عبدالرحیم رحمانی
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 22، 2012
- پیغامات
- 1,129
- ری ایکشن اسکور
- 1,053
- پوائنٹ
- 234
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله رب العالمين، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لاشريك له و أشهد أن محمدا عبده و رسوله صلى الله عليه و على آله و أصحابه أجمعين أمابعد:کسی فرد بشر سے مخفی نہیں کہ جوانی انسانی زندگی کا سب سے سنہرا اور قیمتی مرحلہ ہے جس میں اعضاء قوی ،حواس سلامت اور بدن قوت، چستی اور پھرتی سے لبریز ہوتا ہے ،جبکہ بڑھاپے میں اعضاء و جوارح کی یہی قوت اور بدن کی یہ چستی و پھرتی جاتی رہتی ہے ، اسی لئے اسلام نے جوانی کے مرحلے کا خصوصی اہتمام اور عظیم رعایت کی ہے ،چنانچہ ہمیں قرآن و سنت میں کہیں نہایت پر زور انداز میں اس مرحلے کی عظمت ،مکانت اور اہمیت دیکھنے کو ملتی ہے ،تو کہیں نبی ﷺ جامع کلمات سے اس مرحلے کے بہترین استعمال پر ابھارتے نظر آتے ہیں اور کہیں اس کے ضیاع اور بے جاءوغلط استعمال سے منع کرتے اور اسے برباد کرنے سے ڈراتے دکھائی دیتے ہیں۔
حضرت عبداللہ ابن عباسwسے مروی ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :پانچ چیزوں کا پانچ چیزوں کی آمد سے پہلے خوب فائدہ اٹھا لو ، جوانی کا بڑھاپے سے پہلے ، صحت کا بیماری سے،مالداری کا فقر سے،فرصت و فراغ کا مشغولیت سے اور زندگی کا موت سے پہلے فائدہ اٹھالو ۔ ([1])
واضح رہے کہ جوانی کا مرحلہ آپ ﷺ کے فرمان “وحياتك قبل موتك ” میں داخل تھا لیکن اس کی عظمت و اہمیت کے پیش نظر جناب رسول اللہ ﷺ نے خصوصی طور پر اسے علاحدہ ذکر فرمایا ۔ اس لئے نہایت ہی بیداری کے ساتھ اسے گزارنا چاہئے اور اس کے تئیں ذرہ برابر بھی غفلت نہیں برتنی چاہئے ۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود t سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : کسی بھی آدمی کے قدم اپنے رب کے سامنے سے اس وقت تک نہیں ہٹ سکتے جب تک اس سے پانچ چیزوں کی باز پرس نہ کرلی جائے ، اس کی عمر سے متعلق کہ اس نے اسے کہاں اور کن کاموں میں گنوایا، اور اس کی جوانی سے متعلق کہ اسے کن کاموں میں گزارا، اور اس کے مال سے متعلق کہ اسے کہاں سے کمایا اور کن کاموں میں خرچ کیا اور کتنا سیکھا اوراس پر کہاں تک عمل کیا۔ ([2])
واضح رہے کہ نبی کریم ﷺ نے مذکورہ بالا حدیث میں بتایا ہے کہ بروز قیامت انسان سے اس کی زندگی کے متعلق دو سوالات ہونے ہیں:پہلا سوال اس کی اول تا آخر مکمل زندگی سے متعلق ہوگا ،جب کہ دوسرا سوال خصوصاً اس کی جوانی کے بارے میں پوچھا جائے گا ،حالانکہ یہ مرحلہ بھی مکمل زندگی سے متعلق سوال میں داخل ہے ، لیکن پھر بھی اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے انفرادیت دی گئی، اسی لئے نوجوانوں کو اس مرحلے کی اہمیت نہیں بھولنی چاہئے اور ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ رب العالمین ساری زندگی کے کاموں کے ساتھ اس مرحلے میں کئے جانے والے کاموں کے متعلق خصوصی طور پر عنقریب باز پرس فرمائے گا ، کیونکہ یہ قوت و نشاط اور سرعت و سہولت کا زمانہ ہے ،اعضاء کی تونگری و توانائی اور جوارح کی مضبوطی و پختگی کا مرحلہ ہے ،جی ہاں اسی لئے جناب رسول اللہ ﷺ نے نوجوانوں کو اس مرحلے سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی ترغیب دی ہے ،ساتھ ہی آپ ﷺ نے علماء و مربین اور دعاۃ و مبلغین کو نوجوانوں کے تئیں خصوصی تر بیت کی وصیت بھی کی ہے، اس لئے کہ جہاں نوجوان ایک طرف اپنی بہترین تربیت کے لئے تووہیں دوسری طرف خودکوباطل پرستوں اور شہوت رانوں کے مکٹر جالوں اور شیطانی جھانسوں سے بچانے کے لئے عنایت و اہتمام چاہتے ہیں ،نرمی وملاطفت اور قربت و محبت کے طلبگار ہوتے ہیں ،خیر کی طرف رغبت دلانے اور اہل خیر کے قریب لانے والے قلوب ، السنہ ،اقلام اور افراد چاہتے ہیں ۔
اسی لئے ہم صحابۂ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو عظمت جوانی کے ان جلیل معانی کو عملی جامہ پہناتے اور دیرینہ خوابوں کو شرمندۂتعبیر کرتے دیکھتے ہیں ،چنانچہ ابو سعید خدری t جب بھی جوانوں کو مجالس ِعلم کی طرف آتا دیکھتے تو خوشی سے یوں گویا ہوتے کہ رسول اللہ ﷺ کے وصیت کردہ افراد کو خوش آمدید ہو ،یقینا رسول اللہ ﷺ نے ہمیں آپ کے لئے مجالس کو کشادہ کرنے اور آپ کوحدیثیں سکھانے و سمجھانے کی وصیت کی ہے، کیونکہ آپ ہمارے علمی جانشین اور ہمارے بعد اہل حدیث کہلاؤ گے ۔
اور آپ نوجوانوں کی طرف خصوصی توجہ کچھ اس انداز سے فرماتے کہ اے میرے بھتیجے جب جب تم کسی مسئلہ میں شک و تردد کا شکار ہو تو مجھ سے ضرور پوچھ لیا کرو اور ایسا اس تک کیا کرو تاآں کہ تمہیں اس مسئلہ میں یقین حاصل نہ ہوجائے اس لئے کہ تمہارا دولت یقین سے مالا مال ہو کر لوٹنا شک و تردد کی حیرانگیاں لے کر لوٹنے سے میرے نزدیک زیادہ بہتر ، محبوب اور پسندیدہ ہے ([3])
حضرت عبداللہ ابن مسعود t جب نوجوانوں کو علم حاصل کرتے دیکھتے تو مارے خوشی کے فرماتے کہ بوسیدہ کپڑے، پر صاف و شفاف دل والے ،گھروں کے ٹاٹ، پر قبیلےکے مہکتے پھول شمار ہونے والے علم و حکمت کے سر چشموں اور تاریکیوں کے روشن چراغوں کو خوش آمدید ہو ۔([4])
سلف نے نوجوانوں کو نہ صرف خوب خوب وصیتیں کی ہیں بلکہ اس مرحلے کے سپوتوں کے تئیں ان کے اہتمام اور اعتناء کی مثالیں ایک عظیم باب کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ جو رسالہ بعنوان “سلف کا وصیتی پیغام نوجوانان ملت کے نام” آپ اپنے ہاتھوں میں دیکھ رہے ہیں اس میں سلف کے اسی اہتمام کی چند مثالیں انتہائی بسیط تعلیق کے ساتھ میں نے ذکر کرنے کی کوشش کی ہے ۔([1]) مستدرک حاکم،ح:7846 ۔شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسےصحیح الجامع ح :1077 پرصحیح کہا ہے۔
([2]) ترمذی، ح: 2416 شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیاہے ،سلسلۃ الصحیحۃ :ح :946
([3])شعب الایمان :امام بیہقی رحمہ اللہ: اثرنمبر:1610
([4])جامع بیان العلم وفضلہ:ابن عبدالبر رحمہ اللہ:اثرنمبر:256
Last edited by a moderator: