ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 512
- ری ایکشن اسکور
- 167
- پوائنٹ
- 77
سلف نے منکرین حدیث کی مذمت کی ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلف رضوان اﷲ علیہم ان لوگوں کی شدید مذمت کرتے تھے جو اپنی آراء یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے احادیث کا انکار کرتے ہیں بلکہ سلف تو ایسے لوگوں سے تعلق ہی ختم کردیتے تھے حدیث کی تعظیم وتوقیر کی خاطر جیسا کہ مسلم میں سالم بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
((لاتمنعوا نساء کم المساجد اذا استأذنتکم الیھا)) ’’اپنی عورتوں کو مسجد جانے سے مت روکو جب وہ تم سے اجازت مانگیں تو بلال بن عبداﷲ رحمہ اﷲ نے کہا ۔(واﷲ لنمنعھن) ’’اﷲ کی قسم ہم تو ان کو روکیں گے‘‘ سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ ان کی طرف متوجہ ہوئے انہیں بہت برا بھلا کہا اتنا کہ میں نے انہیں کبھی ایسا کہتے نہیں سنا تھا اور پھر کہا کہ میں تمہیں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث سنا رہا ہوں اور تو کہہ رہا ہے کہ ہم روکیں گے؟‘‘
بخاری ومسلم میں ہے کہ عبداﷲ بن مغفل رضی اﷲ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کنکریاں مار رہا تھا تو عبداﷲ رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے کنکریاں مارنے سے منع کیا ہے یا اسے ناپسند کیا ہے اس لیے کہ اس سے نہ تو شکار کیا جاسکتا ہے نہ دشمن کو مارا جاسکتا ہے۔ سوائے اس کے کہ کسی کی آنکھ پھوڑی جائے یا دانت توڑ دیا جائے اس کے بعد دوبارہ اس شخص کو کنکریاں مارتے دیکھا تو عبداﷲ رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ میں تمہیں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے بارے میں بتا رہا ہوں کہ وہ کنکریاں مارنے سے منع کرتے تھے یا ناپسند کرتے تھے اور تم پھر بھی کنکریاں مارہے ہو ۔میں تم سے اتنی مدت تک بات نہیں کروں گا۔
بخاری میں زبیر بن عربی رحمہ اﷲ سے روایت ہے کہتے ہیں : ایک شخص نے ابن عمر رضی اﷲ عنہ سے سوال کیا حجر اسود کو چھونے کا ابن عمر رضی اﷲ عنہ نے کہا میں نے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ اس کو ہاتھ لگاتے تھے اور بوسہ دیتے تھے اس شخص نے کہا اگر بھیڑ ہو اور مجھے موقع نہ مل سکے تو ابن عمر رضی اﷲ عنہ نے کہا یہ اگر مگر یمن میں ہی رکھو میں نے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے ۔
ابن حجر رحمہ اﷲ ’فتح الباری‘ میں کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اﷲ عنہ نے اس کو یہ جو کہا کہ اگر مگر یمن میں ہی رکھو تو یہ اس لیے کہا کہ آپ رضی اﷲ عنہ کو اس شخص کی باتوں سے حدیث سے اعراض کا پتہ چل رہا تھا اس لیے ابن عمر رضی اﷲ عنہ نے اس بات کو ناپسند کیا اور اس شخص کو حکم دیا کہ جب حدیث سن لو تو اسے اپناؤ اور اپنی رائے کو چھوڑ دیا کرو۔
ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے ایک مرتبہ حدیث سنائی تو لوگوں نے ابو بکر رضی اﷲ عنہ اور عمر رضی اﷲ عنہ کا قول اس حدیث کے خلاف پیش کردیا ۔ ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے کہا کیا بات ہے کہ تم باز نہیں آتے جب تک کہ اﷲ تم پر عذاب نہ نازل کردے؟ میں تمہیں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث سنا رہا ہوں اور تم ہمیں ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنہما کی بات بتا رہے ہو؟
علامہ سلیمان بن عبداﷲ بن محمد بن عبدالوہاب رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:
کہ جب ابن عباس رضی اﷲ عنہ ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنہما جیسے اشخاص کے قول کے بارے میں یہ فرما رہے ہیں تو پھر اس شخص کو کیا کہا جائے گا جو اپنے امام کے قول کی وجہ سے یا اپنے مذہب کی بنا پر حدیث کو چھوڑ رہا ہو امام کے قول کو حدیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے پرکھنے کے لئے معیار بنا رہا ہو جو حدیث امام کے قول کے موافق ہو اسے لے رہا ہو اور جو مخالف ہو اسے چھوڑ رہا ہو ؟ ایسے شخص کے بارے میں ہم اﷲ کا یہ قول ہی پیش کرسکتے ہیں۔
اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ (التوبۃ: ۳۱)
’’ان لوگوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو رب بنالیا ہے اﷲ کو چھوڑ کر‘‘۔
(تیسیر العزیز الحمید: ۵۴۴ ، ۵۴۵)
ابو السائب رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:
کہ ہم ایک مرتبہ وکیع رحمہ اﷲ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے ایک آدمی کو مخاطب کرکے کہا (جو اہل الرائے میں سے تھا) کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے شعار کیا ہے (چھری یا کسی نوکدار چیز سے اونٹ یا قربانی کے جانور کو زخمی کرکے نشان لگانا کہ یہ بیت اﷲ کے لئے وقف ہے) اور ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ مثلہ ہے ؟ (مثلہ کہتے ہیں جنگ میں دشمن کے کسی آدمی کے ہاتھ پاؤں، کان، ناک کاٹنا اس سے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع کیا ہے) اس شخص نے جواب میں کہا کہ ابراہیم نخعی رحمہ اﷲ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں شعار مُثلہ ہے۔ ابو السائب رحمہ اﷲ کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ وکیع رحمہ اﷲ کو سخت غصہ آیا اور اس شخص سے کہا کہ میں تمہیں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان سنا رہاہوں اور تم کہتے ہو کہ ابراہیم نخعی رحمہ اﷲ نے کہا ہے ؟ تم اس بات کے مستحق ہو کہ تمہیں اس وقت تک قید میں رکھا جائے جب تک تم اپنے اس قول سے رجوع نہ کرلو۔
(جامع الترمذی : ۳/۲۵۰، والفقیہ والمتفقہ : ۱/۱۴۹)
(آج کے دور میں بہت سے لوگ ہیں جو قید کیے جانے کے قابل ہیں۔ اس لیے کہ جب انہیں حدیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سنائی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ فلاں عالم نے اس طرح کہا ہے، فلاں نے یہ فتوی دیا ہے۔ یعنی ان کے نزدیک افراد ہی شریعت کے ماخذ ہیں) جو لوگ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے پر افراد واشخاص کے اقوال پیش کرتے ہیں ان کو قید کردینا چاہئے جب تک کہ وہ اپنی روش سے توبہ نہ کرلیں۔
ابو یعلی رحمہ اﷲ نے (طبقات الحنابلہ :۱/۲۵۱) میں فضل بن زیاد رحمہ اللہ کے بارے میں لکھا ہے وہ امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ سے نقل کرتے ہیں کہ ابن ابی ذئب رحمہ اﷲ کو خبر ملی کہ امام مالک رحمہ اﷲ ’’البیعان بالخیار‘‘ والی حدیث نہیں لیتے ، تو ابن ابی ذئب رحمہ اﷲ نے کہا کہ ان سے توبہ کروائی جائے اگر توبہ نہیں کرتے تو ان کی گردن کاٹ دی جائے (امام مالک رحمہ اﷲ نے حدیث رد نہیں کی تھی بلکہ اس کی تاویل کرکے دوسرا مطلب لیتے تھے)
سلف صالحین رحمہم اﷲ حدیث کی مخالفت کرنے والوں کی اس طرح مذمت کرتے تھے چاہے یہ مخالفت قیاس کی بناپر ہوتی یا استحسان واستصواب کے نام پر یا کسی عالم کے قول وفتوی کی وجہ سے ہوتی سلف رحمہم اللہ ایسے لوگوں سے ترک تعلق کرتے تھے جب تک کہ ایسے لوگ اپنے عمل سے رجوع نہ کرلیں، حدیث کو مکمل طور پر تسلیم کرکے اس کی پیروی نہ شروع کردیتے وہ اس شخص کو بھی ناپسند کرتے تھے جو اس بنا پر حدیث کو لیتے ہیں جب وہ قیاس کے موافق ہو یا کسی امام یا عالم کے قول وفتوی کے موافق ہو وہ تو اﷲ کے اس فرمان پر عمل پیرا تھے :
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ (احزاب: ۳۶)
’’جب اﷲ اور اس کا رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم) کسی امر کا حکم دیں تو پھر کسی مومن مرد یا مومنہ عورت کو اپنے معاملہ کا کوئی اختیار نہیں رہتا‘‘۔
دوسری جگہ اﷲ کا ارشاد ہے :
فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (النساء: ۶۵)
’’تیرے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے ۔ جب تک تجھے (اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم) اپنے تنازعات میں فیصل نہ مان لیں اور پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فیصلے سے اپنے دلوں میں تنگی محسوس نہ کریں اسے مکمل طور پر تسلیم کرلیں‘‘۔
مگر ہم اب ایسے دور میں جی رہے ہیں جب کسی سے کہا جاتا ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس طرح فرمایا ہے تو وہ کہتا ہے کس نے کہا ہے؟ یعنی یہ جاننا ہی نہیں چاہتا کہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا قول ہے خود کو بے خبر رکھ کر حدیث کی مخالفت یا اس پر عمل نہ کرنے کا بہانہ تلاش کرتا ہے حالانکہ ایسے لوگ اگر اپنے آپ سے مخلص ہوں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا اس طرح انجان بن کر حدیث پر عمل نہ کرنا باطل کی طرف جاتا ہے۔
اعلام الموقعین میں کسی عالم کا قول مذکور ہے جس نے کہا تھا کہ ہم حدیثِ رسول پر اس وقت تک عمل نہیں کریں گے جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس حدیث پر ہم سے پہلے کسی نے عمل کیا ہے اگر کسی کے پاس حدیث پہنچ گئی مگر اسے معلوم نہ تھا کہ اس پر کسی نے عمل کیا ہے (یا نہیں) تو اس کے لئے حدیث پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔ (اعلام الموقعین :۴/۲۵۴ ،۲۴۴)