• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
كَلَامُ الْحُورِ الْعِينِ
حور عین کا نغمیں گانا


١٩٨٢ - قال أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ «عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ» عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَسُوقًا مَا لَا فِيهَا بَيْعٌ وَلَا شِرَاءٌ إِلَّا الصُّوَرُ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ، فَإِذَا اشْتَهَى الرَّجُلُ صُورَةً دَخَلَ فِيهَا وَإِنَّ فِيهَا لَمَجْتَمَعَ الْحُورِ الْعِينِ يَرْفَعْنَ بِأَصْوَاتٍ لَمْ تَسْمَعِ الْخَلَائِقُ مِثْلَهَا يَقُلْنَ: نَحْنُ الْخَالِدَاتُ فَلَا نَبِيدُ ، وَنَحْنُ النَّاعِمَاتُ فَلَا نَبْؤُسُ ، وَنَحْنُ الرَّاضِيَاتُ فَلَا نَسْخَطُ فَطُوبَى لِمَنْ كَانَ لَنَا وَكُنَّا لَهُ»
ترجمہ: جنت میں ایک بازار ہے جس میں کوئی خرید وفروخت نہیں ہے بلکہ اس میں مردوں اور عورتوں کی صورتیں ہیں جب کسی کو کوئی صورت پسند آئے گی وہ اس میں داخل ہو جائے گا۔ اس میں حور عین کے لیے ایک محفل ہو گی جس میں وہ اپنا نغمہ ایسا بلند کریں گی کہ مخلوق نے کبھی اس جیسی آواز نہیں سنی ہو گی“، ”وہ کہیں گی: ہم ہمیشہ رہنے والی ہیں کبھی فنا نہیں ہوں گی، ہم ناز و نعمت والی ہیں کبھی محتاج نہیں ہوں گی، ہم خوش رہنے والی ہیں کبھی ناراض نہیں ہوں گی، اس کو خوشخبری اور مبارک ہو جو ہمارے لیے ہے اور ہم اس کے لیے ہیں“۔
۩تخريج: مصنف بن أبي شيبة (٣٣٩٧١) (المتوفى: ٢٣٥هـ)؛ الزهد لهَنَّاد بن السَّرِي (٩) (المتوفى: ٢٤٣هـ)؛ سنن الترمذي (٢٥٦٤) (المتوفى: ٢٧٩هـ)؛ عبد الله بن أحمد فى زوائد مسند أحمد (ت ٢٩٠ھ)؛ مسند البزار (٧٠٣) (المتوفى: ٢٩٢هـ)؛ مسند أبي يعلى (٢٦٨، ٤٢٩) (المتوفى: ٣٠٧هـ)؛ زوائد الزُّهْد للْمَرْوَزِي (١٤٨٧)؛ الفوائد لتمام الرازي (٣٧٩) (المتوفى: ٤١٤هـ)؛ صفة الجنة لأبي نعيم الأصبهاني (٤١٨) (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ البعث والنشور للبيهقي (٣٧٦) (المتوفى: ٤٥٨هـ)؛ صفة الجنة لضياء الدين المقدسي (١٢٤) (المتوفى: ٦٤٣هـ)؛ الثقفيات للثقفي (ضعيف)
امام ترمذی کہتے ہیں: علی رضی الله عنہ کی حدیث غریب ہے، اس باب میں ابوہریرہ، ابو سعید خدری اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
شیخ البانی: امام ترمذی نے اس حدیث کو غریب یعنی ضعیف کہا ہے، اس کی علت عبدالرحمن بن اسحاق ہے ،وہ ضعیف ہے امام نووی اور زیلعی رحمہما اللّٰہ نے اس کے ضعیف ہونے پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے۔
اس حدیث کے پہلے حصے «إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَسُوقًا مَا لَا فِيهَا بَيْعٌ وَلَا شِرَاءٌ إِلَّا الصُّوَرُ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ، فَإِذَا اشْتَهَى الرَّجُلُ صُورَةً دَخَلَ فِيهَا» کا شاہد جابر بن عبداللہ رضی اللّٰہ عنہ کی حدیث ہے لیکن وہ بھی بہت زیادہ ضعیف ہے جیسا کہ ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے "عقوق الوالدين" میں بیان کیا ہے اور حافظ منذری نے بھی ان دونوں احادیث کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے، جابر رضی اللّٰہ عنہ کی یہ حدیث ہم نے (ضعیفہ: ٥٣٦٩) پر بیان کی ہے۔
[مترجم: اس حدیث کی شاہد ابن ابی اوفی رضی اللّٰہ عنہ کی درج ذیل روایت بھی ہے:
قال ابو الشيخ الأصبهاني: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ سَعِيدٍ الْبَزَّارُ حَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ يَحْيَى الْبَلْخِيُّ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُؤَدِّبُ حَدَّثَنَا «الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي ثَوْرٍ» حَدَّثَنِي سَعْدٌ الطَّائِيُّ أَبُو مُجَاهِدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ عَنِ ابْنِ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«يُزَوَّجُ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَرْبَعَةَ آلَافِ بِكْرٍ وَثَمَانِيَةَ آلَافِ أَيِّمٍ، وَمِائَةَ حَوْرَاءَ، فَيَجْتَمِعْنَ فِي كُلِّ سَبْعَةِ أَيَّامٍ، فَيَقُلْنَ بِأَصْوَاتٍ حَزِينَةٍ لَمْ يَسْمَعِ الْخَلَائِقُ بِمِثْلِهَا: نَحْنُ الْخَالِدَاتُ فَلَا نَبِيدُ، وَنَحْنُ النَّاعِمَاتُ فَلَا نَبْأَسُ، وَنَحْنُ الرَّاضِيَاتُ فَلَا نَسْخَطُ، وَنَحْنُ الْمُقِيمَاتُ فَلَا نَظْعَنُ، طُوبَى لِمَنْ كَانَ لَنَا، وَكُنَّا لَهُ»

۩تخريج: العظمة لأبِي الشيخ الأصبهاني (٦٠٣) و طبقات المحدثين بأصبهان والواردين عليها (في ترجمة ٦٠٩ - أَبُو عِمْرَانَ مُوسَى بْنُ هَارُونَ بْنِ سَعِيدٍ) (المتوفى: ٣٦٩هـ)؛ صفة الجنة لأبي نعيم الأصبهاني (٣٧٨، ٤٣١) (المتوفى: ٤٣٠هـ)

یہ سند بھی ضعیف ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے تقریب التہذیب میں ولید (بن عبداللہ) ابن ابی ثور کو ضعیف کہا ہے]۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
النَّهْيُ أَنْ يُقَامَ عَنِ الطَّعَامِ، حَتَّى يُرْفَعَ، وَأَنْ يَكُفَّ يَدَهُ، حَتَّى يَفْرُغَ الْقَوْمُ
کھانا اٹھا لیے جانے سے پہلے اٹھنا اور لوگوں کے کھا لینے سے پہلے ہاتھ روک لینا منع ہے۔


٢٣٨ - قال ابن ماجة: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلَانِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ قَالَ أَنْبَأَنَا «عَبْدُ الْأَعْلَى» عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا وُضِعَتِ الْمَائِدَةُ فَلَا يَقُومُ رَجُلٌ حَتَّى تُرْفَعَ الْمَائِدَةُ، وَلَا يَرْفَعُ يَدَهُ، وَإِنْ شَبِعَ، حَتَّى يَفْرُغَ الْقَوْمُ، وَلْيُعْذِرْ، فَإِنَّ الرَّجُلَ يُخْجِلُ جَلِيسَهُ، فَيَقْبِضُ يَدَهُ، وَعَسَى أَنْ يَكُونَ لَهُ فِي الطَّعَامِ حَاجَةٌ»
ترجمہ: جب دستر خوان لگا دیا جائے تو کوئی شخص اس کے اٹھائے جانے سے پہلے نہ اٹھے، اور نہ ہی اپنا ہاتھ کھینچے گرچہ وہ آسودہ ہو چکا ہو جب تک کہ دوسرے لوگ بھی کھانے سے فارغ نہ ہو جائیں، ( اور اگر اٹھنا ضروری ہو ) تو عذر پیش کر دے، اس لیے کہ آدمی اپنے ساتھی سے شرماتا ہے تو اپنا ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ ابھی اس کو کھانے کی حاجت ہو۔

تخريج: سنن ابن ماجه (٣٢٩٥) (المتوفى: ٢٧٥ھ)؛ فوائد أبي بكر الزبيري (المتوفى: ٣٣٢ھ)؛ غريب الحديث للخطابي (المتوفى: ٣٨٨ھ)؛ الجليس الصالح الكافي والأنيس الناصح الشافي للمعافى بن زكريا (المتوفى: ٣٩٠ھ)؛ حلية الأولياء لأبي نعيم (المتوفى: ٤٣٠ھ)؛ شعب الإيمان للبيهقي (المتوفى: ٤٥٨ھ)؛ صفوة التصوف لأبي زرعة طاهر المقدسي (المتوفى: ٥٦٦ھ)؛ تهذيب الكمال للمزي (المتوفى: ٧٤٢ھ)؛ (ضعيف جداً)

بوصیری رحمہ اللّٰہ زوائد ابن ماجہ میں کہتے ہیں کہ اس کی سند میں عبد الاعلی بن اعین ضعیف ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: میں کہتا ہوں کہ وہ بہت زیادہ ضعیف ہے۔
ابو نعیم رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ وہ یحییٰ بن ابی کثیر سے مناکیر روایت کرتا ہے ( البانی: میں کہتا ہوں یہ حدیث انہی مناکیر میں سے ہے۔)
دار قطنی رحمہ اللّٰہ: وہ ثقہ نہیں ہے۔
ابن حبان رحمہ اللّٰہ: اس سے حجت پکڑنا جائز نہیں ہے۔
البانی: اس حدیث کا پہلا جملہ دوسری سند سے بھی مروی ہے لیکن وہ سند بھی بہت زیادہ ضعیف ہے۔
 
Top