احمد پربھنوی
رکن
- شمولیت
- دسمبر 17، 2016
- پیغامات
- 97
- ری ایکشن اسکور
- 11
- پوائنٹ
- 48
امام دار قطنی رحمہ اللہ نے کہا:
" ولم یرفعه غیر سماك ،و سماك سىء الحفظ (علل الدارقطني ج١٣ ص ١٨٤)
ترجمہ: امام دار قطنی کہتے ہیں سماک کے علاوہ کسی نے اسے مرفوع روایت نہیں کیا اور سماک سئ الحفظ(کمزور حافظہ والے) ہے۔
اب اگر کوئی کہے کہ امام دار قطنی کی اس جرح کا پس منظر سماک کا ثقہ راویوں سے مخالفت ہے اور امام دار قطنی نے موقوفا روایت کو راجح قرار دیا اور مرفوع روایت کو مجروح قرار دیا اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کرے کہ سوء حفظ کہنے کی وجہ صرف دیگر ثقہ رواة کی مخالفت کی وجہ سے ہے ۔
ایسا کہنا نری دھوکہ دہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ امام دار قطنی کے الفاظ کو جب دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ امام دار قطنی کی جرح میں دو قول مختلف ہے۔
1۔ امام دار قطنی نے فرمایا کہ سماک بن حرب کے علاوہ کوئی اسے مرفوع روایت نہیں کرتا ۔
2۔اور سماک سئ الحفظ ہے۔
"و" کا لفظ یہ وضاحت کرتا ہے کہ یہ دو مختلف قول ہے۔
جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سماک بن حرب پر امام دار قطنی کا مفصل قول ہے کہ وہ سماک کو سئ الحفظ کہتے ہیں ۔
ہم یہ بھی بتا دیں کہ امام دار قطنی نے خود سماک کی خطا بتلائی ہے جسکا ہم نے پہلے بھی ذکر کیااور انہوں نے ایک حدیث کے تحت یہ بھی لکہا ہے کہ سماک اس حدیث میں اضطراب کا شکار ہوئے ہے اور اس حدیث کو سماک نے ابن ام ہانی سے روایت کیا نہ کہ عکرمہ سے۔
دیکہیے۔
"والاضطراب فیه من سماك بن حرب" (العلل الدار قطنی ج ١ ص ٣٦٦)
اسی طرح امام دار قطنی اپنی دوسری کتاب الالزامات میں کہتے ہیں
وكان سماك يضطرب فيه والله اعلم بالصواب(الإلزامات والتتبع للدارقطني ج١ ص ٢٣٢)
امام دار قطنی نے سماک کے اضطراب کی بات جو کہی یے وہ عکرمہ کے علاوہ کی حدیث میں کہی ہے اوپر نقل کردہ قول سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سماک امام دار قطنی کے نزدیک مضطرب بھی تھے۔
اب اگر کوئ کہے کہ امام دار قطنی کا سماک کو سئ الحفظ کہنا آخری عمر میں مختلط ہونا ہے تو اس کی کیا حقیقت ہے خود دارقطنی رحمہ اللہ کے قول سے دیکھتے ہیں ۔
امام دار قطنی نے سئ الحفظ کی جرح کس پس منظر میں کی ہے اور مختلط ہونے کے بعد کی روایت میں کی یے یا مختلط ہونے سے پہلے بیان کرنے والی روایت میں کی یے؟؟
چلیے ہم اسے دیکھ لیتے ہیں ۔
وسئل عن حديث سعيد بن جبير، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم إذا اشتريت ذهبا بفضة فلا تفارق صاحبك وبينك وبينه لبس.
فقال: اختلف في رفعه على سعيد بن جبير؛
فرواه سماك بن حرب، عن سعيد بن جبير، مرفوعا.
حدث به عنه أبو خالد الدالاني، وأبو الأحوص، وإسرائيل، والثوري، وعمر بن رزين، وحماد بن سلمة، ومحمد بن جابر.
وقال عمر بن عبيد: حدثنا سماك، أو عطاء بن السائب، والصواب: سماك.
وخالفه داود بن أبي هند، فرواه عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، موقوفا.
وكذلك رواه سعيد بن المسيب، ونافع، عن ابن عمر، موقوفا.
ولم يرفعه غير سماك، وسماك سيء الحفظ.(علل الدارقطنی رقم 3072 ج 13 ص 184 )
اب یہاں دیکھیے سماک بن حرب سے کس کس نے یہ روایت بیان کی ہے۔
حدث به عنه أبو خالد الدالاني، وأبو الأحوص، وإسرائيل، والثوري، وعمر بن رزين، وحماد بن سلمة، ومحمد بن جابر.
سماک سے اس حدیث کو بیان کرنے والے ابو خالد الدالانی ابو الاحوص، اسرائیل اور سفیان الثوری عمر بن زرین اور حماد بن سلمہ اور محمد بن جابر۔
اب دیکھیں ان میں سے کس کس کا سماع سماک بن حرب کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔
سماك بن حرب إذا حدث عنه شعبه والثوري و ابو الاحوص فاحاديثهم عنه سليمة،وما كان عن شريك ابن عبدالله و حفص بن جميع ونظرائهم، ففي بعضها نكارة(سوالات السلمی للدارقطنی ص 189 )
سماک بن حرب سے جب شعبہ ،سفیان ثوری اور ابو الاحوص روایت کریں تو سماک سے ان کی احادیث سالم ہیں اور شیخ کفایت اللہ خود "سلیم" کا ترجمہ "صحیح" کا کرتے ہیں۔اور سماک سے جو روایات شریک بن عبداللہ اور حفص بن جمیع ان جیسے لوگ روایت کریں تو ان میں سے بعض میں نکارت ہے۔(نیز دیکہیں انوار البدر ص 128 )
دیکھیے ثابت ہو گیا جس حدیث کے تحت امام دار قطنی نے سماک کو سئ الحفظ کہا اس کو سفیان الثوری نے سماک سے روایت کیا اور سفیان ثوری کا سماک سے سماع سالم ہے۔
اسی طرح امام شعبہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی سماک کی خطا بتلائی ہے کہ سماک کے علاوہ کوئی بھی اسے مرفوع بیان نہیں کرتے۔(الجرح والتعدیل ج ١ ص ١٥٨)
لہذا اس طرح سے کہنا درست نہیں کہ امام دار قطنی کا سماک بن حرب کو سئ الحفظ کہنا اخیر میں مختلط ہونا ہے۔
اب اگر کوئی کہے کہ امام دار قطنی نے خود سماک کی حدیث کو صحیح کہا تو ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں ۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ , وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بَطْحَاءَ , وَآخَرُونَ قَالُوا: نا حَمَّادُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَنْبَسَةَ , ثنا أَبُو دَاوُدَ , ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ مُعَاذٍ الضَّبِّيُّ , عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ , عَنْ عِكْرِمَةَ , قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «عِنْدَكِ شَيْءٌ؟» , قُلْتُ: لَا , قَالَ: «إِذًا أَصُومُ» , وَدَخَلَ عَلَيَّ يَوْمًا آخَرَ , فَقَالَ: «أَعِنْدَكِ شَيْءٌ؟» , قُلْتُ: نَعَمْ , قَالَ: «إِذًا أُطْعِمُ وَإِنْ كُنْتُ قَدْ فَرَضْتُ الصَّوْمَ». هَذَا إِسْنَادٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ(سنن الدارقطنی ج 3 ص 136 رقم 2233)
یہ روایت سماک بن حرب عن عکرمہ سے ہے۔
خیر امام دار قطنی کا یہاں پر حدیث کو اسناد حسن صحیح کہنے کو ہم تعدد طرق پر احتمال کرتے ہیں اور یہ ضمنی توثیق ہے اور شیخ ارشاد الحق اثری ضمنی توثیق کے بارے میں کہتے ہیں کہ ضمنی توثیق کا حتمی طور پر اعتبار نہیں کیا جائیگا جس کو انہوں نے مثالوں سے بتلایا ہے ہم وہ تمام مثالیں یہاں پیش کردیتے ہیں۔
1۔امام دار قطنی رحمہ اللہ نے روایت ذکر کی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ہر اعضاء کو وضو میں تین تین مرتبہ دھویا حتی کہ سر کا مسح بھی تین مرتبہ کیا۔
امام دار قطنی کہتے ہیں کہ یہ روایت درست نہیں ہے کیونکہ اس کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ خالد بن علقمہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ
"مسح برأسه ثلاثه " بیان کرتے ہیں جبکہ " خالفه جماعت من الحفاظ الثقات منهم زائدہ بن قدامه و سفيان الثوري و شعبه و ابو عوانه و شريك و ابو الأشهب جعفر بن الحارث ..............وحجاج بن ارطاة و ابان بن تغلب" (سنن الدا قطنی باب صفة وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم )
تو اس سے یہ مفہوم نکلےگا کہ حجاج بن ارطاة کو بھی ثقہ حفاظ میں شمار کیا ہے لیکن یہ درحقیقت توثیق ضمنی ہے۔ شیخ ارشاد الحق اثری کہتے ہیں کیا حجاج بن ارطاة اور ابو الأشهب جعفر بن الحارث كو ثقہ سمجھا جائیگا ؟؟جبکہ حجاج بن ارطاة کو امام دار قطنی نے "ضعیف لا یحتج بہ"اور جعفر بن حارث کو "یعتبر بہ" کہا ۔
شیخ کہتے ہیں اب کہاں ثقہ اور کہاں یعتبر بہ اور کہتے ہیں۔
2۔اسی طرح سے نماز میں قہقہہ لگانے سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں ؟اس کے تحت امام دار قطنی فرماتے ہیں
"فهولاء خمسة ثقات رواه عن قتادة عن أبي عاليه مرسلا "
پانچ ثقہ راوی اس کو مرسلا روایت کرتے ہیں جن میں معمر ،ابو عوانہ،سعید ابن ابی عروبہ ، سعید بن بشیر ہیں اور دیکہا جائے تو امام دار قطنی نے خود سعید بن بشیر کو لیس بالقوی فی الحدیث کہا اس لیے اکٹھا کہنے کی وجہ سے ضمنا ثقہ کہے دیا لہذا شیخ ارشاد الحق اثری کہتے ہیں لہذا اس قسم کی توثیق ضمنی ہر ہر راوی کی توثیق کو متمضن نہیں ہوتی۔
3۔اسی طرح شیخ ارشاد الحق اثری ایک اور مثال دیتے ہیں امام محمد بن حسن الشیبانی سے کہ امام دار قطنی رفع الیدین کی حدیث نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں ۔
"حدث بہ عشرون نفرا من الثقات الحفاظ"
یعنی بیس کے قریب ثقہ راوی اس روایت کو بیان کرتے ہیں جن میں یحی بن سعید القطان ،محمد بن حسن اور عبداللہ بن المبارک وغیرہ روایت کرتے ہیں آگے شیخ ارشاد الحق اثری کہتے ہیں اب لسان یا میزان اٹھاکر دیکھ لیں محمد بن حسن کا ترجمہ میں امام دار قطنی کی جرح کیا ہے ۔
شیخ کہتے ہیں کیا امام دار قطنی کی ضمنی توثیق کے پیش نظر ان کو ثقہ حفاظ میں شمار کرلیا جائے؟؟
آگے شیخ ارشاد الحق اثری کہتے ہیں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس قسم کی ضمنی توثیق کو حتمی طور پر تعدیل پر وقف نہیں کر سکتے دیکھنا چاہیے کہ اس پر انکا مفصل اور بنیادی قول کیا ہے۔
سماک بن حرب پر امام دار قطنی کا مفصل قول ہے کہ سماک سئ الحفظ ہے (علل الدار قطنی ج13 ص 174)اور
اسی طرح امام دار قطنی اپنی دوسری کتاب الالزامات میں کہتے ہیں
وكان سماك يضطرب فيه والله اعلم بالصواب(الإلزامات والتتبع للدارقطني ج١ ص ٢٣٢)
" ولم یرفعه غیر سماك ،و سماك سىء الحفظ (علل الدارقطني ج١٣ ص ١٨٤)
ترجمہ: امام دار قطنی کہتے ہیں سماک کے علاوہ کسی نے اسے مرفوع روایت نہیں کیا اور سماک سئ الحفظ(کمزور حافظہ والے) ہے۔
اب اگر کوئی کہے کہ امام دار قطنی کی اس جرح کا پس منظر سماک کا ثقہ راویوں سے مخالفت ہے اور امام دار قطنی نے موقوفا روایت کو راجح قرار دیا اور مرفوع روایت کو مجروح قرار دیا اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کرے کہ سوء حفظ کہنے کی وجہ صرف دیگر ثقہ رواة کی مخالفت کی وجہ سے ہے ۔
ایسا کہنا نری دھوکہ دہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ امام دار قطنی کے الفاظ کو جب دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ امام دار قطنی کی جرح میں دو قول مختلف ہے۔
1۔ امام دار قطنی نے فرمایا کہ سماک بن حرب کے علاوہ کوئی اسے مرفوع روایت نہیں کرتا ۔
2۔اور سماک سئ الحفظ ہے۔
"و" کا لفظ یہ وضاحت کرتا ہے کہ یہ دو مختلف قول ہے۔
جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سماک بن حرب پر امام دار قطنی کا مفصل قول ہے کہ وہ سماک کو سئ الحفظ کہتے ہیں ۔
ہم یہ بھی بتا دیں کہ امام دار قطنی نے خود سماک کی خطا بتلائی ہے جسکا ہم نے پہلے بھی ذکر کیااور انہوں نے ایک حدیث کے تحت یہ بھی لکہا ہے کہ سماک اس حدیث میں اضطراب کا شکار ہوئے ہے اور اس حدیث کو سماک نے ابن ام ہانی سے روایت کیا نہ کہ عکرمہ سے۔
دیکہیے۔
"والاضطراب فیه من سماك بن حرب" (العلل الدار قطنی ج ١ ص ٣٦٦)
اسی طرح امام دار قطنی اپنی دوسری کتاب الالزامات میں کہتے ہیں
وكان سماك يضطرب فيه والله اعلم بالصواب(الإلزامات والتتبع للدارقطني ج١ ص ٢٣٢)
امام دار قطنی نے سماک کے اضطراب کی بات جو کہی یے وہ عکرمہ کے علاوہ کی حدیث میں کہی ہے اوپر نقل کردہ قول سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سماک امام دار قطنی کے نزدیک مضطرب بھی تھے۔
اب اگر کوئ کہے کہ امام دار قطنی کا سماک کو سئ الحفظ کہنا آخری عمر میں مختلط ہونا ہے تو اس کی کیا حقیقت ہے خود دارقطنی رحمہ اللہ کے قول سے دیکھتے ہیں ۔
امام دار قطنی نے سئ الحفظ کی جرح کس پس منظر میں کی ہے اور مختلط ہونے کے بعد کی روایت میں کی یے یا مختلط ہونے سے پہلے بیان کرنے والی روایت میں کی یے؟؟
چلیے ہم اسے دیکھ لیتے ہیں ۔
وسئل عن حديث سعيد بن جبير، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم إذا اشتريت ذهبا بفضة فلا تفارق صاحبك وبينك وبينه لبس.
فقال: اختلف في رفعه على سعيد بن جبير؛
فرواه سماك بن حرب، عن سعيد بن جبير، مرفوعا.
حدث به عنه أبو خالد الدالاني، وأبو الأحوص، وإسرائيل، والثوري، وعمر بن رزين، وحماد بن سلمة، ومحمد بن جابر.
وقال عمر بن عبيد: حدثنا سماك، أو عطاء بن السائب، والصواب: سماك.
وخالفه داود بن أبي هند، فرواه عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، موقوفا.
وكذلك رواه سعيد بن المسيب، ونافع، عن ابن عمر، موقوفا.
ولم يرفعه غير سماك، وسماك سيء الحفظ.(علل الدارقطنی رقم 3072 ج 13 ص 184 )
اب یہاں دیکھیے سماک بن حرب سے کس کس نے یہ روایت بیان کی ہے۔
حدث به عنه أبو خالد الدالاني، وأبو الأحوص، وإسرائيل، والثوري، وعمر بن رزين، وحماد بن سلمة، ومحمد بن جابر.
سماک سے اس حدیث کو بیان کرنے والے ابو خالد الدالانی ابو الاحوص، اسرائیل اور سفیان الثوری عمر بن زرین اور حماد بن سلمہ اور محمد بن جابر۔
اب دیکھیں ان میں سے کس کس کا سماع سماک بن حرب کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔
سماك بن حرب إذا حدث عنه شعبه والثوري و ابو الاحوص فاحاديثهم عنه سليمة،وما كان عن شريك ابن عبدالله و حفص بن جميع ونظرائهم، ففي بعضها نكارة(سوالات السلمی للدارقطنی ص 189 )
سماک بن حرب سے جب شعبہ ،سفیان ثوری اور ابو الاحوص روایت کریں تو سماک سے ان کی احادیث سالم ہیں اور شیخ کفایت اللہ خود "سلیم" کا ترجمہ "صحیح" کا کرتے ہیں۔اور سماک سے جو روایات شریک بن عبداللہ اور حفص بن جمیع ان جیسے لوگ روایت کریں تو ان میں سے بعض میں نکارت ہے۔(نیز دیکہیں انوار البدر ص 128 )
دیکھیے ثابت ہو گیا جس حدیث کے تحت امام دار قطنی نے سماک کو سئ الحفظ کہا اس کو سفیان الثوری نے سماک سے روایت کیا اور سفیان ثوری کا سماک سے سماع سالم ہے۔
اسی طرح امام شعبہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی سماک کی خطا بتلائی ہے کہ سماک کے علاوہ کوئی بھی اسے مرفوع بیان نہیں کرتے۔(الجرح والتعدیل ج ١ ص ١٥٨)
لہذا اس طرح سے کہنا درست نہیں کہ امام دار قطنی کا سماک بن حرب کو سئ الحفظ کہنا اخیر میں مختلط ہونا ہے۔
اب اگر کوئی کہے کہ امام دار قطنی نے خود سماک کی حدیث کو صحیح کہا تو ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں ۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ , وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بَطْحَاءَ , وَآخَرُونَ قَالُوا: نا حَمَّادُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَنْبَسَةَ , ثنا أَبُو دَاوُدَ , ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ مُعَاذٍ الضَّبِّيُّ , عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ , عَنْ عِكْرِمَةَ , قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «عِنْدَكِ شَيْءٌ؟» , قُلْتُ: لَا , قَالَ: «إِذًا أَصُومُ» , وَدَخَلَ عَلَيَّ يَوْمًا آخَرَ , فَقَالَ: «أَعِنْدَكِ شَيْءٌ؟» , قُلْتُ: نَعَمْ , قَالَ: «إِذًا أُطْعِمُ وَإِنْ كُنْتُ قَدْ فَرَضْتُ الصَّوْمَ». هَذَا إِسْنَادٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ(سنن الدارقطنی ج 3 ص 136 رقم 2233)
یہ روایت سماک بن حرب عن عکرمہ سے ہے۔
خیر امام دار قطنی کا یہاں پر حدیث کو اسناد حسن صحیح کہنے کو ہم تعدد طرق پر احتمال کرتے ہیں اور یہ ضمنی توثیق ہے اور شیخ ارشاد الحق اثری ضمنی توثیق کے بارے میں کہتے ہیں کہ ضمنی توثیق کا حتمی طور پر اعتبار نہیں کیا جائیگا جس کو انہوں نے مثالوں سے بتلایا ہے ہم وہ تمام مثالیں یہاں پیش کردیتے ہیں۔
1۔امام دار قطنی رحمہ اللہ نے روایت ذکر کی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ہر اعضاء کو وضو میں تین تین مرتبہ دھویا حتی کہ سر کا مسح بھی تین مرتبہ کیا۔
امام دار قطنی کہتے ہیں کہ یہ روایت درست نہیں ہے کیونکہ اس کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ خالد بن علقمہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ
"مسح برأسه ثلاثه " بیان کرتے ہیں جبکہ " خالفه جماعت من الحفاظ الثقات منهم زائدہ بن قدامه و سفيان الثوري و شعبه و ابو عوانه و شريك و ابو الأشهب جعفر بن الحارث ..............وحجاج بن ارطاة و ابان بن تغلب" (سنن الدا قطنی باب صفة وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم )
تو اس سے یہ مفہوم نکلےگا کہ حجاج بن ارطاة کو بھی ثقہ حفاظ میں شمار کیا ہے لیکن یہ درحقیقت توثیق ضمنی ہے۔ شیخ ارشاد الحق اثری کہتے ہیں کیا حجاج بن ارطاة اور ابو الأشهب جعفر بن الحارث كو ثقہ سمجھا جائیگا ؟؟جبکہ حجاج بن ارطاة کو امام دار قطنی نے "ضعیف لا یحتج بہ"اور جعفر بن حارث کو "یعتبر بہ" کہا ۔
شیخ کہتے ہیں اب کہاں ثقہ اور کہاں یعتبر بہ اور کہتے ہیں۔
2۔اسی طرح سے نماز میں قہقہہ لگانے سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں ؟اس کے تحت امام دار قطنی فرماتے ہیں
"فهولاء خمسة ثقات رواه عن قتادة عن أبي عاليه مرسلا "
پانچ ثقہ راوی اس کو مرسلا روایت کرتے ہیں جن میں معمر ،ابو عوانہ،سعید ابن ابی عروبہ ، سعید بن بشیر ہیں اور دیکہا جائے تو امام دار قطنی نے خود سعید بن بشیر کو لیس بالقوی فی الحدیث کہا اس لیے اکٹھا کہنے کی وجہ سے ضمنا ثقہ کہے دیا لہذا شیخ ارشاد الحق اثری کہتے ہیں لہذا اس قسم کی توثیق ضمنی ہر ہر راوی کی توثیق کو متمضن نہیں ہوتی۔
3۔اسی طرح شیخ ارشاد الحق اثری ایک اور مثال دیتے ہیں امام محمد بن حسن الشیبانی سے کہ امام دار قطنی رفع الیدین کی حدیث نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں ۔
"حدث بہ عشرون نفرا من الثقات الحفاظ"
یعنی بیس کے قریب ثقہ راوی اس روایت کو بیان کرتے ہیں جن میں یحی بن سعید القطان ،محمد بن حسن اور عبداللہ بن المبارک وغیرہ روایت کرتے ہیں آگے شیخ ارشاد الحق اثری کہتے ہیں اب لسان یا میزان اٹھاکر دیکھ لیں محمد بن حسن کا ترجمہ میں امام دار قطنی کی جرح کیا ہے ۔
شیخ کہتے ہیں کیا امام دار قطنی کی ضمنی توثیق کے پیش نظر ان کو ثقہ حفاظ میں شمار کرلیا جائے؟؟
آگے شیخ ارشاد الحق اثری کہتے ہیں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس قسم کی ضمنی توثیق کو حتمی طور پر تعدیل پر وقف نہیں کر سکتے دیکھنا چاہیے کہ اس پر انکا مفصل اور بنیادی قول کیا ہے۔
سماک بن حرب پر امام دار قطنی کا مفصل قول ہے کہ سماک سئ الحفظ ہے (علل الدار قطنی ج13 ص 174)اور
اسی طرح امام دار قطنی اپنی دوسری کتاب الالزامات میں کہتے ہیں
وكان سماك يضطرب فيه والله اعلم بالصواب(الإلزامات والتتبع للدارقطني ج١ ص ٢٣٢)