حافظ ابن حجر اور سلیمان بن موسی :
ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا
صدوق فقیہ فی حدیثہ بعض لین وخولط قبل موتہ بقلیل(تقریب التہذیب :۲۶۱۶)
صدوق فقیہ ہیں آپ کی حدیث میں کچھ کمزوری ہے اور وفات سے پہلے ان کا تھوڑا سا حافظہ بگڑ گیا تھا ـ
حافظ ابن حجر نے سلیمان بن موسی کو صدوق کہا اور یہ بھی کہا کہ آپ کی حدیث میں کچھ کمزوری ہے اور یہ اس لیے کہی کہ جب حافظ نے سلیمان بن موسی کی مرویات کا جائزہ لیا تو انہیں یہ بات معلوم ہوئی کہ ان کی حدیثوں میں کچھ اضطراب ہے یا کچھ مناکیر(افراد) ہیں یا کچھ خرابی ہے جو ائمہ نقد سے بھی ہمیں یہ باتیں ملی ہیں جو ہم نے پہلے دیکھا دوبارہ مختصرا دیکھ لیتے ہیں
امام ابو حاتم نے کہا :
محلہ الصدق وفی حدیثہ بعض الاضطراب(الجرح والتعدیل ج 4 ص 141)
ان کا مقام صدق ہے اور آپ کی حدیثوں میں کچھ اضطراب ہے۔ابو حاتم الرازی رح کا قول بھی اسی طرح ہے جیسا حافظ ابن حجر نے کہا جس سے حافظ ابن حجر کو تائید حاصل ہوتی یے اور امام ابو حاتم الرازی کا محلہ صدق کہنے پر ابن ابی حاتم نے کہا
وإذا قيل له: صدوق أو محله الصدق أو لا بأس به، فهو ممن يكتب حديثه وينظر فيه، وهي المنزلة الثانية. "(الجرح والتعديل 2/37)
جب کسی کے لیے کہا گیا کہ وہ صدوق ہے یا اس کا مقام صدوق ہے یا اس میں کوئی حرج نہیں تو وہ ایسا ہے جس کی حدیث لکھی جاتی ہے اور دیکھا جاتا ہے اور یہ دوسرا درجہ ہے ـ
اسی طرح حافظ مزی، امام نسائی رحمہ اللہ کا قول نقل کیا :
وقال فی موضع آخر فی حديثه شىء (التهذيب الكمال في أسماء الرجال 12/97)
اور دوسری جگہ امام نسائی نے فرمایا ان کی حدیث میں کچھ (خرابی) ہے۔اسی طرح امام ابو احمد الحاکم رحمہ اللہ نے کہا :
في حديثه بعض المناكير (الاسامی والکنی لأبي احمد الحاكم 1/289)
ان کی حدیثوں میں کچھ مناکیر ہیں یہ تمام اقوال حافظ کے قول کی تائید کرتے ہیں کہ ان کی حدیثوں میں کچھ کمزوری ہوتی ہے ایک تو حافظ نے صدوق کہا اور ان کی حدیث میں کچھ کمزوری کی بات بھی کہی اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ وفات سے پہلے ان کا تھوڑا سا حافظہ بگڑ گیا تھا ـ حافظ نے یہ باتیں تقریب میں کہی ہیں جہاں ان کا کسی راوی پر واضح حکم ہوتا ہے یعنی ان کے نزدیک جو باتیں ثابت ہوتی ہیں وہی اس راوی پر ان کا فیصلہ ہوتا ہے ـ موت سے قبل اختلاط والی بات جو کہی گئی ہے یہ ابن المدینی رحمہ اللہ کا قول ہے جس کو حافظ ابن حجر نے تھذیب التہذیب میں بھی نقل کیا اب یہ قول ثابت ہے یا نہیں یہ الگ بحث ہے لیکن حافظ کے نزدیک تو یہ قول ثابت معلوم ہوتا ہے اس لیے تو انہوں نے تقریب میں بھی لکھا ـ حافظ ابن حجر کا قول صدوق فی حدیثه بعض لین کا تعاقب کرتے ہوئے شیخ ابو عمر دبیان بن محمد الدبیان جو وزارۃ الشؤون الاسلامیہ میں قانونی مشیر ہے احکام الطہارۃ میں لکھتے ہیں
فالراجح ان سلیمان بن موسی صدوق له أوهام، لا يقبل ما تفرد به
راجح یہ ہے کہ سلیمان بن موسی صدوق ہے اور ان سے غلطیاں ہوئی ہیں، ان کی اس روایت کو قبول نہیں کیا جاتا جس میں وہ تفرد رکھتے ہیں
اگرچہ صدوق کہنے میں خفیف الضبط ہوتا ہے لیکن ائمہ نقد سے سلیمان بن موسی پر حفظ پر بھی کلام کیا گیا ہے جن میں امام نسائی نے لیس بالقوی کہا {کفایت اللہ سنابلی کہتے ہیں "لیس بالقوی" حفظ پر جرح ہے ( ایام قربانی اور آثار صحابہ مع اشکالات کا ازالہ ص 24) اور ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے کہا کہ محدثین کے نزدیک سلیمان بن موسی سیء الحفظ ہے اور امام ابو حاتم الرازی نے بھی ان کی حدیث میں کچھ اضطراب والی بات کہی اور ایسے راویوں کی منفرد روایات کو بعض محدثین تو منکر بھی کہے دیتے ہیں جیسے امام ابو داود، امام بخاری وغیرہ نے سلیمان بن موسی کی تفرد والی حدیث پر منکر کا حکم لگایا ہے ـ
شیخ ابو غدہ رح قواعد فی علوم الحدیث کی تحقیق میں شیخ احمد شاکر کا باعث الحثیث میں ص 118 سے کلام نقل کرتے ہیں
فما كان من الثانية والثالثة فحديثه صحيح من الدرجة الأولى ، وغالبه في الصحيحين .وما كان من الدرجة الرابعة فحديثه صحيح من الدرجة الثانية ، وهو الذي يحسنه الترمذي ويسكت عنه أبوداود .وما بعدها فمردود إلا إذا تعددت طرقه
یعنی (جرح و تعدیل کے لحاظ جو طبقات حافظ ابن حجر نے بیان کئے ان میں ) صحابہ کے بعد رواۃ کے دوسرے اور تیسرے درجہ کے رواۃ کی احادیث اول درجہ کی صحیح ہیں ، جن میں غالب صحیحین میں پائی جاتی ہیں ،اور چوتھے درجہ کے رواۃ کی احادیث صحت کے لحاظ سے درجہ دوم کی احادیث ہیں ، اور یہ وہی احادیث ہیں جنہیں امام ترمذی حسن کہتے ہیں ،اور ابوداود ان پر سکوت فرماتے ہیں ۔اور اس چوتھے درجہ کے رواۃ کے بعد کے درجات کے رواۃ کی روایات مردود ( ضعیف ) ہیں ، ہاں اگر ان کے طرق ایک سے زائد ہوں (تو دیکھا جائے گا ) انتہی
فما كان من الدرجة الخامسة والسادسة فيتقوى بذلك ويصير حسناً لغيره .
جو پانچویں اور چھٹے مرتبہ کے ہیں ان کی روایت حسن لغیرہ ہوگی۔
اس کے بعد شیخ ابو غدہ رح اس تحقيق كى تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ تحقیق صحیح جگہ پہنچی ہے۔یتبین سدید للغایة شیح احمد شاکر کے بقول چوتھے مرتبہ کے راوی کے لیے ابو داود سکوت کرتے ہیں اور امام ترمذی تحسین کرتے ہیں امام ابو داود نے سلیمان بن موسی کی حدیث کو منکر کہا ہے سکوت نہیں کیا دیکھیے (سنن ابو داود رقم 4924 )اور امام ترمذی نے بھی جن روایات کی تحسین کی ہے ان میں سلیمان بن موسی کی متابعات موجود ہے اور منفرد روایات کی تحسین نہیں کی جہاں ان کا تفرد ہے وہاں اس بات کی صراحت بھی کی ہے کہ اس میں سلیمان بن موسی کا تفرد ہے اور اس منفرد روایت کی تحسین نہیں کی دیکھیے (السنن الترمذی ت احمد شاکر رقم 469،1657)
کفایت اللہ سنابلی صاحب خود عبدالرحمن بن اسحاق الواسطی کے تعلق سے لکھتے ہیں
"اگر یہ راوی امام ترمذی کے نزدیک حسن الحدیث ہوتا تو امام ترمذی ہر جگہ اس کی حدیث کو حسن کہتے، لیکن ایسا نہیں ـ" (انوار البدر ص 593)
سلیمان بن موسی کو چوتھے مرتبہ کے راوی کہنے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی لہذا سلیمان بن موسی پانچویں مرتبہ کے راوی ہوں گے اور ان کی روایت متابعت میں قبول کی جائیگی ـ
هذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب