کیاسلمان تاثیر نے ایک قانون کوہی ’کالا قانون‘ قرار دیا تھا؟
اخبارات میں سیکولر دانشور اور ٹی وی کے اینکر پرسن بڑی تکرار سے یہ بات دہرا رہے ہیں کہ سلمان تاثیر نے کالا قانون تو محض ایک پاکستانی قانون کو قرار دیا تھا، شریعت اسلامیہ کو تو نعوذ باللہ کالا قانون نہیں کہا تھا۔
سلمان تاثیر کا قانون توہین رسالت کے بارے جو رویہ تھا، اور آسیہ مسیح کی صفائی کے بارے جو موقف تھا، وہ اخبارت میں تکرار سے شائع ہوتا رہا ہے۔ ان کی رو سے سلمان نہ صرف اس قانون کو ’کالا قانون‘ قرار دیتے رہے بلکہ علماے کرام کے بارے میں بھی یہ کہتے کہ ’’میں ان کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں، ان کے فتووں کی ذرہ بھر پروا نہیں کرتا اور جو کہتا ہوں، اس پر دلی ایمان رکھتا ہوں۔‘‘سلمان تاثیر نے آسیہ مسیح کی بریت کے بارے میں 20 نومبر کو شیخوپورہ جیل میں کی جانے والی پریس کانفرنس میں توہین رسالت کے قانون کو تکرار کے ساتھ ’ظالمانہ قانون‘ بھی قرار دیا۔ان ہفوات کے بارے میں یہ نکتہ طرازی کرنا کہ یہ شریعت ِاسلامیہ کی توہین نہیں، بلکہ چند انسانوں کے بنائے ہوئے قانون کی توہین ہے، جس کی سنگین سزا نہیں ہوسکتی، ایک عذرِ لنگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔اوّل تو یہ پارلیمنٹ کی توہین ہے جس کا موقف جمہوری دعویٰ کے مطابق عوام الناس کی رائے سمجھا جاتا ہے۔ ان بیانات میں عوامی رائے کی تذلیل پائی جاتی ہے۔ یہ اس دستور اور قانون کی بھی توہین ہےجس کی پاسداری اور احترام کا حلف اٹھا کرہی گورنر جیسے اہم منصب پر فائز ہوا جاسکتا ہے۔گورنر جو کسی صوبے کا آئینی سربراہ ہے، وہ ملک کے نظام عدل کا محافظ ہوتا ہے۔ اگر وہ اس اہم منصب پر بیٹھ کر پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین اور نظامِ عدل کی توہین شروع کردے تو اس سے عوام میں کیسی قانون پسندی کو رواج ملے گا؟ جہاں تک 295 سی میں درج قانون توہین رسالت کی بات ہے جو صرف تین سطروں پر مشتمل ہے، تو یہ کوئی انسانی قانون نہیں بلکہ قرآن وسنت کا براہِ راست تقاضا اورشریعت کے عین مطابق ہے۔ اس کی اصلاح پہلے وفاقی شرعی عدالت کے فاضل جج صاحبان نےملک بھر کے جید علما ے کرام کی تفصیلی معاونت سے کی،پھرپاکستان کے دونوں ایوانوں نے 1992ء میں متفقہ منظوری دے کر اس پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔قانونِ امتناع توہین رسالت کا متن حسب ِذیل ہے:
’’جو کوئی الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا نقوش کے ذریعہ، یا کسی تہمت، کنایہ یا در پردہ تعریض کے ذریعے بلا واسطہ یا بالواسطہ رسول پاک حضرت محمد ﷺ کے پاک نام کی توہین کرے گا تو اسے موت کی سزا دی جائے گی اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہوگا۔‘‘
مذکورہ بالا قانون اسلامی تقاضوں کے عین مطابق ہے۔اس کو ’انسانی قانون‘ قرار دینا ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص نعوذ باللہ قرآنِ کریم کی توہین کرنے کے بعد کہے کہ میں نے تو اس کتاب کی توہین کی ہےجسے پرنٹنگ مشین نے چند سو صفحات پرشائع کیا تھا۔
شریعت کے متعدد احکام علما اورفقہاے کرام اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں ۔ کیاان احکام کا محض اس بنا پر انکار کردیا جائے کہ یہ ہو بہو قرآن یا رسول کریم ﷺکے اپنے الفاظ نہیں ہیں؟ ان حالات میں شریعت ِ اسلامیہ پر عمل کیسے کیا جائے؟ قرآن کے کسی حکم کو جب ہم اپنے الفاظ میں بولیں گے تو کیا محض اس بولنے کی بنا پر وہ قرآنی حکم نہیں رہ جائے گا۔
جب قانون توہین رسالت اور شریعتِ اسلامیہ کے مقصود ومدعا میں معمولی فرق بھی نہیں ہے ، اور ماضی میں جو معمولی فرق تھا، اس کو طویل عدالتی جدوجہد کے بعد رفع کردیا گیا ہے توپھر یہ دعویٰ کیا حقیقت رکھتا ہے کہ میں تو چند انسانوں کے بنائے ہوئے قانون کی مخالفت کررہا ہوں؟ پاکستان میں کسی قانون کو شریعت ِاسلامیہ کے عین مطابق کرنے کی جو زیادہ سے زیادہ ممکنہ اورمعیاری ترین صورت ہے، قانون توہین رسالت ان تمام معیارات کو سوفیصد پورا کرتا ہے۔اس کے بعد اس کو چند انسانوں کا قانون کہہ کر تختہ تمسخر و مذاق نہیں بنایا جاسکتا بلکہ اسے شریعت ِاسلامیہ کی ہی توہین قرار دیا جائے گا۔
کوئی مسلمان شریعت کے کسی ایک مسلمہ حکم کے انکار سے ہی دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، کجا یہ کہ شریعت کے کسی مسلمہ حکم کو’کالا قانون‘ کہہ کر اس کی توہین بھی کی جائے۔یہی وجہ ہے کہ سلمان تاثیر کے ان بیانات پر اخبارات میں شائع ہوچکا ہے کہ پاکستان کے علما کی اکثریت نے 30 نومبر کوہی اس کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دے دیا تھا۔
قانون توہین رسالت موجود ہے، ممتاز قادری کو عدالت سے رجوع کرنا چاہئے تھا
کہا جاتا ہے کہ ممتاز قادری کو اپنے تئیں کوئی سنگین اقدام کرنے سے بہتر تھا کہ وہ قانون کا سہارا لیتا اور اگر کہیں شرعاً کوئی زیادتی ہوئی ہے تو اس پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہئے تھا۔ جہاں تک ممتاز قادری کے سلمان تاثیر کو قتل کرنے کی بات ہے تو اس سلسلے میں ایک سے زیادہ رائے ہوسکتی ہیں، اور شریعتِ اسلامیہ میں بھی یہی واحد حل نہیں ہے کہ کوئی مسلمان اُٹھ کر سلمان تاثیر کو قتل کردیتا۔ تاہم عدالت سے رجوع کرکے آسیہ مسیح یا سلمان تاثیر کو توہین رسالت کی سزا دلوانے کا مطالبہ کرنے والے لوگ بھی خیالوں اور واہموں کی جنت میں رہتے ہیں۔ اوّل تو اُنہیں معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان کی تاریخ میں اس قانون کی تاریخ نفاذ 1992ء سے اَب تک توہین رسالت کے 986 کیس درج ہوئے ہیں، لیکن آج تک کسی کو توہین رسالت کی سزا نہیں ہوسکی۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کا ارتکاب ایسے ملعونوں کوکافرانہ قوتوں کی آنکھ کا تارا بنادیتا ہے، ان کو خصوصی پروٹوکول دیا جاتا اور کفر کا پورا طائفہ اپنا لاؤ لشکر لے کر اس کی حمایت میں کھڑا ہوجاتا ہے۔ایسے بدبختوں اور ان کے خاندانوں کوعیسائی مشنری ادارے اور مغربی این جی اوز سپانسر کرتے اور ان کے تحفظ کے لئےعالمی قوتوں کی مدد حاصل کرتے ہیں۔جیسا کہ پوپ کے حالیہ بیانات، آسیہ کے لئے دعا اور پاکستان پر دباؤ اس ملاقات کا نتیجہ ہیں جو وزیر اقلیتی اُمور شہباز بھٹی نے براہ راست ویٹی کن میں جاکر لابنگ اور جوڑتوڑ کے نقطہ نظر سے کی۔ ہماری عدالتیں بھی آغاز میں تو ان کو سزا دے لیتی ہیں، لیکن جونہی ان پر پریشر پڑتا ہے تو اعلیٰ عدالتوں کے لئے اپنے فیصلوں پر ڈٹے رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں 1994ء میں رحمت اور سلامت مسیح کا کیس بالکل واضح ہے، جن کو سیشن کورٹ سے سزائے موت کے بعد ہائیکورٹ میں اس کی اپیل کے مراحل اس سرعت سے طے کئے گئے اور اس کے فوراً بعد ان کو بیرونِ ملک جرمنی روانہ کردیا گیا کہ مزید کسی قانونی پیش قدمی کی گنجائش ہی باقی نہ رہی۔
جہاں تک سلمان تاثیر کی ممکنہ براہ ِ راست توہین رسالت اور اس کی سزا کا تعلق ہے تو یہ بھی یادر ہنا چاہئے کہ پاکستان کے دستور کی دفعہ 248 کی رو سے صدر، گورنر اور وزرا کو عدالتی باز پرس سےاستثنا حاصل ہے جو شریعت ِاسلامیہ کے سراسر خلاف ہے۔ جب اسلام کی مقدس ترین ہستی سید المرسلین محمدﷺ اور آپ کی محبوب بیٹی سیدہ فاطمہ الزہرا اور خلفاے راشدین کو عدالتی باز پرس سے کوئی استثنا حاصل نہیں تو پھر مسلمانوں کا ایک ذیلی حکمران کس بنا پر قانون سے بالا تر ہونے کا استحقاق حاصل کرتا ہے؟دراصل امتناعِ توہین رسالت کا حقیقی قانون نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیرمسلموں کی اہم ضرورت ہے۔اوّل تو اس قانون کے ذریعے نبی کریم ﷺکی اہانت اور دیگر مذاہب کی توہین ایک قابل سزا جرم بن جاتی ہے۔ ثانیاً، برصغیر کی ماضی قریب کے تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ اس قانون کی غیرموجوگی یا غیر مؤثر ہونے کے دوران قانون کو ہاتھ میں لے کر گستاخِ رسول کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ اس قانون کی عدم تاثیر مسلم عوام کو کسی گستاخ رسول کا خاتمہ خود کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ غاز ی علم الدین شہید کے ہاتھوں واصل جہنم ہونے والا لاہور کا راج پال ہو یا کراچی کا نتھو رام، اُن کا قتل انہی حالات میں ہوا جب یہ قانون موجود نہیں تھا۔اور سلمان تاثیر کے حالیہ قتل کے پیچھے بھی اس قانون کے غیرمؤثر ہونے کی بنیادی وجہ موجود ہے۔ یہی بات مجاہد ناموسِ رسالت جناب محمد اسمٰعیل قریشی ایڈووکیٹ نے اپنی کتاب میں بھی لکھی ہے :
’’قانون توہین رسالت ان تمام لوگوں کی زندگی کے تحفظ کی ضمانت ہے جن کے خلاف فردِ جرم ثابت نہ ہو۔ورنہ ماضی میں بھی مسلمان سرفروشوں نے ایسے موقعوں پر قانون کو ہاتھ میں لیا اور گستاخانِ رسول کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ اس قانون کے پاکستان میں نافذ ہونے کا فائدہ یہ ہوگا کہ ایسے ملزم کی سزا کا معاملہ افراد کے ہاتھوں کے بجائے عدالتوں کے دائرہ اختیار میں آگیا ہےجو تمام حقائق اور شہادتوں کابغور جائزہ لےکر جرم ثابت ہونے کے بعد ہی کسی ملزم کو مستوجب ِسزا قرار دے گی۔‘‘
جناب قریشی صاحب نے قانون سازی ہوجانے کے بعد اس امر کو پاکستان کے لئے خوش کن قرار دیا ہے لیکن دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں قانون سے کھلم کھلا مذاق کیا جاتا ہے اور اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی سرعام توہین کی جاتی ہے۔یہاں تو قانون موم کی ایسی ناک ہے جس کو ہرطرف موڑا جاسکتا ہے۔این آر او کے فیصلے سے کیا گیا مذاق ایک کھلی حقیقت ہے۔ سلمان تاثیر کے قتل کے روز ق لیگ کے ایم این اے وقاص اکرم سے کیپٹل ٹاک میں انٹرویو کیا گیا، ان کے چچا بھی اسی طرح اپنے محافظوں کے ہاتھوں قتل ہوگئے تھے۔وقاص اکرم جو برسراقتدار ایم این اے ہیں ، کا کہنا تھا کہ سالہا سال کے عدالتی عمل کے بعد ہماری عدالتوں نے تمام مجرموں کو بری کردیا اور ہم اپنے چچا کے قاتلوں کو سزا دلوانے سے قاصر ہیں۔ اس سے بڑھ کر پاکستان کے نظامِ عدل کا اور نوحہ کیا ہوسکتا ہے؟ سلمان تاثیر کا قتل موجودہ عدالتی نظام کے غیرمؤثر ہونے کی دلیل اور عوام کے اس پر بے اعتمادی کا استعارہ ہے۔ اگر پاکستان کے نظامِ عدل میں یہ قوت ہوتی اوروہ شریعت ِاسلامیہ کی رہنمائی پر کاملاً استوار ہوتا تو واقعتاً آج ممتاز قادری کو قانون کو ہاتھ میں لینے کی ضرورت قطعاً پیش نہ آتی اور اسلامیانِ پاکستان شاتمان رسول کو اس عدالتی نظام سے سزا دلوانے کاہی راستہ اختیار کرتے۔
پاکستان میں گذشتہ دنوں دہشت گردی اور اجتماعی قتل وغارت کے اس قدر سنگین واقعات پیش آئے کہ اگر کسی مغربی ملک میں ایسا کوئی ایک بم دھماکہ بھی ہوجاتا تو پوری حکومت مستعفی ہوجاتی۔ ان بم دھماکوں کے ذریعے پاکستانی قوم پر اجتماعی ہلاکت وغارت گری مسلط کردی گئی ہے، عوام اپنی لاشیں اُٹھا اُٹھا کر نڈھال ہیں او رظلم سہنے والوں کی آنکھیں رنج وغم سے پتھرا چکی ہیں، اس کے باوجودکسی ایک واقعہ میں کسی ایک مجرم کوبھی قرارِ واقعی سزا نہ دی گئی۔ دہشت گردی کی عدالتیں اور وسیع وعریض نظامِ عدل کی ناکامی کی اس سے بڑی کیا دلیل ہوسکتی ہے؟ اس کے بجائے ان مجرموں کی روزانہ میل ملاقات، عدالتی حاضریاں اور پیشیاں،گواہیاں ایسا مذاق ہے جس کو دیکھ کر متاثر ہ فرد کا خون کھولتاہے۔ اس نظا مِ عدل کی کسمپرسی کا اندازہ تو اس سے لگائیے کہ گورنر پنجاب جیسے بڑے عہدے کے فرد کو برسرعام قتل کردیا گیا، مجرم نے اعتراف بھی کرلیا اور معاملہ بڑا واضح ہے لیکن چار ہفتے ہونے کو آئے ہیں، اور فیصلہ کا دور دو رتک کوئی امکان نہیں۔ ہر طرف ابہام ہی ابہام اور تاخیر ہی تاخیر ہےحالانکہ فیصلہ میں تاخیر بھی تو انصاف کا قتل ہے۔ اس انگریز پرور نظامِ عدل سے مسلم معاشرے کبھی چین وسکون حاصل نہ کرسکیں گے۔ اگر دہشت گردی کے کسی حقیقی مجرم کو سرعام پھانسی دے کر عبرت کا نشان بنا دیا جاتا تو آج پاکستان میں عوام کا خون اور معاشرے کا چین سکون اتنا اَرزاں نہ ہوتا۔
جب قانون موجود ہی نہ ہو، قانونی استثنا حاصل ہو یا سنگین جرم کے باوجود مظلومین کے لئے داد رسی کے دروازے بند ہوں اور انصاف میں بلاجواز تاخیر ہورہی ہو تو ایسے حالات میں توہین رسالت ایسا حساس مسئلہ ہے کہ مسلم عوام قانون کو ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ غازی علم دین شہید کو بھی قانون سے داد رسی کی کوئی اُمید نہ تھی، جانے سے قبل باپ سے مکالمہ کرکے گیا اور اس کے باپ نے اس کو قتل کی سزا سے خبردار کردیا تھا، لیکن اس نے حب ِرسولﷺ میں شاتم رسول کے ایک معاون راج پال کو، جس نے ’رنگیلا رسول ‘شائع کی تھی،قانون کو ہاتھ میں لیتےہوئےجہنم واصل کردیا۔ او ریہ ہماری قومی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے کہ اس نازک موقع پر لاہور میں علامہ اقبال نے مسلمانانِ برصغیر کی قیادت کی۔ قائد اعظم جو اس وقت چوٹی کے مسلم وکیل تھے، اُنہیں علم دین شہید کےاقدامِ قتل کے دفاع کے لئے انہوں نے بلایا۔ قائد اعظم لاہور ہائیکورٹ میں ایک ہی بار پیش ہوئے او روہ غازی علم دین کے دفاع کا مقدمہ تھا۔ علم دین کو معافی تو نہ ملی اور پھانسی کی سزا ہوگئی لیکن اس سے برصغیر کے مسلمانوں کا جوش وجذبہ شعلہ جوالا کا روپ دھار گیا۔علامہ اقبال کی قیادت میں مسلمانوں کے پرزور مطالبے پر غازی علم دین کی میت کو میانوالی جیل سےلاہور منتقل کیا گیا۔ لاہور میں مسلمانوں کی نمائندہ شخصیات نے اس معاملہ میں عوامی جذبات کی قیادت کی، علامہ اقبال کو علم دین کا جنازہ پڑھانے کی دعوت دی گئی ۔مولانا ظفر علی خاں نے علم دین کو قبر میں اُتارا اور محب ِرسول اقبال علیہ الرحمہ نے یہ تاریخ ساز جملہ کہا کہ
’’ترکھانوں کا بیٹا ، پڑھے لکھوں پر بازی لے گیا اور ہم دیکھتے رہ گئے۔‘‘