محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
خارجیت کا فتنہ جب سے نمودار ہوا ہے اس وقت سے اب تک یہ مسلسل نت نئے فتنوں کو جنم دیتا چلا جا رہا ہے ۔ داعشیوں نے بھی باقی فتنوں کی طرح سلفیت کو بدنام کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اپنی خونخواری پر سلفیت کا لیبل لگا لیا , تاکہ صحیح العقیدہ سادہ لوح مسلمان انکے بہکاوے میں آسکیں ۔ دوسری طرف سلفیت کے دشمنوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور پہلے بھرپور طریقے سے داعش کو سلفی قرار دیا اور پھر انکی سفاکیت و خارجیت کو بنیاد بنا کر سلفیت کو سفاک, خونخوار, اور خارجی کہہ کر بدنام کرنا شروع کر دیا ۔ ایسی چال چلنے والوں میں عالم کفر سرفہرست ہے اور دوسرے نمبر پر قبرپرست , اور صوفیوں کا طبقہ ہے , اور تیسرے نمبر پر ان دونوں سے متأثر ہونے والے لوگ ہیں۔ آئندہ سطور میں ہم سلفیت اور داعشیت کے مابین چند فرق بیان کریں گے , تاکہ خارجیت وداعشیت اور سلفیت کے مابین فرق واضح ہوسکے ۔
سلفی یا اہل الحدیث, حکمرانوں کوکافر قرار نہیں دیتے , خواہ وہ کتنے ہی ظالم وفاسق ہوں, اور وہ اس وقت تک انکے خلاف خروج کو جائز نہیں سمجھتے جب تک ان میں واضح کفر نہ دیکھ لیں کہ جس کے بارہ میں اللہ کی طرف سے واضح دلیل موجود ہو(بخاری:7065) اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ انکے ہر کام کو درست قرار دیتے ہیں , بلکہ انکے افعال واقوال کو شریعت کے میزان میں تولتے ہیں اور حق کو حق اور باطل کو باطل قرار دیتے ہیں , اور غلط کاموں پر حکام کو تنبیہ و نصیحت کرتے ہیں ۔
جبکہ داعشی وخارجی لوگ حکام کو کافر ومرتد قرار دیتے ہیں اور انہیں کفار اصلی یعنی عیسائیوں , یہودیوں اور ہندوؤں وغیرہ سے بڑا کافر قرار دیتے ہیں۔
سلفی یا اہل الحدیث حکمرانوں کی اطاعت کو واجب سمجھتے ہیں۔ (بخاری: 7065) اور وہ اپنے حکام کی اطاعت کرتے ہیں جب تک انہیں معصیت کا حکم نہ دیا جائے , اگر حاکم وقت شریعت کی خلاف ورزی کا حکم دے تو اسکی بات نہیں مانتے۔(بخاری:7257)
جبکہ داعشی وخارجی انہیں سرے سے اپنا حکمران ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے , اور نہ ہی انکی اطاعت کو اپنے لیے ضروری سمجھتے ہیں, بلکہ وہ تو حکمرانوں کو طاغوت سمجھتے ا ور انکے خلاف خروج کو واجب قرار دیتے ہیں ۔
سلفی تو حکمرانوں کے قتل کو جائز قرار نہیں دیتے, کیونکہ وہ انہیں مسلمان سمجھتے ہیں (بخاری : 25 , مسلم : 1855)
جبکہ داعشی, حکمرانوں کو قتل کرنا اپنے لیے جائز اور انکا مال لوٹنا اپنے لیے حلال سمجھتے ہیں ۔
سلفی ذہنیت کے حامل لوگ حکومت پولیس, فوج وغیرہ اور پرامن رہنے والے شہریوں کا کشت وخون کرنا حرام سمجھتے ہیں ۔ (بخاری : 25)
جبکہ داعشی وخارجی فکر کے حامل افراد انکا قتل عام کرتے اور انہیں کافر ومرتد قرار دے کر انکے خون سے اپنے ہاتھ رنگتے ہیں۔
سلفی یہ سمجھتے ہیں کہ موجود مسلمان ممالک دار الاسلام ہیں , اور ان میں خون خرابہ کرنا جائز نہیں, بلکہ ظلم وستم سہنے کے باوجود حکام کی اطاعت کرنا واجب ہے ۔(مسلم: 1847)
جبکہ داعشی وخارجی آڈیالوجی کے مطابق یہ تمام تر ممالک دار الکفر ہیں ۔
اسی بناء پر سلفی ان علاقوں میں ہونے والے قتل وقتال کو فساد اور دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہیں , اور اسے شرعی جہاد نہیں مانتے۔(مسلم: 1852)
جبکہ داعشی وخارجی اس قتل وغارت گری کو عین جہاد قرار دیتے ہیں, اور اسے عین ثواب سمجھ کر سر انجام دیتے ہیں ۔
سلفی واہل الحدیث حکمرانوں کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں اور اللہ سے انکی ہدایت اور نیک کاموں کے لیے توفیق کی دعاء مانگتے ہیں ۔(مسلم:55)
جبکہ داعش وخوارج ان حکام کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے , لہذا وہ انکے لیے دعاء نہیں کرتے بلکہ بددعاء کرتے ہیں , انکے خلاف قنوت نازلہ کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے , اور حکمرانوں کو بددعائیں دی جاتی ہیں ۔
سلفی یعنی اہل الحدیث حکومت کے خلاف خروج , حکومتوں کا تختہ الٹنا,اور اقتدار کی رسہ کشی میں شریک ہونا درست نہیں سمجھتے۔ سو وہ حکومت مخالف انقلابات وغیرہ میں حصہ نہیں لیتے۔ (مسلم: 1855,1847) بلکہ وہ تو مسلم حکمرانوں کو نصیحت کرکے , دعوت دے کر, اور انکے لیے اللہ سے دعاء کرکے خیر وبھلائی کی توقع رکھتے ہیں۔ (مسلم:55) , کیونکہ انہیں اقتدار کی کوئی چاہت نہیں ہوتی۔
جبکہ داعشی یعنی خارجی نقطہ نظر کے حاملین مظاہروں, ہڑتالوں, انقلابوں, اور حتى کہ قتل وغارت کے ذریعہ حکومت حاصل کرنا اپنا شرعی فریضہ سمجھتے ہیں , جیسے بھی ممکن ہو سکے اقتدار کا حصول مقصد اولین ہے ۔ جبکہ سلفیوں کے پر امن طریقہ کار کو وہ ارجاء کا نام دیتے ہیں, اور انہیں سرکاری ملا, حکومت کے زر خرید غلام, طاغوت کے پٹھو اور اس جیسے دیگر القابات سے نوازتے ہیں ۔
سلفیوں کا ایمان ہے کہ جہاد قیامت تک کے لیے جاری وساری ہے, لیکن یہ اس وقت کیا جائے گا جب اسکی شرائط پوری ہوں, موانع ختم ہو جائیں, اور اسکی ضرورت محسوس کی جائے ۔ جہاد کی ضرورت دنیا بھر میں دعوت الى اللہ کے راستے کھولنے کے لیے [البقرة : 193], مسلمانوں پر حملہ ور کافروں کوپیچھے دھکیلنے کے لیے[البقرة : 190], مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم کے خاتمہ کے لیے [الأنفال : 72], مسلم اراضی کفار سے چھڑانے کے لیے [البقرة : 191], کفار سے جزیہ وصول کرنے کے لیے[التوبة : 29], مسلمان مقتولوں کا کافروں سے بدلہ لینے کے لیے [البقرة : 178], کفار کو عہد شکنی کے سزا دینے کے لیے[التوبة : 12], شعائر اسلام کی توہین کی وجہ سے [التوبة : 12], محسوس کی جاتی ہے, اور ان مقاصد کے حصول تک جہاد کیا جاتا ہے۔ اور جہاد کے لیے شرط ہے کہ اسکے نتیجہ میں مسلمانوں کے لیے کوئی ایسا بڑا فتنہ کھڑا ہونے کا اندیشہ نہ ہو کہ جس سے مسلمانوں کی دعوت کو نقصان پہنچے (بخاری:3518)۔
جبکہ خارجیوں اور داعشیوں نے "الجِہادُ ماضٍ"کا معنى یہ سمجھ لیا ہے کہ قیامت تک مسلسل قتل وقتال ہوتا رہے گا, کوئی وقت بھی دنیا پر ایسا نہیں آئے گا جب دنیا کے کسی حصہ میں قتال نہ ہو رہا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب انکا بس کسی حربی کافر پہ نہیں چلتا توو ہ کسی معاہد کافروں , یا مسلمانوں کو ہی قتل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بلکہ بت پرستوں سےلڑنے کی بجائے اہل اسلام سے لڑتے ہیں, اور کفار کے مقابلہ میں مسلمانوں کو اپنا اصل اور بڑا دشمن قرار دیتے ہیں ۔
سلفی مُعاہِد(جو کافر کسی معاہدہ کے تحت یا اجازت لے کر مسلمانوں کے ملک میں داخل ہوا ہو) اور مُسْتأمِن (جو کافرمسلمانوں سے امن کی درخواست کرے اور مسلمان اسے ا مان دے دیں) کو قتل کرنا حرام جانتے ہیں۔(بخاری:3166,3180)
جبکہ خارجی و داعشی مُعاہِدین ومُسْتأمِنِین کو بھی قتل کر نا جائز بلکہ واجب سمجھتے ہیں!
سلفیوں کا عقیدہ ہے کہ قوانین وضعیہ دو طرح کے ہوتے ہیں ,پہلی قسم ان قوانین کی ہے جوشریعت اسلامیہ کی مخالف ومتضاد ہیں, تو یہ قوانین مردود اور کفر ہیں, اور ان قوانین کو نافذ کرنے اور بنانے والے کافر بھی ہوسکتے ہیں, فاسق بھی, اور ظالم بھی۔ [المائدة : 44,45,47] اور دوسری قسم ان قوانین کی ہے جو شریعت کے مخالف نہیں ہیں,جیسے انتظامی معاملات سے متعلق قوانین , تو یہ نہ تو کفر ہیں , نہ ہی جہالت, بلکہ ان پر عمل پیرا ہونا لازم ہے۔ [الشورى : 38,سنن أبی داود:3594]
جبکہ خارجی اور داعشی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ تمام تر قوانین وضعیہ جہالت وکفر وضلالت ہیں , اور انہیں نافذ کرنے والا ہر کوئی کافر ومرتد ہے!
سلفی کسی بھی ایسے کافر کے ساتھ نیکی واحسان کرنے کے قائل ہیں جو دین کی وجہ سے مسلمانوں سے نہیں لڑتا, اور مسلمانوں کو تنگ نہیں کرتا , اور انہیں ہجرت پر مجبور نہیں کرتا ۔[الممتحنة : 8]
جبکہ خارجی یا داعشی کسی بھی کافر کے ساتھ حسن سلوک روا نہیں رکھتے نہ ہی انکے ساتھ انصاف سے پیش آتے ہیں ۔
اہل الحدیث یا سلفی کے ہاں قاعدہ "جو کافر کو کافر نہ مانے وہ بھی کافرہے" کا اطلاق واضح کافر ومرتد پر ہوتا ہے جنہیں اللہ اور اسکے رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے کافر قرار دیا ہے ۔ (بخاری:6103)
جبکہ خارجی یا داعشی پہلے تو مسلمانوں کی بے جا تکفیر کرتے ہیں اور پھر جو اسے کافر نہ مانیں, انہیں بھی کافر گردانتے ہیں ۔
سلفیوں کا مقصد لوگوں کو دعوت دے کر انہیں جنہم سے بچانا اور جنت کی راہ پر چلانا ہے ۔(صحیح بخاری:6483)
جبکہ داعشیوں خارجیوں کا وطیرہ لوگوں کو کافر ومرتد قرار دے کر انہیں قتل کرنا اور اپنے تئیں ان مقتولوں کے ذریعہ نار جحیم بھڑکانا ہے۔
http://www.rafeeqtahir.com/ur/play-article-222.html#.VWwJ9_Rt8Dc.facebook