- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,592
- پوائنٹ
- 791
سلف کون ہيں؟
سلفی یعنی سلف سے منسوب
سلف یہ خلف کی ضد ہے یعنی اگلے لوگ، اور خلف بعد میں آنے والوں کو کہا جاتا ہے
اصطلاح ميں سلف صحابہ و تابعين رضوان اللہ عنھم اجمعين اور تبع تابعين کو کہا جا تا ہے؛
سلفی یعنی سلف سے منسوب
سلف یہ خلف کی ضد ہے یعنی اگلے لوگ، اور خلف بعد میں آنے والوں کو کہا جاتا ہے
اصطلاح ميں سلف صحابہ و تابعين رضوان اللہ عنھم اجمعين اور تبع تابعين کو کہا جا تا ہے؛
حافظ ابو سعدعبدالکریم بن محمد السمعانیؒ (متوفی ۵۶۲ھ) نے سلفی کے بارے میں کہا : یہ سلف کی طرف نسبت ہے ۔ (الانساب ۲۷۳/۳)
حافظ ذہبیؒ نے کہا : (سلفی اسے کہتے ہیں) جو سلف کے مذہب پر ہو ۔ (سیر اعلام النبلاء ۶/۲۱)
حافظ ابن تیمیہؒ نے فرمایا:“لا عیب من أظھر مذھب السلف و انتسب إلیہ و اعتزی إلیہ بل یجب قبول ذلک منہ بالإتفاق فإن مذھب السلف لا یکون إلا حقًا“‘‘
یعنی جو شخص سلف کا مذہب ظاہر کرے اور سلفیت کی طرف نسبت کرے تو اس پرکوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ ایسے شخص کے اعلان کو قبول کرنا بالاتفاق واجب ہے کیونکہ سلف کا مذہب حق ہی ہے ۔ (مجموع فتاویٰ ۱۴۹/۶)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلف یعنی اس امت کے پہلے دور کے لوگ جنہیں سلف کہا جاتا ہے چونکہ ان کی ایمانی حالت کی تعریف احادیث میں وارد ہے ،جیسے مشہور حدیث میں فرمایا :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَجِيءُ أَقْوَامٌ تَسْبِقُ شَهَادَةُ أَحَدِهِمْ يَمِينَهُ، وَيَمِينُهُ شَهَادَتَهُ» صحيح بخاري ،کتاب الشہادات )
عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بيان کيا کہ نبي کريم ﷺ نے فرمايا ” سب سے بہتر ميرے زمانہ کے لوگ ہيں ، پھر وہ لوگ جو اس کے بعد ہوں گے ، پھر وہ لوگ جو اس کے بعد ہوں گے اور اس کے بعد ايسے لوگوں کا زمانہ آئے گا جو قسم سے پہلے گواہي ديں گے اور گواہي سے پہلے قسم کھائيں گے “
اسلئے دین میں انکی نسبت سے سلفی کہاجاتا ہے ، یعنی سلف کے عمل و عقیدہ کو معیاری
تسلیم کرنے والے ، اور سلف کی طرح قرآن و سنت کو بغیر کسی تعصب قبول کرنے والے ‘‘ اور خود نبی مکرم ﷺ نے اختلاف کے ادوار میں سنت اور راہ صحابہ کی پیروی اختیار کرنے کو ۔۔ حق کا معیار ۔۔ قرار دیا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بني إسرائيل حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ، وَإِنَّ بني إسرائيل تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً»، قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي»:
سنن الترمذي ،مَا جَاءَ فِي افْتِرَاقِ هَذِهِ الأُمَّةِ
... سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہيں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا : ” ميري امت کے ساتھ ہو بہو وہي صورت حال پيش آئے گي جو بني اسرائيل کے ساتھ پيش آ چکي ہے ، (يعني مماثلت ميں دونوں برابر ہوں گے) يہاں تک کہ ان ميں سے کسي نے اگر اپني ماں کے ساتھ اعلانيہ زنا کيا ہو گا تو ميري امت ميں بھي ايسا شخص ہو گا جو اس فعل شنيع کا مرتکب ہو گا ، بني اسرائيل بہتر فرقوں ميں بٹ گئے اور ميري امت تہتر فرقوں ميں بٹ جائے گي ، اور ايک فرقہ کو چھوڑ کر باقي سبھي جہنم ميں جائيں گے ، صحابہ نے عرض کيا : اللہ کے رسول ! يہ کون سي جماعت ہو گي ؟ آپ نے فرمايا : ” يہ وہ لوگ ہوں گے جو ميرے اور ميرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے “سنن الترمذی
حافظ ذہبیؒ نے کہا : (سلفی اسے کہتے ہیں) جو سلف کے مذہب پر ہو ۔ (سیر اعلام النبلاء ۶/۲۱)
حافظ ابن تیمیہؒ نے فرمایا:“لا عیب من أظھر مذھب السلف و انتسب إلیہ و اعتزی إلیہ بل یجب قبول ذلک منہ بالإتفاق فإن مذھب السلف لا یکون إلا حقًا“‘‘
یعنی جو شخص سلف کا مذہب ظاہر کرے اور سلفیت کی طرف نسبت کرے تو اس پرکوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ ایسے شخص کے اعلان کو قبول کرنا بالاتفاق واجب ہے کیونکہ سلف کا مذہب حق ہی ہے ۔ (مجموع فتاویٰ ۱۴۹/۶)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلف یعنی اس امت کے پہلے دور کے لوگ جنہیں سلف کہا جاتا ہے چونکہ ان کی ایمانی حالت کی تعریف احادیث میں وارد ہے ،جیسے مشہور حدیث میں فرمایا :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَجِيءُ أَقْوَامٌ تَسْبِقُ شَهَادَةُ أَحَدِهِمْ يَمِينَهُ، وَيَمِينُهُ شَهَادَتَهُ» صحيح بخاري ،کتاب الشہادات )
عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بيان کيا کہ نبي کريم ﷺ نے فرمايا ” سب سے بہتر ميرے زمانہ کے لوگ ہيں ، پھر وہ لوگ جو اس کے بعد ہوں گے ، پھر وہ لوگ جو اس کے بعد ہوں گے اور اس کے بعد ايسے لوگوں کا زمانہ آئے گا جو قسم سے پہلے گواہي ديں گے اور گواہي سے پہلے قسم کھائيں گے “
اسلئے دین میں انکی نسبت سے سلفی کہاجاتا ہے ، یعنی سلف کے عمل و عقیدہ کو معیاری
تسلیم کرنے والے ، اور سلف کی طرح قرآن و سنت کو بغیر کسی تعصب قبول کرنے والے ‘‘ اور خود نبی مکرم ﷺ نے اختلاف کے ادوار میں سنت اور راہ صحابہ کی پیروی اختیار کرنے کو ۔۔ حق کا معیار ۔۔ قرار دیا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بني إسرائيل حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ، وَإِنَّ بني إسرائيل تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً»، قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي»:
سنن الترمذي ،مَا جَاءَ فِي افْتِرَاقِ هَذِهِ الأُمَّةِ
... سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہيں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا : ” ميري امت کے ساتھ ہو بہو وہي صورت حال پيش آئے گي جو بني اسرائيل کے ساتھ پيش آ چکي ہے ، (يعني مماثلت ميں دونوں برابر ہوں گے) يہاں تک کہ ان ميں سے کسي نے اگر اپني ماں کے ساتھ اعلانيہ زنا کيا ہو گا تو ميري امت ميں بھي ايسا شخص ہو گا جو اس فعل شنيع کا مرتکب ہو گا ، بني اسرائيل بہتر فرقوں ميں بٹ گئے اور ميري امت تہتر فرقوں ميں بٹ جائے گي ، اور ايک فرقہ کو چھوڑ کر باقي سبھي جہنم ميں جائيں گے ، صحابہ نے عرض کيا : اللہ کے رسول ! يہ کون سي جماعت ہو گي ؟ آپ نے فرمايا : ” يہ وہ لوگ ہوں گے جو ميرے اور ميرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے “سنن الترمذی