• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلف اور سلفیت

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
سلف اور سلفیت

مقالہ نگار: ڈاکٹر رضاء اللہ محمد ادریس رحمہ اللہ

تجزیہ وتعارف
یہ عربی زبان کاایک کثیرالاستعمال لفظ ہے۔ لفظ ..سلف..
قرآن کریم میں صرف ایک جگہ استعمال ہواہے:

.. فجعلناھم سلفا ومثلاً للآخرین ..<سورہ زخرف:26> ..
ہم نے انہیں بعد میں آنے والوں کے لیے پیش رواورنمونہ عبرت بنادیا۔..

..مذہب سلف.. سے مراد وہ طریقہ ہے جس پرصحابہ کرام ، تابعین عظام، اتباع تابعین اوربعد میں آنے والے وہ ائمہ دین گامزن تھے جن کا تدین اعلیٰ درجہ کوپہنچاہواتھا، اورجن کی امامت امت کے نزدیک مسلم ہے، اورجن کے اقوال وافعال لوگوں کے نزدیک مقبول ہیں ۔ ان لوگوں کا راستہ نہیں جوبدعت کے کاموں میں ملوث ہیں اورلوگوں کے نزدیک ناپسندیدہ القاب سے یاد کیے جاتے ہیں ، جیسے خوارج، روافض ، قدریہ، مرجیہ ، جبریہ ، جہمیہ اورمعتزلہ وغیرہ۔ [قواعد المنہج السلفی ص:253][ لوامع الانوار: 20]

معلوم ہوا کہ ہر پیش رو ہمارے لیے قابل اقتدا نہیں ہوسکتا۔ بلکہ نمونہ اورقدوہ وہی سلف صالح ہوسکتے ہیں جو مذکورہ اوصاف کے حامل ہوں گے ، یعنی صحابہ کرام، تابعین عظام، اوراتباع تابعین جنہوں نے ایسے مبارک عہد میں زندگی گزاری جس کی فضیلت اوربرتری کی شہادت خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ اورساتھ ہی ان ائمہ دین کوبھی قدوہ اورنمونہ کی حیثیت حاصل ہے جن کاکتاب وسنت سے تعلق لوگوں کے نزدیک معروف اورجن کی امامت ودیانت داری امت کے نزدیک مسلم ہے۔ جوخود بدعت کے کاموں سے گریز کرتے اورلوگوں کوبازرکھنے کی جدوجہد فرماتے تھے۔ اس بناء پر ہروہ شخص جوائمہ مذکورین کے عقائد، فقہ اوراصول کولازمی طورپر اپناتاہے ، اسے ائمہ سلف کی جانب منسوب کیاجائے گا ۔ زمانی یامکانی اعتبار سے کتنی ہی دوری کیوں نہ پائی جاتی ہو ۔ اورہروہ شخص جو ان کی مخالفت کرتاہے اسے سلف کی جانب نہیں منسوب کیاجائے گا ، خواہ وہ سلف کے درمیان ہی موجود رہاہو اورزمانی یامکانی اعتبار سے کوئی بُعد اوردوری نہ پائی جاتی ہو۔ [اہل السنہ والجماعہ معالم الانطلاقة الکبریٰ ص:52]


سلف کی اتباع کیسے ہو:
جب ہم ائمۂ سلف کی اقتدا کی بات کرتے ہیں تواس کامطلب یہ ہوتاہے کہ اپنے آپ کوکسی ایک شخصیت کاپابندبنائے بغیرکتاب وسنت سے جن مسائل واحکام کوسلف نے سمجھااورمستنبط کیاہے انہیں اختیار کرنا۔ عقیدہ وسلوک، عبادات ومعاملات غرضیکہ تمام دینی امور میں بالخصوص اُن امور میں جوبعد میں چل کرغیر اسلامی تاثیرات کاشکارہوکر مختلف فیہ مسائل بن گئے، ان کے افکار ونظریات، آراء واقوال کونہ صرف تسلیم کرنا، بلکہ کتاب وسنت کا فہم حاصل کرنے کے لیے انہیں مشعل راہ بنانا، عملی زندگی میں ان کے طوروطریق کواپنانا اوران کے نقش قدم پرچلنا۔


..سلفی.. نسبت جائز یا ناجائز؟:
اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری دین کے لیے ..اسلام .. کا لفظ پسند فرمایا ہے :

.. الیوم أکملت لکم دینکم وأتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا[سورہ مائدہ :3]
آج میں نے تمہارے دین کوپوراکردیا، تم پراپنااحسان تمام کردیا،اوردین اسلام کوتمہارے لیے پسند کیا۔.. اوراسلام کے ماننے والوں کو..مسلمین .. کے نام سے یاد کیاہے:

..ملة أبیکم ابراہیم ھو سماکم المسلمین من قبل وفی ھذا .. (سورہ حج:78)
یہ دین تمہارے باپ ابراہیم کادین ہے اسی نے پہلے سے (قرآن اترنے سے پہلے) تمہارانام مسلمان رکھاہے اوراس (قرآن) میں بھی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ کے رکھے ہوئے ناموں ..مسلمین .. ..مومنین.. عباد اللہ.. کے ذریعہ آپس میں ایک دوسرے کوپکارو۔..
(ترمذی:کتاب الامثال:5148، حدیث نمبر:2863، 2864 ، مسند ابی یعلی:3140õ142، حدیث نمبر:1571)

جب اللہ رب العزت نے امت محمدیہ کے لیے ..اسلام.. اور..مسلم.. (مسلمان) کالقب منتخب کیا اورپسند فرمایاہے ، توپھراس لقب کے بعد مزید کسی دوسرے لقب کی ضرورت کیسے اورکیوں پیش آئی؟اسے سمجھنے کے لیے ہمیں پیچھے لوٹ کر فتنۂ کبریٰ خلیفہ راشد سوم حضرت عثمان ذی النورین رضی اللہ عنہ کی شہادت اوراس پرمرتب ہونے والے اثرات پرغور کرنا ہوگا۔

حضرت عثمان کی مظلومانہ شہادت کے بعد امتِ مسلمہ مختلف جماعتوں اورکیمپوں میں منقسم ہوگئی ۔ شروع میں یہ اختلافات سیاسی نوعیت کے تھے، جوبعد میں چل کردینی شکل اختیار کرگئے، اوراسی کے بعد سے نئی نئی جماعتوں اورفرقوں کاظہور ہونے لگا۔ ہرجماعت اورہر فرقہ اپنے آپ کو اسلام کاعلمبردار کہتااوراسلام سے وابستگی کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنے کوحق پرثابت کرتا۔ لہٰذا علمائے کرام نے باطل فرقوں اورراہِ حق سے برگشتہ جماعتوں سے اہل حق کوممتاز کرنے کے لیے .. اہل السنة والجماعة.. کی اصطلاح ایجاد کی۔ اس اصطلاح سے خوارج، اہل تشیع، روافض اورمعتزلہ وغیرہ سے تمیز مقصود تھی۔ اس اصطلاح سے تمام علمائے حق راضی اورمتفق تھے۔ لیکن پھر ..اہل السنہ والجماعة.. کے درمیان بھی اختلاف رونما ہوئے۔ فلسفہ اورعلم الکلام سے اشتغال رکھنے کی وجہ سے مختلف مکاتب فکر اورجماعتیں ظہور پذیرہوئیں ۔ جنہوں نے اپنے لیے الگ الگ اصول وضابطے متعین کرلیے، اور..اہل السنہ والجماعة.. سے وابستگی ظاہر کرتے ہوئے ہرایک نے اپنے آپ کو کتاب وسنت کا حامل وعلمبردار قراردیا۔ ان حالات میں اُن تمام باطل اورمنحرف جماعتوں اورمکاتب فکر سے امتیاز کے لیے اہلِ حق نے لفظ ..سلف.. کاانتخاب کرتے ہوئے اس کی طرف اپنی نسبت کی۔ مطلب یہ کہ جس طرح ..اہل السنہ والجماعة.. کی اصطلاح ایک ضرورت کے تحت ایجاد کی گئی تھی، اسی طرح ..سلف .. اور..سلفی .. کی اصطلاح بھی ایک ضرورت کے تحت ایجاد کی گئی ہے۔

اگر ہم اس حقیقت کوتسلیم کرتے ہیں کہ سلفیت یاسلفی دعوت کامفہوم خالص اسلام اورسنتِ نبوی کی دعوت ہے، اس اسلام کی طرف لوٹنے کی دعوت ہے جواسلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں لے کرآئے تھے اورجس کوصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ سے حاصل کیاتھا۔ اگرسلفیت کایہی مفہوم ہے۔ اورحقیقتاً یہی ہے بھیàتوسلفی دعوت حق ہے اوراس کی طرف نسبت کرنابھی حق ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ ..سلفی .. نسبت اختیار کرنے میں شرعی اعتبار سے کوئی قباحت نہیں ۔ ایسے شخص کے بارے میں جویہ کہتاہے : ..میں مذہب سلف.. پرہوں ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ت..ایسے شخص کومطعون نہیں کیاجائے گا جومذہب سلف کے التزام کوظاہر کرتاہے اورمذہب سلف کی طرف اپناانتساب کرتاہے ۔ اوراتفاق رائے سے اس کی بات کوقبول کیاجائے گا، کیونکہ سلفی مذہب حق ہے۔..

علامہ ذہبی نے بھی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے حالات کاتذکرہ کرتے ہوئے لکھاہے: .. ولقد نصر السنة المحضة والطریقة السلفیة، واحتج لھا ببراھین ومقدمات لم یسبق الیھا.. ..ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے سنتِ محضہ اورسلفی طریقہ کی حمایت کی، اوراس کے لیے ایسے دلائل اورمقدمات سے احتجاج کیا جوان سے پہلے کسی سے بھی بن نہ پڑے تھے۔.. [مقالات دائود غزنوی ، ص:255، 231]

ابن خلدون نے بھی قدیم علمائے متقدمین کے لیے ..العقائد السلفیة.. کالفظ کئی جگہ استعمال کیاہے۔ [مقدمہ ابن خلدون ، ص:496]
شیخ عبدالرحمن بن یحییٰ معلمی (1386ھ ) نے بھی اپنی کتاب .. القائد الی تصحیح العقائد.. (ص:47، 51، 55،119) میں ، محدث عصر علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے ..مختصر العلوم.. (ص:122) اور ..التوسل.. (ص:156) میں اورشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ نے .. تنبیہات ہامة علی ماکتبہ محمد علی الصابونی فی صفات اللّٰہ عزّوجل.. (ص:34، 35) میں ، اسی طرح اوردیگر اہل علم وفضل نے منہج سلف اورطریقۂ سلف پرگامزن لوگوں کے حق میں ..سلفی.. یا ..سلفیین..کی اصطلاح استعمال کی ہے۔

سعودی عرب کے ایک عالمِ دین ڈاکٹر عبداللہ بن صالح عبیلان اسی موضوع پر ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
..اس سلسلے میں سب سے پہلی بات جس کاجاننا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہم القاب کوباعث تقرب الی اللہ نہیں سمجھتے، ہم ..اہل السنہ والجماعة .. کے لقب کواس لیے اہمیت دیتے ہیں کہ ہمارے سلف صالح نے اس اصطلاح کواہمیت دی ہے اورحقیقت میں وہی (اہل حق کی) جماعت ہے۔ اس لیے جوانہوں نے کہا وہی تم بھی کہو۔ جس سے وہ باز رہے، تم بھی باز رہو۔ انہوں نے اس نام کومستحن قراردیا، اوردیکھاکہ یہ نام ان کومبتدعہ اورگمراہ لوگوں سے الگ کرتاہے ۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اورقرآن میں بھی یہی کہاگیاہے : .. ھوسماکم المسلمین من قبل وفی ھذا ..

بالکل یہی معاملہ لفظ..سلف.. ..سلفی.. اور..سلفیون.. کابھی ہے۔اگرہم اپنے آپ کو سلفی کہتے ہیں توبوقت ضرورت دوسروں سے تمیز کے لیے ، جس طرح اللہ رب العزت نے انصار کو ..انصار.. لفظ سے ممتاز کیا اورمہاجرین کو ..مہاجرین.. لفظ سے۔ اوراس تمیز پروہ راضی ہوا ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انصار اورمہاجردونوں ایک ہی امت تھے اورسب کے سب مسلمان تھے۔ معلوم ہواکہ اگرہم کوتمیز کی ضرورت پیش آئے تو اپنے آپ کو ..سلفی.. لفظ کے لقب سے ممتاز کرسکتے ہیں ۔ [مجلہ الفرقان ، الکویت، مجریہ بابت شوال 1417ھ ، شمارہ 83، ص:27]


سلفیت کی ابتداء:
اس لفظ کا استعمال بطور اصطلاح ، ..اہل السنة والجماعة.. کی طرح نیاہے۔ جس ضرورت کے پیش نظر ..اہل السنہ والجماعة.. کی اصطلاح وجود عمل میں آئی، اسی ضرورت کے تحت ..سلفیت.. کاوجود بھی ظہور پذیرہوا۔ لیکن یہ اصطلاح کب وجود میں آئی؟ اس کی تحدید اورتعیین قدرے مشکل ہے۔ لیکن اتناطے ہے کہ یہ بھی قدیم اصطلاح ہے۔ اس کوعصر حاضر کی پیداوار بتلانا، یاشیخ محمدبن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی اصلاحی تحریک سے مربوط کرنا ،یامغربی استعمار سے منسلک کرنا قطعاً غلط ہے۔ یہ ایک قدیم اصطلاح ہے اورزمانہ قدیم سے اس نام سے ایک جماعت کاوجود رہاہے۔ ے علامہ سمعانی (562ھ) نے اس اصطلاح کاذکر اپنی کتاب ..الانساب .. (7273) میں کیاہے ۔ علامہ ابن کثیر(630ھ )نے بھی ..اللباب (2126) میں لکھاہے کہ ..اس نسبت سے ایک جماعت معروف ہے۔یہ تواپنی جگہ طے ہے کہ کم سے کم علامہ سمعانی کے زمانہ 562ھ میں یااس سے پہلے سلفیوں کی جماعت موجود تھی۔ کچھ لوگوں کایہ کہنا ہے کہ سعودی عرب اوردیگر خلیجی ممالک سے دولت کے حصول کی غرض سے ہندوستان کے اہل حدیثوں نے بھی سلفیت کا لبادہ کرنے کے بہت پہلے سے اورجبکہ پٹرول ڈالر کی چمک دمک ابھی پردۂ خفا میں تھی، یہ لفظ مستعمل ہوچکاتھا۔ مولاناعبدالعزیز رحیم آبادی رحمہ اللہ نے 1336ھ مطابق 1918ء میں دربھنگہ میں ..مدرسہ سلفیہ.. کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا۔ پھرجب ..مدرسہ احمدیہ.. آرہ مولانا عبداللہ غازی پوری رحمہ اللہ کے دہلی چلے جانے کے بعد بے رونق ہوگیا، توعظیم آبادی نے اسے دربھنگہ منتقل کرکے مدرسہ سلفیہ میں ضم کردیا اوراس کانام ..دارالعلوم احمدیہ سلفیہ.. دربھنگہ رکھا۔ ..سلفیہ.. کے اضافے کاسبب احمدیوں (مرزائیوں ) سے اشتباہ کودور کرناتھا۔[تحریک اہل حدیث تاریخ کے آئینے میں ، ص:492]
اسی طرح دربھنگہ میں ہی ڈاکٹر محمدفرید رحمہ اللہ نے 1933ء میں ..مطبع سلفی.. دربھنگہ کے نام سے ایک پریس قائم کیاتھا ۔ جس میں دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کاترجمان..ماہنامہ مجلہ سلفیہ.. چھپتاتھا، جو اب ..الھدی.. کے نام سے جاری ہے۔

عربی زبان کے نامور ادیب مولانا عبدالعزیز میمنی ۱۹۷۸ء اپنی نسبت ..سلفی اثری.. لکھاکرتے تھے، جیساکہ ان کی مختلف تالیفات میں دیکھاجاسکتاہے۔ ان کی طباعت کی نوبت1342ھ ، 1343 اور1345ھ میں آئی، جبکہ مضامین بہت پہلے کے لکھے ہوئے تھے۔ کیاان کے بارے میں کہاجاسکتاہے کہ انہوں نے بھی سلفی نسبت کسی مقصد کے حصول کی خاطر اختیار کی تھی؟

شہر بنارس میں مقیم ریاست ٹونک کے جید عالم دین ، صاحب علم وفضل مولاناعبدالکریم (1886ء ) اپنے لیے ..سلفی .. نسبت اختیار کیے ہوئے تھے۔ موصوف سید احمد شہید کے تربیت یافتہ اوراسماعیل شہید (رحمہم اللہ) کے شاگرد تھے۔ 1886ء میں بنارس میں وفات پائی۔

مولانا محمداسماعیل رحمہ اللہ گوجرانوالہ (1968ء) بھی سلفی نسبت کرتے تھے۔
مولاناعبدالحق محدث بنارسی <1286ھ > بھی سلفی نسبت کرتے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کانام ..مسلمین .. رکھاہے ۔.. ھوسماکم المسلمین.. اس کے باوجود انہیں مومنین، قانتین، صابرین، عابدین، ساجدین جیسے صفاتی ناموں سے پکاراہے۔؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دونام ہیں محمد اوراحمد۔ پھربھی آپ کو بشیر، نذیر،سراج منیر، وغیرہ صفاتی ناموں سے یاد کیا۔ بہرحال مختلف اوقات میں یاایک ہی وقت میں مختلف نام والقاب اختیار کرلینے سے شریعت میں کسی قسم کی مخالفت لازم نہیں آتی۔ یہی حال ..محمدی.. ..اہل الحدیث.. اور..اہل الاثر.. جیسے القاب کابھی ہے۔
 
Top