- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 3,416
- ری ایکشن اسکور
- 2,733
- پوائنٹ
- 556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سید سلمان حسینی ندوی کی بکواسات از جناب حافظ عبیداللہ
ــــــ
ایک سترہ صفحات پر مشتمل کتابچہ (جسے كُتّا بَچّه" کہنا زیادہ مناسب ہے) بعنوان "لفظ صحابه کے بارے میں غلط فہمیاں" نظر سے گزرا، جس پر لکھنے والے کا نام "سلمان حسینی ندوی" لکھا ہے اور یہ "كُتا بچہ" لکھنؤ سے اکتوبر 2018 میں شائع کیا گیا ہے .... پہلے تو مجھے سلمان ندوی کے بارے میں شک تھا، لیکن ان کی یہ تحریر پڑھ کر اب یقین محکم ہو چکا ہے کہ موصوف ایک تقیہ باز رافضی ہیں اور شاید خاندانی عصبيت کا بھی شکار ہیں ... انہوں نے اس کتابچہ میں ایسا اندازہ اپنایا ہے جو دشمن صحابہ رافضی ذاکر اپنے امام باڑے کی مجلس میں اپناتا ہے ...
مجھے یقین ہے کہ بہت جلد یہ صاحب کھل کر یہ اعلان کردیں گے کہ وہ مذھب اہل سنت کو ترک کرکے رافضیت قبول کرچکے ہیں .
موصوف نے اس رسالے کا عنوان تو رکھا "لفظ صحابہ کے بارے میں غلط فہمیاں" جس سے پڑھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ شاید ان کا مقصد کسی قسم کی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے ، لیکن جب یہ "كُتّا بچہ" پڑھا جائے تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ موصوف خود در اصل غلط فہمیاں بلکہ دجل و تلبیس پیدا کر رہے ہیں .
اس سترہ صفحی "كُتّا بَچّه" کی ابتداء ہی موصوف نے یہ بات بتانے سے کی ہے کہ عبد الله بن أبي اور تمام منافقین بھی صحابہ شمار ہوتے تھے ... لیکن ندوی صاحب نے یہاں اس پر خاموشی اختیار کی کہ کیا اہل سنت کے نزدیک "اصطلاحى صحابى کی تعریف میں منافق شامل ہے"؟؟؟ یہ بعينه وہی رافضی دجل ہے جو ان کے ذاکر پیش کرتے ہیں .
آگے حيرت کی بات ہے کہ تمام صحابہ کو چھوڑ کر ندوی صاحب نے اپنی بات کا محور صرف حضرات على فاطمة ، حسن ، اور حسين (رضي الله عنهم) کو بنایا ہے اور بات کو گھما کر حضرت معاويه (رض) اور يزيد ين معاويه پر لے گئے ہیں، اور پھر یہ بھڑک ماری ہے کہ : "نبى كريم صلى الله عليه وسلم نے حضرت معاويه (رض) اور ان کے لشکر کے حضرت على (رض) کے مقابلے میں باغی ہونے کی صراحت کردی تھی" .... میں اس ندوی ذاکر سے پوچھتا ہوں کہ تیرے نزدیک "صحابی" کی وہ اصطلاحى تعريف صحیح نہیں جو ائمہ اہل سنت کرتے آ رہے ہیں اور تو اسی كُتّا بَچّه میں لکھتا ہے کہ:
"جس نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کو ایمان کی حالت میں دیکھا یا کچھ دیر آپ کی صحبت میں رہا اور پھر ایمان کی حالت میں اس کا خاتمہ ہو گیا وہ صحابی نہیں، بلکہ صحابی وہ ہے جس نے آپ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ لمبا عرصہ گزارا ہو اور آپ کے ساتھ دو تین غزووں میں بھی حصہ لیا ہو" .
اور تو کہتا ہے کہ :
"صحابی کی جو تعریف ائمہ اہل سنت کرتے ہیں یہ قرآن وحديث يا صحابه سے ثابت نہیں بلکہ بعد کے دور میں یہ تعريف وضح کرلی گئی" .
ایک دوسری جگہ لکھتا ہے :
"صحابہ کے لفظ کی یہ تشریح صحیح نہیں اگرچہ مشہور ہے دین میں حجت قول رسول ہوتا ہے پھر خلفائے راشدین کا قول و عمل لیکن ان کے حاشیہ خیال میں بھی کبھی یہ تعریف نہیں آئی" ...
تو پھر تم یہ بتا کہ کس حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے "صراحت کے ساتھ" حضرت معاويه (رض) اور ان کے لشکر کو باغی کہا ہے؟ یہ بھی توبعد والوں کا اور تیرا استنباط ہے ... حدیث میں تو حضرت معاويه (رض) یا حضرت على (رض) یا ان کے لشکروں کا کہیں بھی صراحت کے ساتھ ذکر نہیں.
پھر یہ تقیہ باز رافضی "کتابچہ" لکھ رہا ہے "لفظ صحابی" کے بارے میں، اور بات کو گھما کر لے گیا ہے یزید اور بنی امیہ پر .... جبکہ یزید کو کوئی بھی صحابی نہیں کہتا .
پھر یہ تقیہ باز رافضی بار بار "اہل بیت" کا لفظ بولتا ہے لیکن اس سے مراد صرف حضرت على ، فاطمة ، حسن اور حسين (رضي الله عنهم) کو ہی لیتا ہے اور یہاں تک لکھتا ہے کہ :
"حسن وحسين کو سیادت و قیادت کے مقام پر رکھنا امت پر فرض تھا، فرض ہے اور فرض رہے گا"
میرا سوال ہے کہ کسی چیز کو "فرض" ثابت کرنے کے لیے ندوی ذاکر کی بات کافی ہے یا اس کے لئے نص قطعى ضروری ہے؟ اسلام نے تو خاندانی عصبيت کا خاتمہ کیا ، اور اہل سنت کے نزدیک خلافت و امارت منصوص من الله نہیں، نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ تم پر صرف میرے اہل بیت کو اپنا سردار اور قائد بنانا فرض ہے .... ورنہ حضرت على وحسن حسين (رضي الله عنهم) کی موجودگی میں حضرات ابوبكر ، عمر ، عثمان (رضي الله عنهم) کو سیادت و قیادت دے کر امت نے ایک فریضے کو پس پشت ڈال دیا کیا؟ کیا ندوی ذاکر یہی کہنا چاہتا ہے؟؟ پھر ذرا ندوی ذاکر یہ بتائے کہ سیدنا حسن بن على رضي الله عنهما نے خود اپنی خلافت سے دست بردار ہو کر کیا اس "فرض" کو پس پشت ڈالا کیا؟؟؟ کیا انہوں نے امت کو اس "ندوی" فرض کے خلاف کرنے پر مجبور کیا؟
پھر یہ ندوی ذاکر "تقیہ کی چادر" سے باہر نکلنے کی کوشش میں لکھتا ہے کہ : "قرآن کے اصولوں کی روشنی میں طے شدہ مجرموں کے لیے بے تکی تاویلات کا سہارا لینے والے ... قرآن کے قطعى نصوص کی عملی تحریف کے مرتکب ہوت ہیں" .... یہاں اس ندوی ذاکر نے "طے شدہ مجرموں" سے حضرت عائشه ، طلحه، زبير ، معاويه ، عمرو بن العاص وغيرهم (رضي الله عنهم اجمعين) کی طرف اشارہ کیا ہے .... جس سے اس کے خبث باطن کا اندازہ ہوتا ہے ..
الغرض! یہ سترہ صفحی "كُتّا بَچّه" اس ندوی ذاکر نے یہ ثابت کرنے کے لیے لکھا ہے کہ حضرت معاويه (رض) خاص طور پر اور فتح مکہ کے موقع پر ایمان لانے والے عام طور پر "صحابہ" میں شمار نہیں کیے جا سکتے ...
وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ "فتح مکہ پر ایمان لانے والوں کی زبان نبوت سے کسی قسم کی کوئی فضیلت ثابت نہیں اور حضرت معاويه (رض) کے مناقب میں کوئی حدیث بھی صحیح نہیں" .....
میں اس ندوی ذاکر سے پوچھتا ہوں کہ قرآن کریم نے جہاں "وكلاً وعد الله الحسنى" فرمایا ہے کیا اس میں فتح مکہ کے موقع پر یا اس کے بعد ایمان لانے والے صحابہ کرام شامل ہیں یا نہیں؟ اگر شامل ہیں اور يقيناً قرآن کی اسی آیت کے سیاق و سباق میں یہ بات صراحت سے مذکور ہے تو جب الله نے ان سب سے اچھائی کا وعدہ فرمایا ہے تو تیرے نزدیک یہ ان کی منقبت ہے یا نہیں؟ کیا الله نے تجھ سے "حسنى" کا وعدہ فرمایا ہے؟؟.
سید سلمان حسینی ندوی کی بکواسات از جناب حافظ عبیداللہ
ــــــ
ایک سترہ صفحات پر مشتمل کتابچہ (جسے كُتّا بَچّه" کہنا زیادہ مناسب ہے) بعنوان "لفظ صحابه کے بارے میں غلط فہمیاں" نظر سے گزرا، جس پر لکھنے والے کا نام "سلمان حسینی ندوی" لکھا ہے اور یہ "كُتا بچہ" لکھنؤ سے اکتوبر 2018 میں شائع کیا گیا ہے .... پہلے تو مجھے سلمان ندوی کے بارے میں شک تھا، لیکن ان کی یہ تحریر پڑھ کر اب یقین محکم ہو چکا ہے کہ موصوف ایک تقیہ باز رافضی ہیں اور شاید خاندانی عصبيت کا بھی شکار ہیں ... انہوں نے اس کتابچہ میں ایسا اندازہ اپنایا ہے جو دشمن صحابہ رافضی ذاکر اپنے امام باڑے کی مجلس میں اپناتا ہے ...
مجھے یقین ہے کہ بہت جلد یہ صاحب کھل کر یہ اعلان کردیں گے کہ وہ مذھب اہل سنت کو ترک کرکے رافضیت قبول کرچکے ہیں .
موصوف نے اس رسالے کا عنوان تو رکھا "لفظ صحابہ کے بارے میں غلط فہمیاں" جس سے پڑھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ شاید ان کا مقصد کسی قسم کی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے ، لیکن جب یہ "كُتّا بچہ" پڑھا جائے تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ موصوف خود در اصل غلط فہمیاں بلکہ دجل و تلبیس پیدا کر رہے ہیں .
اس سترہ صفحی "كُتّا بَچّه" کی ابتداء ہی موصوف نے یہ بات بتانے سے کی ہے کہ عبد الله بن أبي اور تمام منافقین بھی صحابہ شمار ہوتے تھے ... لیکن ندوی صاحب نے یہاں اس پر خاموشی اختیار کی کہ کیا اہل سنت کے نزدیک "اصطلاحى صحابى کی تعریف میں منافق شامل ہے"؟؟؟ یہ بعينه وہی رافضی دجل ہے جو ان کے ذاکر پیش کرتے ہیں .
آگے حيرت کی بات ہے کہ تمام صحابہ کو چھوڑ کر ندوی صاحب نے اپنی بات کا محور صرف حضرات على فاطمة ، حسن ، اور حسين (رضي الله عنهم) کو بنایا ہے اور بات کو گھما کر حضرت معاويه (رض) اور يزيد ين معاويه پر لے گئے ہیں، اور پھر یہ بھڑک ماری ہے کہ : "نبى كريم صلى الله عليه وسلم نے حضرت معاويه (رض) اور ان کے لشکر کے حضرت على (رض) کے مقابلے میں باغی ہونے کی صراحت کردی تھی" .... میں اس ندوی ذاکر سے پوچھتا ہوں کہ تیرے نزدیک "صحابی" کی وہ اصطلاحى تعريف صحیح نہیں جو ائمہ اہل سنت کرتے آ رہے ہیں اور تو اسی كُتّا بَچّه میں لکھتا ہے کہ:
"جس نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کو ایمان کی حالت میں دیکھا یا کچھ دیر آپ کی صحبت میں رہا اور پھر ایمان کی حالت میں اس کا خاتمہ ہو گیا وہ صحابی نہیں، بلکہ صحابی وہ ہے جس نے آپ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ لمبا عرصہ گزارا ہو اور آپ کے ساتھ دو تین غزووں میں بھی حصہ لیا ہو" .
اور تو کہتا ہے کہ :
"صحابی کی جو تعریف ائمہ اہل سنت کرتے ہیں یہ قرآن وحديث يا صحابه سے ثابت نہیں بلکہ بعد کے دور میں یہ تعريف وضح کرلی گئی" .
ایک دوسری جگہ لکھتا ہے :
"صحابہ کے لفظ کی یہ تشریح صحیح نہیں اگرچہ مشہور ہے دین میں حجت قول رسول ہوتا ہے پھر خلفائے راشدین کا قول و عمل لیکن ان کے حاشیہ خیال میں بھی کبھی یہ تعریف نہیں آئی" ...
تو پھر تم یہ بتا کہ کس حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے "صراحت کے ساتھ" حضرت معاويه (رض) اور ان کے لشکر کو باغی کہا ہے؟ یہ بھی توبعد والوں کا اور تیرا استنباط ہے ... حدیث میں تو حضرت معاويه (رض) یا حضرت على (رض) یا ان کے لشکروں کا کہیں بھی صراحت کے ساتھ ذکر نہیں.
پھر یہ تقیہ باز رافضی "کتابچہ" لکھ رہا ہے "لفظ صحابی" کے بارے میں، اور بات کو گھما کر لے گیا ہے یزید اور بنی امیہ پر .... جبکہ یزید کو کوئی بھی صحابی نہیں کہتا .
پھر یہ تقیہ باز رافضی بار بار "اہل بیت" کا لفظ بولتا ہے لیکن اس سے مراد صرف حضرت على ، فاطمة ، حسن اور حسين (رضي الله عنهم) کو ہی لیتا ہے اور یہاں تک لکھتا ہے کہ :
"حسن وحسين کو سیادت و قیادت کے مقام پر رکھنا امت پر فرض تھا، فرض ہے اور فرض رہے گا"
میرا سوال ہے کہ کسی چیز کو "فرض" ثابت کرنے کے لیے ندوی ذاکر کی بات کافی ہے یا اس کے لئے نص قطعى ضروری ہے؟ اسلام نے تو خاندانی عصبيت کا خاتمہ کیا ، اور اہل سنت کے نزدیک خلافت و امارت منصوص من الله نہیں، نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ تم پر صرف میرے اہل بیت کو اپنا سردار اور قائد بنانا فرض ہے .... ورنہ حضرت على وحسن حسين (رضي الله عنهم) کی موجودگی میں حضرات ابوبكر ، عمر ، عثمان (رضي الله عنهم) کو سیادت و قیادت دے کر امت نے ایک فریضے کو پس پشت ڈال دیا کیا؟ کیا ندوی ذاکر یہی کہنا چاہتا ہے؟؟ پھر ذرا ندوی ذاکر یہ بتائے کہ سیدنا حسن بن على رضي الله عنهما نے خود اپنی خلافت سے دست بردار ہو کر کیا اس "فرض" کو پس پشت ڈالا کیا؟؟؟ کیا انہوں نے امت کو اس "ندوی" فرض کے خلاف کرنے پر مجبور کیا؟
پھر یہ ندوی ذاکر "تقیہ کی چادر" سے باہر نکلنے کی کوشش میں لکھتا ہے کہ : "قرآن کے اصولوں کی روشنی میں طے شدہ مجرموں کے لیے بے تکی تاویلات کا سہارا لینے والے ... قرآن کے قطعى نصوص کی عملی تحریف کے مرتکب ہوت ہیں" .... یہاں اس ندوی ذاکر نے "طے شدہ مجرموں" سے حضرت عائشه ، طلحه، زبير ، معاويه ، عمرو بن العاص وغيرهم (رضي الله عنهم اجمعين) کی طرف اشارہ کیا ہے .... جس سے اس کے خبث باطن کا اندازہ ہوتا ہے ..
الغرض! یہ سترہ صفحی "كُتّا بَچّه" اس ندوی ذاکر نے یہ ثابت کرنے کے لیے لکھا ہے کہ حضرت معاويه (رض) خاص طور پر اور فتح مکہ کے موقع پر ایمان لانے والے عام طور پر "صحابہ" میں شمار نہیں کیے جا سکتے ...
وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ "فتح مکہ پر ایمان لانے والوں کی زبان نبوت سے کسی قسم کی کوئی فضیلت ثابت نہیں اور حضرت معاويه (رض) کے مناقب میں کوئی حدیث بھی صحیح نہیں" .....
میں اس ندوی ذاکر سے پوچھتا ہوں کہ قرآن کریم نے جہاں "وكلاً وعد الله الحسنى" فرمایا ہے کیا اس میں فتح مکہ کے موقع پر یا اس کے بعد ایمان لانے والے صحابہ کرام شامل ہیں یا نہیں؟ اگر شامل ہیں اور يقيناً قرآن کی اسی آیت کے سیاق و سباق میں یہ بات صراحت سے مذکور ہے تو جب الله نے ان سب سے اچھائی کا وعدہ فرمایا ہے تو تیرے نزدیک یہ ان کی منقبت ہے یا نہیں؟ کیا الله نے تجھ سے "حسنى" کا وعدہ فرمایا ہے؟؟.
کاش اس ندوی ذاکر نے جو کہ اپنے آپ کو "حسينى" بتاتا ہے اپنے جد امجد سيدنا حسين سيدنا حسن (رضي الله عنهما) کی بات پر آمین کہی ہوتی جنہوں نے حضرت معاويه (رض) کے ہاتھ پر بيعت کرکے بتا دیا کہ انہوں نے کسی "مجرم" کے ہاتھ پر بيعت نہیں کی ....
والله يهدى من يشاء الى صراط مستقيم
(حافظ عبيد الله)
نوٹ: اس پوسٹ میں اگر میرے کسی دوست کو لہجہ کی سختی نظر آئے تو وہ یہ ذہن میں رکھے کہ یہ سختی اس شخص کے بارے میں ہے جس نے حضرت معاويه (رض) کو "صحابیت" سے نکالنے کے لیے یہ سترہ صفحی "كُتّا بَچّه" لکھا ہے .
منقول
اس ''کتابچہ'' یا ''کتا بچہ'' کا PDF لنک کسی کے پاس ہو، تو برائے مہربانی ''ان باکس'' میں پوسٹ کر دے۔ جزاک اللہ خیراً
Last edited: