• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلیمان بن مھران الْأَعْمَشِ کی تدلیس اور جمہور محدثین

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
سلیمان بن مھران الْأَعْمَشِ کی تدلیس اور جمہور محدثین
تحریر : ابو حمزہ

الاعمش کی تدلیس کے مضر ہونے اور اسکی معنعن روایت کے اتصال پر محمول نہ ہونے پر 20 محدثین کے اقول: اور حافظ ذہبی کے منفرد اصول کا رد علل کے اماموں ابو حاتم الرازی، علامہ ابن الجوزی، امام ابو عوانہ، ابن حزیمہ سے۔

امام الاعمش ثقہ ہونے کے ساتھ مدلس تھے اور ضعیف، کذاب، ملحدین سے بھی تدلیس کرتے تھے، جیسا کہ ابن عبدالبر نے لکھا کہ الاعمش کی معنعن روایت کے بارے میں جب استفسار کیا جاتا کہ کیا یہ متصل ہے بھی یا نہین؟ تو اعمش جی کبھی فرماتے یہ
01۔ موسیٰ بن طریف (کذاب اور موضوع حدیث گھڑنے والے) سے ہے، کبھی
02۔ عبایہ بن ربیعی ( غالی شیعہ ملحد) کا نام لیتے کبھی
03۔ حسن بن ذکوان (عندالجمہور ضعیف) کا نام لیتے، اور کبھی
04۔ حکیم بن جبیر (غالی شیعہ کثیر الوہم کذاب راوی) کا نام لیتے۔

01۔امام شعبہ بن الحجاج نے فرمایا:
وأخبرنا أحمد بن علي الأديب، أخبرنا الحاكم أبوعبد الله إجازة، حدثنا محمد بن صالح بن هاني، حدثنا إبراهيم بن أبي طالب، حدثنا رجاء الحافظ المروزي، حدثنا النضر بن شميل. قال: سمعت شعبة يقول: كفيتكم تدليس ثلاثة: الأعمش، وأبي إسحاق، وقتادة.
(مسألة التسمية)
تین کی تدلیس کیلئے میں کافی ہوں، الاعمش، ابو اسحاق اور قتادہ۔(سند صحیح)
(بعض لوگوں نے اس کو الاعمش کی خوبی بیان کی ہے جبکہ یہ الاعمش کی نہیں بلکہ امام شعبہ کی خوبی ہے کہ جس سند میں وہ ہونگے اسمیں مدلس کی معنعن روایت کو اتصال پر محمول کیا جائیگا۔)

02۔علل کے امام عبدالرحمن ابن الجوزی نے لکھا:
قَالَ الْمُؤَلِّفُ: هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ رَوَاهُ عَنِ الأَعْمَشِ مُحَاضِرٌ فَخَالَفَ فِيهِ أَبَا مُعَاوِيَةَ فَقَالَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنِ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِي نَصْرٍ وَكَانَ الأَعْمَشُ يَرْوِي عَنِ الضُّعَفَاءِ وَيُدَلِّسُ.
(العلل المتناهية في الأحاديث الواهية)
یہ حدیث منکر ہے، یہاں الاعمش عن عمرو بن مرۃ سے رویات کررہا ہے اور الاعمش الضعفاء سے روایت لیتے اور تدلیس کرتے تھے۔
دوسری جگہ الاعمش بن ابی صالح پر حکم لگایا:
قَالَ الْمُؤَلِّفُ: هَذَا حَدِيثٌ لا يَصِحُّ.
قَالَ أَحْمَدُ: بْنُ حَنْبَلٍ لَيْسَ لِهَذَا الْحَدِيثِ أَصْلٌ ليس يقول فيه أحد عَنِ الأَعْمَشِ أَنَّهُ قَالَ نا أَبُو صَالِحٍ وَالأَعْمَشُ يُحَدِّثُ عَنْ ضِعَافٍ وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الأَعْمَشَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي صَالِحٍ.
(العلل المتناهية في الأحاديث الواهية)
یہ حدیث صحیح نہیں، اس حدیث کی اصل نہیں اسمیں کوئی الاعمش عن ابو صالح سے سماع کی تصریح کے ساتھ روایت بیان نہیں کرتا، اور اعمش ضعیف راویوں سے حدیث بیان کرتے تھے۔
تیسری جگہ الاعمش عن حبیب بن ابی ثابت پر حکم لگایا:
والثاني أن الأعمش كان يدلس فلم يذكر أنه سمعه من حبيب بن أبي ثابت
دفع شبه التشبيه بأكف التنزيه))
الاعمش مدلس ہے اور اسنے حبیب بن ابی ثابت الاسدی سے سماع کی تصریح نہیں کی ہے۔

03۔ابو حاتم الرازی نے الاعمش عن مجاھد ہر حکم لگایا:
«وأَنَا أَخْشَى ألاَّ يكونَ سَمِعَ هذا الأَعْمَشُ مِنْ مُجَاهِدٍ، إنَّ الأَعْمَشَ قليلُ السماعِ مِنْ مُجَاهِدٍ، وعامَّةُ مَا يَرْوِي عَنْ مجاهدٍ مُدَلَّسٌ»
(العلل لابن أبي حاتم)
اعمش کا مجاھد سے سماع بہت تھوڑا ہے اسکی مجاہد سے عام روایات تدلیس شدہ ہیں، ۔
دوسری جگہ پر ابو حاتم الرازی نے الاعمش عن ابراھیم التیمی پر حکم لگایا:
2724 - وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ عبد الرَّزَّاق، عَنِ الثَّوري (1) ،
عَنِ الأعمَش، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمي (2) ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ؛ أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ: إِنِّي وَإِيَّاكَ (3) فِرْعَوْنُ هَذِهِ الأُمَّةِ؟
قَالَ أَبِي: هَذَا حديثٌ باطِلٌ؛ يَرَون (4) أَنَّ الأعمَش أخذه من حَكيم بْنِ جُبَير (1) ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرّ.وحَكيمٌ هُوَ نَحْوُ يُونُسَ بْنِ خَبَّاب (2) ، وَهُوَ ذاهبٌ فِي الضَّعف (3) .
العلل لابن أبي حاتم))
یہ حدیث باطل ہے اور اسے اعمش نے حکیم بن جبیر عن ابراھیم سے لیا ہے۔(حکیم بن جبیر، شیعہ کثیر الوہم اور کذاب ہے)
(نوٹ حافظ ذہبی کا اصول یہاں غلط ہوگیا کیونکہ وہ الاعمش کی ابراھیم التمیی سے معنعن روایت کو اتصال پر محمول کرتے ہیں جبکہ علل کے امام ابو حاتم الرازی الاعمش عن ابراھیم التمیی والی ایک روایت کو ایک کذاب سے تدلیس قرار دے رہے ہیںَ

04۔علل کے دوسرے امام محمد بن الحسین الہروی(متوفی 317ھ) نے الاعمش عن ابی صالح پر حکم لگایا:
فَتبين أَن هَذَا الحَدِيث لَيْسَ هُوَ مِمَّا سمع الْأَعْمَش من أبي صَالح
وَالْأَعْمَش كَانَ صَاحب تَدْلِيس فَرُبمَا أَخذ عَن غير الثِّقَات
(علل الأحاديث في كتاب الصحيح المسلم بن الحجاج)
المؤلف: أَبُو الفَضْلِ مُحَمَّدُ بنُ أَبِي الحُسَيْنِ أَحْمَدَ بنِ مُحَمَّدِ بنِ عَمَّارِ بنِ مُحَمَّدِ بنِ حَازِمِ بنِ المُعَلَّى بنِ الجَارُوْدِ الجَارُوْدِيُّ، الهَرَوِيُّ، الشَّهِيْدُ (المتوفى: 317هـ)
اور اعمش تدلیس کرنے والے تھے اور بعض اوقات غیر ثقہ راویوں سے روایت لیتے تھے۔

05۔حافظ ابن حجر نے لکھا:
2615- سليمان ابن مهران الأسدي الكاهلي أبو محمد الكوفي الأعمش ثقة حافظ عارف بالقراءات [بالقراءة] ورع لكنه يدلس من الخامسة(تقريب التهذيب)
یعنی یہ پانچوے طبقہ کا مدلس راوی ہے، اور پانچوے طبقہ کے بارے میں مقدمہ میں لکھا ہے کہ اسمیں وہ بدعتی راوی شامل ہیں جو اپنی بدعت کی دعوت دینے والے رواۃ اور وہمی راوی شامل ہیں۔
دوسری جگہ الاعمش کی عطاء خراسانی سے مروی معنعن روایت پر تدلیس تسویہ کا شعبہ ظاہر کرتے ہوئے لکھا:
لِأَنَّهُ لَا يَلْزَمُ مِنْ كَوْنِ رِجَالِهِ ثِقَاتٍ أَنْ يَكُونَ صَحِيحًا لِأَنَّ الْأَعْمَشَ مُدَلِّسٌ وَلَمْ يُنْكِرْ سَمَاعَهُ مِنْ عَطَاءٍ وَعَطَاءٌ يَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ هُوَ عَطَاءٌ الْخُرَاسَانِيُّ فَيَكُونُ فِيهِ تَدْلِيسُ التَّسْوِيَةِ
(التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير)
رجال کا ثقہ ہونا روایت کے صحیح ہونے کو لازم نہیں الاعمش مدلس ہے اور اسنے عطاء سے سماع کی تصریح نہیں کی ہے۔۔
اسکے بعد النکت نامی کتاب میں الاعمش کو تیسرے طبقہ میں شامل کرکے اپنے کتاب طبقات المدلیس(جسمیں الاعمش کو دوسرے طبقہ میں شامل کردیا تھا) سے رجوع کرلیا ہے۔

06۔ علامہ ابن عبدالبر نے لکھا:
لَا يُقْبَلُ تَدْلِيسُ لِأَنَّهُ إِذَا وَقَفَ أَحَالَ عَلَى غَيْرِ مَلِيءٍ يَعْنُونَ عَلَى غَيْرِ ثِقَةٍ إِذَا سَأَلْتَهُ عَمَّنْ هَذَا قَالَ عَنْ مُوسَى بْنِ طَرِيفٍ وَ عَبَايَةَ بْنِ رِبْعِيٍّ وَالْحَسَنِ بْنِ ذَكْوَانَ
التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد))
اور محدثین نے اعمش کی تدلیس کو غیر مقبول قرار دیا ہے، کیونکہ ان سے جب معنعن روایت کے بارے میں پوچھا جاتا تو غیر ثقہ کا حوالہ دیتے، پوچھا جاتا کہ یہ کس سے ہے ؟ توکہتے موسیٰ بن طریف، عبایہ بن ربعی، اور حسن بن ذکوان سے ہے۔
دوسری جگہ لکھا:
قَالَ أَبُو عُمَرَ هَذِهِ شَهَادَةُ عَدْلَيْنِ إِمَامَيْنِ عَلَى الْأَعْمَشِ بِالتَّدْلِيسِ وَأَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ عَنْ مَنْ لَقِيَهُ بِمَا لَمْ يَسْمَعْ مِنْهُ وَرُبَّمَا كَانَ بَيْنَهُمَا رَجُلٌ أَوْ رَجُلَانِ فَلِمِثْلِ هَذَا وَشِبْهِهِ
التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد))

07۔امام دارقطنی نے الاعمش عن مجاھد پر حکم لگایا:
وَرَوَاهُ الْأَعْمَشُ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، وَقِيلَ: إِنَّ الْأَعْمَشَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ مُجَاهِدٍ.
العلل الواردة في الأحاديث النبوية))
یعنی الاعمش نے یہ روایت مجاہد سے نہیں سنی ۔
دوسری جگہ الاعمش عن حبیب پر حکم لگایا:
وَرَوَاهُ عَلِيُّ بْنُ غُرَابٍ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَالْمَحْفُوظُ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ حَبِيبٍ مَا قَالَهُ ابْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْهُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَلَعَلَّ الْأَعْمَشَ دَلَّسَهُ عَنْ حَبِيبٍ وَأَظْهَرَ اسْمَهُ مَرَّةً، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.
العلل الواردة في الأحاديث النبوية))
اور اعمش نے حبیب بن ابی ثابت سے تدلیس کی ہے اور ایک دفعہ اسکا نام ظاہر کیا ہے۔

08۔امام ابن حزیمہ نے اپنی صحیح میں الاعمش عن ابو وائلِ شقیق بن سلمۃ پر حکم لگایا:
«هَذَا الْخَبَرُ لَهُ عِلَّةٌ لَمْ يَسْمَعْهُ الْأَعْمَشُ، عَنْ شَقِيقٍ لَمْ أَكُنْ فَهِمْتُهُ فِي الْوَقْتِ» 37--
( صحيح ابن خزيمة)
اس روایت میں علت ہے کہ اعمش نے یہ حدیث شقیق بن سلمۃ الاسدی سے نہیں سنی، میں اسے بروقت(روایت کے وقت) سمجھ نہ سکا۔
دوسری جگہ الاعمش عن حبیب کی معنعن روایت پر حکم لگایا:
قَالَ: ثنا جَرِيرٌ , عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ , عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُقَبِّحُوا الْوَجْهَ فَإِنَّ ابْنَ آدَمَ خُلِقَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ»
وَالثَّانِيَةُ: أَنَّ الْأَعْمَشَ مُدَلِّسٌ، لَمْ يُذْكَرْ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ
(كتاب التوحيد وإثبات صفات الرب عز وجل)
اعمش مدلس ہے اور اسنے یہاں سماع کی تصریح سے روایت نہیں کی ہے۔

09۔حافظ ابن حبان نے الاعمش کو مدلس قرار دیا:
[848] سليمان بن مهران الاعمش مولى بنى كاهل أبو محمد كان أبوه من سبى دنباوند ومولده السنة التي قتل فيها الحسين بن على بن أبى طالب سنة إحدى وستين رأى أنس بن مالك وسمع منه أحرفا يسيرة مات سنة ثمان وأربعين ومائة وكان مدلسا(مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار)
دوسری جگہ الاعمش عن سعید بن جبیر پر حکم لگایا:
مُوسَى بْنِ أَعْيَنَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -------وَهَذَا خَبَرٌ بَاطِلٌ لَا الأَعْمَشُ حَدَّثَ بِهِ (المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين)
یہ خبر باطل ہے اعمش نے سماع کی تصریح نہیں کی ہے۔
اپنی صحیح میں ابن حبان نے لکھا:
وأما المدلسون الذين هم ثقات وعدول فإنا لا نحتج بأخبارهم إلا ما بينوا السماع فيما رووا مثل الثوري والأعمش وأبي إسحاق وأضرابهم من الأئمة المتقين(لإحسان في تقريب صحيح ابن حبان)
ہو مدلس راوی جو ثقہ عادل ہیں ہم انکی صرف ان روایات سے ہی حجت پکڑتے ہیں جن میں سماع کی تصریح ہوگی، مثلاً ثوری، الاعمش، اور ابو اسحاق۔

10۔امام نووی نے الاعمش عن ابی سفیان پر حکم لگایا:
وَقَوْلُ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ مَعَ أَنَّ الْأَعْمَشَ مُدَلِّسٌ وَالْمُدَلِّسُ إِذَا قَالَ عَنْ لَا يُحْتَجُّ بِهِ إلا أن يَثْبُتَ سَمَاعُهُ مِنْ جِهَةٍ(شرح النووي على مسلم)
اور اعمش مدلس تھے اور مدلس اگر عن سے روایت کرے تو وہ حجت نہیں ہوتی الایہ کہ دوسری سند سے سماع کی تصریح ثابت ہوجائے۔
دوسری جگہ، الاعمش عن ابی صالح پر حکم لگایا:
الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ وَالْأَعْمَشُ مُدَلِّسٌ وَالْمُدَلِّسُ إِذَا قَالَ عَنْ لَا يُحْتَجُّ بِهِ إِلَّا إِذَا ثَبَتَ السَّمَاعُ مِنْ جِهَةٍ أُخْرَى(شرح النووي على مسلم)
اور اعمش مدلس تھے اور مدلس اگر عن سے روایت کرے تو وہ حجت نہیں ہوتی الایہ کہ دوسری سند سے سماع کی تصریح ثابت ہوجائے۔

11۔سفیان ثوری نے الاعمش عن ابی صالح پر حکم لگایا:
2430 - سَمِعت يحيى يَقُول قَالَ سُفْيَان الثَّوْريّ لم يسمع الْأَعْمَش هَذَا الحَدِيث من أبي صَالح الإِمَام ضَامِن(تاريخ ابن معين - رواية الدوري)
حدثنا عبد الرحمن نا صالح نا علي سمعت يحيى يقول قال سفيان: حديث الأعمش عن أبي صالح (الإمام ضامن) لا أراه سمعه من أبي صالح.(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم)
اعمش کی ابو صالح سے الامام ضامن والی حدیث میں نہیں سمجھتا کہ اعمش نے اسے ابو صالح سے سنا ہے۔ یعنی تدلیس کا شبہہ ہے۔
(نوٹ بعض لوگ ضعیف سند سے سماع کی تصریح پیش کرتے ہیں، تو مذکورہ روایت میں سماع کی تصریح سے صرف"امام ضامن والی روایت" میں علت رفع ہو تی ہے ، دنیا کی تمام الاعمش عن ابی صالح کی علت رفع نہیں ہوتی، اسلئے جب بھی کوئی الاعمش عن ابی صالح سے معنعن روایت پیش کرے تو سماع کی تصریح بھی پیش کردے تو وہاں بھی علت رفع ہوجائیگی)

12۔امام ابن القطان فاسی (متوفی628ھ) نے الاعمش عن ابی صالح پر حکم لگایا:
ومعنعن الْأَعْمَش عرضة لتبين الِانْقِطَاع، فَإِنَّهُ مُدَلّس، وَأبين مَا يكون الِانْقِطَاع بِزِيَادَة وَاحِد فِي حَدِيث من عرف بالتدليس،
(بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام)
اور اعمش کی معنعن روایت انقطاع کا نشانہ ہے کیونکہ وہ مدلس ہیں، دوسری جگہ الاعمش عن ابی سفیان پر حکم لگایا:
قَالَ: وَهَذَا الحَدِيث لَا نعلمهُ يرْوى / بِهَذَا اللَّفْظ عَن النَّبِي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - من وَجه أحسن من هَذَا الْوَجْه، على أَن الْأَعْمَش لم يسمع من أبي سُفْيَان (بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام)
اعمش نے ابی سفیان سے نہیں سنا۔

13۔امام حاکم نیسابوری نے الاعمش عن ابی صالح پر حکم لگایا:
قَالَ الْحَاكِمُ: لَمْ يَسْمَعْ هَذَا الْحَدِيثَ الْأَعْمَشُ مِنْ أَبِي صَالِحٍ، وَقَدْ رَوَاهُ أَكْثَرُ أَصْحَابِهِ عَنْهُ هَكَذَا مُنْقَطِعًا(معرفة علوم الحديث)
اعمش نے ابو صالح سے یہ حدیث نہیں سنی، اور اسکو اکثر اصحابہ نے منقطع بیان کیا ہے۔

14۔امام بیہقی نے الاعمش عن ابی صالح پر حکم لگایا:
وَهَذَا الْحَدِيثُ لَمْ يَسْمَعْهُ الْأَعْمَشُ بِالْيَقِينِ مِنْ أَبِي صَالِحٍ وَإِنَّمَا سَمِعَهُ مِنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ(السنن الكبرى للبيهقي)
اور یہ حدیث اعمش نے یقیناً ابو صالح سے نہیں سنی۔
(یعنی کسی دوسری ضعیف یا متروک شیخ سے سن کر ابو صالح کے ذمہ لگادی ہے یعنی تدلیس کی ہے)

15۔علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب أسماء المدلسين میں لکھا:
21- سليمان الأعمش مشهور به [بالتدليس](أسماء المدلسين)

16۔حافظ ذہبی نے لکھا:
إِسْنَادُهُ ثِقَاتٌ، لَكِنَّ الأَعْمَشَ مُدَلِّسٌ،(سير أعلام النبلاء)
اسکی سند میں راوی ثقہ ہیں مگر الاعمش مدلس ہے۔
دوسری جگہ لکھا:
سليمان بن مهران ۔۔۔۔۔----ما نقموا عليه إلا التدليس---قلت: وهو يدلس، وربما دلس عن ضعيف، ولا يدرى به،(ميزان الإعتدال في نقد الرجال)
اور اعمش تدلیس کرتے تھے اور بعض اوقات ضعیف راویوں سے تدلیس کرتے اور اسکا پتا ہیں چلتا تھا۔
اور اپنی کتاب طبقات الحفاظ وأسماء المدلسين میں الاعمش کو شامل کرلیا ہے۔
منظومة أسماء المدلسين للحافظ الذهبي------4- والثبت يحيى بن أبي كثير ... والأعمش الناقل بالتحرير(طبقات الحفاظ وأسماء المدلسين للذهبي)

17۔عینی حنفی نے لکھا:
قلت: الْأَعْمَش مُدَلّس وَقد عنعن(عمدة القاري)
اور اعمش مدلس ہے اور اسنے معنعن روایت بیان کی ہے۔
دوسری جگہ لکھا:
الْأَعْمَش مُدَلّس، وعنعنة المدلس لَا تعْتَبر إلاَّ إِذا علم سَمَاعه، فَأَرَادَ التَّصْرِيح بِالسَّمَاعِ، إِذْ الْإِسْنَاد الأول مُعَنْعَن.(عمدة القاري)
اعمش مدلس ہے اور مدلس کا عنعنعہ جب تک سماع کی تصریح نہیں مل جائے قابل اعتبار نہیں ہوتا ہے۔

18۔شیخ علی بن المدینی نے الاعمش عن ابی صالح پر حکم لگایا:
207 - حَدَّثَنَا هَنَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: -------وسَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: «حَدِيثُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَائِشَةَ أَصَحُّ» ، وَذَكَرَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ المَدِينِيِّ «أَنَّهُ لَمْ يُثْبِتْ حَدِيثَ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَلَا حَدِيثَ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَائِشَةَ فِي هَذَا(سنن الترمذي)»
اس بارے میں ابو صالح عن ابی ہریرہ والی حدیث ثابت نہیں ہے۔

19۔امام ابو زرعہ الرازی نے الاعمش عن ابی وائل پر حکم لگایا:
قلتُ لأَبِي زُرْعَةَ: فأيُّهما الصَّحيحُ؟
قَالَ: أَخْطَأَ أَبُو بَكْرُ بْن عَيَّاش فِي هَذَا؛ الصَّحيحُ مِنْ حديثِ الأعمش: عَنْ أَبِي وائِلٍ، عَن حذيفة وَرَوَاهُ منصور، عَنْ أَبِي وائِلٍ، عَن حذيفة؛ ولم يذكر المَسْح، وذكَرَ أنَّ النبيَّ (ص) قائمًا قلتُ: فالأعمش؟ قَالَ: الأعمشُ (1) ربَّما دَلَّس
(العلل لابن أبي حاتم)
یہاں اعمش ہے اور کبھی کبھار تدلیس بھی کرتا ہے۔
(نوٹ اگر ذہبی کا کلیہ(اعمش کی ابو وائل سے روایت اتصال پر محمول ہوتی ہے) درست ہوتا تو ابو زرعہ الرازی الاعمش عن ابی وائل پر کبھی تدلیس کا شبہہ ظاہر نہ کرتے۔)

20۔یعقوب بن سفیان فسوی نے لکھا:
وَحَدِيثُ سُفْيَانَ وَأَبِي إِسْحَاقَ وَالْأَعْمَشِ مَا لَمْ يُعْلَمْ أَنَّهُ مُدَلِّسٌ يَقُومُ مَقَام َ الْحُجَّةِ.وَأَبُو إِسْحَاقَ وَالْأَعْمَشُ مَائِلَانِ إِلَى التَّشَيُّعِ، (المعرفة والتاريخ)
سفیان ثوری، ابن اسحاق، اور اعمش کی احادیث میں جب تک یہ معلوم نہ ہوجاے کہ انہونے تدلیس کی ہے(یعنی معنعن نہ ہوں) تو انکی حدیث حجت کا مقام رکھتی ہے۔

حافظ ذہبی کے منفرد کلیہ کا جواب:
ذہبی نے میزان میں لکھا:
احتمال التدليس إلا في شيوخ له أكثر عنهم: كإبراهيم، وابن أبي وائل، وأبي صالح السمان، فإن روايته عن هذا الصنف محمولة على الاتصا
(ميزان الإعتدال في نقد الرجال)
یعنی اعمش مدلس ہیں البتہ اسکے شیوخ ابراھیم بن یزید التیمی، شقیق بن سلمۃ ابو وائل، ذکوان، ابو صالح السمان سے روایت متصل سند پر محمول ہوگی۔
الجواب: ان دو لائنوں کے کلمات کی نہ تو ذہبی نے پھر دوبارہ کسی کتاب میں اسکو بیان کیا، نہ اپنی بات پر کوئی دلیل پیش کی، اور بے دلیل بات حجت نہیں ہوتی اسلئے ذہبی کا یہ بے دلیل کلیہ جمہور محدثین کی تصریحات کے بعد حجت نہیں ہے۔

1۔الْأَعْمَش عن إبراهيم بن يزيد التيمي
-امام حاکم نے ابو عوانہ سے سند کے ساتھ نقل فرمایا کہ: ابو عوانہ نے الاعمش عن إبراهيم پر حکم لگایا:
قَالَ أَبُو عَوَانَةَ: قُلْتُ لِلْأَعْمَشِ: سَمِعْتَ هَذَا مِنْ إِبْرَاهِيمَ؟، قَالَ: لَا حَدَّثَنِي بِهِ حَكِيمُ بْنُ جُبَيْرٍ عَنْهُ(معرفة علوم الحديث).
یہ اعمش نے إبراهيم سے نہیں سنی بلکہ حکیم بن جبیر (غالی شیعہ کذاب) سے سنی ہے۔
-امام ابو حاتم الرازی نےالْأَعْمَش عن إبراهيم پر حکم لگایا
2724 - وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ عبد الرَّزَّاق، عَنِ الثَّوري (1) ،
عَنِ الأعمَش، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمي (2) ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ؛ أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ: إِنِّي وَإِيَّاكَ (3) فِرْعَوْنُ هَذِهِ الأُمَّةِ؟ قَالَ أَبِي: هَذَا حديثٌ باطِلٌ؛ يَرَون (4) أَنَّ الأعمَش أخذه من حَكيم بْنِ جُبَير (1) ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرّ.وحَكيمٌ هُوَ نَحْوُ يُونُسَ بْنِ خَبَّاب (2) ، وَهُوَ ذاهبٌ فِي الضَّعف (3) .
العلل لابن أبي حاتم))
یہ حدیث باطل ہے اور اسے اعمش نے حکیم بن جبیر عن ابراھیم سے لیا ہے۔(حکیم بن جبیر، شیعہ کثیر الوہم اور کذاب ہے)

2۔الْأَعْمَش عن شقيق بن سلمة الأسدي ,أبو وائل
امام ابن حزیمہ نے الاعمش عن شقیق پر حکم لگایا:
«هَذَا الْخَبَرُ لَهُ عِلَّةٌ لَمْ يَسْمَعْهُ الْأَعْمَشُ، عَنْ شَقِيقٍ لَمْ أَكُنْ فَهِمْتُهُ فِي الْوَقْتِ» 37--
( صحيح ابن خزيمة)
اس روایت میں علت ہے کہ اعمش نے یہ حدیث شقیق بن سلمۃ الاسدی سے نہیں سنی، میں اسے بروقت(روایت کے وقت) سمجھ نہ سکا۔

3۔الْأَعْمَش عن أبو صالح السمان :
سمجھ علماء اہلحدیث نے 15 سے زیادہ اقول جمع کئے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ الاعمش کی ابو صالح السمان سے معنعن روایت بالکل اتصال پر محمول نہیں ہوسکتی ہے۔
مگر حافظ ذہبی سے بہت بڑے علل کے امام عبدالرحمن ابن الجوزی نے اعمش عن ابو صالح پر حکم لگایا:
قَالَ الْمُؤَلِّفُ: هَذَا حَدِيثٌ لا يَصِحُّ. قَالَ أَحْمَدُ: بْنُ حَنْبَلٍ لَيْسَ لِهَذَا الْحَدِيثِ أَصْلٌ ليس يقول فيه أحد عَنِ الأَعْمَشِ أَنَّهُ قَالَ نا أَبُو صَالِحٍ وَالأَعْمَشُ يُحَدِّثُ عَنْ ضِعَافٍ وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الأَعْمَشَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي صَالِحٍ.
(العلل المتناهية في الأحاديث الواهية)
یہ حدیث صحیح نہیں، اس حدیث کی اصل نہیں اسمیں کوئی الاعمش عن ابو صالح سے سماع کی تصریح کے ساتھ روایت بیان نہیں کرتا، اور اعمش ضعیف راویوں سے حدیث بیان کرتے تھے۔

پس ثابت ہوگیا کہ اعمش کی معنعن روایت اور اعمش کا عنعنہ اسکے ضعفاء، کذابین، ملحدین، غالی شیعہ، سے تدلیس کرنے کی وجہ سے سخت ؐمضر ہے۔

1651143531178.png

1651143605059.png

1651143660926.png

1651143713386.png

1651143750087.png

1651143786434.png

1651143834970.png

1651143887718.png

1651143916474.png

1651143954226.png
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
سلیمان بن مھران الْأَعْمَشِ کی تدلیس اور جمہور محدثین
تحریر : ابو حمزہ

الاعمش کی تدلیس کے مضر ہونے اور اسکی معنعن روایت کے اتصال پر محمول نہ ہونے پر 20 محدثین کے اقول: اور حافظ ذہبی کے منفرد اصول کا رد علل کے اماموں ابو حاتم الرازی، علامہ ابن الجوزی، امام ابو عوانہ، ابن حزیمہ سے۔

امام الاعمش ثقہ ہونے کے ساتھ مدلس تھے اور ضعیف، کذاب، ملحدین سے بھی تدلیس کرتے تھے، جیسا کہ ابن عبدالبر نے لکھا کہ الاعمش کی معنعن روایت کے بارے میں جب استفسار کیا جاتا کہ کیا یہ متصل ہے بھی یا نہین؟ تو اعمش جی کبھی فرماتے یہ
01۔ موسیٰ بن طریف (کذاب اور موضوع حدیث گھڑنے والے) سے ہے، کبھی
02۔ عبایہ بن ربیعی ( غالی شیعہ ملحد) کا نام لیتے کبھی
03۔ حسن بن ذکوان (عندالجمہور ضعیف) کا نام لیتے، اور کبھی
04۔ حکیم بن جبیر (غالی شیعہ کثیر الوہم کذاب راوی) کا نام لیتے۔

01۔امام شعبہ بن الحجاج نے فرمایا:
وأخبرنا أحمد بن علي الأديب، أخبرنا الحاكم أبوعبد الله إجازة، حدثنا محمد بن صالح بن هاني، حدثنا إبراهيم بن أبي طالب، حدثنا رجاء الحافظ المروزي، حدثنا النضر بن شميل. قال: سمعت شعبة يقول: كفيتكم تدليس ثلاثة: الأعمش، وأبي إسحاق، وقتادة.
(مسألة التسمية)
تین کی تدلیس کیلئے میں کافی ہوں، الاعمش، ابو اسحاق اور قتادہ۔(سند صحیح)
(بعض لوگوں نے اس کو الاعمش کی خوبی بیان کی ہے جبکہ یہ الاعمش کی نہیں بلکہ امام شعبہ کی خوبی ہے کہ جس سند میں وہ ہونگے اسمیں مدلس کی معنعن روایت کو اتصال پر محمول کیا جائیگا۔)

02۔علل کے امام عبدالرحمن ابن الجوزی نے لکھا:
قَالَ الْمُؤَلِّفُ: هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ رَوَاهُ عَنِ الأَعْمَشِ مُحَاضِرٌ فَخَالَفَ فِيهِ أَبَا مُعَاوِيَةَ فَقَالَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنِ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِي نَصْرٍ وَكَانَ الأَعْمَشُ يَرْوِي عَنِ الضُّعَفَاءِ وَيُدَلِّسُ.
(العلل المتناهية في الأحاديث الواهية)
یہ حدیث منکر ہے، یہاں الاعمش عن عمرو بن مرۃ سے رویات کررہا ہے اور الاعمش الضعفاء سے روایت لیتے اور تدلیس کرتے تھے۔
دوسری جگہ الاعمش بن ابی صالح پر حکم لگایا:
قَالَ الْمُؤَلِّفُ: هَذَا حَدِيثٌ لا يَصِحُّ.
قَالَ أَحْمَدُ: بْنُ حَنْبَلٍ لَيْسَ لِهَذَا الْحَدِيثِ أَصْلٌ ليس يقول فيه أحد عَنِ الأَعْمَشِ أَنَّهُ قَالَ نا أَبُو صَالِحٍ وَالأَعْمَشُ يُحَدِّثُ عَنْ ضِعَافٍ وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الأَعْمَشَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي صَالِحٍ.
(العلل المتناهية في الأحاديث الواهية)
یہ حدیث صحیح نہیں، اس حدیث کی اصل نہیں اسمیں کوئی الاعمش عن ابو صالح سے سماع کی تصریح کے ساتھ روایت بیان نہیں کرتا، اور اعمش ضعیف راویوں سے حدیث بیان کرتے تھے۔
تیسری جگہ الاعمش عن حبیب بن ابی ثابت پر حکم لگایا:
والثاني أن الأعمش كان يدلس فلم يذكر أنه سمعه من حبيب بن أبي ثابت
دفع شبه التشبيه بأكف التنزيه))
الاعمش مدلس ہے اور اسنے حبیب بن ابی ثابت الاسدی سے سماع کی تصریح نہیں کی ہے۔

03۔ابو حاتم الرازی نے الاعمش عن مجاھد ہر حکم لگایا:
«وأَنَا أَخْشَى ألاَّ يكونَ سَمِعَ هذا الأَعْمَشُ مِنْ مُجَاهِدٍ، إنَّ الأَعْمَشَ قليلُ السماعِ مِنْ مُجَاهِدٍ، وعامَّةُ مَا يَرْوِي عَنْ مجاهدٍ مُدَلَّسٌ»
(العلل لابن أبي حاتم)
اعمش کا مجاھد سے سماع بہت تھوڑا ہے اسکی مجاہد سے عام روایات تدلیس شدہ ہیں، ۔
دوسری جگہ پر ابو حاتم الرازی نے الاعمش عن ابراھیم التیمی پر حکم لگایا:
2724 - وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ عبد الرَّزَّاق، عَنِ الثَّوري (1) ،
عَنِ الأعمَش، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمي (2) ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ؛ أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ: إِنِّي وَإِيَّاكَ (3) فِرْعَوْنُ هَذِهِ الأُمَّةِ؟
قَالَ أَبِي: هَذَا حديثٌ باطِلٌ؛ يَرَون (4) أَنَّ الأعمَش أخذه من حَكيم بْنِ جُبَير (1) ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرّ.وحَكيمٌ هُوَ نَحْوُ يُونُسَ بْنِ خَبَّاب (2) ، وَهُوَ ذاهبٌ فِي الضَّعف (3) .
العلل لابن أبي حاتم))
یہ حدیث باطل ہے اور اسے اعمش نے حکیم بن جبیر عن ابراھیم سے لیا ہے۔(حکیم بن جبیر، شیعہ کثیر الوہم اور کذاب ہے)
(نوٹ حافظ ذہبی کا اصول یہاں غلط ہوگیا کیونکہ وہ الاعمش کی ابراھیم التمیی سے معنعن روایت کو اتصال پر محمول کرتے ہیں جبکہ علل کے امام ابو حاتم الرازی الاعمش عن ابراھیم التمیی والی ایک روایت کو ایک کذاب سے تدلیس قرار دے رہے ہیںَ

04۔علل کے دوسرے امام محمد بن الحسین الہروی(متوفی 317ھ) نے الاعمش عن ابی صالح پر حکم لگایا:
فَتبين أَن هَذَا الحَدِيث لَيْسَ هُوَ مِمَّا سمع الْأَعْمَش من أبي صَالح
وَالْأَعْمَش كَانَ صَاحب تَدْلِيس فَرُبمَا أَخذ عَن غير الثِّقَات
(علل الأحاديث في كتاب الصحيح المسلم بن الحجاج)
المؤلف: أَبُو الفَضْلِ مُحَمَّدُ بنُ أَبِي الحُسَيْنِ أَحْمَدَ بنِ مُحَمَّدِ بنِ عَمَّارِ بنِ مُحَمَّدِ بنِ حَازِمِ بنِ المُعَلَّى بنِ الجَارُوْدِ الجَارُوْدِيُّ، الهَرَوِيُّ، الشَّهِيْدُ (المتوفى: 317هـ)
اور اعمش تدلیس کرنے والے تھے اور بعض اوقات غیر ثقہ راویوں سے روایت لیتے تھے۔

05۔حافظ ابن حجر نے لکھا:
2615- سليمان ابن مهران الأسدي الكاهلي أبو محمد الكوفي الأعمش ثقة حافظ عارف بالقراءات [بالقراءة] ورع لكنه يدلس من الخامسة(تقريب التهذيب)
یعنی یہ پانچوے طبقہ کا مدلس راوی ہے، اور پانچوے طبقہ کے بارے میں مقدمہ میں لکھا ہے کہ اسمیں وہ بدعتی راوی شامل ہیں جو اپنی بدعت کی دعوت دینے والے رواۃ اور وہمی راوی شامل ہیں۔
دوسری جگہ الاعمش کی عطاء خراسانی سے مروی معنعن روایت پر تدلیس تسویہ کا شعبہ ظاہر کرتے ہوئے لکھا:
لِأَنَّهُ لَا يَلْزَمُ مِنْ كَوْنِ رِجَالِهِ ثِقَاتٍ أَنْ يَكُونَ صَحِيحًا لِأَنَّ الْأَعْمَشَ مُدَلِّسٌ وَلَمْ يُنْكِرْ سَمَاعَهُ مِنْ عَطَاءٍ وَعَطَاءٌ يَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ هُوَ عَطَاءٌ الْخُرَاسَانِيُّ فَيَكُونُ فِيهِ تَدْلِيسُ التَّسْوِيَةِ
(التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير)
رجال کا ثقہ ہونا روایت کے صحیح ہونے کو لازم نہیں الاعمش مدلس ہے اور اسنے عطاء سے سماع کی تصریح نہیں کی ہے۔۔
اسکے بعد النکت نامی کتاب میں الاعمش کو تیسرے طبقہ میں شامل کرکے اپنے کتاب طبقات المدلیس(جسمیں الاعمش کو دوسرے طبقہ میں شامل کردیا تھا) سے رجوع کرلیا ہے۔

06۔ علامہ ابن عبدالبر نے لکھا:
لَا يُقْبَلُ تَدْلِيسُ لِأَنَّهُ إِذَا وَقَفَ أَحَالَ عَلَى غَيْرِ مَلِيءٍ يَعْنُونَ عَلَى غَيْرِ ثِقَةٍ إِذَا سَأَلْتَهُ عَمَّنْ هَذَا قَالَ عَنْ مُوسَى بْنِ طَرِيفٍ وَ عَبَايَةَ بْنِ رِبْعِيٍّ وَالْحَسَنِ بْنِ ذَكْوَانَ
التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد))
اور محدثین نے اعمش کی تدلیس کو غیر مقبول قرار دیا ہے، کیونکہ ان سے جب معنعن روایت کے بارے میں پوچھا جاتا تو غیر ثقہ کا حوالہ دیتے، پوچھا جاتا کہ یہ کس سے ہے ؟ توکہتے موسیٰ بن طریف، عبایہ بن ربعی، اور حسن بن ذکوان سے ہے۔
دوسری جگہ لکھا:
قَالَ أَبُو عُمَرَ هَذِهِ شَهَادَةُ عَدْلَيْنِ إِمَامَيْنِ عَلَى الْأَعْمَشِ بِالتَّدْلِيسِ وَأَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ عَنْ مَنْ لَقِيَهُ بِمَا لَمْ يَسْمَعْ مِنْهُ وَرُبَّمَا كَانَ بَيْنَهُمَا رَجُلٌ أَوْ رَجُلَانِ فَلِمِثْلِ هَذَا وَشِبْهِهِ
التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد))

07۔امام دارقطنی نے الاعمش عن مجاھد پر حکم لگایا:
وَرَوَاهُ الْأَعْمَشُ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، وَقِيلَ: إِنَّ الْأَعْمَشَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ مُجَاهِدٍ.
العلل الواردة في الأحاديث النبوية))
یعنی الاعمش نے یہ روایت مجاہد سے نہیں سنی ۔
دوسری جگہ الاعمش عن حبیب پر حکم لگایا:
وَرَوَاهُ عَلِيُّ بْنُ غُرَابٍ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَالْمَحْفُوظُ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ حَبِيبٍ مَا قَالَهُ ابْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْهُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَلَعَلَّ الْأَعْمَشَ دَلَّسَهُ عَنْ حَبِيبٍ وَأَظْهَرَ اسْمَهُ مَرَّةً، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.
العلل الواردة في الأحاديث النبوية))
اور اعمش نے حبیب بن ابی ثابت سے تدلیس کی ہے اور ایک دفعہ اسکا نام ظاہر کیا ہے۔

08۔امام ابن حزیمہ نے اپنی صحیح میں الاعمش عن ابو وائلِ شقیق بن سلمۃ پر حکم لگایا:
«هَذَا الْخَبَرُ لَهُ عِلَّةٌ لَمْ يَسْمَعْهُ الْأَعْمَشُ، عَنْ شَقِيقٍ لَمْ أَكُنْ فَهِمْتُهُ فِي الْوَقْتِ» 37--
( صحيح ابن خزيمة)
اس روایت میں علت ہے کہ اعمش نے یہ حدیث شقیق بن سلمۃ الاسدی سے نہیں سنی، میں اسے بروقت(روایت کے وقت) سمجھ نہ سکا۔
دوسری جگہ الاعمش عن حبیب کی معنعن روایت پر حکم لگایا:
قَالَ: ثنا جَرِيرٌ , عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ , عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُقَبِّحُوا الْوَجْهَ فَإِنَّ ابْنَ آدَمَ خُلِقَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ»
وَالثَّانِيَةُ: أَنَّ الْأَعْمَشَ مُدَلِّسٌ، لَمْ يُذْكَرْ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ
(كتاب التوحيد وإثبات صفات الرب عز وجل)
اعمش مدلس ہے اور اسنے یہاں سماع کی تصریح سے روایت نہیں کی ہے۔

09۔حافظ ابن حبان نے الاعمش کو مدلس قرار دیا:
[848] سليمان بن مهران الاعمش مولى بنى كاهل أبو محمد كان أبوه من سبى دنباوند ومولده السنة التي قتل فيها الحسين بن على بن أبى طالب سنة إحدى وستين رأى أنس بن مالك وسمع منه أحرفا يسيرة مات سنة ثمان وأربعين ومائة وكان مدلسا(مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار)
دوسری جگہ الاعمش عن سعید بن جبیر پر حکم لگایا:
مُوسَى بْنِ أَعْيَنَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -------وَهَذَا خَبَرٌ بَاطِلٌ لَا الأَعْمَشُ حَدَّثَ بِهِ (المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين)
یہ خبر باطل ہے اعمش نے سماع کی تصریح نہیں کی ہے۔
اپنی صحیح میں ابن حبان نے لکھا:
وأما المدلسون الذين هم ثقات وعدول فإنا لا نحتج بأخبارهم إلا ما بينوا السماع فيما رووا مثل الثوري والأعمش وأبي إسحاق وأضرابهم من الأئمة المتقين(لإحسان في تقريب صحيح ابن حبان)
ہو مدلس راوی جو ثقہ عادل ہیں ہم انکی صرف ان روایات سے ہی حجت پکڑتے ہیں جن میں سماع کی تصریح ہوگی، مثلاً ثوری، الاعمش، اور ابو اسحاق۔

10۔امام نووی نے الاعمش عن ابی سفیان پر حکم لگایا:
وَقَوْلُ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ مَعَ أَنَّ الْأَعْمَشَ مُدَلِّسٌ وَالْمُدَلِّسُ إِذَا قَالَ عَنْ لَا يُحْتَجُّ بِهِ إلا أن يَثْبُتَ سَمَاعُهُ مِنْ جِهَةٍ(شرح النووي على مسلم)
اور اعمش مدلس تھے اور مدلس اگر عن سے روایت کرے تو وہ حجت نہیں ہوتی الایہ کہ دوسری سند سے سماع کی تصریح ثابت ہوجائے۔
دوسری جگہ، الاعمش عن ابی صالح پر حکم لگایا:
الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ وَالْأَعْمَشُ مُدَلِّسٌ وَالْمُدَلِّسُ إِذَا قَالَ عَنْ لَا يُحْتَجُّ بِهِ إِلَّا إِذَا ثَبَتَ السَّمَاعُ مِنْ جِهَةٍ أُخْرَى(شرح النووي على مسلم)
اور اعمش مدلس تھے اور مدلس اگر عن سے روایت کرے تو وہ حجت نہیں ہوتی الایہ کہ دوسری سند سے سماع کی تصریح ثابت ہوجائے۔

11۔سفیان ثوری نے الاعمش عن ابی صالح پر حکم لگایا:
2430 - سَمِعت يحيى يَقُول قَالَ سُفْيَان الثَّوْريّ لم يسمع الْأَعْمَش هَذَا الحَدِيث من أبي صَالح الإِمَام ضَامِن(تاريخ ابن معين - رواية الدوري)
حدثنا عبد الرحمن نا صالح نا علي سمعت يحيى يقول قال سفيان: حديث الأعمش عن أبي صالح (الإمام ضامن) لا أراه سمعه من أبي صالح.(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم)
اعمش کی ابو صالح سے الامام ضامن والی حدیث میں نہیں سمجھتا کہ اعمش نے اسے ابو صالح سے سنا ہے۔ یعنی تدلیس کا شبہہ ہے۔
(نوٹ بعض لوگ ضعیف سند سے سماع کی تصریح پیش کرتے ہیں، تو مذکورہ روایت میں سماع کی تصریح سے صرف"امام ضامن والی روایت" میں علت رفع ہو تی ہے ، دنیا کی تمام الاعمش عن ابی صالح کی علت رفع نہیں ہوتی، اسلئے جب بھی کوئی الاعمش عن ابی صالح سے معنعن روایت پیش کرے تو سماع کی تصریح بھی پیش کردے تو وہاں بھی علت رفع ہوجائیگی)

12۔امام ابن القطان فاسی (متوفی628ھ) نے الاعمش عن ابی صالح پر حکم لگایا:
ومعنعن الْأَعْمَش عرضة لتبين الِانْقِطَاع، فَإِنَّهُ مُدَلّس، وَأبين مَا يكون الِانْقِطَاع بِزِيَادَة وَاحِد فِي حَدِيث من عرف بالتدليس،
(بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام)
اور اعمش کی معنعن روایت انقطاع کا نشانہ ہے کیونکہ وہ مدلس ہیں، دوسری جگہ الاعمش عن ابی سفیان پر حکم لگایا:
قَالَ: وَهَذَا الحَدِيث لَا نعلمهُ يرْوى / بِهَذَا اللَّفْظ عَن النَّبِي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - من وَجه أحسن من هَذَا الْوَجْه، على أَن الْأَعْمَش لم يسمع من أبي سُفْيَان (بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام)
اعمش نے ابی سفیان سے نہیں سنا۔

13۔امام حاکم نیسابوری نے الاعمش عن ابی صالح پر حکم لگایا:
قَالَ الْحَاكِمُ: لَمْ يَسْمَعْ هَذَا الْحَدِيثَ الْأَعْمَشُ مِنْ أَبِي صَالِحٍ، وَقَدْ رَوَاهُ أَكْثَرُ أَصْحَابِهِ عَنْهُ هَكَذَا مُنْقَطِعًا(معرفة علوم الحديث)
اعمش نے ابو صالح سے یہ حدیث نہیں سنی، اور اسکو اکثر اصحابہ نے منقطع بیان کیا ہے۔

14۔امام بیہقی نے الاعمش عن ابی صالح پر حکم لگایا:
وَهَذَا الْحَدِيثُ لَمْ يَسْمَعْهُ الْأَعْمَشُ بِالْيَقِينِ مِنْ أَبِي صَالِحٍ وَإِنَّمَا سَمِعَهُ مِنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ(السنن الكبرى للبيهقي)
اور یہ حدیث اعمش نے یقیناً ابو صالح سے نہیں سنی۔
(یعنی کسی دوسری ضعیف یا متروک شیخ سے سن کر ابو صالح کے ذمہ لگادی ہے یعنی تدلیس کی ہے)

15۔علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب أسماء المدلسين میں لکھا:
21- سليمان الأعمش مشهور به [بالتدليس](أسماء المدلسين)

16۔حافظ ذہبی نے لکھا:
إِسْنَادُهُ ثِقَاتٌ، لَكِنَّ الأَعْمَشَ مُدَلِّسٌ،(سير أعلام النبلاء)
اسکی سند میں راوی ثقہ ہیں مگر الاعمش مدلس ہے۔
دوسری جگہ لکھا:
سليمان بن مهران ۔۔۔۔۔----ما نقموا عليه إلا التدليس---قلت: وهو يدلس، وربما دلس عن ضعيف، ولا يدرى به،(ميزان الإعتدال في نقد الرجال)
اور اعمش تدلیس کرتے تھے اور بعض اوقات ضعیف راویوں سے تدلیس کرتے اور اسکا پتا ہیں چلتا تھا۔
اور اپنی کتاب طبقات الحفاظ وأسماء المدلسين میں الاعمش کو شامل کرلیا ہے۔
منظومة أسماء المدلسين للحافظ الذهبي------4- والثبت يحيى بن أبي كثير ... والأعمش الناقل بالتحرير(طبقات الحفاظ وأسماء المدلسين للذهبي)

17۔عینی حنفی نے لکھا:
قلت: الْأَعْمَش مُدَلّس وَقد عنعن(عمدة القاري)
اور اعمش مدلس ہے اور اسنے معنعن روایت بیان کی ہے۔
دوسری جگہ لکھا:
الْأَعْمَش مُدَلّس، وعنعنة المدلس لَا تعْتَبر إلاَّ إِذا علم سَمَاعه، فَأَرَادَ التَّصْرِيح بِالسَّمَاعِ، إِذْ الْإِسْنَاد الأول مُعَنْعَن.(عمدة القاري)
اعمش مدلس ہے اور مدلس کا عنعنعہ جب تک سماع کی تصریح نہیں مل جائے قابل اعتبار نہیں ہوتا ہے۔

18۔شیخ علی بن المدینی نے الاعمش عن ابی صالح پر حکم لگایا:
207 - حَدَّثَنَا هَنَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: -------وسَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: «حَدِيثُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَائِشَةَ أَصَحُّ» ، وَذَكَرَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ المَدِينِيِّ «أَنَّهُ لَمْ يُثْبِتْ حَدِيثَ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَلَا حَدِيثَ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَائِشَةَ فِي هَذَا(سنن الترمذي)»
اس بارے میں ابو صالح عن ابی ہریرہ والی حدیث ثابت نہیں ہے۔

19۔امام ابو زرعہ الرازی نے الاعمش عن ابی وائل پر حکم لگایا:
قلتُ لأَبِي زُرْعَةَ: فأيُّهما الصَّحيحُ؟
قَالَ: أَخْطَأَ أَبُو بَكْرُ بْن عَيَّاش فِي هَذَا؛ الصَّحيحُ مِنْ حديثِ الأعمش: عَنْ أَبِي وائِلٍ، عَن حذيفة وَرَوَاهُ منصور، عَنْ أَبِي وائِلٍ، عَن حذيفة؛ ولم يذكر المَسْح، وذكَرَ أنَّ النبيَّ (ص) قائمًا قلتُ: فالأعمش؟ قَالَ: الأعمشُ (1) ربَّما دَلَّس
(العلل لابن أبي حاتم)
یہاں اعمش ہے اور کبھی کبھار تدلیس بھی کرتا ہے۔
(نوٹ اگر ذہبی کا کلیہ(اعمش کی ابو وائل سے روایت اتصال پر محمول ہوتی ہے) درست ہوتا تو ابو زرعہ الرازی الاعمش عن ابی وائل پر کبھی تدلیس کا شبہہ ظاہر نہ کرتے۔)

20۔یعقوب بن سفیان فسوی نے لکھا:
وَحَدِيثُ سُفْيَانَ وَأَبِي إِسْحَاقَ وَالْأَعْمَشِ مَا لَمْ يُعْلَمْ أَنَّهُ مُدَلِّسٌ يَقُومُ مَقَام َ الْحُجَّةِ.وَأَبُو إِسْحَاقَ وَالْأَعْمَشُ مَائِلَانِ إِلَى التَّشَيُّعِ، (المعرفة والتاريخ)
سفیان ثوری، ابن اسحاق، اور اعمش کی احادیث میں جب تک یہ معلوم نہ ہوجاے کہ انہونے تدلیس کی ہے(یعنی معنعن نہ ہوں) تو انکی حدیث حجت کا مقام رکھتی ہے۔

حافظ ذہبی کے منفرد کلیہ کا جواب:
ذہبی نے میزان میں لکھا:
احتمال التدليس إلا في شيوخ له أكثر عنهم: كإبراهيم، وابن أبي وائل، وأبي صالح السمان، فإن روايته عن هذا الصنف محمولة على الاتصا
(ميزان الإعتدال في نقد الرجال)
یعنی اعمش مدلس ہیں البتہ اسکے شیوخ ابراھیم بن یزید التیمی، شقیق بن سلمۃ ابو وائل، ذکوان، ابو صالح السمان سے روایت متصل سند پر محمول ہوگی۔
الجواب: ان دو لائنوں کے کلمات کی نہ تو ذہبی نے پھر دوبارہ کسی کتاب میں اسکو بیان کیا، نہ اپنی بات پر کوئی دلیل پیش کی، اور بے دلیل بات حجت نہیں ہوتی اسلئے ذہبی کا یہ بے دلیل کلیہ جمہور محدثین کی تصریحات کے بعد حجت نہیں ہے۔

1۔الْأَعْمَش عن إبراهيم بن يزيد التيمي
-امام حاکم نے ابو عوانہ سے سند کے ساتھ نقل فرمایا کہ: ابو عوانہ نے الاعمش عن إبراهيم پر حکم لگایا:
قَالَ أَبُو عَوَانَةَ: قُلْتُ لِلْأَعْمَشِ: سَمِعْتَ هَذَا مِنْ إِبْرَاهِيمَ؟، قَالَ: لَا حَدَّثَنِي بِهِ حَكِيمُ بْنُ جُبَيْرٍ عَنْهُ(معرفة علوم الحديث).
یہ اعمش نے إبراهيم سے نہیں سنی بلکہ حکیم بن جبیر (غالی شیعہ کذاب) سے سنی ہے۔
-امام ابو حاتم الرازی نےالْأَعْمَش عن إبراهيم پر حکم لگایا
2724 - وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ عبد الرَّزَّاق، عَنِ الثَّوري (1) ،
عَنِ الأعمَش، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمي (2) ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ؛ أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ: إِنِّي وَإِيَّاكَ (3) فِرْعَوْنُ هَذِهِ الأُمَّةِ؟ قَالَ أَبِي: هَذَا حديثٌ باطِلٌ؛ يَرَون (4) أَنَّ الأعمَش أخذه من حَكيم بْنِ جُبَير (1) ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرّ.وحَكيمٌ هُوَ نَحْوُ يُونُسَ بْنِ خَبَّاب (2) ، وَهُوَ ذاهبٌ فِي الضَّعف (3) .
العلل لابن أبي حاتم))
یہ حدیث باطل ہے اور اسے اعمش نے حکیم بن جبیر عن ابراھیم سے لیا ہے۔(حکیم بن جبیر، شیعہ کثیر الوہم اور کذاب ہے)

2۔الْأَعْمَش عن شقيق بن سلمة الأسدي ,أبو وائل
امام ابن حزیمہ نے الاعمش عن شقیق پر حکم لگایا:
«هَذَا الْخَبَرُ لَهُ عِلَّةٌ لَمْ يَسْمَعْهُ الْأَعْمَشُ، عَنْ شَقِيقٍ لَمْ أَكُنْ فَهِمْتُهُ فِي الْوَقْتِ» 37--
( صحيح ابن خزيمة)
اس روایت میں علت ہے کہ اعمش نے یہ حدیث شقیق بن سلمۃ الاسدی سے نہیں سنی، میں اسے بروقت(روایت کے وقت) سمجھ نہ سکا۔

3۔الْأَعْمَش عن أبو صالح السمان :
سمجھ علماء اہلحدیث نے 15 سے زیادہ اقول جمع کئے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ الاعمش کی ابو صالح السمان سے معنعن روایت بالکل اتصال پر محمول نہیں ہوسکتی ہے۔
مگر حافظ ذہبی سے بہت بڑے علل کے امام عبدالرحمن ابن الجوزی نے اعمش عن ابو صالح پر حکم لگایا:
قَالَ الْمُؤَلِّفُ: هَذَا حَدِيثٌ لا يَصِحُّ. قَالَ أَحْمَدُ: بْنُ حَنْبَلٍ لَيْسَ لِهَذَا الْحَدِيثِ أَصْلٌ ليس يقول فيه أحد عَنِ الأَعْمَشِ أَنَّهُ قَالَ نا أَبُو صَالِحٍ وَالأَعْمَشُ يُحَدِّثُ عَنْ ضِعَافٍ وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الأَعْمَشَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي صَالِحٍ.
(العلل المتناهية في الأحاديث الواهية)
یہ حدیث صحیح نہیں، اس حدیث کی اصل نہیں اسمیں کوئی الاعمش عن ابو صالح سے سماع کی تصریح کے ساتھ روایت بیان نہیں کرتا، اور اعمش ضعیف راویوں سے حدیث بیان کرتے تھے۔

پس ثابت ہوگیا کہ اعمش کی معنعن روایت اور اعمش کا عنعنہ اسکے ضعفاء، کذابین، ملحدین، غالی شیعہ، سے تدلیس کرنے کی وجہ سے سخت ؐمضر ہے۔

22551 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
22552 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
22553 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
22554 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
22555 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
22556 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
22557 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
22558 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
22559 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
22560 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
جی بالکل میں آپ سے متفق ہوں اور نہایت تعجب ہوتا ہے کہ جب اتنے سارے دلائل کی موجودگی میں بخاری و مسلم میں اعمش کی معنعن روایات کو اندھے مقلدوں کی طرح صحیح مان لیا جاتا ہے۔
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
نہایت تعجب ہوتا ہے کہ جب اتنے سارے دلائل کی موجودگی میں بخاری و مسلم میں اعمش کی معنعن روایات کو اندھے مقلدوں کی طرح صحیح مان لیا جاتا ہے۔
آپ کا تعلق کس گروہ ہے ہیں زرا وضاحت فرمائیں گے؟ کیونکہ بخاری مسلم کی تمام احادیث کے صحیح ہونے پر اہل السنۃ والجماعت کا اتفاق رہا ہے! اور جہاں تک صحیحین میں مدلس کی عن والی روایت ہے تو وہ سماع پر محمول ہوتی ہے، یا اس کے متابعات کی بنا پر صحیح ہوتی ہے۔

حافظ زبیر علی زئی فرماتے ہیں :

صحیح بخاری و مسلم میں مدلس راوی کی روایت (خواہ وہ معنعن ہو) سماع پر محمول ہوتی ہے، یا اس کے متابعات کی بنا پر وہ صحیح سمجھی جاتی ہے، یہ قاعدہ اصول حدیث کی کتب میں بالتفصیل موجود ہے۔

[ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ ۱۳۴، صفحہ نمبر: ۱۴]

IMG_20230728_105920.jpg

IMG_20230728_110143_036.jpg
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
آپ کا تعلق کس گروہ ہے ہیں زرا وضاحت فرمائیں گے؟ کیونکہ بخاری مسلم کی تمام احادیث کے صحیح ہونے پر اہل السنۃ والجماعت کا اتفاق رہا ہے! اور جہاں تک صحیحین میں مدلس کی عن والی روایت ہے تو وہ سماع پر محمول ہوتی ہے، یا اس کے متابعات کی بنا پر صحیح ہوتی ہے۔

حافظ زبیر علی زئی فرماتے ہیں :

صحیح بخاری و مسلم میں مدلس راوی کی روایت (خواہ وہ معنعن ہو) سماع پر محمول ہوتی ہے، یا اس کے متابعات کی بنا پر وہ صحیح سمجھی جاتی ہے، یہ قاعدہ اصول حدیث کی کتب میں بالتفصیل موجود ہے۔

[ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ ۱۳۴، صفحہ نمبر: ۱۴]

23076 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
23077 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
بھئی مجھے متقدمین سے اس بات کا ثبوت دے دیں۔
جہاں تک بات ہے متابعت / دوسری جگہ سماع کی صراحت کی تو بخاری کی متعدد روایات کے سماع کی صراحت تو دوسری کتب میں موجود نہیں ہے۔
تعجب کی بات ہے۔متقدمین تو "عنعن" کی وجہ سے تدلیس نہیں کہتے تھے بلکہ باقاعدہ تتبع کرکے تدلیس نکالتے تھے تب کہتے تھے تدلیس ہوئی ہے۔
اور اگر ایک دفعہ تدلیس کرنے سے راوی کو مدلس بنا دیا جاتا ہے تو پھر مالک بن انس بھی تدلیس تسویہ کرتے تھے۔ ان کی عادت تھی کہ وہ ضعیف راوی کو ساقط کردیتے تھے تو پھر ان کی عنعن والی روایت بھی قبول ہو گی؟؟ یا یہ اصول صرف اپنی مرضی کی روبایتوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے لئے ہے۔
 
Top