السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم شیخ
@اسحاق سلفی حفظہ اللہ
اگر ایک شخص حافظ قرآن نہیں ہے اور وہ رمضان المبارک میں اکیلے قیام اللیل کرتا ہے تو کیا وہ مصحف (آج کل موبائل فون) سے دیکھ کر تلاوت کر سکتا ہے یا وہ بھی نہیں کر سکتا
السؤال :
هل يجوز قراءة القرآن الكريم عن طريق الحاسوب ( الكمبيوتر ) خلال أداء صلاة التراويح ؟
نص الجواب
الحمد لله
القراءة عن طريق الحاسوب في الصلاة لها حكم القراءة من المصحف في الصلاة ، وهي مسألة مشهورة ، وفيها خلاف بين العلماء ، فأجازها الشافعية الحنابلة ، وذهب أبو حنيفة إلى بطلان صلاة من قرأ من المصحف .
جاء في " الموسوعة الفقهية " ( 33 / 57 ، 58 ) :
"ذهب الشافعية والحنابلة إلى جواز القراءة من المصحف في الصلاة ، قال الإمام أحمد : لا بأس أن يصلّي بالناس القيام وهو ينظر في المصحف ، قيل له : الفريضة ؟ قال : لم أسمع فيها شيئاً.
وسئل الزّهريّ عن رجل يقرأ في رمضان في المصحف ، فقال : كان خيارنا يقرؤون في المصاحف .
وفي شرح " روض الطالب " للشيخ زكريا الأنصاريّ : إذا قرأ في مصحف ، ولو قلَّب أوراقه أحياناً لم تبطل - أي : الصلاة - لأن ذلك يسير أو غير متوال لا يشعر بالإعراض ، والقليل من الفعل الذي يبطل كثيره إذا تعمده بلا حاجة : مكروه .
وذهب أبو حنيفة إلى فساد الصلاة بالقراءة من المصحف مطلقاً ، قليلاً كان أو كثيراً ، إماماً أو منفرداً ، أمّيّاً لا يمكنه القراءة إلا منه أو لا ، وذكروا لأبي حنيفة في علة الفساد وجهين :
أحدهما : أن حمل المصحف والنظر فيه وتقليب الأوراق عمل كثير .
الثاني : أنه تلقنٌ من المصحف ، فصار كما لو تلقَّن من غيره ، وعلى الثاني لا فرق بين الموضوع والمحمول عنده ، وعلى الأول يفترقان .
واستثني من ذلك ما لو كان حافظاً لما قرأه وقرأ بلا حمل فإنه لا تفسد صلاته ; لأن هذه القراءة مضافة إلى حفظه لا إلى تلقّنه من المصحف ومجرد النظر بلا حمل غير مفسد .
وذهب الصاحبان - أبو يوسف ومحمد - إلى كراهة القراءة من المصحف إن قصد التشبّه بأهل الكتاب" انتهى باختصار .
والقول بالجواز هو الذي يفتي به علماء اللجنة الدائمة للإفتاء ، والشيخ العثيمين ، والشيخ عبد الله الجبرين .
ترجمہ :
الحمد للہ:
نماز ميں كمپيوٹر كے ذريعہ قرآت كرنےكاحكم بھى نماز ميں قرآن مجيد كو ديكھ كر پڑھنے والا حكم ہے، اور مشہور مسئلہ ہے جس ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتاہے.
شافعيہ اور حنابلہ حضرات اسے جائز قرار ديتے ہيں، اور امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ نماز ميں قرآن مجيد كو ديكھ كر قرآت پڑھنے والے كى نماز كو باطل كہتے ہيں.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" شافعى اور حنبلى حضرات كے ہاں نماز ميں قرآن مجيد كو ديكھ كر قرآت كرنى جائز ہے، امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں: امام كے ليے قرآن مجيد كو ديكھ كر لوگوں كو قيام الليل كرانے ميں كوئى حرج نہيں.
امام احمد رحمہ اللہ سے عرض كيا گيا: كيا فرضى نماز ميں بھى ؟
تو امام احمد رحمہ اللہ كا جواب تھا: اس كے متعلق ميں نے كچھ نہيں سنا.
اور امام زہرى رحمہ اللہ سے رمضان المبارك ميں قرآن مجيد سے ديكھ كر نماز پڑھنے والے شخص كے بارہ ميں دريافت كيا گيا تو انہوں نے جواب ديا:
ہم سے بہتر لوگ قرآن مجيد كو ديكھ كر قرآت كيا كرتے تھے.
اور شيخ زكريا انصارى كى كتاب شرح " روض الطالب " ميں درج ہے:
اگر قرآن مجيد كو ديكھ كر قرآت كرے چاہے اس كے ليے بعض اوقات قرآن مجيد كے اوراق الٹے تو نماز باطل نہيں ہوگى كيونكہ يہ قليل اور غير مسلسل عمل ہے جس سے اعراض كا شعور نہيں ہوتا، اور اس كثير عمل كا جس سے نماز باطل ہو جاتى ہے عمدا قليل عمل كرنا مكروہ ہے.
ليكن امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ قرآن مجيد سے مطلقا ديكھ كر قرآت كرنے سے نماز باطل ہو جاتى ہے، چاہے قليل ہو يا كثير، امام ہو يا مقتدى پڑھا لكھا ہو يا ان پڑھ، اس سلسلہ ميں علماء نے ابو حنيفہ سے نماز باطل ہونے كى علت كى دو وجہيں بيان كى ہيں:
پہلى وجہ:
قرآن مجيد اٹھانا اور اسے ديكھنا اور اس كے اوراق الٹنا عمل كثير ہے.
دوسرى وجہ:
اس نے قرآن مجيد سے تلقين لى ہے، تو بالكل اس طرح ہوا كہ كسى دوسرے سے تلقين لى ہو.
دوسرى وجہ كے مطابق تو ركھے ہوئے يا اٹھائے ہوئے ميں كوئى فرق نہيں، ليكن پہلى وجہ كے مطابق اس ميں فرق ہے.
اس سے استثناء يہ ہے كہ اگر كوئى شخص حافظ ہو اس نے قرآن اٹھائے بغير اپنے حافظہ سے ہى قرآت كى ہو تو اس كى نماز باطل نہيں ہوگى؛ كيونكہ يہ قرآت اس كے حافظہ كى طرف مضاف ہے نہ كہ صرف قرآن مجيد سے تلقين لينے كى طرف، اور بغير اٹھائے قرآن مجيد ديكھنا نماز كو باطل نہيں كرتا.
اور صاحبين يعنى امام ابو يوسف اور امام محمد رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ: اگر اہل كتاب سے مشابہت مقصود ہو تو پھر قرآن مجيد كو ديكھ كر قرآت كرنا مكروہ ہے " انتہى مختصرا
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 33 / 57 - 58 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام اور شيخ ابن عثيمين اور شيخ عبد اللہ بن جبرين رحمہ اللہ بھى جواز كے قائل ہيں،
سئل الشيخ صالح بن فوزان الفوزان حفظه الله :
هل القراءة من المصحف أفضل من القراءة عن ظهر قلب ؟ نرجو الإفادة ؟ .
فأجاب :
"أما من جهة قراءة القرآن في غير الصلاة : فالقراءة من المصحف أولى ؛ لأنه أقرب إلى الضبط ، وإلى الحفظ ، إلا إذا كانت قراءته عن ظهر قلب أحفظ لقلبه وأخشع له فليقرأ عن ظهر قلب .
وأما في الصلاة : فالأفضل أن يقرأ عن ظهر قلب ؛ وذلك لأنه إذا قرأ من المصحف فإنه يحصل له عمل متكرر في حمل المصحف ، وإلقائه ، وفي تقليب الورق ، وفي النظر إلى حروفه ، وكذلك يفوته وضع اليد اليمنى على اليسرى على الصدر في حال القيام ، وربما يفوته التجافي في الركوع والسجود إذا جعل المصحف في إبطه ، ومن ثَمَّ رجحنا قراءة المصلي عن ظهر قلب على قراءته من المصحف" انتهى .
" المنتقى من فتاوى الفوزان " ( 2 / 35 ، السؤال رقم 16 ) .
شيخ صالح بن فوزان حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا قرآن مجيد كو ديكھ كر قرآت كرنى افضل ہے يا كہ ياد كيے ہوئے بغير قرآن مجيد كو ديكھے ؟
شيخ كا جواب تھا:
" نماز كے بغير قرآن مجيد كو ديكھ كر پڑھنا افضل اور اولى ہے؛ كيونكہ يہ ضبط اور تصحيح كے زيادہ قريب ہے، ليكن اگر اس كے ليے قرآن مجيد كو ديكھے بغير اپنے كيے ہوئے حفظ سے پڑھنا زيادہ خشوع كا باعث ہو تو وہ اپنے حفظ سے پڑھے.
ليكن نماز كے دوران قرآت ميں افضل و بہتر يہى ہے كہ وہ اپنے حفظ كيے ہوئے سے ہى قرآت كرے، كيونكہ جب وہ قرآن مجيد كو ديكھ كر قرآت كريگا تو اس كے ليے اسے حروف كو ديكھنا اور اوراق كو بھى پلٹنا پڑےگا، اور اسى طرح قيام كى حالت ميں اپنا داياں ہاتھ بائيں پر ركھ كر سينے پر نہيں باندھ سكےگا، اور ہو سكتا ہے اگر اسنے ركوع يا سجود ميں قرآن مجيد اپنى بغل ميں ركھا تو اس سے اس كى كہني بھى جسم سے دور نہيں رہےگى.
اس ليے ہم تو راجح يہى قرار ديتے ہيں كہ نمازى اپنے ياد كيے ہوئے سے ہى قرآت كرے اور قرآن مجيد كو ديكھ كر نہيں " انتہى
ديكھيں: المنتقى من فتاوى الفوزان ( 2 / 35 ) سوال نمبر ( 16 ).
https://islamqa.info/ar/answers/108242/
__________________
قراءة القرآن في الصلاة من الهاتف النقال
موبائل سے دیکھ کر (نماز میں ) قراءۃ القرآن
[السُّؤَالُ]
[هل يجوز قراءة القرآن في الصلاة من الهاتف النقال، سواء صلاة النافلة كالتراويح في رمضان أو الضحى أوقيام الليل أو صلاة الفريضة، وسواء كان إماما أو مأموما؟]ـ
سوال :کیا نماز میں موبائل فون سے دیکھ کر قرآن مجید کی قراءۃ کرنا جائز ہے ؟
نماز نفلی ہو جیسے رمضان مبارک میں تراویح یا نماز ضحیٰ ،قیام اللیل یا فرض نماز اور پڑھنے والا امام ہو یا مقتدی کیا ایسا کرناجائز ہے ؟
[الفَتْوَى]
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعد:
فقراءة القرآن في الصلاة من الهاتف كقراءتها من المصحف الشريف، والصحيح جواز ذلك في صلاة الفريضة والنافلة كما بيناه في الفتوى رقم: 1781.
جواب : حمد و صلاۃ کے بعد واضح ہو کہ : موبائل فون سے نماز کے دوران قراءۃ القرآن ایسے ہی ہے جیسے مصحف شریف سے دیکھ کر قراءت کرنا ،
اور صحیح بات یہ ہے کہ فرض و نفل نماز میں ایسا کرنا (یعنی مصحف اور موبائل سے دیکھ کر قراءت) جائز ہے ، جیسا کہ ہم پہلے بھی اس مسئلہ پر فتوی میں بتاچکے ہیں ،
والله أعلم.
[تَارِيخُ الْفَتْوَى]
04 شعبان 1427
https://www.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=76748