جلال الزامان
رکن
- شمولیت
- فروری 19، 2016
- پیغامات
- 51
- ری ایکشن اسکور
- 14
- پوائنٹ
- 40
اپنا موضوع شروع کرنے سے پہلے میں عوام ناس کے سامنے اتباع حدیث نبوی کے دلائل پیش کرنا چاہتا ہوں۔تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ نمازکے علاوہ بھی اپنے فقہی مسائل یا عقائد میں یہاں تک کے اللہ نے ہماری تقدیر میں ہماری جتنی زندگی رکھی ہے اس پوری اپنی زندگی کو حدیث رسول کے مطابق عمل میں لانا کتنا ضروری ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
ۭ اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۭ
آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا نام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ (المآیدۃ)3:5
یہ آیت 9 ذوالحجہ 10ہجری کو میدان عرفات میں نازل ہوئی۔اس کے نازل ہونے کے تین ماہ بعد رسول اللہﷺ یہ کامل اور اکمل دین امت کو سونپ کر رفیق اعلئ سےجاملے اور امت کو یہ وصیت فرماگئے:کہ میں تمہارے اندر دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم انہیں مضبوتی سے پکڑے رہو گے،ہر گز گمراہ نہیں ہوگے،اللہ کی کتاب اور اس کے نبیﷺ کی سنت۔(موطا امام مالک)
وضاحت:معلوم ہوا کہ اسلام،کتاب و سنت میں محدود ہے۔اور یہ بھی ثابت ہوا کہ مسئلہ وفتوی صرف وہی صحیح اور قابل عمل ہے جو قران
و حدیث سے مدلل ہو۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
1۔حدثنا محمد بن سنان حدثنا فليح حدثنا هلال بن علي عن عطاء بن يسار عن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " كل امتي يدخلون الجنة إلا من ابى قالوا: يا رسول الله ومن يابى؟ قال: من اطاعني دخل الجنة ومن عصاني فقد ابى ".
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، ان سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ہلال بن علی نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ساری امت جنت میں جائے گی سوائے ان کے جنہوں نے انکار کیا۔“ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! انکار کون کرے گا؟ فرمایا ”جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو میری نافرمانی کرے گا اس نے انکار کیا۔“
(صحیح بخاری)
2۔حدثنا احمد بن حنبل حدثنا الوليد بن مسلم حدثنا ثور بن يزيد قال: حدثني خالد بن معدان قال: حدثني عبد الرحمن بن عمرو السلمي وحجر بن حجر قالا: " اتينا العرباض بن سارية وهو ممن نزل فيه: ولا على الذين إذا ما اتوك لتحملهم قلت لا اجد ما احملكم عليه سورة التوبة آية 92 فسلمنا وقلنا: اتيناك زائرين وعائدين ومقتبسين فقال العرباض " صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم ثم اقبل علينا فوعظنا موعظة بليغة ذرفت منها العيون ووجلت منها القلوب فقال قائل: يا رسول الله كان هذه موعظة مودع فماذا تعهد إلينا؟ فقال:اوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة وإن عبدا حبشيا فإنه من يعش منكم بعدي فسيرى اختلافا كثيرا فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء المهديين الراشدين تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ وإياكم ومحدثات الامور فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة ".
عبدالرحمٰن بن عمرو سلمی اور حجر بن حجر کہتے ہیں کہ ہم عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں آیت کریمہ «ولا على الذين إذا ما أتوك لتحملهم قلت لا أجد ما أحملكم عليه» � ۱؎ نازل ہوئی، تو ہم نے سلام کیا اور عرض کیا: ہم آپ کے پاس آپ سے ملنے، آپ کی عیادت کرنے، اور آپ سے علم حاصل کرنے کے لیے آئے ہیں، اس پر عرباض رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں دل موہ لینے والی نصیحت کی جس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں، اور دل کانپ گئے، پھر ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو کسی رخصت کرنے والے کی سی نصیحت ہے، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرما رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں اللہ سے ڈرنے، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے ۲؎“۔(سنن ابی داود)4607
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/العلم ۱۶ (۲۶۷۶)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۶ (۴۳، ۴۴)، (تحفة الأشراف: ۹۸۹۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۲۶)، سنن الدارمی/المقدمة ۱۶ (۹۶) ۔"قال الشيخ الألباني: صحيح"
وضاحت:اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔کوئی بدعت حسنہ نہیں۔
اللہ تعالی فرماتا ہے: بِالْبَيِّنٰتِ وَالزُّبُرِ ۭ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ 44
دلیلوں اور کتابوں کے ساتھ، یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وہ غور و فکر کریں۔(النحل)
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
حدثنا عبد الوهاب بن نجدة حدثنا ابو عمرو بن كثير بن دينار عن حريز بن عثمان عن عبد الرحمن بن ابي عوف عن المقدام بن معدي كرب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه قال: " الا إني اوتيت الكتاب ومثله معه
مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو، مجھے کتاب (قرآن) دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل ایک اور چیز بھی (یعنی سنت)(سنن ابوداود)
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۱۵۷۰)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/العلم ۱۰ (۲۶۶۴)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۲ (۱۲)، مسند احمد (۴/۱۳۰) (قال الشيخ الألباني: صحيح)
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَكُمْ 33
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو۔ (محمد33)
وضاحت:ان تمام باتوں سےمعلوم ہوا کہ قرآن کی طرح حدیث نبوی بھی شرعی دلیل اور حجت ہے۔
نوٹ:لیکن حدیث سے دلیل لینے سے قبل اس بات کا علم ہونا ضروری ہے کہ آیا یہ حدیث نبی ﷺ سے ثابت بھی ہے یا نہیں کیونکہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے:آخری زمانے میں دجال اور کزاب ہوں گے وہ تمھیں ایسی احادیث سنائیں گے جنہے تم نے اور تمہارے آباو اجداد نے نہیں سنا ہوگا ۔لہذا ان سے اپنے آپ کو بچانا ۔کہیں ایسا نا ہو کہ وہ تمھیں گمراہ نا کر دیں اور فتنے میں ڈال دیں۔(صحیح مسلم)7
اور ان جھو ٹوں کی سزا کیا ہے ۔ اس کے بارے میں ہمارے پیارے نبیﷺ کا فرمان ہے۔
1۔حدثنا ابو الوليد قال: حدثنا شعبة عن جامع بن شداد عن عامر بن عبد الله بن الزبير عن ابيه قال: قلت للزبير: إني لا اسمعك تحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم كما يحدث فلان وفلان قال: اما إني لم افارقه ولكن سمعته يقول:"من كذب علي فليتبوا مقعده من النار".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے جامع بن شداد نے، وہ عامر بن عبداللہ بن زبیر سے اور وہ اپنے باپ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا میں نے اپنے باپ یعنی زبیر سے عرض کیا کہ میں نے کبھی آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نہیں سنیں۔ جیسا کہ فلاں، فلاں بیان کرتے ہیں، کہا میں کبھی آپ سے الگ تھلگ نہیں رہا لیکن میں نے آپ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے گا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔(صحیح بخاری)
2۔حدثنا ابو معمر قال: حدثنا عبد الوارث عن عبد العزيز قال انس: إنه ليمنعني ان احدثكم حديثا كثيرا ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:"من تعمد علي كذبا فليتبوا مقعده من النار".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث نے عبدالعزیز کے واسطے سے نقل کیا کہ انس رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ مجھے بہت سی حدیثیں بیان کرنے سے یہ بات روکتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔(صحیح بخاری)
3۔حدثنا مكي بن إبراهيم قال: حدثنا يزيد بن ابي عبيد عن سلمة قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:"من يقل علي ما لم اقل فليتبوا مقعده من النار".
ہم سے مکی ابن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص میرے نام سے وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
(صحیح بخاری)
4۔حدثنا موسى قال: حدثنا ابو عوانة عن ابي حصين عن ابي صالح عن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:"تسموا باسمي ولا تكتنوا بكنيتي ومن رآني في المنام فقد رآني فإن الشيطان لا يتمثل في صورتي ومن كذب علي متعمدا فليتبوا مقعده من النار".
ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، ان سے ابوعوانہ نے ابی حصین کے واسطہ سے نقل کیا، وہ ابوصالح سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ (اپنی اولاد) کا میرے نام کے اوپر نام رکھو۔ مگر میری کنیت اختیار نہ کرو اور جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا تو بلاشبہ اس نے مجھے دیکھا۔ کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا اور جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے وہ دوزخ میں اپنا ٹھکانہ تلاش کرے۔(صحیح بخاری)
اس مضمون میں میں نے نبی ﷺ کی اتباع کی اہمیت واضح کی قرآن و حدیث سے آگے چل کر اسی موضوع پر ائمہ کے اقوال پیش کروں گا۔
حدیث(یعنی سنت)کی اہمیت:
ارشاد باری تعالی ہے:
ۭ اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۭ
آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا نام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ (المآیدۃ)3:5
یہ آیت 9 ذوالحجہ 10ہجری کو میدان عرفات میں نازل ہوئی۔اس کے نازل ہونے کے تین ماہ بعد رسول اللہﷺ یہ کامل اور اکمل دین امت کو سونپ کر رفیق اعلئ سےجاملے اور امت کو یہ وصیت فرماگئے:کہ میں تمہارے اندر دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم انہیں مضبوتی سے پکڑے رہو گے،ہر گز گمراہ نہیں ہوگے،اللہ کی کتاب اور اس کے نبیﷺ کی سنت۔(موطا امام مالک)
وضاحت:معلوم ہوا کہ اسلام،کتاب و سنت میں محدود ہے۔اور یہ بھی ثابت ہوا کہ مسئلہ وفتوی صرف وہی صحیح اور قابل عمل ہے جو قران
و حدیث سے مدلل ہو۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
1۔حدثنا محمد بن سنان حدثنا فليح حدثنا هلال بن علي عن عطاء بن يسار عن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " كل امتي يدخلون الجنة إلا من ابى قالوا: يا رسول الله ومن يابى؟ قال: من اطاعني دخل الجنة ومن عصاني فقد ابى ".
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، ان سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ہلال بن علی نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ساری امت جنت میں جائے گی سوائے ان کے جنہوں نے انکار کیا۔“ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! انکار کون کرے گا؟ فرمایا ”جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو میری نافرمانی کرے گا اس نے انکار کیا۔“
(صحیح بخاری)
2۔حدثنا احمد بن حنبل حدثنا الوليد بن مسلم حدثنا ثور بن يزيد قال: حدثني خالد بن معدان قال: حدثني عبد الرحمن بن عمرو السلمي وحجر بن حجر قالا: " اتينا العرباض بن سارية وهو ممن نزل فيه: ولا على الذين إذا ما اتوك لتحملهم قلت لا اجد ما احملكم عليه سورة التوبة آية 92 فسلمنا وقلنا: اتيناك زائرين وعائدين ومقتبسين فقال العرباض " صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم ثم اقبل علينا فوعظنا موعظة بليغة ذرفت منها العيون ووجلت منها القلوب فقال قائل: يا رسول الله كان هذه موعظة مودع فماذا تعهد إلينا؟ فقال:اوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة وإن عبدا حبشيا فإنه من يعش منكم بعدي فسيرى اختلافا كثيرا فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء المهديين الراشدين تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ وإياكم ومحدثات الامور فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة ".
عبدالرحمٰن بن عمرو سلمی اور حجر بن حجر کہتے ہیں کہ ہم عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں آیت کریمہ «ولا على الذين إذا ما أتوك لتحملهم قلت لا أجد ما أحملكم عليه» � ۱؎ نازل ہوئی، تو ہم نے سلام کیا اور عرض کیا: ہم آپ کے پاس آپ سے ملنے، آپ کی عیادت کرنے، اور آپ سے علم حاصل کرنے کے لیے آئے ہیں، اس پر عرباض رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں دل موہ لینے والی نصیحت کی جس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں، اور دل کانپ گئے، پھر ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو کسی رخصت کرنے والے کی سی نصیحت ہے، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرما رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں اللہ سے ڈرنے، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے ۲؎“۔(سنن ابی داود)4607
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/العلم ۱۶ (۲۶۷۶)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۶ (۴۳، ۴۴)، (تحفة الأشراف: ۹۸۹۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۲۶)، سنن الدارمی/المقدمة ۱۶ (۹۶) ۔"قال الشيخ الألباني: صحيح"
وضاحت:اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔کوئی بدعت حسنہ نہیں۔
اللہ تعالی فرماتا ہے: بِالْبَيِّنٰتِ وَالزُّبُرِ ۭ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ 44
دلیلوں اور کتابوں کے ساتھ، یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وہ غور و فکر کریں۔(النحل)
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
حدثنا عبد الوهاب بن نجدة حدثنا ابو عمرو بن كثير بن دينار عن حريز بن عثمان عن عبد الرحمن بن ابي عوف عن المقدام بن معدي كرب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه قال: " الا إني اوتيت الكتاب ومثله معه
مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو، مجھے کتاب (قرآن) دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل ایک اور چیز بھی (یعنی سنت)(سنن ابوداود)
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۱۵۷۰)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/العلم ۱۰ (۲۶۶۴)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۲ (۱۲)، مسند احمد (۴/۱۳۰) (قال الشيخ الألباني: صحيح)
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَكُمْ 33
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو۔ (محمد33)
وضاحت:ان تمام باتوں سےمعلوم ہوا کہ قرآن کی طرح حدیث نبوی بھی شرعی دلیل اور حجت ہے۔
نوٹ:لیکن حدیث سے دلیل لینے سے قبل اس بات کا علم ہونا ضروری ہے کہ آیا یہ حدیث نبی ﷺ سے ثابت بھی ہے یا نہیں کیونکہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے:آخری زمانے میں دجال اور کزاب ہوں گے وہ تمھیں ایسی احادیث سنائیں گے جنہے تم نے اور تمہارے آباو اجداد نے نہیں سنا ہوگا ۔لہذا ان سے اپنے آپ کو بچانا ۔کہیں ایسا نا ہو کہ وہ تمھیں گمراہ نا کر دیں اور فتنے میں ڈال دیں۔(صحیح مسلم)7
اور ان جھو ٹوں کی سزا کیا ہے ۔ اس کے بارے میں ہمارے پیارے نبیﷺ کا فرمان ہے۔
1۔حدثنا ابو الوليد قال: حدثنا شعبة عن جامع بن شداد عن عامر بن عبد الله بن الزبير عن ابيه قال: قلت للزبير: إني لا اسمعك تحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم كما يحدث فلان وفلان قال: اما إني لم افارقه ولكن سمعته يقول:"من كذب علي فليتبوا مقعده من النار".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے جامع بن شداد نے، وہ عامر بن عبداللہ بن زبیر سے اور وہ اپنے باپ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا میں نے اپنے باپ یعنی زبیر سے عرض کیا کہ میں نے کبھی آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نہیں سنیں۔ جیسا کہ فلاں، فلاں بیان کرتے ہیں، کہا میں کبھی آپ سے الگ تھلگ نہیں رہا لیکن میں نے آپ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے گا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔(صحیح بخاری)
2۔حدثنا ابو معمر قال: حدثنا عبد الوارث عن عبد العزيز قال انس: إنه ليمنعني ان احدثكم حديثا كثيرا ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:"من تعمد علي كذبا فليتبوا مقعده من النار".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث نے عبدالعزیز کے واسطے سے نقل کیا کہ انس رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ مجھے بہت سی حدیثیں بیان کرنے سے یہ بات روکتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔(صحیح بخاری)
3۔حدثنا مكي بن إبراهيم قال: حدثنا يزيد بن ابي عبيد عن سلمة قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:"من يقل علي ما لم اقل فليتبوا مقعده من النار".
ہم سے مکی ابن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص میرے نام سے وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
(صحیح بخاری)
4۔حدثنا موسى قال: حدثنا ابو عوانة عن ابي حصين عن ابي صالح عن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:"تسموا باسمي ولا تكتنوا بكنيتي ومن رآني في المنام فقد رآني فإن الشيطان لا يتمثل في صورتي ومن كذب علي متعمدا فليتبوا مقعده من النار".
ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، ان سے ابوعوانہ نے ابی حصین کے واسطہ سے نقل کیا، وہ ابوصالح سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ (اپنی اولاد) کا میرے نام کے اوپر نام رکھو۔ مگر میری کنیت اختیار نہ کرو اور جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا تو بلاشبہ اس نے مجھے دیکھا۔ کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا اور جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے وہ دوزخ میں اپنا ٹھکانہ تلاش کرے۔(صحیح بخاری)
اس مضمون میں میں نے نبی ﷺ کی اتباع کی اہمیت واضح کی قرآن و حدیث سے آگے چل کر اسی موضوع پر ائمہ کے اقوال پیش کروں گا۔