فیاض ثاقب
مبتدی
- شمولیت
- ستمبر 30، 2016
- پیغامات
- 80
- ری ایکشن اسکور
- 10
- پوائنٹ
- 29
بسم الله الرحمٰن الرحیم
#سلسلہ__اعتراضات___احادیث
اس سلسلہ کا پہلا "اعتراض حدیث" ملاحظہ ہو :
#ا__عتراض:
"حدیث میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ نہیں بولے سوائے تین مرتبہ کے ، یہ حدیث کبھی صحیح نہیں ہوسکتی اسلئے کہ نبی جھوٹ نہیں بول سکتا ،قرآن مجید میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام صدیق تھے ،اسلئے یہ حدیث قرآن مجید کہ بھی خلاف ہے ،لہٰذا اس کہ جعلی ہونے میں کوئی شبہ نہیں "
#_جواب :
منکرین حدیث اس حدیث کو شان ابراہیم علیہ السلام کہ خلاف سمجھتے ہیں اور اعتراض کرتے ہیں کہ ایک نبی جھوٹ نہیں بولتا مگر حدیث میں ہے کہ نبی نے جھوٹ بولے ،
بیشک ہمارا بھی یہ ہی ایمان ہے کہ ایک نبی کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا لیکن حدیث مذکور میں لفظ "کذب" وجہ غلط فہمی ہے جس سے بظاھر ایسا لگتا ہے کہ جھوٹ کی بات ہورہی ہے مگر درحقیقت ایسا نہیں ہے لفظ "کذب "کی وجہ سے اکثر عامی بھی اس سوچ میں پڑ کر شکوک و شبہات میں مبتلاء ہوکر گمراہی کی طرف نکل جاتے ہیں جبکہ تھوڑی سی تحقیق سے اس غلط فہمی کا ازالہ کیا جاسکتا ہے ،
"کذب" عربی میں صرف جھوٹ کو نہیں کہتے ،بلکہ ،وہم ،غلطی اور خطاء کو بھی کہتے ہیں ،توریہ اور تعریض کو بھی کہتے ہیں اور اونٹنی کہ عاجز کو بھی کہتے ہیں ،سیاق و سباق کہ حوالے سے دکھا جائے تو یہاں صحیح ترجمہ جھوٹ کہ بجائے توریہ ہی ہوسکتا ہے کیوں کہ خود حدیث میں توریہ کی ہی صراحت ہے ،
#توریہ__کسے_کہتے_ہیں ؟؟:
توریہ یہ ہے کہ کہنے والا بات تو سچ کہے لیکن بیان اس انداز سے کرے کہ سنے والا اس کا مطلب کچھ اور سمجھے ،
جیسے:
"ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی کہ متعلق فرمایا تھا کہ یہ میری بہن ہیں اور پھر اپنی بیوی سے فرمایا کہ روئے زمین پر میرے اور تمہارے علاوہ کوئی مومن نہیں ہے"
(صحیح بخاری )
یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مومن کو مخصوص کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی منشاء دینی رشتہ کی ہے یعنی دینی بہن ،حضرت سارہ یقینا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دینی بہن تھیں انہی معنوں میں حضرت ابراہیم نے انہیں بہن کہا تھا ،لہٰذا وہ جھوٹ نہیں توریہ تھا ،
یعنی حدیث کا صحیح ترجمہ یہ ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کبھی توریہ نہیں کیا سوائے تین توریوں کے "یہ ترجمہ انہی الفاظ سے ماخوز ہے جن الفاظ میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی کو دینی بہن ہونے کی نیت سے بہن کہا "
جھوٹ اور فلسفہ اخلاق :
قتل انسانی بہت ہی مذموم فعل ہے .لیکن جہاد اور قصاص میں یہ ہی عمل محمود ہوجاتا ہے بلکہ فرض ہوجاتا ہے ،یعنی قتل کی دو قسمیں ہوئیں!
ایک مذموم اور
دوسرا محمود
اب یہ منحصر ہوا مقصد پے یعنی اگر کسی مظلوم کو یا کسی بھی انسان کو بلا وجہ قتل کردیا جائے تو یہ یقینا بہت بڑا گناہ ہے جس کی وعید خود قران مجید میں موجود ہے ،
جب کہ اس کہ برعکس اسلام کہ خلاف کھڑے ہونے والوں کے لئے.اسلام کی سر بلندی کہ لئے الله خود قتال کا حکم صادر فرمارہا ہے ،
فعل ایک ہی ہے یعنی انسانی جان کا قتل مگر موقع اور مقصد الگ ،بلکل اسی طرح جھوٹ کا بھی مماملہ ہے یعنی کذب محمود و کذب مذموم ،ایسا جھوٹ جو فتنہ فساد خونریزی کا خاتمہ کرے اس سچ سے یقینا بہت بہتر ہے جس کہ نتیجہ میں فتنہ و فساد پھیلے اور ہزاروں انسانوں کی جانیں چلی جائیں ،کیا کوئی فلسفۂ اخلاق اس جھوٹ کو برا کہے گا ،؟نہیں جب حقیقی جھوٹ بعض حالات میں محمود ہوسکتا ہے تو پھر توریہ تو بدرجہ اولی محمود ہوگا اور ایسے محمود فعل پر جو ابطال شرک ،انسداد فساد اور حفاظت نفس کہ لئے کیا جائے اعتراض لا یعنی ہے،
#قرآن_مجید_اور_ابراہیم_علیہ_السلام_کہ_توریہ :
ابراہیم علیہ السلام کہ دو توریوں کا ذکر تو خود قرآن مجید میں موجود ہے،
پہلا توریہ :
"ابراہیم (علیہ السلام )نے (تمام ) بت توڑ ڈالے سوائے بڑے بت کے"
(الانبیاء-٥٨ )
قوم نے پوچھا :اے ابراہیم کیا یہ کام تم نے کیا ہے ؟
ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا :
"نہیں بلکہ یہ کام اس بڑے بت نے کیا ہے "
(الانبیاء – ٦٣ )
آیات بالا سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ بظاھر یہ ہی ہے کہ حضرت ابراہیم نے جھوٹ بولے لہٰذا جو اعتراض حدیث پر ہوا وہ ہی قرآن مجید کی ان آیت پے لاگو ہوتا ہے ،
لیکن یہ حدیث ہی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حقیقی جھوٹ نہیں تھے ورنہ اس اعترض کی زد سے قرآن مجید بھی نہیں بچتا یعنی یہاں بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تشریح ہی لازم آتی ہے ،اب جن لوگوں نے احادیث کا ہی رد کردیا انہیں ایسی اور اس قسم کی دیگر آیات کی عجیب و غریب تاویلیں کرنا پڑیں ،اور بہت مشکل میں پھنس گئے ،
اس مثال سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حدیث بھی قران مجید کہ موافق ہوئی نہ کہ مخالف بلکہ یہ تو اس اعتراض کو دور کرتی جو خود قرآن مجید پے بھی ہوسکتا ہے ،بتوں کہ توڑنے کہ سلسلہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو توریہ کیا اس میں حضرت ابراہیم کی کیا نیت تھی نہیں معلوم ، قرآن مجید اور حدیث دونوں ہی خاموش ہیں ،لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیان ہے کہ مقصد ابطال شرک تھا ،بتوں کو توڑ کر بتوں کی پوجا روکنا ،
دوسرا توریہ :
"ابراہیم علیہ السلام نے کہا "میں بیمار ہوں "
(الصفت – ٨٩ )
بیمار ہوتے ہوئے مندر جاکر بتوں کو توڑنا بھی قرین قیاس نہیں ،ہاں یہاں بھی مقصد یہ ہو کہ روحانی بیمار ہوں ،اپنی قوم کہ غم میں گھلے جارہے ہوں اور اسی روحانی غم و رنج کو بیماری قرار دیا ہو اور اسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے توریہ کیا ہو ،قران مجید اس سلسلہ میں بھی خاموش ہے کہ توریہ کرتے وقت آپ کی نیت کیا تھی ،بلکہ قران مجید تو یہ تک نہیں بتاتا کہ توریہ تھا یا حقیقی جھوٹ ،بتائیں اب اعتراض کیا رہا ؟کیا درج بالا آیات بظاھر شان نبوت کہ منافی نظر نہیں آتیں ؟؟؟
الغرض دو توریہ الله کی توحید کہ لئے تھے اور تیسرا شوہر ہونے کہ ناتے رقابت کہ خطرات کہ پیش نظراور یہ تینوں توریہ محمود تھے ،
احادیث پر اعتراض کرنے والے جن اعتراضات کو وجہ بنا کر احادیث کو کر رد کرتے ہیں تو ایسی وجوہات کی زد میں تو بظاھر خود قرآن مجید بھی آتا ہے تو قرآن مجید پے اعتراضات کیوں نہیں کرتے ؟؟؟
اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ اگر انہونے ایسا کیا تو ایک عامی کم از کم اتنا ضرور سمجھتا ہے کہ قرآن پے اعتراض کرنے والا اسلام سے خارج ہے اسلئے وہ ایسا نہیں کرتے اگر ایسا کیا تو وہ سادہ عامی کو دھوکہ نہیں دے سکیں گے قرآن مجید کا دعویٰ اور اس کی ستائش صرف اسلئے کہ سادہ عوام انکو اسلام کا خیر خواہ سمجھیں اور دھوکے میں آجائیں ،مگر حقیقت یہ ہے کہ قرآن کے ترجمہ میں رد و بدل کر کہ اپنے معنیٰ پہنا دیتے ہیں چونکہ ایک عامی عربی سے نابلد ہوتا ہے اسلئے دھوکہ میں آجاتا ہے،....
اگر ان کی وجہ اعتراض حدیث دیانتداری ہے تو پھر یہ ناانصافی کیوں کہ جب وہ ہی اعتراض قرآن مجید پے آجائے تو اسے چھپا جائیں ؟؟؟؟
یاد رکھیں ! نہ ہی قرآن مجید پے اعتراض ہوسکتا ہے اور نہ ہی صحیح حدیث پر کوئی اعتراض ہوسکتا ہے بظاھر معنیٰ کتنے ہی قابل اعتراض کیوں نہ ہوں ،اعتراض کی وجہ صرف غلط فہمی .کم علمی اور تحقیق کا فقدان ہوسکتا ہے اس کہ سوا کچھ نہیں ،
الله ہمیں ایسے فتنوں سے اپنی امان میں رکھے ،
آمین
سیف علی
#سلسلہ__اعتراضات___احادیث
اس سلسلہ کا پہلا "اعتراض حدیث" ملاحظہ ہو :
#ا__عتراض:
"حدیث میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ نہیں بولے سوائے تین مرتبہ کے ، یہ حدیث کبھی صحیح نہیں ہوسکتی اسلئے کہ نبی جھوٹ نہیں بول سکتا ،قرآن مجید میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام صدیق تھے ،اسلئے یہ حدیث قرآن مجید کہ بھی خلاف ہے ،لہٰذا اس کہ جعلی ہونے میں کوئی شبہ نہیں "
#_جواب :
منکرین حدیث اس حدیث کو شان ابراہیم علیہ السلام کہ خلاف سمجھتے ہیں اور اعتراض کرتے ہیں کہ ایک نبی جھوٹ نہیں بولتا مگر حدیث میں ہے کہ نبی نے جھوٹ بولے ،
بیشک ہمارا بھی یہ ہی ایمان ہے کہ ایک نبی کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا لیکن حدیث مذکور میں لفظ "کذب" وجہ غلط فہمی ہے جس سے بظاھر ایسا لگتا ہے کہ جھوٹ کی بات ہورہی ہے مگر درحقیقت ایسا نہیں ہے لفظ "کذب "کی وجہ سے اکثر عامی بھی اس سوچ میں پڑ کر شکوک و شبہات میں مبتلاء ہوکر گمراہی کی طرف نکل جاتے ہیں جبکہ تھوڑی سی تحقیق سے اس غلط فہمی کا ازالہ کیا جاسکتا ہے ،
"کذب" عربی میں صرف جھوٹ کو نہیں کہتے ،بلکہ ،وہم ،غلطی اور خطاء کو بھی کہتے ہیں ،توریہ اور تعریض کو بھی کہتے ہیں اور اونٹنی کہ عاجز کو بھی کہتے ہیں ،سیاق و سباق کہ حوالے سے دکھا جائے تو یہاں صحیح ترجمہ جھوٹ کہ بجائے توریہ ہی ہوسکتا ہے کیوں کہ خود حدیث میں توریہ کی ہی صراحت ہے ،
#توریہ__کسے_کہتے_ہیں ؟؟:
توریہ یہ ہے کہ کہنے والا بات تو سچ کہے لیکن بیان اس انداز سے کرے کہ سنے والا اس کا مطلب کچھ اور سمجھے ،
جیسے:
"ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی کہ متعلق فرمایا تھا کہ یہ میری بہن ہیں اور پھر اپنی بیوی سے فرمایا کہ روئے زمین پر میرے اور تمہارے علاوہ کوئی مومن نہیں ہے"
(صحیح بخاری )
یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مومن کو مخصوص کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی منشاء دینی رشتہ کی ہے یعنی دینی بہن ،حضرت سارہ یقینا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دینی بہن تھیں انہی معنوں میں حضرت ابراہیم نے انہیں بہن کہا تھا ،لہٰذا وہ جھوٹ نہیں توریہ تھا ،
یعنی حدیث کا صحیح ترجمہ یہ ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کبھی توریہ نہیں کیا سوائے تین توریوں کے "یہ ترجمہ انہی الفاظ سے ماخوز ہے جن الفاظ میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی کو دینی بہن ہونے کی نیت سے بہن کہا "
جھوٹ اور فلسفہ اخلاق :
قتل انسانی بہت ہی مذموم فعل ہے .لیکن جہاد اور قصاص میں یہ ہی عمل محمود ہوجاتا ہے بلکہ فرض ہوجاتا ہے ،یعنی قتل کی دو قسمیں ہوئیں!
ایک مذموم اور
دوسرا محمود
اب یہ منحصر ہوا مقصد پے یعنی اگر کسی مظلوم کو یا کسی بھی انسان کو بلا وجہ قتل کردیا جائے تو یہ یقینا بہت بڑا گناہ ہے جس کی وعید خود قران مجید میں موجود ہے ،
جب کہ اس کہ برعکس اسلام کہ خلاف کھڑے ہونے والوں کے لئے.اسلام کی سر بلندی کہ لئے الله خود قتال کا حکم صادر فرمارہا ہے ،
فعل ایک ہی ہے یعنی انسانی جان کا قتل مگر موقع اور مقصد الگ ،بلکل اسی طرح جھوٹ کا بھی مماملہ ہے یعنی کذب محمود و کذب مذموم ،ایسا جھوٹ جو فتنہ فساد خونریزی کا خاتمہ کرے اس سچ سے یقینا بہت بہتر ہے جس کہ نتیجہ میں فتنہ و فساد پھیلے اور ہزاروں انسانوں کی جانیں چلی جائیں ،کیا کوئی فلسفۂ اخلاق اس جھوٹ کو برا کہے گا ،؟نہیں جب حقیقی جھوٹ بعض حالات میں محمود ہوسکتا ہے تو پھر توریہ تو بدرجہ اولی محمود ہوگا اور ایسے محمود فعل پر جو ابطال شرک ،انسداد فساد اور حفاظت نفس کہ لئے کیا جائے اعتراض لا یعنی ہے،
#قرآن_مجید_اور_ابراہیم_علیہ_السلام_کہ_توریہ :
ابراہیم علیہ السلام کہ دو توریوں کا ذکر تو خود قرآن مجید میں موجود ہے،
پہلا توریہ :
"ابراہیم (علیہ السلام )نے (تمام ) بت توڑ ڈالے سوائے بڑے بت کے"
(الانبیاء-٥٨ )
قوم نے پوچھا :اے ابراہیم کیا یہ کام تم نے کیا ہے ؟
ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا :
"نہیں بلکہ یہ کام اس بڑے بت نے کیا ہے "
(الانبیاء – ٦٣ )
آیات بالا سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ بظاھر یہ ہی ہے کہ حضرت ابراہیم نے جھوٹ بولے لہٰذا جو اعتراض حدیث پر ہوا وہ ہی قرآن مجید کی ان آیت پے لاگو ہوتا ہے ،
لیکن یہ حدیث ہی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حقیقی جھوٹ نہیں تھے ورنہ اس اعترض کی زد سے قرآن مجید بھی نہیں بچتا یعنی یہاں بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تشریح ہی لازم آتی ہے ،اب جن لوگوں نے احادیث کا ہی رد کردیا انہیں ایسی اور اس قسم کی دیگر آیات کی عجیب و غریب تاویلیں کرنا پڑیں ،اور بہت مشکل میں پھنس گئے ،
اس مثال سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حدیث بھی قران مجید کہ موافق ہوئی نہ کہ مخالف بلکہ یہ تو اس اعتراض کو دور کرتی جو خود قرآن مجید پے بھی ہوسکتا ہے ،بتوں کہ توڑنے کہ سلسلہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو توریہ کیا اس میں حضرت ابراہیم کی کیا نیت تھی نہیں معلوم ، قرآن مجید اور حدیث دونوں ہی خاموش ہیں ،لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیان ہے کہ مقصد ابطال شرک تھا ،بتوں کو توڑ کر بتوں کی پوجا روکنا ،
دوسرا توریہ :
"ابراہیم علیہ السلام نے کہا "میں بیمار ہوں "
(الصفت – ٨٩ )
بیمار ہوتے ہوئے مندر جاکر بتوں کو توڑنا بھی قرین قیاس نہیں ،ہاں یہاں بھی مقصد یہ ہو کہ روحانی بیمار ہوں ،اپنی قوم کہ غم میں گھلے جارہے ہوں اور اسی روحانی غم و رنج کو بیماری قرار دیا ہو اور اسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے توریہ کیا ہو ،قران مجید اس سلسلہ میں بھی خاموش ہے کہ توریہ کرتے وقت آپ کی نیت کیا تھی ،بلکہ قران مجید تو یہ تک نہیں بتاتا کہ توریہ تھا یا حقیقی جھوٹ ،بتائیں اب اعتراض کیا رہا ؟کیا درج بالا آیات بظاھر شان نبوت کہ منافی نظر نہیں آتیں ؟؟؟
الغرض دو توریہ الله کی توحید کہ لئے تھے اور تیسرا شوہر ہونے کہ ناتے رقابت کہ خطرات کہ پیش نظراور یہ تینوں توریہ محمود تھے ،
احادیث پر اعتراض کرنے والے جن اعتراضات کو وجہ بنا کر احادیث کو کر رد کرتے ہیں تو ایسی وجوہات کی زد میں تو بظاھر خود قرآن مجید بھی آتا ہے تو قرآن مجید پے اعتراضات کیوں نہیں کرتے ؟؟؟
اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ اگر انہونے ایسا کیا تو ایک عامی کم از کم اتنا ضرور سمجھتا ہے کہ قرآن پے اعتراض کرنے والا اسلام سے خارج ہے اسلئے وہ ایسا نہیں کرتے اگر ایسا کیا تو وہ سادہ عامی کو دھوکہ نہیں دے سکیں گے قرآن مجید کا دعویٰ اور اس کی ستائش صرف اسلئے کہ سادہ عوام انکو اسلام کا خیر خواہ سمجھیں اور دھوکے میں آجائیں ،مگر حقیقت یہ ہے کہ قرآن کے ترجمہ میں رد و بدل کر کہ اپنے معنیٰ پہنا دیتے ہیں چونکہ ایک عامی عربی سے نابلد ہوتا ہے اسلئے دھوکہ میں آجاتا ہے،....
اگر ان کی وجہ اعتراض حدیث دیانتداری ہے تو پھر یہ ناانصافی کیوں کہ جب وہ ہی اعتراض قرآن مجید پے آجائے تو اسے چھپا جائیں ؟؟؟؟
یاد رکھیں ! نہ ہی قرآن مجید پے اعتراض ہوسکتا ہے اور نہ ہی صحیح حدیث پر کوئی اعتراض ہوسکتا ہے بظاھر معنیٰ کتنے ہی قابل اعتراض کیوں نہ ہوں ،اعتراض کی وجہ صرف غلط فہمی .کم علمی اور تحقیق کا فقدان ہوسکتا ہے اس کہ سوا کچھ نہیں ،
الله ہمیں ایسے فتنوں سے اپنی امان میں رکھے ،
آمین
سیف علی