• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سمارٹ فون میں موجود قرآن مجید کو بغیر وضو کے کھولنا اور پڑھنا ۔۔

شمولیت
اکتوبر 11، 2011
پیغامات
90
ری ایکشن اسکور
116
پوائنٹ
70
کیا میں رات کو سوتے وقت بستر پر لیٹ کر اپنے موبائل فون میں موجود قرآن مجید میں سے سورت البقرہ کی آخری دو آیات بغیر وضو کہ پڑھ سکتا ہوں کہ نہیں ۔۔؟

Sent from my SM-N920C using Tapatalk
 
شمولیت
اکتوبر 11، 2011
پیغامات
90
ری ایکشن اسکور
116
پوائنٹ
70
ادھر کوئی صاحب علم توجہ دے۔۔

Sent from my SM-N920C using Tapatalk
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
کیا میں رات کو سوتے وقت بستر پر لیٹ کر اپنے موبائل فون میں موجود قرآن مجید میں سے سورت البقرہ کی آخری دو آیات بغیر وضو کہ پڑھ سکتا ہوں کہ نہیں ۔۔؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
پہلی بات تو یہ رات کو سونے سے پہلے وضوء کرلینا چاہیئے ،کیونکہ نبی کرم ﷺ نے اس کی تعلیم فرمائی ہے
البراء بن عازب رضي الله عنهما قال:‏‏‏‏ قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏"إذا اتيت مضجعك فتوضا وضوءك للصلاة ثم اضطجع على شقك الايمن وقل:‏‏‏‏ اللهم اسلمت نفسي إليك وفوضت امري إليك والجات ظهري إليك رهبة ورغبة إليك لا ملجا ولا منجا منك إلا إليك آمنت بكتابك الذي انزلت وبنبيك الذي ارسلت فإن مت مت على الفطرة فاجعلهن آخر ما تقول"فقلت:‏‏‏‏ استذكرهن وبرسولك الذي ارسلت قال:‏‏‏‏ لا وبنبيك الذي ارسلت.

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تو سونے لگے تو نماز کے وضو کی طرح وضو کر پھر دائیں کروٹ لیٹ جا اور یہ دعا پڑھ «اللهم أسلمت نفسي إليك،‏‏‏‏ وفوضت أمري إليك،‏‏‏‏ وألجأت ظهري إليك،‏‏‏‏ رهبة ورغبة إليك،‏‏‏‏ لا ملجأ ولا منجا منك إلا إليك،‏‏‏‏ آمنت بكتابك الذي أنزلت،‏‏‏‏ وبنبيك الذي أرسلت‏.‏» ”اے اللہ! میں نے اپنے آپ کو تیری اطاعت میں دے دیا۔ اپنا سب کچھ تیرے سپرد کر دیا۔ اپنے معاملات تیرے حوالے کر دئیے۔ خوف کی وجہ سے اور تیری (رحمت و ثواب کی) امید میں کوئی پناہ گاہ کوئی مخلص تیرے سوا نہیں میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی ہے اور تیرے نبی پر جن کو تو نے بھیجا ہے۔“
اس کے بعد اگر تم مر گئے تو فطرت (دین اسلام) پر مرو گے پس ان کلمات کو (رات کی) سب سے آخری بات بناؤ جنہیں تم اپنی زبان سے ادا کرو (براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا) میں نے عرض کی «وبرسولك الذي أرسلت‏.‏» کہنے میں کیا وجہ ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں «وبنبيك الذي أرسلت» کہو۔(صحیح البخاری ، باب إذا بات طاهرا: (باب: وضو کر کے سونے کی فضیلت) حدیث نمبر 247

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور بغیر وضوء تلاوت کے مسئلہ پر درج ذیل فتوی ملاحظہ فرمائیں :

قراءة القرآن من الجوال هل يشترط لها الطهارة؟
يوجد في بعض الجوالات برامج للقرآن تستطيع أن تتصفح منها القرآن في أي وقت على شاشة الجوال ، فهل يلزم قبل القراءة من الجوال الطهارة ؟
تم النشر بتاريخ: 2007-09-28
الحمد لله
هذه الجوالات التي وضع فيها القرآن كتابة أو تسجيلا ، لا تأخذ حكم المصحف ، فيجوز لمسها من غير طهارة ، ويجوز دخول الخلاء بها ، وذلك لأن كتابة القرآن في الجوال ليس ككتابته في المصاحف ، فهي ذبذبات تعرض ثم تزول وليست حروفا ثابتة ، والجوال مشتمل على القرآن وغيره .
وقد سئل الشيخ عبد الرحمن بن ناصر البراك : ما حكم قراءة القرآن من جهاز الجوال بدون طهارة ؟
فأجاب حفظه الله : " الجواب: الحمد لله وحده والصلاة والسلام على من لا نبي بعده أما بعد.
فمعلوم أن تلاوة القرآن عن ظهر قلب لا تشترط لها الطهارة من الحدث الأصغر ، بل من الأكبر ، ولكن الطهارة لقراءة القرآن ولو عن ظهر قلب أفضل ، لأنه كلام الله ومن كمال تعظيمه ألا يقرأ إلا على طهارة .
وأما قراءته من المصحف فتشترط الطهارة للمس المصحف مطلقاً ، لما جاء في الحديث المشهور : (لا يمس القرآن إلا طاهر) ولما جاء من الآثار عن الصحابة والتابعين ، وإلى هذا ذهب جمهور أهل العلم ، وهو أنه يحرم على المحدث مس المصحف ، سواء كان للتلاوة أو غيرها ،
وعلى هذا يظهر أن الجوال ونحوه من الأجهزة التي يسجل فيها القرآن ليس لها حكم المصحف ،لأن حروف القرآن وجودها في هذه الأجهزة تختلف عن وجودها في المصحف ، فلا توجد بصفتها المقروءة ، بل توجد على صفة ذبذبات تتكون منها الحروف بصورتها عند طلبها ، فتظهر الشاشة وتزول بالانتقال إلى غيرها ، وعليه فيجوز مس الجوال أو الشريط الذي سجل فيه القرآن ، وتجوز القراءة منه ، ولو من غير طهارة والله أعلم " انتهى نقلا عن موقع: "نور الإسلام".
وسئل الشيخ صالح الفوزان حفظه الله : أنا حريص على قراءة القرآن وعادة أكون في المسجد مبكرا ومعي جوال من الجوالات الحديثة التي فيها برنامج كامل للقرآن الكريم -القرآن كاملا- بعض المرات : لا أكون على طهارة فأقرأ ما يتيسر وأقرأ بعض الأجزاء ، هل تجب الطهارة عند القراءة من الجوالات ؟
فأجاب : "هذا من الترف الذي ظهر على الناس ، المصاحف والحمد لله متوفرة في المساجد وبطباعة فاخرة ، فلا حاجة للقراءة من الجوال ، ولكن إذا حصل هذا فلا نرى أنه يأخذ حكم المصحف.
المصحف لا يمسه إلا طاهر ، كما في الحديث : (لا يمس القرآن إلا طاهر) وأما الجوال فلا يسمى مصحفا " انتهى .
وقراءة القرآن من الجوال فيها تيسير للحائض ، ومن يتعذر عليه حمل المصحف معه ، أو كان في موضع يشق عليه فيه الوضوء ، لعدم اشتراط الطهارة لمسه كما سبق .

الإسلام سؤال وجواب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ :

کیا موبائل سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے کیلیے وضو شرط ہے؟
سوال: کچھ موبائلوں میں قرآن مجید کے ایسے سافٹ وئیر ہیں جن کے ذریعے آپ جب چاہیں موبائل کی اسکرین پر قرآن مجید پڑھ سکتے ہیں، تو کیا موبائل سے قرآن مجید پڑھنے کیلیے وضو شرط ہے؟
ــــــــــــــــــــــــ۔
جواب
الحمد للہ:
جن موبائلوں میں قرآن مجید کتابت یا آڈیو فائلوں کی صورت میں ہے ان کا حکم مصحف یعنی قرآن مجید والا نہیں ہے، اس لیے موبائل میں موجود قرآن مجید کو بغیر وضو کے چھوا جا سکتا ہے، اسی طرح انہیں لیکر بیت الخلاء میں بھی جا سکتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ موبائل میں قرآن مجید کی کتابت ایسے نہیں ہوتی جیسے کہ کتابی شکل میں ہوتی ہے، بلکہ یہ لہریں ہوتی ہیں جو زائل بھی ہو جاتی ہیں، چنانچہ موبائل قرآن مجید کی کتابت عارضی ہوتی ہے مستقل نہیں، ویسے بھی موبائل میں قرآن مجید کے ساتھ اور بہت سی چیزیں ہوتی ہیں۔

شیخ عبد الرحمن بن ناصر البراک سے استفسار کیا گیا کہ:
کہ بغیر وضو کے موبائل سے قرآن مجید دیکھ کر پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں، درود و سلام ہوں سب سے آخری پیغمبر پر جن کے بعد کوئی نبی نہیں، اما بعد:
یہ بات واضح ہے کہ زبانی تلاوت کرنے کیلیے وضو کی شرط نہیں لگائی جاتی بلکہ جنابت کی حالت میں بھی زبانی تلاوت کی جا سکتی ہے، تاہم زبانی تلاوت کرتے ہوئے بھی با وضو ہونا افضل اور بہتر ہے؛ کیونکہ قرآن مجید اللہ تعالی کا کلام ہے اور باوضو ہو کر قرآن مجید کی تلاوت کرنا قرآن مجید کی کامل تعظیم میں شامل ہے۔

جبکہ قرآن مجید پکڑ کر تلاوت کرنے کیلیے مطلق طور پر با وضو ہونا شرط ہے؛ جیسے کہ مشہور حدیث میں ہے کہ: (قرآن مجید کو با وضو شخص ہی ہاتھ لگائے) اسی طرح صحابہ کرام اور تابعین عظام سے بھی اس بارے میں آثار منقول ہیں، اسی بات کے جمہور اہل علم قائل ہیں کہ بے وضگی کی حالت میں قرآن مجید کو ہاتھ نہیں لگانا چاہیے، چاہے تلاوت کیلیے ہاتھ لگانا مقصود ہو یا کسی اور مقصد سے۔

اس بنا پر موبائل یا دیگر جدید آلات جن میں قرآن مجید ریکارڈ ہوتا ہے ان کا حکم مصحف والا نہیں ہے؛ کیونکہ ان آلات میں قرآن مجید کے حروف کی ماہیت ایسے نہیں ہوتی جیسے کہ مصحف میں ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ موبائل میں قرآن مجید لہروں اور شعاعوں کی شکل میں ہوتا ہے جن سے ضرورت کے وقت قرآن مجید کی شکل بن کر عیاں ہوتی ہے، لہذا اگر قرآن مجید کھول کر کوئی اور پروگرام کھول لیا جائے تو قرآن مجید اسکرین سے غائب ہو جاتا ہے، اس لیے موبائل کو یا کیسٹ جس میں قرآن مجید ریکارڈ ہے ہاتھ لگایا جا سکتا ہے، اسی طرح موبائل سے قرآن مجید کی تلاوت کرنا بھی جائز ہے، چاہے وضو نہ بھی ہو" انتہی
ماخوذ از ویب سائٹ: "نور الإسلام"

اسی طرح شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"مجھے قرآن مجید پڑھنے کا بہت شوق ہے، عام طور پر میں مسجد میں جلدی پہنچ کر اپنے جدید ترین موبائل سے قرآن مجید نکال کر پڑھنا شروع کر دیتا ہے، میرے موبائل میں مکمل قرآن مجید ہے، بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ میرا وضو نہیں ہوتا تو پھر بھی میں اپنے موبائل سے قرآن مجید کی تلاوت کر لیتا ہوں ، تو کیا موبائل سے تلاوت کرتے ہوئے بھی با وضو ہونا ضروری ہے؟"

تو انہوں نے جواب دیا:
"یہ لوگوں میں موجود آرام پسندی رویہ کے سبب ہے؛ کیونکہ اللہ کا شکر ہے کہ بہترین پرنٹنگ والے قرآن مجید مساجد میں موجود ہیں ، اس لیے موبائل سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، تاہم اگر ایسا ممکن ہو گیا ہے تو ہم یہ نہیں سمجھتے کہ اس کا حکم بھی مصحف والا ہوگا۔

مصحف کو صرف با وضو شخص ہی ہاتھ لگا سکتا ہے، جیسے کہ حدیث میں ہے کہ: (اسے صرف با وضو شخص ہی ہاتھ لگائے) جبکہ موبائل کو مصحف نہیں کہا جا سکتا۔" انتہی

موبائل سے قرآن مجید کی تلاوت میں حائضہ خواتین کیلیے بھی آسانی ہے اسی طرح ان کیلیے بھی آسانی ہے جن کیلیے قرآن مجید ہر وقت اپنے ساتھ رکھنا مشکل ہے، یا ایسی جگہ پر انسان موجود ہو جہاں پر وضو کرنا مشکل ہے؛ کیونکہ موبائل سے تلاوت کرتے ہوئے با وضو ہونا شرط نہیں ہے، جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے۔
واللہ اعلم.
اسلام سوال و جواب
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
بغیر وضوء مصحف میں سے قرآن کریم کی تلاوت کرنے کا حکم؟
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ میراث الانبیاء
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: جزاكم الله خير شيخنا سوال نمبر 21 تیونس سے سائل کہتا ہے : مصحف میں سے قرآن کریم بغیر وضوء کے تلاوت کرنے کے بارے میں صحیح قول کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب:
جو بات میرے نزدیک راجح ہے کہ (قرآن مجید کو چھونے یا تلاوت کے لیے )وضوء واجب نہیں۔ البتہ اس کا امر (حکم) ندب (استحباب) کے لیے ہے۔ لیکن اس امر کو میں بطور وجوب لینے کا قائل نہیں۔ کیونکہ مسلمان کا بدن (اصلا ً)طاہر (پاک) ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَا يَنْجَسُ‘‘
(بے شک مومن نجس نہیں ہوتا)۔
دوسری حدیث میں فرمایا:
’إِنَّ الْمُسْلِمَ لَا يَنْجُسُ‘‘
(بے شک مسلمان نجس نہیں ہوتا)۔
یہ بات سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مدینہ کی کسی گلی میں جارہے تھے تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نےفرمایا: ’’فَانْسَلَلْتُ‘‘ اور ایک روایت میں ہے ’’فَانْخَنَسْتُ فَاغْتَسَلْتُ‘‘ یعنی میں چپکے سے سرک گیا اور جلدی غسل کرکے واپس لوٹا، فرمایا:
’’لقيتُ رسول الله – صلَّى الله عليهِ وسلَّم – وأنا جُنُب في بعضِ طرق المدينة ، فلمَّا جلس قال: انخنست منه فاغتسلت منه فجئت، فقال: أَيْنَ كُنْتَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ كُنْتُ جُنُبًا فَكَرِهْتُ أَنْ أُجَالِسَكَ وَأَنَا عَلَى غَيْرِ طَهَارَةٍ فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ إِنَّ الْمُسْلِمَ لَا يَنْجُسُ‘‘([1])
(میرا مدینہ کی کسی گلی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سامنا ہوا جبکہ میں جنابت کی حالت میں تھا ۔ جب وہ بیٹھے تو میں چپکے سے وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور غسل جنابت کرکے واپس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم کہاں تھے اے ابوہریرہ !؟ میں نے کہا کہ: میں جنابت کی حالت میں تھا تو میں نے مکروہ (ناگوار) جاناکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیٹھو حالانکہ میں غیرطہارت کی حالت میں ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! بے شک مسلمان نجس (ناپاک وپلید) نہیں ہوتا)۔
چناچہ جنابت یعنی خواہ حدث اکبر ہو جیسے دونوں جنسوں (مرد وزن) کے درمیان مشترکہ جنابت جو ہوتی ہے(جیسے جماع)، یا پھر صرف عورت کے تعلق سے حیض ونفاس ہو، یا پھر حدث اصغر (بے وضوء ہونا) ہو۔ میرے نزدیک جو صواب اور راجح بات ہے اور اسی پر باکثرت محققین ہیں الحمدللہ کہ مصحف میں سے قرآن کریم کی تلاوت کرنے کے لیے وضوء کی شرط نہیں، بغیر طہارت کے بھی مصحف قرآن کو چھونا اور اس میں سے قرأت کرنا جائز ہے۔
کراہیت کا قول اصل میں دلائل کو جمع کرنے کی صورت میں ہے، یہ بات صحیح ہے اور قابل نظر ہے، کہ مصحف قرآنی کو بغیر طہارت کے چھونے کو محض مکروہ کہا جائے (یعنی طہارت ہونا اچھی بات ہے لیکن شرط نہیں بنا طہارت بھی چھوا اور پڑھا جاسکتا ہے)، دلائل کو جمع کرنے کی یہ صورت بنتی ہے۔
[1] صحیح بخاری 283، صحیح مسلم 374۔
 
Last edited:

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم شیخ @اسحاق سلفی حفظہ اللہ

اگر ایک شخص حافظ قرآن نہیں ہے اور وہ رمضان المبارک میں اکیلے قیام اللیل کرتا ہے تو کیا وہ مصحف (آج کل موبائل فون) سے دیکھ کر تلاوت کر سکتا ہے یا وہ بھی نہیں کر سکتا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم شیخ @اسحاق سلفی حفظہ اللہ
اگر ایک شخص حافظ قرآن نہیں ہے اور وہ رمضان المبارک میں اکیلے قیام اللیل کرتا ہے تو کیا وہ مصحف (آج کل موبائل فون) سے دیکھ کر تلاوت کر سکتا ہے یا وہ بھی نہیں کر سکتا
السؤال :
هل يجوز قراءة القرآن الكريم عن طريق الحاسوب ( الكمبيوتر ) خلال أداء صلاة التراويح ؟
نص الجواب

الحمد لله
القراءة عن طريق الحاسوب في الصلاة لها حكم القراءة من المصحف في الصلاة ، وهي مسألة مشهورة ، وفيها خلاف بين العلماء ، فأجازها الشافعية الحنابلة ، وذهب أبو حنيفة إلى بطلان صلاة من قرأ من المصحف .
جاء في " الموسوعة الفقهية " ( 33 / 57 ، 58 ) :
"ذهب الشافعية والحنابلة إلى جواز القراءة من المصحف في الصلاة ، قال الإمام أحمد : لا بأس أن يصلّي بالناس القيام وهو ينظر في المصحف ، قيل له : الفريضة ؟ قال : لم أسمع فيها شيئاً.
وسئل الزّهريّ عن رجل يقرأ في رمضان في المصحف ، فقال : كان خيارنا يقرؤون في المصاحف .
وفي شرح " روض الطالب " للشيخ زكريا الأنصاريّ : إذا قرأ في مصحف ، ولو قلَّب أوراقه أحياناً لم تبطل - أي : الصلاة - لأن ذلك يسير أو غير متوال لا يشعر بالإعراض ، والقليل من الفعل الذي يبطل كثيره إذا تعمده بلا حاجة : مكروه .
وذهب أبو حنيفة إلى فساد الصلاة بالقراءة من المصحف مطلقاً ، قليلاً كان أو كثيراً ، إماماً أو منفرداً ، أمّيّاً لا يمكنه القراءة إلا منه أو لا ، وذكروا لأبي حنيفة في علة الفساد وجهين :
أحدهما : أن حمل المصحف والنظر فيه وتقليب الأوراق عمل كثير .
الثاني : أنه تلقنٌ من المصحف ، فصار كما لو تلقَّن من غيره ، وعلى الثاني لا فرق بين الموضوع والمحمول عنده ، وعلى الأول يفترقان .
واستثني من ذلك ما لو كان حافظاً لما قرأه وقرأ بلا حمل فإنه لا تفسد صلاته ; لأن هذه القراءة مضافة إلى حفظه لا إلى تلقّنه من المصحف ومجرد النظر بلا حمل غير مفسد .
وذهب الصاحبان - أبو يوسف ومحمد - إلى كراهة القراءة من المصحف إن قصد التشبّه بأهل الكتاب" انتهى باختصار .
والقول بالجواز هو الذي يفتي به علماء اللجنة الدائمة للإفتاء ، والشيخ العثيمين ، والشيخ عبد الله الجبرين .

ترجمہ :
الحمد للہ:
نماز ميں كمپيوٹر كے ذريعہ قرآت كرنےكاحكم بھى نماز ميں قرآن مجيد كو ديكھ كر پڑھنے والا حكم ہے، اور مشہور مسئلہ ہے جس ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتاہے.
شافعيہ اور حنابلہ حضرات اسے جائز قرار ديتے ہيں، اور امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ نماز ميں قرآن مجيد كو ديكھ كر قرآت پڑھنے والے كى نماز كو باطل كہتے ہيں.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" شافعى اور حنبلى حضرات كے ہاں نماز ميں قرآن مجيد كو ديكھ كر قرآت كرنى جائز ہے، امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں: امام كے ليے قرآن مجيد كو ديكھ كر لوگوں كو قيام الليل كرانے ميں كوئى حرج نہيں.

امام احمد رحمہ اللہ سے عرض كيا گيا: كيا فرضى نماز ميں بھى ؟
تو امام احمد رحمہ اللہ كا جواب تھا: اس كے متعلق ميں نے كچھ نہيں سنا.
اور امام زہرى رحمہ اللہ سے رمضان المبارك ميں قرآن مجيد سے ديكھ كر نماز پڑھنے والے شخص كے بارہ ميں دريافت كيا گيا تو انہوں نے جواب ديا:
ہم سے بہتر لوگ قرآن مجيد كو ديكھ كر قرآت كيا كرتے تھے.

اور شيخ زكريا انصارى كى كتاب شرح " روض الطالب " ميں درج ہے:
اگر قرآن مجيد كو ديكھ كر قرآت كرے چاہے اس كے ليے بعض اوقات قرآن مجيد كے اوراق الٹے تو نماز باطل نہيں ہوگى كيونكہ يہ قليل اور غير مسلسل عمل ہے جس سے اعراض كا شعور نہيں ہوتا، اور اس كثير عمل كا جس سے نماز باطل ہو جاتى ہے عمدا قليل عمل كرنا مكروہ ہے.

ليكن امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ قرآن مجيد سے مطلقا ديكھ كر قرآت كرنے سے نماز باطل ہو جاتى ہے، چاہے قليل ہو يا كثير، امام ہو يا مقتدى پڑھا لكھا ہو يا ان پڑھ، اس سلسلہ ميں علماء نے ابو حنيفہ سے نماز باطل ہونے كى علت كى دو وجہيں بيان كى ہيں:
پہلى وجہ:
قرآن مجيد اٹھانا اور اسے ديكھنا اور اس كے اوراق الٹنا عمل كثير ہے.
دوسرى وجہ:
اس نے قرآن مجيد سے تلقين لى ہے، تو بالكل اس طرح ہوا كہ كسى دوسرے سے تلقين لى ہو.
دوسرى وجہ كے مطابق تو ركھے ہوئے يا اٹھائے ہوئے ميں كوئى فرق نہيں، ليكن پہلى وجہ كے مطابق اس ميں فرق ہے.
اس سے استثناء يہ ہے كہ اگر كوئى شخص حافظ ہو اس نے قرآن اٹھائے بغير اپنے حافظہ سے ہى قرآت كى ہو تو اس كى نماز باطل نہيں ہوگى؛ كيونكہ يہ قرآت اس كے حافظہ كى طرف مضاف ہے نہ كہ صرف قرآن مجيد سے تلقين لينے كى طرف، اور بغير اٹھائے قرآن مجيد ديكھنا نماز كو باطل نہيں كرتا.
اور صاحبين يعنى امام ابو يوسف اور امام محمد رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ: اگر اہل كتاب سے مشابہت مقصود ہو تو پھر قرآن مجيد كو ديكھ كر قرآت كرنا مكروہ ہے " انتہى مختصرا
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 33 / 57 - 58 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام اور شيخ ابن عثيمين اور شيخ عبد اللہ بن جبرين رحمہ اللہ بھى جواز كے قائل ہيں،

سئل الشيخ صالح بن فوزان الفوزان حفظه الله :
هل القراءة من المصحف أفضل من القراءة عن ظهر قلب ؟ نرجو الإفادة ؟ .
فأجاب :
"أما من جهة قراءة القرآن في غير الصلاة : فالقراءة من المصحف أولى ؛ لأنه أقرب إلى الضبط ، وإلى الحفظ ، إلا إذا كانت قراءته عن ظهر قلب أحفظ لقلبه وأخشع له فليقرأ عن ظهر قلب .
وأما في الصلاة : فالأفضل أن يقرأ عن ظهر قلب ؛ وذلك لأنه إذا قرأ من المصحف فإنه يحصل له عمل متكرر في حمل المصحف ، وإلقائه ، وفي تقليب الورق ، وفي النظر إلى حروفه ، وكذلك يفوته وضع اليد اليمنى على اليسرى على الصدر في حال القيام ، وربما يفوته التجافي في الركوع والسجود إذا جعل المصحف في إبطه ، ومن ثَمَّ رجحنا قراءة المصلي عن ظهر قلب على قراءته من المصحف" انتهى .

" المنتقى من فتاوى الفوزان " ( 2 / 35 ، السؤال رقم 16 ) .
شيخ صالح بن فوزان حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا قرآن مجيد كو ديكھ كر قرآت كرنى افضل ہے يا كہ ياد كيے ہوئے بغير قرآن مجيد كو ديكھے ؟
شيخ كا جواب تھا:
" نماز كے بغير قرآن مجيد كو ديكھ كر پڑھنا افضل اور اولى ہے؛ كيونكہ يہ ضبط اور تصحيح كے زيادہ قريب ہے، ليكن اگر اس كے ليے قرآن مجيد كو ديكھے بغير اپنے كيے ہوئے حفظ سے پڑھنا زيادہ خشوع كا باعث ہو تو وہ اپنے حفظ سے پڑھے.
ليكن نماز كے دوران قرآت ميں افضل و بہتر يہى ہے كہ وہ اپنے حفظ كيے ہوئے سے ہى قرآت كرے، كيونكہ جب وہ قرآن مجيد كو ديكھ كر قرآت كريگا تو اس كے ليے اسے حروف كو ديكھنا اور اوراق كو بھى پلٹنا پڑےگا، اور اسى طرح قيام كى حالت ميں اپنا داياں ہاتھ بائيں پر ركھ كر سينے پر نہيں باندھ سكےگا، اور ہو سكتا ہے اگر اسنے ركوع يا سجود ميں قرآن مجيد اپنى بغل ميں ركھا تو اس سے اس كى كہني بھى جسم سے دور نہيں رہےگى.

اس ليے ہم تو راجح يہى قرار ديتے ہيں كہ نمازى اپنے ياد كيے ہوئے سے ہى قرآت كرے اور قرآن مجيد كو ديكھ كر نہيں " انتہى
ديكھيں: المنتقى من فتاوى الفوزان ( 2 / 35 ) سوال نمبر ( 16 ).
https://islamqa.info/ar/answers/108242/
__________________
قراءة القرآن في الصلاة من الهاتف النقال
موبائل سے دیکھ کر (نماز میں ) قراءۃ القرآن

[السُّؤَالُ]
[هل يجوز قراءة القرآن في الصلاة من الهاتف النقال، سواء صلاة النافلة كالتراويح في رمضان أو الضحى أوقيام الليل أو صلاة الفريضة، وسواء كان إماما أو مأموما؟]ـ

سوال :کیا نماز میں موبائل فون سے دیکھ کر قرآن مجید کی قراءۃ کرنا جائز ہے ؟
نماز نفلی ہو جیسے رمضان مبارک میں تراویح یا نماز ضحیٰ ،قیام اللیل یا فرض نماز اور پڑھنے والا امام ہو یا مقتدی کیا ایسا کرناجائز ہے ؟

[الفَتْوَى]
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعد:

فقراءة القرآن في الصلاة من الهاتف كقراءتها من المصحف الشريف، والصحيح جواز ذلك في صلاة الفريضة والنافلة كما بيناه في الفتوى رقم: 1781.

جواب : حمد و صلاۃ کے بعد واضح ہو کہ : موبائل فون سے نماز کے دوران قراءۃ القرآن ایسے ہی ہے جیسے مصحف شریف سے دیکھ کر قراءت کرنا ،
اور صحیح بات یہ ہے کہ فرض و نفل نماز میں ایسا کرنا (یعنی مصحف اور موبائل سے دیکھ کر قراءت) جائز ہے ، جیسا کہ ہم پہلے بھی اس مسئلہ پر فتوی میں بتاچکے ہیں ،

والله أعلم.
[تَارِيخُ الْفَتْوَى]

04 شعبان 1427
https://www.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=76748
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جزاکم اللہ خیرا۔
لیکن نوٹ کریں کہ ملتے جلتے دو مسئلوں میں حکم مختلف ہوگیاہے۔
موبائل سے قرآن پڑھنے کو مصحف کی مانند نہیں سمجھا گیا، اس لیے جائز قرار دیا۔
لیکن نماز میں اس سے قراءت کو مانند مصحف سمجھ کر حکم بیان کیا گیا ہے۔
مسئلے دونوں یونہی درست محسوس ہوتے ہیں، لیکن ان کی کوئی مناسب توجیہ ہونی چاہیے۔
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
جزاکم اللہ خیرا۔
لیکن نوٹ کریں کہ ملتے جلتے دو مسئلوں میں حکم مختلف ہوگیاہے۔
موبائل سے قرآن پڑھنے کو مصحف کی مانند نہیں سمجھا گیا، اس لیے جائز قرار دیا۔
لیکن نماز میں اس سے قراءت کو مانند مصحف سمجھ کر حکم بیان کیا گیا ہے۔
مسئلے دونوں یونہی درست محسوس ہوتے ہیں، لیکن ان کی کوئی مناسب توجیہ ہونی چاہیے۔
جی مسئلے دونوں درست ہیں ان شاء اللہ الرحمن، رہی بات فرق کی تو دونوں میں فرق رویت اور لمس کے اعتبار سے ہے چونکہ موبائل میں مصحف کی طرح ڈائریکٹ قرآن کے حروف سے لمس نہیں ہوتا بلکہ یہ شعاعیں اور لہریں ہیں جو اسکرین پر ظاہر ہوتی ہیں اور ہاتھ ان لہروں اور شعاعوں کو نہیں لمس کرتے أصل لمس تو اسکرین کا ہوتا ہے جبکہ ممانعت کی وجہ لمس ہی ہے جیسا کہ دلیل اوپر گذری اور جہاں تک موبائل سے دیکھ کر پڑھ نے کی بات ہے بات ہے تو اس میں اور مصحف میں کوئی فرق نہیں کسی بھی اعتبار سے قرآن کے الفاظ اور معنی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، واللہ اعلم بالصواب
 
Top