عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلمان تاثیر کے قتل سے پیدا ہونیوالے سوالات
ڈاکٹر حافظ حسن مدنی
4 جنوری 2011ء کی شام 5 بجے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو اسلام آباد میں قتل کردیا گیا۔قتل کے فوراً بعد گرفتار ہونے والے ممتاز قادری کا موقف یہ تھا کہ اس نے یہ قتل خالصتاً ذاتی نیت اور اِرادے سے کیا ہے، اور سلمان تاثیر کو قتل کرنے کی وجہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ اس نے ’قانونِ امتناع توہین رسالت‘ کو ’کالا قانون‘ کہا اور توہین رسالت کے مجرموں کی تائید اور پشت پناہی کی۔ نئے عیسوی سال کے آغاز پر اس اہم ترین واقعہ نے دنیا بھر کو پاکستان کی طرف متوجہ کردیا اور اندرون وبیرونِ ممالک بڑی تکرار سے کہا جانے لگا کہ پاکستانی معاشرہ انتہاپسندی کی طرف مائل ہے۔ اس معاشرے سے برداشت اور رواداری ختم ہوتی جارہی ہے۔ کیا محض کسی ایک مظلوم عورت کی تائید کردینا اتنا بڑا جرم ہے کہ ایسا کرنے والے کو جینے کے حق سے محروم کردیا جائے؟ اگر کوئی شخص کسی قانون کے بارے میں مخالفانہ رائے رکھتا او راس پر شدید تنقید کرتا ہے تو دلیل واستدلال سے اس کا جواب دینے کی بجائے بندوق اورگولی کی زبان سے اس کا خاتمہ کیوں کردیا جاتا ہے؟ ڈاکٹر حافظ حسن مدنی
سلمان تاثیرکے اس سنگین قتل نے ملک بھر میں ایک نظریاتی جنگ کو شروع کردیا اور ٹی وی واخبارات پر موجود جدت پسند طبقہ نے بہانے بہانے سے اس قتل کے خلاف طرح طرح کے سوالات پیدا کئے۔ روا داری کی ہر دم دوسروں کو تلقین کرنے والا یہ طبقہ اس موقعہ پر شدید عدم برداشت کا مظاہرہ کرتا نظر آیا، اور اپنی تحریروں میں بالخصوص انہوں نے جو زبان استعمال کی اور جیسے الزامات دہرائے، اس سے ان کی عدم برداشت کا پول کھل گیا۔ بعض ایسے بھی تھے جو اس معاملے کی سنگینی محسوس کرکے عذرآرائیاں کرنے لگے جبکہ انگریزی میڈیا کے بعض انتہا پسندوں نے عبرت نہ پکڑتے ہوئے توہین رسالت کے قانون کو تکرار سے سیاہ قانون بلکہ ’ڈریکولین لاء‘ کہنے کی جسارتیں بھی کیں۔
پاکستان میں یہ ایک محدود مگر متحرک وبااثر اقلیت کا رد عمل تھا جو اِن سطور میں بیان کیا گیا ، دوسری طرف بیشتر عوام الناس نے نہ صرف اس قتل کو سراہا، بلکہ قتل کرنے والے ممتاز قادری کو پھولوں کےہار بھی پیش کئے۔ سینکڑوں وکلا نے عدالت میں پیشی کے موقع پر اس کے حق میں نعرہ بازی کی، پشاور کے تین سو وکلا نے اس کا کیس مفت لڑنے کی پیش کش کی، راولپنڈی اور اسلام آباد بار نے ممتاز قادری کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ کراچی میں تحریک ناموسِ رسالت کی کال پر عوام الناس کے ایک سیل رواں نے عظیم الشان ریلی نکالی۔ ممتاز قادری کے والد کی رہائی کے موقع پر ہزاروں لوگوں نے ان کا ایسا شاندار استقبال کیا کہ تاحد نگاہ افراد ہی افراد دکھائی دیتے تھے۔ اس کے علاوہ 36 دینی وسماجی جماعتوں نے لاہور میں 30 جنوری کو ریلی اور عظیم احتجاجی جلسہ کیا۔
اب جب کہ اس وقوعہ قتل پر کئی روز گزرچکے ہے، توجذبات اور ردعمل سے مغلوب ہونے کی بجائے اس امر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ایک طرف اس موقعہ پر سیکولر لابی کی طرف سے اُٹھائے جانے والے اعتراضات کا جائزہ لیا جائے تو دوسری طرف سلمان تاثیر کے قتل اور ممتاز قادری کے اقدام کے بارے میں اسلامی شریعت سے رہنمائی لی جائے کہ اسلام ایسا معتدل ومتوازن دین اس اہم قانونی مرحلہ پر ہماری کیا رہنمائی کرتاہے؟ زیرنظر مضمون میں اُن اعتراضات وشبہات کو موضوع بنایا گیا ہے جو میڈیا پر بطورِ خاص ان دنوں اس واقعہ کے حوالہ سے نمایاں ہوئے: