ہوں پر یہ ظلم متدین مسلمانوں کے لیے انتقا می جذبات تو پیدا کر ہی رہا تھا ایک عام مسلمان جو لہو و لعب میںپڑا ہوا تھا وہ بھی ان ظا لمانہ کارروائیوں پر سیخ پا تھا امریکہ یہ شدید جذبات نظر انداز کرتا رہا گیارہ ستمبر سے چنددن پہلے مصر نے امریکہ کو مسلمانوں کے غم و غصے کی طرف توجہ دینے پر اصرار کیا لیکن امریکہ نے ایک نہیں سنی اس مرحلے میں سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات تاریخ کے بد ترین دور میں جا چکے تھے دنیا بھر کے مسلمان غم و غصے سے بھرے ہوئے تھے کہ یکایک گیارہ ستمبر کا حا دثہ رونما ہوا جس پر مسلمانوں نے فطری طور پر خوشی کا اظہار کیا مسلمانوں کا اظہار خوشی محض دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے تھا مسلمان حا دثہ کار سے نہ واقف تھے اور نہ اس سے کوئی ہمدردی کا اظہار کر رہے تھے، انہوں نے گویا سکون کا سانس لیا تھا اس امید پر کہ امریکہ اپنی خا رجہ حکمت عملی پر نظر ثانی کرے گا جس ذہنی کرب سے مسلمانوں کو روزانہ سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا مزا امریکہ نے بھی چکھ لیا خواہ ایک روز کے لیے سہی۔
اس حا دثے سے بھی امریکہ نے کوئی سبق نہیں لیا وہ مسلمانوں کو یہ حق دینے پر تیار نہیں ہوا کہ وہ اپنی سرحدوں کے اندر اپنے رب کی اس طرح عبادت کر سکیں جیسی وہ کرنا چا ہتے ہیں۔
اس واقع کے ردعمل میں چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اپنی نا اہلی کا اعتراف کرتے الٹا انہوں نے مسلمانوں پر اس حا دثے کی تمام تر ذمہ داری ڈال دی اور بعد ازاں نوزائیدہ اسلامی امارت (افغا نستان) کے سر تھونپ دی۔ افغانستان کی حکمران جماعت طالبان کا نام لے کر ان کی تباہی کے لیے امریکہ جنگی اور پروپیگنڈے کے ہتھیاروں سے لیس میدان میں کود پڑا اور اب افغا نستان کے بعد دوسرے اہداف کا نام لے رہا ہے ۔
امریکی سیاست کی ترجیحات :
(١) امریکہ آئے روز اپنی سیاست بدلتا رہتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے حلیف مما لک کو مطلع کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتا امریکہ کی سیاست ہمیشہ سے ایک سے ایک رنگ بدلتی رہتی ہے آج کا دوست کل بد ترین دشمن ہو گا، جس ملک میں چند روز پہلے امریکی امداد پہنچی تھی اس کے دوسرے روز جبکہ خوراک کا ذخیرہ ابھی تقسیم بھی نہیں ہوپایا تھا امریکی بمباری شروع ہوجاتی ہے۔ یہ عین ممکن ہے جسے وہ دیرینہ دوست کہہ رہے ہوں اندر سے اسی کے خلاف سازشیں کررہے ہوں۔ یعنی محض وقتی مفاد!
(٢) اسرائیل کے قیام کو یقینی بنانا اور اسے علاقے کی سب سے بڑی عسکری قوت بنانا۔
(٣) معدنی تیل کے حصول کی ضمانت اور اہم تجارتی شاہراہوںپر قبضہ۔
(٤) کسی حقیقی اسلامی ریاست کو قائم نہ ہونے دینا۔
شکست خوردہ یونائٹیڈ سومنیٹ جب الٹے پائوں افغانستان سے بھاگا تو امریکہ نے بھی بے رخی اختیار کرے، بظاہر امریکہ کو روسی انخلاءسے جو دلچسپی تھی وہ پوری ہوگئی تھی ۔اس خلاءکی وجہ سے پڑوسی ممالک اپنی دنیا پرستی کی وجہ سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے ۔روس کا مفاد پرانے اشتراکیوں کو حکومت میں حصے دار بنانا تھا توایران کٹر شیعہ تنظیموں کو اقتدار میں دیکھنا چاہتا تھا۔ انڈیا افغانستان میں پاکستان کے کم از کم کردار کا خواہش مند تھا۔ جس کی پشت پناہی چین بھی کررہا تھاکیونکہ اسے اپنے مسلم اکثریت والے صوبوں میں تحریک جہاد کے شروع ہونے کا خطرہ تھا۔ ان تمام ممالک میں پاکستان کے فتراک میں شکار کا زیادہ حصہ آیاتھا۔ جس کی وجہ ہم مذہب اور سرحدی علاقوں کا ہم ثقافت ہونا بھی تھا۔
ایک بڑی وجہ پاکستان اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے امریکہ کی مستقبل میں تجارتی شراکت میں زیادہ سے زیادہ کردار ادا کرنا چاہتا تھا۔
امریکہ کے ساہو کار اس نوزائیدہ منڈی کی تجارتی اہمیت کو جاننے کےلئے دوڑے چلے آئے۔ یہاں آکر انہیں تجارت کے بار آور ہونے کے پرکشش امکانات نظر آئے۔ وسط ایشیاءکی ریاستیں ، بحر قزوین میں معدنی تیل کے ذخائر جو خلیجی ذخائر کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں۔ شاہراہ ریشم ماضی میں بھی انگریزوں کےلئے اہم تجارتی راستہ رہا تھا۔ جو اب بھی ان کےلئے پر کشش تھا۔ دونوں ممالک امریکہ اور پاکستان کےلئے صرف ایک رکاوٹ تھی یعنی افغانستان کا عدم استحکام!
پاکستان نے امریکہ کو اس بات پر قائل کر لیا کہ دینی مدارس میں پڑھنے والے طلبہ ایک ایسی خاموش سیاسی قوت ہیں جنہیں افغا نستان کے عوام اپنے ثقافتی پس منظر کی وجہ سے بخوشی قبول کر لیں گے اور یہ طالب علم کیونکہ جدید سیاست سے نا بلد ہیں اس لیے ان پر کنٹرول بھی با آسانی ہو سکے گا انہیں دنوں میں ملا محمد عمر اپنے طور پر اپنے علاقے میں مقامی باشندوں کی خواہش پر با احسن نظام چلا رہے تھے دیکھتے ہی دیکھتے دوسرے علاقے بھی اس امن عامہ کو دیکھ کر اپنی رائے سے ملا محمد عمر کے حق میں دست بردار ہوتے گئے۔
ان حالات کو دیکھ کر امریکہ ،پاکستان اور خلیجی ممالک جن میں تجارتی مفاد رکھنے والی کمپنیاں شامل تھیں طالبان کی حکومت کی حمایت کر دی جنہوں نے اپنے اخلاقی کردار سے پورے افغانستان میں مثال امن قائم کر دیا تھا۔ایک پہلو ایسا تھا جسے ان ممالک نے در خور اعتنا نہیں سمجھا اور وہ یہ کہ ابھی افغانستان میں کئی اور معجزے ہونے تھے یہ طالبان کوئی سادہ لوح ، درویش صفت افراد نہیں تھے جنہیں آسانی سے کسی بھی راستے پر چلایا جا سکتا ہو۔
یہ درست ہے کہ اپنے ملک سے دور دینی تعلیم کے دوران میں یہ طالب علم کسی سیاسی تجربے سے نہیں گزرے تھے (جیسی دوسری سیاسی تنظیمیں تھیں) لیکن دےن اسلام سے سچی محبت، افغا نستان میں قدیم سے رائج قبائلی فطری نظام ، اور عوام میں ان کی بڑھتی ہوئی پزیرائی سے وہ شتابی سے اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے اور افغا نستان میں اپنی آزاد رائے سے سیاست کرنے لگے مغربی ابلاغ عامہ نے جو پروپیگنڈہ کیا تھا کہ طالبان کی پشت پناہی کرنے والا امریکہ ہے اور صیاد خود اپنے دام میں آگیا ہے درست نہیں ہے یہ کہنا البتہ ٹھیک ہے کہ امریکہ افغانستان میں اسلام کی ایسی صورت چاہتا تھا جو اس کے لیے قابل قبول ہو، لیکن طالبان نے سچے دل سے اسلام نافذ کر دیا، جس کے وہ معتقد اور پیروکار تھے یہ وہ مقام ہے جہاں فریقین میں جدائی ہو گئی جو بات پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ طالبان کی ملک بھر میں حمایت کی وجہ ان کا اخلاقی کردار تھا طالبان کے اقتدار میں آنے سے وہ امید پوری ہوتی نظر آنے لگی جو سابقہ جہادی تنظیموں کی وجہ سے مایوسی کا شکار تھی امت میں یہ تصور پھر سے زندہ ہو گیا کہ اس رنگ وبو کی دنیا میں ایک ایسے خطے کے امکان ہیں جو خالص نظریے پر پنپ سکے اور کتاب و سنت پر اپنی سیاست کی بنیاد رکھے نہ کہ دنیا داروں کی طرح مفادات کے تا بع لچکدار قو انین کی بھول بھلیاں ۔
جہاں تک طالبان حکومت اور دہشت گردی کا تعلق ہے تو پوری دنیا گواہ ہے کہ طالبان نے دہشت گردی کو بیخ و بن سے اکھاڑ دیا تھا اور اپنے زیر تسلط صوبوں میں مثالی امن قائم کر دیا تھا اور انہوںنے پوست کی کاشت بھی مکمل طور پر ختم کر دی تھی دنیا بھر کے مسلمانوں نے مغربی ممالک کے اس پروپیگنڈہ پر کبھی کان نہیں دھرے کہ طالبان خواتین پر وحشیانہ پا بندیاں لگاتے ہیں اور نشہ آور مرکبات دنیا میں پھیلانے کا سبب ہیں بلکہ اس پروپیگنڈہ سے الٹا ان کی پزیرائی میں اضافہ ہوا اور عیسائیت کے پھیلانے پر پابندی نیز بت شکنی اس پر مستزاد ہے۔
جن قابل احترام علمائے کرام نے بت شکنی کے دنوں میں افغانستان کا دورہ کیا اور ان سے گفتگو کی انہوں نے واپس آکر اس کے با لکل برعکس رائے دی جو ان کے مخالفین ان پر الزامات لگاتے رہے تھے جہاں تک افغانستان میں باقی رہ جانے والے عربوں (دہشت گرد) کی پناہ کا تعلق ہے تو کوئی بھی انصاف پسند شخص اسے غلط نہیں کہہ سکتا، نہ اسلام کی رو سے اور نہ انسانی حقوق کے منشور کی رو سے۔طالبان نے ان لوگوں کو کب پیدا کیا تھا کہ ان کو مورد الزام ٹھہرایا جائے یہ مجاہدین تو طالبان کے اقتدار میں آنے سے برسوں پہلے افغانستان میں موجود تھے طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے نہ ان سے سیاسی روا بط تھے اور نہ فکری، یہ وہ لوگ تھے جو ایک طویل عرصے تک افغا نستان کے جہاد میں شریک کار رہے اور جنہیں افغان تنظیموں نے روس کے نکلنے کے بعد نظر انداز کر دیا تھا بلکہ دھتکار دیا تھا طالبان نے ان غریب الوطن سرفروشوں کی نصرت کر کے نہ صرف ان پر بلکہ عالم اسلام پر دو طرح سے احسان کیا ہے ۔
١۔ برے دنوں میں ساتھ دینے والے دوستوں کو اچھے دنوں میں یاد رکھنا وفاداری ہے ان لوگوں نے اپنی جان و مال سے افغا نستان کا دفاع کیا تھا، ان سے لا تعلق ہونے کی صورت میں یا تو یہ عرب مجاہدین اپنے ملکوں کی طرف جا سکتے تھے جہاں ان کی ظالم حکومتیں ان کے ساتھ وہ تشدد انگیز سلوک کرنے والی تھیں جو ان سے پہلے افغانستان سے لوٹنے والے مجاہدین کے ساتھ جیلوں میں کیا جاتا ہے یا پھر شمالی پاکستان کی خیمہ بستیوں میں انہیں ٹھونس دیا جاتا جہاں موسم کی شدت اور بھوک و افلاس خود ہی ان کا قلع قمع کر دیتی۔
(الف) جہاں تک انہیں پناہ دینے کا سوال ہے تو یقینا قابل ستائش ہے جب تک کوئی شرعی امر مانع نہ ہو۔ خود مملکت سعودی عرب میں اس کی مثال موجود ہے ملک عبدالعزیز نے رشید عالی گیلانی کو برطانیہ کے طلب کرنے پر اس کے حوالے کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ یہ عربوں کی روایت کے خلاف ہے کہ وہ جس کو پناہ دینے کا عہد کریں پھر اس عہد سے وفا نہ کریں۔
(ب) طالبان نے انہیں قانون کے تابع کر دیا تھا: روس کے انخلا کے بعد افغا نستان میں بدامنی پھیل گئی تھی اور کوئی سیاسی تنظیم بھی پورے ملک میں امن قائم نہیں کر سکی تھی اس بدامنی کے عرصے میں کوئی تنظیم یا گروہ کسی قانون اور ضابطے کا پابند نہیں تھا اور اگر یہ صورت باقی رہتی تو پھر شدت پسند اپنی من مانی میں ہر حد کو پھلانگ جاتے۔ طالبان نے تمام منتشر افراد کو مساجد میں لا کر ان کی تعلیم و تربیت کا مناسب انتظام کیا نیز طالبان نے
افغان مسئلہ سے دلچسپی رکھنے والے تمام ممالک کو یقین دلایا کہ یہ غیر افغانی پناہ گزیں کسی ایسی کارروائی میں شامل نہیں ہوں گے جو ان ممالک کے خلاف ہو مزید برآں اگر کسی شخص یا گروہ نے اس قانون کو توڑا اور اس کے خلاف ثبوت فراہم کیے گئے تو وہ یا خود ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گے یا پھر ان کے متعلقہ ملک کے حوالے کر دیں گے۔
تنظیم القاعدہ اور اس کے سربراہ نے با رہا یہ اعلان کیا ہے کہ وہ جزیرہ عرب کے کسی ملک کے خلاف کام نہیں کریں گے نہ وہ ان ملکوں کے امن کو تہہ وبالا کریں گے یہ اعلانا ت بار بار دنیا بھر کے موقر جرائد سے شائع ہوئے ہیں اور انہیں اعلا نات کی بدولت یمن اور دوسرے عرب ملکوں میں رہنے والے نوجوان اپنے آپ کو ضبط میں رکھتے رہے ہیں یہ اس وجہ سے ہوا کہ طالبان حکومت نے ان پر ایسے اقدامات پر پابندی لگا دی تھی جو بصورت دیگر ہنگامی حا لات پیدا کر سکتے تھے۔
اب ایسی پر امن حکمت عملی پر گامزن رہنے والے طالبان کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ دہشت گردی برآمد کرتی ہے اور دہشت گردوں کا گڑھ ہے ۔
طالبان کی طرف سے ان الزامات کے ممکنہ جوابات :
ہم زیر تحریر موقف کا اظہار کرنے کے لیے اپنے آپ کو اس لیے ذمہ دار سمجھتے ہیں کہ حق اور سچائی کا اعتراف کرنا چاہیے اور اس لیے بھی کہ دنیا یہ جان لے کہ امریکہ کتنا مغرور ہے اور حقیقی اسلام پر جان دینے والے سے کتنا بغض رکھتا ہے امریکہ کا ظلم اور نا انصافی جو اتنی بڑھ گئی ہے کہ ایک گیا گزرا مسلمان بھی اسی میں عافیت سمجھ رہا ہے کہ ا ٹھ کھڑا ہو ، اور اس لیے بھی ہمیں حق بیان کرنا ہے تاکہ عرب حکومتیں اچھی طرح جان لیں کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور خلفائے راشدین کے طریقے کی طرف رجوع کیے بغیر اب کوئی چارہ کار نہیں۔
دعوت و تبلیغ کا میدان کھول دیا جائے ، نوجوان کے لیے تعلیم و تربیت کی اجازت دی جا ئے تا کہ متوازن ایمان ان کے دل میں راسخ کیا جا سکے اور ان کے ساتھ حکو متی رویے میں بہتری پیدا کی جائے اور جو بات وہ کہنا چاہتے ہیں اسے سنا جائے وعظوں میں ان پر کی جانے والی طعن وتشنیع غلط ہے یہ وہ الزامات ہیں جو اللہ کے باغی ان پر لگاتے ہیں ۔
ہونی شدنی:
آخر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا مغرب نے افغان پر حملہ کر کے عالمگیر صلیبی جنگوں کا بگل بجا دیا ہے اب جبکہ ایک بڑی جنگ شروع ہو چکی ہے اس بحث میں الجھنا کہ گیارہ ستمبرکے حادثے میں کس کا ہا تھ ہے لایعنی ہے اب سنجیدگی سے امریکی منصوبے پر غور کرنے کی ضرورت ہے اس نے کس طرح اس حا دثے کو اپنے منصوبوں کے بہانہ بنایا ہے ہم پر یہ واجب نہیں کو ہم اس حادثے کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوئی صورت نکال لیں؟
گیارہ ستمبر کا حا دثہ امریکہ کی اس شکست و ریخت کا تسلسل ہو جو امریکہ کے زوال کے لیے شروع ہو چکی ہے امریکہ کا اخلاقی دیوالیہ پن بل کلنٹن اور مو نلسکی کے نا جائز تعلقات کے منظر عام پر آنے سے نکل گیا تھا، سیاسی ہزیمت گزشتہ انتخا بات میں اٹھانی پڑی جب دونوں کی گنتی کے گھپلوں کو کمپیوٹر کی بجائے ہاتھوں سے گنا گیا مہذب انسان کے مرتبے سے وہ اس وقت گر گیا جب انسانی حقوق کی ڈربن کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا اور اپنی رکنیت منسوخ کر دی ہے گیارہ ستمبر کے حا دثے نے امریکہ کو امن و عامہ برقراررکھنے نا اہل ثابت کر دیا اور اسی روز عسکری اور اقتصادی میدان میں بھی امریکہ چت ہو گیا۔ بڑا ئی خاک میں مل گئی، اس کا ننگ اب ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے اب وہ اپنی عظمت رفتہ اور بین الاقوامی اہمیت کبھی حا صل نہیں کر سکتا، عروج و زوال کی داستانیں لکھنے والوں کے لیے اس میں کئی سبق آموز اور قابل فہم اسباق ہیں۔
اس حادثے کو امریکہ نے اپنی خفت مٹانے کےلئے اتنے وسیع پیمانے پر پھیلادیا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی اپنے رعب و دبدبے کو باقی رکھنے کےلئے ، اپنی ناک اونچی رکھنے کےلئے، دوسری طرف اس حادثے نے امریکی صدر کے ا ن عیوب کو بھی پس منظر میں کردیا ہے جن کے منظر عام پر آنے سے وہ کبھی اس عہدے پر باقی نہیں رہ سکتا تھا۔ وہ ایک ایسی سیاسی جماعت کا سربراہ ہے جس کے پاس پختہ کار اشخاص کی شکل میں مسٹر جانسن اور ریگن کے وقت کے چند بوڑھے ہیں!
ہنگامی حالات پیدا کرنا حزب اقتدار کی مجبوری تھی اس لیے امریکہ نے اپنی پوری طاقت اور اپنے پورے وسائل اپنے سارے دشمنوں کا قلع قمع کرنے کے لیے مہیا کر لیے ہیں اور انتہائی عجلت اور غیر سنجیدگی سے پوری دنیا کو دو بلاک میں یوں کہہ کر تقسیم کیا ہے کہ ایک بلاک امریکہ کی تائید کرنے والا اور دوسرا مخالف بلاک جو تائید نہیں کرتا۔
اس نفسیاتی کشمکش اور غیر سنجیدہ بیانات کا مظاہرہ مختلف صورتوں میں دیکھنے میں آیا ہے۔ امریکی صدر کہہ رہے تھے جو میرا حامی نہیں بنتا وہ میرا دشمن ہے“ اس بیان کو جاری کرتے ہوئے جمہوریت اور آزادی کے تمام حقوق کو پامال کیا گیا ہے یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ جو امریکہ کا ساتھ دے وہ مہذب ،آزاد اور پر امن کہلائے گا اور جو اس کی حمایت نہ کرے وہ غیر مہذب دہشت گرد اور یا دہشت گردی کا حامی کہلائے گا ! پہلے موقف کے لیے جبراً اقرار لیا گیا اور دوسرے موقف کی صورت میں انتہائی سنگین نتائج نکلنے کی دھمکی دی گئی۔
یہ اتنا غیر معقول موقف تھا کہ دشمن مما لک تو کیا دوست ممالک نے بھی اس اصول کو نا پسند کیا ہے۔ حالات پر نظر رکھنے والے اس خطرے کو بھا نپ گئے ہیں اور اس پر انکی تحریریں اور بیانات بھی آتے ہیں کہ بمباری کا دائرہ کار دوسرے ممالک تک بڑھانے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے القاعدہ اور طالبان کا نام لے کر اس طویل منصوبے پر امریکہ پردہ پوشی میں نا کام رہا ہے۔
گزشتہ دو دہا ئیوں سے امریکہ یہ کوشش کر رہا ہے کہ بر اعظمی جنگ چھڑ جائے خواہ کوریا کے ساتھ یا عراق کے ساتھ اس مقصد کے لیے بحر ہنداور خلیج عربی میں تین لاکھ فوج تعینات ہے اور اس کا با قا عدہ بجٹ مقرر کیا گیاہے اگر امریکہ کے پیش نظر افغانستان یا کسی دوسرے ملک میں محض حکومت کی تبدیلی ہوتا تو اس مقصد کے لیے اتنی بڑی عسکری قوت مہیا کرنا غیر ضروری تھا ۔
یہاں ایک اہم سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ آخر امر یکہ نے اتنے وسیع پیمانے پر عسکری تیاری کس لیے کی ہے اور ہر ملک سے جنگ کرنے پر آمادہ ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں اس وقت دنیا کی مختلف موئثر قوتوں کی نشان دہی اور امریکہ سے تحا لف کی نوعیت جاننی ہو گی یہ موئثر طاقتیں پان پورپ ، جاپان، روس اور وسطی ایشیا کی خود مختار ریاستیں، چین ،بھارت اور عالم اسلام ہے جن میں سے آخری فریق کے پاس عسکری لحاظ سے ایٹم بم کی صلاحیت (پاکستان) اور عرب ریاستوں کے پاس معدنی تیل کے ذخا ئر بھی ہیں ۔
اگرچہ امر یکہ ایک بڑی طاقت ہے لیکن یہ نا ممکن ہے کہ وہ ان مذکورہ بالا تمام قوتوں پر اپنی سیاست ٹھو نس دے، اور ان ساری قوتوں کو روند کر رکھ دے اس مقصد کے لیے امریکہ نے عراق اور ایران جیسے ملکوں کا ہیولہ کھڑ ا کیا تھا کہ یہ دونوں ملک کسی وقت بھی خلیج کے تیل اور اہم تجارتی شاہراہوں پر قبضہ کر لیں گے لہذا امریکی فوجوں کی اس علاقے میں سخت ضرورت ہے لیکن اب اس دعوے کا کھو کھلا پن تمام ممالک پر عیاں ہو گیا ہے دوسری طرف مشرقی یورپ میں اشتراکیت کا جو خطرہ بڑھا چڑھاکر بیان کیا جاتا تھا اس کے غبارے سے بھی ہوا نکل چکی ہے آخر امریکہ کے لیے کہیں تو جنگ کرنے کا موقع باقی رہنا چاہیے!
یہ تو امر واقع ہے کہ جس ملک کی سرپرستی کا شرف امریکہ حاصل کر لے اس ملک کو جنگ میں ضرور کودنا ہوتا ہے جنگ لا محدود آمدنی کا ذریعہ ہے۔ اسلحہ ساز کمپنیاں سیکو لرزم پھیلانے والے اور سا ہو کار جنگ کرنے کے لیے دبائو بڑھا تے رہتے ہیں ان کی حرص و لو بھ کی پیاس ایک بڑی جنگ یا اسلحے کی خریداری کا ایک لمبا آرڈرکر سکتا ہے اگر کوئی امریکی صدر ان کے اس مطالبے کی مخالفت کرے تو اسے جان کنیڈی کی طرح موت کے گھاٹ اترنا ہو گا یا رونالڈ ریگن کی طرح قتل سے بال بال بچنا ہو گا۔ امریکہ کو ایک بھیانک جنگ میں جھونک کر ان اسلحہ ساز کمپنیوں کے لیے ایک طرف کاروبار کے دروازے چوپٹ کھل جائیں گے اور دوسری طرف پوری دنیا میں ایک طرف امریکہ کے قبضے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو جائے گا۔
عسکری ماہرین نے اپنی تحقیقات میں با رہا اس طرف اشا رہ دیا تھا کہ جنوبی ایشیا اس سینا ریو کے لیے منا سب ترین مقام ہے یہ بر صغیر پہلے بھی بڑی طاقتوں کے لیے پر کشش رہا ہے اور موجودہ حالات میں خلیج عرب کے بعد اس علاقے کوحساس ترین قرار دیا جا چکا ہے اس علاقے میں ایک ایسا د شمن پیدا کیا جا سکتا ہے جس کا نہ سر ہو نا پیر اور وہ ہے دہشت گردی“ اور یہ لفظ افغا نستان اور اس کے با شندوں پر چسپاں کیا جا سکتا ہے گیارہ ستمبر میں رونما ہونے والے حا دثے سے اس سارے منصوبے کے لیے راہ ہموار ہو گئی۔
دیکھتے ہی دیکھتے یورپی ممالک نے فوراًمسئلہ فلسطین پر اپنے سا بقہ موقف کو نظر انداز کر کے امریکہ کے دم چھلے ہونے کے کردار کو بخوشی تسلیم کر لیا حا لا نکہ یو رپی ممالک اور امریکہ کے درمیان مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں اختلاف رائے پا یا جاتا ہے ٹونی بلیر ایک طرح سے امریکہ کے کسی سفیر کا کردار ادا کر رہا ہے فرانس نے اپنے محتاط رویے کو خیر باد کہہ دیا ہے جرمنی تو اس وفاداری میں ایک قدم اور آگے بڑھ گیا اور بلا معاوضہ اور بلا سبب ایسے افراد کو گرفتار کرکے اپنی وفاداری کا مظا ہرہ کیا جن کی گرفتاری کا کسی نے کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا ۔
جاپان نے موقع غنیمت جان کر امریکہ کی ہاں میں ہاں ملا دی تاکہ جاپان جو امریکہ کے مد مقابل ایک بڑ ی قوت سمجھا جا رہا ہے اس تہمت سے بچ جائے جاپان دنیا کے ایک کونے میں بسنے والا ملک ہے جس کی نہ کوئی ایسی جاندار ثقا فت ہے جو دوسری قوموں کے لیے پر کشش ہو اور نہ وہ کوئی بڑی عسکری قوت ہے ۔ جاپان کی ساری طاقت اس کی مضبوط معیشت میں سمجھی جاتی رہی ہے لیکن جاپان طویل عرصے سے شدید معا شی بحران کا شکار ہے اور اپنی معیشت کو بحال کرنے کی سر توڑ کوشش میں لگا ہوا ہے ۔
امریکہ با رہا جاپان کو دھمکا چکا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ جاپان کی ترقی کے پیچھے امریکہ کی حفا ظت کار فرما ہے معدنی تیل اور تجارتی راہوں کی حفا ظت پر امریکہ کروڑوں ڈالر خرچ کرتا ہے اور جاپان ان سے بلا عوض فا ئدہ اٹھا تا ہے جاپان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ان دھمکیوں کے بعد امریکہ کی دہلیز پر اپنا سر رکھ دے روس اور وسطی ایشیا کی ریا ستیں معدنیات سے اٹی پڑی ہیں امریکہ کی کمپنیاں ان پر اپنے پنجے گا ڑنے کے لیے برسوں سے منتظر تھیں۔
سا بقہ سویت یو نین کی سر زمین میںامریکی فوجوں کے داخل ہونے کا سنہری موقع
سابقہ سویت یو نین بحر ہند میں امریکی بحری بیڑے کی موجودگی کا سب سے بڑ ا مخا لف تھا آج وہی سویت یو نین امریکی فوجوں کو اپنی سرحدوں میں خوش آمدید کہنے کے لیے آمادہ ہیں ۔
خرز نشیف کی بدروح کو کوئی شیطان جا کر یہ مژدہ سنائے!
چین اپنے سارے کروفر کو امریکہ کی آمد کے بعد بھول گیا ہے، بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی امریکہ کی حمایت کر کے چین پھر فائدے میں رہ جائے گا، یہی فیصلہ ہوا ہے چین کے ایوانوں میں۔
بھارت روس تحالف بھارت کے لیے اب صرف پچھتاوا رہ گیا ہے ہندو ستان نے جوہری طاقت پر جو سرمایہ بہا یا تھا وہ پانی ہو گیا ہے بھارت کا علاقے کی بڑی قوت بننے خواب چکنا چور ہو گیا ہے بھارت نے اب اپنے لیے دوسرا متبادل امریکہ کا خایہ برادر بن کر رہنے کو پسند کر لیا ہے۔
عالم اسلام ہی امریکہ کا نشانہ ہے، وہی ان کا پرانا اور ازلی ہم سر! اس کی وجہ محض عالم اسلام کے فوجی اور اقتصادی ذرائع ہی نہیں بلکہ ثقافتی جنگ میں امریکہ کا حقیقی مد مقابل اسلام ہی ہے۔ اسلام کے پاس یہ دونوں قوت کا منہ نہ بھی ہوں، محض اسلام کا قلع قمع کرنا اپنے اندر ایسی کشش رکھتا ہے کہ کسی اور سبب کی ضرورت ہی نہیں !
افغانستان کی بھینٹ دے کر امریکہ اپنے غرور کی تسکین اور علاقے میں اپنا قبضہ کرنا چاہتا ہے اس کی وجہ طالبان یا القا عدہ تنظیم نہیں ، بلکہ خلیجی ممالک پر اپنا قبضہ بر قرار رکھنا اور وسطی ایشیا اور روس کو ملانے والے تجارتی راستے (افغانستان) کے ذریعے ان کے معدنی ذخائر تک رسائی حا صل کرنا ہے۔ افغا نستان گو سنگلاخ چٹا نوں اور گرم پانیوں سے دور ایک سر زمین ہے لیکن افغا نستان کی جغرا فیا ئی سر حدیں چار بڑی طاقتوں سے ملتی ہیں ۔
(١لف) روس (ب)چین (ج) بھارت (د) عالم اسلام
امریکی قیادت کا بار بار یہ کہنا کہ یہ ایک لمبی ہمہ جہت جنگ ہے اس صورت میں قابل فہم ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہے، یہ طویل مدت صدر بش نے دس سال بتائی ہے اور یقینا اتنی طویل مدت صرف طالبان حکومت کو بے دخل کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ مذکورہ بالا چاروں فریق پر اپنا تسلط قائم کرنا ہے ۔
یہ منصوبہ کا میاب ہوتا ہے یا نہیں ایک اہم مو ضوع کی طرف روشنی ڈالنا ضروری ہے اور وہ ہے فکری اور ثقا فتی جنگ ۔امریکہ با ر بار کہہ رہا ہے کہ وہ ”دہشت گردی کے مصدر“ کو ہی ختم کرنا چاہتا ہے یا امریکی قدریں دنیا بھر میں رائج ہوتے دیکھنا چاہتا ہے تو یہ ایک اہم موضوع ہے ۔
واقعہ یہ ہے کہ اسلام باقی تمام مذاہب سے ممتاز ہے اسلام کے علاوہ تمام مشرقی ادیان ہندو مت جین مت ، بدھ مت اور کنفوزشزم سب اپنا تشخص ختم کر چکے ہیں اسلام کی ایک بڑی صفت یہ ہے کہ وہ اپنا پورا تشخص بر قرار رکھتے ہوئے دوسری ثقا فتوں سے بعض قدریں اپنے اندر سمو لیتا ہے، وہ کسی ثقافت سے نفرت کرتا ہے اور نہ اس کی طرف کھچا چلا جاتا ہے یہ درست ہے کہ موجودہ دور میں اسلام بیرونی ثقافت سے زیادہ متاثر ہوا ہے لیکن اسلام کا اپنا تشخص بر قرار ہے اور اس کی سب سے بڑی دلیل خود مغرب میں اسلام کی موجودگی ہے اس دین میں ایسی کیا کشش ہے ظاہر ہے انسانی عقل اس کا احا طہ نہیں کر سکتی اسلام کا مصدر صاف شفاف ربانی احکام ہیں جو انسانی فطرت سے میل کھاتے ہیں۔جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا امریکہ اپنے عزائم میں کامیاب ہو جائے تو اس کا جواب ہے،ہرگز نہیں خواہ امریکہ کی جنگ دس سال کی بجائے بیس سال یا دو صدیاں ہی طویل کیوں نہ ہوجائے۔
جہاں تک اس جنگ کے ہمہ جہت ہونے کا تعلق ہے تو ا س میں بھی وہ کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ اسلام کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ جب کبھی مسلمانوں کے مقدس عقائد یا مقامات کو نشانہ بنایا گیا تو جانی اور مالی نقصان تو ضرور ہو ا لیکن کبھی مسلمانوں نے اپنے مقدسات کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا۔ اب جبکہ خود امریکی قیادت نے صلیبی جنگ، اوردہشت گردی کے مصادر(یعنی قرآن و حدیث اور علمائے دین) کو ختم کرنے کا نام لیا ہے۔
مسلمانوں میں دینی شعور پیدا ہورہا ہے ۔امریکہ اگر کوئی صحیح منصوبہ بھی بنائے تو ساری دنیا عموماً اور مسلمان خصوصاً اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اگراس کا منصو بہ سرے سے ہو ہی گمراہ کن تو وہ کیونکر قابل قبول ہوسکتا ہے۔ امریکہ نے جب اس طرف اشارے دیے کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا تو کسی نے اسے درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ اسی طرح جب امریکہ نے یہ کہا کہ وہ عرب ممالک میں بھی جمہوری روایتوں کو پروان پاتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے توبھی بات سنی ان سنی ہوگئی کیونکہ مسلمان جانتے ہیں کہ امریکہ مسلمانوں کے لیے خیرخواہی نہیں چاہتا۔
البتہ جب امریکہ نے یہ کہا کہ جہادی تنظیمیں دہشت گردی پھیلانے کا سبب ہیں تو مسلمانوں کویقین ہوگیا کہ وہ عنقریب اس سلسلے میں عملی اقدام اٹھائے گا۔ کیونکہ اس میں مسلمانوں کے لیے نقصان ہے اس لیے امریکہ اس جانب عملی قدم اٹھائے گا۔
امریکہ اور اسلام کا آمنا سامنا ایک لمبی طویل اور تباہ کن نتائج لائے گا۔ شایدیہ امریکہ کے لیے اللہ کی طرف سے ایک گھیرے کی صورت ہو اورمسلمانوںکےلئے آزمائش اور امتحان کی گھڑی ۔
اللہ تعالی چاہتا ہے کہ امت مسلمہ اپنے اس عقیدے پرایمان پختہ کرے کہ ان القوت للہ جمیعا۔ تمام قوتوں کا مالک اکیلا اللہ ہے ۔گیارہ ستمبر کا واقعہ اس لیے رونما ہوا ہے کہ قوت کا مالک امریکہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بنی نضیرجو مدینہ میں یہودیوںکی بستی تھی اور بڑے ناقابل تسخیر قلعوں میں رہتی تھی،مگر اللہ نے انہیں مسلمانوں کے ہاتھوں تباہ کردیا۔ اور بنی نضیر کی قوت ختم ہونے کے بعد سورہ حشر کی یہ آیات نازل فرمائیں” وہ اس فریب میںمبتلا تھے کہ ان کی گڑھیاں انہیں اللہ سے بچالیں گی، اللہ نے انہیں اس جگہ سے دبوچ لیا جو ان کے سان و گمان میں بھی نہ تھا۔ اور ان کے دل میں دہشت بیٹھ گئی۔
گیارہ ستمبر کا واقعہ اس لیے ایک اہم واقعہ ہے کہ اس سے ایک بڑی طاقت کا گھمنڈ خاک میں مل گیا ہے۔ جدید اسلحہ اور جدید ٹیکنالوجی سب اسکریپ ثابت ہوا۔ اسلحے اور مادی طاقت میں روح نہیںہوتی جبکہ مسلمان مادی لحاظ سے بے انتہا پس ماندہ سہی لیکن روح اور ایمان زندگی کی علامت ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے ان حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ مومن قضا و قدر سے بچنے کے لیے قضاو قدر کا راستہ ہی اختیار کرتا ہے۔ ہاتھ پیر ہلائے بغیر توکل کرنا مسلمان کا شیوہ نہیں۔ ہمارے آگے عمل کا میدان کھلا ہے ۔ لیکن ہر شخص یہ سوچے کہ اس نے اب تک کیا کیا ہے۔ اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی جد وجہد پر ابھاریں اور بحث و مباحثہ میں پڑ کر قیمتی وقت ضائع نہ کریں۔ ہمارے سامنے جو عمل کا میدان ہے اگلی سطور میں اسی طرف رہنمائی کی جارہی ہے۔
(الف) بلا شبہ ہم حق پر ہیں اور دشمن باطل پر اور یہ بات ہمارے علاوہ دشمنوں پر بھی عیاں ہے بلکہ مغرب کے انصاف پسند اس کا اظہار بھی کرچکے ہیں۔ انصاف اور حق پر ہونا خود ایک فتح ہے ۔اللہ تعالی کا ارشادہے کہ ” وتلک القری اھلکنھم لما ظلموا وجعلنا لمھلکھم موعداً“
”جب بستیوں والوں نے ظلم کیا تو ہم نے انہیں ہلاک کردیا اور ہم نے ان کی ہلاکت میں ایک ضابطہ اخلاق پنہا ںکردیا ہے“
(ب) دشمن میں سرکشی اور گھمنڈ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اس کا اپنے وسائل پر فاخرانہ انحصار ہے اوراللہ تعالی کی پکڑ کاذرا برابر خوف نہیں ہے یہی صفات قوم عاد کی تھیں جو نا پیدا ہوگئی۔
”فاما عاد فاستکبروا فی الارض بغیر الحق وقالوا من اشدمنا قوت۔اولم یرواان اللہ الذی خلقھم ھو اشد منھم قوت“
”قوم عاد نے ناحق زمین میں استکبار کیا ، وہ کہتے تھے ہم سے بڑھ کر قوت میں کون ہے؟! کیا انہوں نے دیکھا نہیں جس اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان سے قوت میں بڑھ کر ہے“
اگر ان کے ہاں ضمیر نام کی کوئی چیز ہوتی وہ کبھی افغانستان کے غریب لوگوں کا محاصرہ نہ کرتا جس کے اکثر افراد بچوں اور بیوائوں پر مشتمل ہیں۔ جہاں متعدی امراض اور قحط سالی اور افلاس پھیلا ہوا ہے۔ ہمیں توقع تھی کہ اس ظالمانہ کاروائی پر امریکہ کے کچھ سربرآوردہ شخصیات شاید اپنے مناصب سے احتجاجاً استعفا دے دیں گے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ انکے ہاں انسانیت اور انصاف جےسے الفا ظ کوئی معانی نہیں رکھتے۔ افغانستان جےسے غریب اور وسائل سے تہی دست ملک پر فتح خود ان کی شکست ہے اور جو شکست اسے اپنے ہاتھوں اٹھانی پڑے گی وہ دنیا کےلئے ایک عبرت ہوگی۔
(ج) مسلمانوں نے دنیا بھر میںجس اتحادکا مظاہر ہ کیا ہے ۔ اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ یہ خود ایک بڑی کامیابی ہے امت کے متحد ہونے کےلئے مواقف میں یکسانیت ہونا پہلا مرحلہ ہے۔ بہت کم ایسے واقعات ہوئے ہیں جن پر امت نے متحدہ موقف اختیار کیا ہو۔ کوئی واقعہ خواہ وہ ناخوشگوار ہو اگر امت کو متحد کردیتا ہے تواس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
(د) اس واقعے نے جاہ طلب اور منافقین کو واضح کردیا ہے ۔ یہ بھی ایک بڑا سرمایہ ہے جس طرح غزوئہ احد اور غزوئہ خندق میں منافقین کی شناخت ہوگئی تھی۔
اللہ تعالی فرماتا ہے: ” ماکان اللہ لیذر المومنین علی ما انتم علیہ حتی یمنیرالخبیث من الطیب“
”اللہ مومنوں کو اس حالت میں ہر گز نہیں رہنے دے گا جس میں تم اس وقت پائے جاتے ہو وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگو ں سے الگ کرکے رہے گا“
(ھ) کئی ممالک نے اپنے پرانے تجربے کی روشنی میں امریکہ کا ساتھ دینے سے یا تو کھلا انکار کیا یا پھرمحدود حمایت کی ہے۔ یہ بہرحال درست سمت میںاٹھایا جانے والا قدم ہے۔ باطل کا انکار کرنا ضرورنتیجہ لاتا ہے خوا ہ تاخیرسے ہو۔ کسی بھی ملک کے عوام ایک بڑی طاقت ہوتے ہیں۔
(و) مومنین کے لیے شاہراہ روشن ہوگئی اور ذہنی افق بہت بڑھ گیا کیونکہ دنیا بھر کے مسلمانوں نے اپنے مظلوم مسلمانوں سے محبت اور ان کے مخالف کفار سے نفر ت کا اظہار کیا ہے۔ چالباز دشمن کے منصوبے بھانپ لئے ہیں۔ ایسادشمن جو ایک عرصے سے شناخت نہیں ہوسکا تھا۔
” لیھلک من ھلک عن بینہ ویحی من حی عن بینہ “
”جو ہلاک ہونا چاہتا ہے وہ ہلاک ہونے کی دلیل جانتا ہواور جسے زندہ رہنا ہو وہ روشن دلیل کے ساتھ زندہ رہے“
(ز) دشمن کا بد نما چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے۔ انسان دوستی، آزادی ، ترقی ، تہذیب وتمدن اور حق خودارادیت سب خوشنما نعرے تھے وہ اپنے مسلمان شہریوں کو بھی یہ حقوق دینے پر تیار نہیں ہے۔
(ح) لادینیت کی یلغار میںوقتی طور پر کمی آئی ہے۔ اور ہمارے پاس سوچنے اور عمل کی راہ نکالنے کا ایک
سنہری موقع ہے۔ پوری گہرائی اور مکمل منصوبے کے ساتھ اور تمام مسلم ممالک مل کر کوئی راستہ نکالیں۔ ایک کے بعد دوسرے راستہ سوجھتا چلا جائے گا (انشااللہ)
(ط) فحاشی میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ مغربی ممالک میں مسلمان سیاحوں سے جو توہین آمیز سلوک کیا جارہاہے۔ اس کی وجہ سے مغربی ممالک میںسیاحت کا رجحان کم ہوجائے گا۔ سعودی باشندوں نے مغربی ممالک کی سیر و سیاحت پر١٤٢٠ھ میں ایک ہزار ایک سو بیس ملین ریال خرچ کئے تھے۔
(ی) بعض شرعی احکام دوبار ہ منظر عام پر آتے ہیں جیسے ”دار الکفر“ سے کیا مرا د ہے۔”دارالسلا م“ سے کیا مراد ہے۔کافر ملکوں میں اقامت پذیر ہونے کا شرعی حکم۔ پر چم، اہل کتاب سے بڑی بڑی جنگیں، امن معاہدہ ، انسانی جان کی اہمیت، مشرکوں کے خلاف مسلمانوں کی مدد جےسے امور کو کتب حدیث اور آئمہ کرام کے ذخیروں سے تلاش کیا جائے گا۔
(ک) علمائے کرام کا اپنی آزاد مرضی سے بلا خوف وا کراہ موجودہ حالات کے لحاظ سے فتاوی جاری کرنا اورخود مغرب میں مقیم علماءنے یہ قدم بڑی جرات سے اٹھایا ہے ۔ دوسری طرف عوام الناس کا ان فتاوی کو بے حد اہمیت دینا اس سے لوگوں نے یہ سیکھا ہے کہ مسائل اہل علم سے دریافت کئے جاتے ہیں اس میں علم کی بھی قدر دانی ہے او ر علمائے امت کی بھی۔
(ل) امریکہ میں اسلامی طرز زندگی اختیار کرنے کارجحان بڑی قوت سے بڑھ رہا ہے ۔ یہ خود ایک بڑی عظیم کامیابی ہے۔
(م) اس واقعے سے مسلمانوں کے اور بہت سارے فراموش شدہ مسائل اہمیت اختیار کرگئے ہیں جن میں سب سے اہم مسئلہ ”فلسطین کا ہے۔ امریکہ سمیت بہت سے ممالک اس بات پرمجبور ہوگئے ہیں کہ اس کا منصفانہ حل نکالا جائے۔
کرنے کاکام
(الف) امت کی اصلاح اور تربیت عین قرآن و حدیث کے مطابق پوری جرات اور ہمہ جہت کی جائے۔
(ب) پوری امت کی عسکری تربیت کی جائے تاکہ دشمن کا پوری قوت سے مقابلہ کیا جاسکے۔ اسلام پسند ایک دوسرے پر طعن و تشنیع نہ کریں۔ اورکسی کے کام کو حقارت سے نہ دیکھیں خوا ہ کوئی طالبعلم ہے یا میدان قتال میں برسر پیکار۔ تمام مسلمانوں کودین کی نصرت کرنی چاہیے۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں ہے کہ جس میں خیر کا پہلو نہ ہو۔ ایمان کے کئی درجے ہیں ظاہری اعمال میں بھی اور دل میں یقین اور ایمان کے درجوں میں بھی ۔ اس لیے تعلیم وتربیت سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے تاکہ ہر مسلمان ایمان کے اعلی سے اعلی درجے پر پہنچ جائے۔
نبی علیہ السلام کی سپاہ سے اچھی سپاہ بھلا کون ہوسکتی ہے۔ اس سپاہ کے مجموعوں پر ذراغور کریں۔ کیا سب مجاہدین سابقین اولین تھے! نہیں، ان میں وہ بدوی بھی تھے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے خودبتا دیا تھا کہ ابھی ان کا ایمان دلوں میںراسخ نہیں ہوا ہے۔ ان میں ایسے مجاہدین بھی تھے جن میں نیکیاں بھی تھیں اور گناہ بھی تھے۔ ان میں افواہیں پھیلانے والے بھی تھے۔جن کی بابت ہمارا گمان ہے کہ یا تو اللہ انہیں سزا دے گا یا پھر بخش دے گا۔ کچھ لوگ قبائلی عصبیت کی وجہ سے لڑتے تھے۔ اصل چیز قیادت تھی اور وہ پرچم اور مقصد جس کےلئے یہ لوگ نکلے تھے اور ان سب کی زمام نبی علیہ السلام کے ہاتھ میں تھی۔ یا پھر آپ کے نامزد کردہ اصحاب فضیلت و استقامت۔

ابتداءمیں اگر ہم محض مساجد میں آنے والے افراد کی اصلاح کرنا شروع کردیں تو اس کے نتائج بہت امید افزاءہوں گے۔ اسی طرح اہل خانہ، قریبی رشتہ دار، ہم مجلس اور ہم مکتب ساتھی، خواہ بظاہر یہ لوگ گناہ کے مرتکب ہی کیوں نہ ہوتے ہوں۔ پھر بھی اصلاح کا کا م جاری رکھنا چاہیے۔
اس وقت دین کی بڑی مصلحت اس کا دفاع ہے۔ ایک گناہ گار مجاہد خواہ اس کے جہاد کی نوعیت کسی بھی طرح کی ہو ایک بیٹھ رہنے والے صالح مسلمان سے زیادہ کار آمد ہے۔
(ج) مسلمانوں کی مددو نصرت کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے اس عقیدے کو راسخ کرنا اور اس کا شعور اجاگر کرنا، مسلمان کی نصرت کے بے شمار طریقے ہیں قتال بھی ان طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے اسی طرح اپنے مال سے ، ذرائع ابلاغ کی قوت سے، اپنے موقف سے، اپنے مشوروں سے ، علم پھیلانے سے، خیر کے کاموں سے حقیقت ایمان کو واضح کرنے سے، خصو صاً عقیدہ ولاءبرا، مسلمانوں کے حق میں دعا کرنے سے اسی طریقے سے ان مما لک سے رہنمائی لینا جو کتاب و سنت کے قریب تر ہیں جیسے جزیرہ عرب۔ ہر خیر کی بات خواہ کوئی کرے اس پر دھیان دیا جائے۔
سطحی امور سے اجتناب کیا جائے ہمارے اکثر جو شیلے نوجوان ہم سے پو چھتے ہیں کہ جہاد فرض عین ہے۔ اگر ان سے کہا جائے ہاں، تو پھر جہا ں جہاد ہو رہا ہے وہاں چلے جاتے ہیں اگر کہا جائے کہ نہیں تو پھر کسی اور عملی کام میں بھی شرکت کرنے میں سستی دکھا تے ہیں نہ دین میں تفقہ حاصل کرتے ہیں نہ دعوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے نہ انفاق کرنے کے لیے مال ہی جمع کریں گے اور نہ امر با لمعروف کا کام کریں گے اور نہ ہی نہی عن المنکر کا ۔ یہ ایک قابل افسوس طرز عمل ہے جس میں تبدیلی ضروری ہے ۔
(د) دعوت اور اصلاح کے لیے جدید ذرائع کام میں لائے جائیں اب مختصر پمفلٹ یا نشری تقریروں سے بات نہیں بنے گی اس وقت ابلاغ عامہ کے لیے مصنوعی سیاروں کو استعمال میں لانے کی ضرورت ہے اسی طرح بڑے بڑے تحقیقاتی ادارے،جامعات اور مخصوس علوم میں اعلی صلاحیت پیدا کرنا پیش نظر رہنا چاہیے ۔
(ھ) مسلمانوں نے جس جوش اور جذبے سے وحدت ملت کا مظاہرہ کیا ہے اس مبارک جذبے کو عملی رخ دینے میں جلدی کرنی چاہیے ۔
دین کے بنیادی عقائد اور اعمال میں رسوخ حاصل کیا جائے فروعات میں غیر جانبدارانہ تحقیقا تی تعمیری سوچ کو فرغ دیا جائے مسلمانوں کی وحدت دین کی ایک اہم بنیاد ہے اجتہادی مسائل کی وجہ سے اس اصل بنیاد میں دراڑیں ڈالنا نا جائز ہے مسلمانوں کو متحد کرنے والے امور ان امور سے کہیں زیادہ ہیں جن میں اختلاف پایا جاتا ہے اس وحدت کی ایک ہی شرط ہے کہ دین کا مستقل مصدر کتا ب اور سنت کو سمجھا جائے اور خیر القرون کو معیار بنایا جائے اور اس زمانے کے کسی امام کی اس کے غلط اجتہاد کی وجہ سے تنقیص نہ کی جائے۔
(و) دشمن کے خفیہ منصوبوں پر گہری نظر رکھنا ان میں سے کچھ تو عجلت اور نا عاقبت اندیشی کی وجہ سے ان کی زبانوں سے پھسل گئے ہیں جیسے مسلمانوں کو بیدار کرنے والے مصادر کا قلع قمع کرنا یہ بعین وہی طریقہ ہے جسے ترکی میں کمال اتا ترک اور مصر میں جمال عبد الناصر سے اختیار کیا تھا، اور اب بھی کئی ممالک ان کے تجربات کو اپنے ملکوں میں دہرا رہے ہیں جیسے تیو نس اس کی سب سے بڑی مثال ہے یہ مصادر دین کے وہ بچے کھچے شعار ہیں جن سے دین اسلام کا تشخص باقی ہے ان میں اہم ترین ہدف سعودی عرب کے تعلیمی نصاب میں تبدیلی لانا، جمعے کے خطبے پر سنسر شپ لگانا، دینی صحا فت پر قدغن لگانا، دینی مدارس کی نگرانی کرنا، اور سب سے پر زور مطالبہ ان کا یہ ہے کہ عقیدہ ولا ءبراءاکو نصابی کتابوں سے خارج کیا جائے، اسی طرح کافروں اور مسلمانوں کے درمیان جن چیزوں سے فرق آتا ہے اس تعلیم، اور جن حدیثوں میں یہودونصاری کی مذمت آتی ہے انہیں مدارس کے نصاب سے حذف کیا جائے اسی طرح جہاد کے احکام اور اس کے فضا ئل اور ترغیب، کافروں جیسی وضع قطع بنانے کی حرمت اور کافر ملکوں میں اقامت پزیر ہونے کے مسائل بھی ترک کیے جائیں ۔
(ز) اسلامی ممالک سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ امریکہ کے مطالبات پورے کرنے میں عقیدہ ولا ءبراءکا حق ادا نہیں کریں گے مسلمانوں میں بیداری کی جو لہر اٹھی ہے دشمن کو اس کی معلومات فراہم کرنا، جمعہ کے اجتماعات کی نگرانی کرنا بلکہ بعض امریکی شخصیات نے اس طرف بھی اشارے دیے ہیں کہ علما ئے کرام پر قاتلانہ حملے شروع کیے جائیں یہ مطالبات ہر گز قابل قبول نہیں ہیں ہر ملک اپنے داخلی امور میں آزاد ہے اور اس حق کو پوری دنیا تسلیم کرتی ہے صہیونی ملک کے پڑوسی عرب ملک انتہائی نازک حالا ت سے گزر رہے ہیں صہیونی ملک نے مسلمانوں کے خلاف کفار سے گٹھ جوڑ کیا ہوا ہے لہذا اسرائیل سے ہر قسم کے روابط منقطع کیے جائیں اور دوسرے ممالک سے پر زور مطالبہ کیا جائے کہ وہ اسرائیل کی امداد روک دیں اگر حکو متیں اسی طرح گھا ت لگائے بیٹھی رہیں اور دعوت کی آزادی پر قد غن لگائے رکھیں گے تو پھر نو جوانوں سے حکومت کو یہ توقی رکھنی چاہیے کہ وہ غیر ملکی سفارت خا نوں اور امریکی مفادات کو نشانہ بنا ئیں گے اگر کسی مجاہد کو قتل کیا گیا تو اس کے نتیجے میں انتقامی جذبات پیدا ہوں گے جن کا نا قابل تلافی نقصان ہو گا۔
(ح) اسلامی حکومتوں کو اس بات کی اہمیت جتلائی جائے کہ وہ نوجوانوں کے مطالبات پر ہمدردی سے غور کرے حکومت ان کے جذبات کو اسلام کی خدمت میں بروئے کا ر لا سکتی ہے یہ نوجوان اگر درست سمت میں مصروف ہوں تو گراں قدر سرمایہ ہیں اور اگر بپھر گئے تو پھر مصیبت کھڑی کر دیں گے اگر انہیں پورے اخلاص سے راہ عمل دکھا ئی جائے تو وہ قدر دان اور فرض شناس لوگ ہیں اگر انہیں کسی کے اخلاص میں شبہ پیدا ہو جائے تو پھر اس کے قریب نہیں آتے ان کے ساتھ حکمت ، تحمل اور بردباری سے پیش آیا جائے حکومتیں ان کی ملا مت کرنا اور ان کے کردار مسخ کر کے مشتھر کرنا چھو ڑ دے اس طرح سے ان منکرات کو بھی ترک کر دینا چاہیے جو نا قابل برداشت ہیں تشدد کے طریقے کو چھوڑ دینا چاہیے ماضی کے واقعات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ سختی کرنے کے نتائج انتہا ئی بھیانک نکلتے ہیں اسلامی حکومتوں کو امریکہ پر واضح کر دینا چاہیے کہ نوجوانوں میں اسلامی رحجان زور پکڑ گیا ہے اور بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کے گلو کار ، کھلاڑی اداکار اور شرابی دین دار ہو رہے ہیں اسلام نے پھیل کر رہنا ہے جیسا کہ نبی علیہ السلام نے فر ما یا کہ طائفہ منصورہ ہمیشہ زندہ رہے گا اب تو مغرب کے اہل دانش بھی اس تبدیلی کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ ”دیو چراغ سے نکل آیا ہے“ !
ہاں دیو تو نکل ہی آیا لیکن اب وہ چراغ ہی نہیں رہا جس میں دوبارہ وہ چھپ سکے، اس دیو کو نہ چھیڑیں، یہ حیران کن حد تک ہم دردمخلص اور امن پسند ہے۔
جس تیزی سے امریکہ نوجوانوں میں اسلامی بیداری پر قدغن لگانا چاہتا ہے اس سے کہیں زیادہ تیز رفتاری سے ہماری حکومتوں کو اپنے موجودہ طریقے میں تبدیلی لا نی چاہے اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو اس کا تدارک پھر بعد میں امریکہ بھی نہیں کر سکے گا۔
(ط) مغرب پر اسلام کا موقف واضح کرنا چاہیے اور فریقین میں بات چیت کی راہ ہموار کی جائے اس بات چیت کا موضوع اسلامی عقائد تصور اور طرز زندگی کا فرق ہو اور یہ کہ اسلام کی تعلیمات مبنی بر حق ہیں اللہ تعا لی اسلام کے علاوہ اور کسی (من پسند ) طریقے کو پسند نہیں کرتا مسلمان دنیا بھر کے لوگوں کو اعلی خیر کی طرف بلاتے ہیں اور وہ ہے ایمان کی طرف رہنمائی اللہ کی طرف دعوت۔ حق کے متلاشی مغرب میں بھی کم نہیں ہیں !
(ی) ہم اس وقت ہمہ جہت سے حا لت جنگ میں ہیں عیش کوشی سے ہمیں کوسوں دور ہونا چاہیے اپنی تمام توانائیاں اللہ کے قرب کے حصول میں کھپا دینی چاہیے اس یقین کے ساتھ کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ بہتر ہے دنیا سے بے رغبتی اور سادہ زندگی کے لیے انبیا اور صالحین کی سیرت اپنا ئی جائے تمام اعمال صدق دل سے کیے جائیں خا لص اللہ کی رضا کے لیے اللہ پر بھروسہ اور یقین رکھا جائے داعی کی زندگی خود اسلام کا عملی نمونہ ہو سب سے بڑا فریضہ حق دعوت ہے اللہ تعالی نے نصرت اور عزت کا جو وعدہ کیا ہے وہ اسلام کے نام لیوا کے لیے نہیں سچے مومنین سے ہے۔
”انا لننصر رسلنا وا لذین آمنو ا فی ا لحیوت ا لدنیا و یوم یقوم الا شھاد“
”وکان حقا علینا نصرا لمو منین“
”و نجینا ا لذین آمنو ا و کا نوا یتقون“
ولا تھنوا ولا تحزنوا و انتم ا لا علون ان کنتم مو منین“
”وللہ العزت ولر سولہ وللمومنین“
وصلی اللہ وسلم علی عبدہ ورسولہ محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین۔


 
Top