• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (رفع اليدين)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
بسم الله الرحمن الرحيم
سنت طریقہ نماز (رفع اليدين)
آئیے اللہ تعالیٰ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاء کے مطابق نماز سیکھ کر پڑھیں۔
رفع اليدين
تکبیر تحریمہ میں اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھوں کو کانوں تک اٹھانے کو رفع الیدین کہتے ہیں۔ تكبير تحريمہ، وتر میں دعائے قنوت سے پہلے اور عيدين كى نمازوں کے علاوه رفع اليدين مسنون نہیں۔
فرمان باری تعالی ہے؛ "وہ لوگ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں(سورة المؤمنون آیت نمبر 2
تفسیر ابن عباس میں ہے "وہ نماز میں رفع يدين نہیں كرتے"۔
تفسير طبرى میں مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں آیت کا مطلب ہے "نماز میں سکون سے رہنا"۔
تفسير طبرى میں زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آیت کا مطلب ہے " اپنی نماز میں سکون سے رہنا"۔
تفسير طبرى میں ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خاشعون کا مطلب ہے "دل میں خشوع ہونا یعنی سکون سے رہنا حرکت نہ کرنا"۔
تفسير قرطبى میں عطاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز میں اپنی داڑھی کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضاء سکون سے ہوتے"۔

تفہیم: نماز میں ہر وہ حرکت جو ذکر کے بغیر ہو وہ "خشوع" یعنی سکون کے منافی ہے۔
فرمان باری تعالی ہے "حفاظت کرو تم اپنی نمازوں کی (خصوصا) درمیانی نماز کی اور الله کے سامنے سكون سے کھڑے رہو"( سورة بقرة آيت نمبر 238)
فرمان باری تعالی ہے "بے شک میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں اور نماز پڑھو میرے ذکر کے لئے"(
سورة طٰهٰ آيت نمبر 14
ابتداءِ اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں ہر اونچ نیچ پر رفع الیدین کیا کرتے تھے(
سنن النسائي كِتَاب التَّطْبِيقِ بَاب رَفْعِ الْيَدَيْنِ لِلسُّجُودِ
تفہیم: حکم باری تعالیٰ جل شانہ (
سورۃ البقرۃ آیت نمبر 238)کے بعدوہ تمام رفع الیدین جو ذکر کے بغیر تھیں منسوخ ہوگئیں ذکر والی رفع الیدین باقی رکھی گئیں اور بدستور مسنون ہیں جیسا کہ تکبیر تحریمہ کے وقت والی رفع الیدین، وتر میں دعائے قنوت سے پہلے والی رفع الیدین اور عیدین کی رفع الیدین۔ یہ سب چونکہ ذکر والی تھیں اس لئے باقی ہیں۔
عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کیا میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سی نماز پڑھ کر نہ دکھلاؤں؟ (علقمہ رحمۃ اللہ علیہ نے) فرمایا انہوں نے نماز پڑھی پس رفع الیدین نہ کی مگر ایک دفعہ ہی (یعنی تکبیر تحریمہ میں) (
سنن النسائي كِتَاب التَّطْبِيقِ باب الرُّخْصَةُ فِي تَرْكِ ذَلِكَ
براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی صلى الله عليہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو رفع الیدین کرتے پھر اس کے بعد رفع الیدین نہ کرتے یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہو جاتے(
مصنف ابن أبي شيبة كتاب الصلاة باب من كان يرفع يديه في أول تكبيرة ثم لا يعود
علقمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے (صحابہ کی جماعت میں) فرمایا کہ کیا میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نماز پڑھ کر نہ دکھلاؤں۔ (علقمہ رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا انہوں نے نماز پڑھی پس رفع الیدین نہ کی مگر ایک دفعہ ہی (یعنی تکبیر تحریمہ میں) (مصنف ابن أبي شيبة كتاب الصلاة باب من كان يرفع يديه في أول تكبيرة ثم لا يعود)۔
عاصم بن كليب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ نماز کی ابتداء میں رفع الیدین کرتے تھے اس کے بعد نہیں
(ایضاً)۔
عبد الله رضی اللہ تعالی عنہ (نماز) شروع کرتے وقت رفع الیدین کرتے اس کے بعد نہیں
(ایضاً)۔
شعبی رحمۃ اللہ علیہ تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرتے اس کے بعد نہیں
(ایضاً)۔
إبراہیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے کہ نماز شروع کرتے وقت تکبیر تحریمہ کے ساتھ رفع الیدین کرو پھر بقیہ نماز میں نہیں
(ایضاً)۔
ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اصحاب عبد الله رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اصحاب علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رفع الیدین نہ کرتے مگر صرف نماز کی ابتدا میں
(ایضاً)۔
وكيع رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ (اصحاب عبد الله رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اصحاب علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) تکبیر تحریمہ کے بعد رفع الیدین نہ کرتے
(ایضاً)۔
ابراہیم رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رفع الیدین نہ کرو سوائے نماز کی ابتداء کے
(ایضاً)۔
خیثمہ رحمۃاللہ علیہ اور ابراہیم رحمۃاللہ علیہ سوائے تکبیر تحریمہ کے رفع الیدین نہ کرتے
(ایضاً)۔
اسماعيل رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں قيس رحمۃاللہ علیہ رفع الیدین کرتے جب نماز میں داخل ہوتے پھر نہ کرتے
(ایضاً)۔
سفيان بن مسلم الجہنی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابن أبی ليلى رحمۃاللہ علیہ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرتے
(ایضاً)۔
مجاہد رحمۃاللہ علیہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو تکبیرِتحریمہ کے علاوہ رفع الیدین کرتے نہیں دیکھا
(ایضاً)۔
اسود رحمۃ اللہ علیہ اورعلقمہ رحمۃ اللہ علیہ سوائے تکبیرِ تحریمہ کے (بقیہ نماز میں) رفع الیدین نہ کرتے تھے
(ایضاً)۔
اسود رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی اقتدا میں نمازیں پڑھیں انہوں نے تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ نماز میں کہیں بھی رفع الیدین نہ کی
(ایضاً)۔
عبدالملك رحمۃاللہ علیہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے شعبی رحمۃاللہ علیہ، إبراہیم رحمۃاللہ علیہ اور أبو إسحاق رحمۃاللہ علیہ کو دیکھا ہے وہ تکبیرِ تحریمہ کے سوا نماز میں کہیں بھی رفع الیدین نہ کرتے تھے
(ایضاً)۔
تفہیم: ا حادیث سے پتہ چلتا ہے کہ رفع الیدین میں تبدیلیاں آئی ہیں۔ رفع الیدین میں تبدیلی کے دو ہی احتمالات ہیں ایک یہ کہ اس میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا دوسرا یہ کہ اس میں بتدریج کمی ہوتی چلی گئی۔ ان دو احتمالات کے علاوہ اس بات کا احتمال ناقابل فہم ہے کہ رفع الیدین کبھی کم کبھی زیادہ ہوتی رہی۔ تفاسیر القرآن اور آقا علیہ السلام کے فرامین سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ رفع الیدین کم ہو کر صرف تکبیرِ تحریمہ تک محدود ہوگئی۔ جو رفع الیدین نماز میں بغیر مسنون ذکر کے تھیں وہ سب فرمانِ باری تعالیٰ (وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي)سے منسوخ ہو گئیں۔
 

ابو خبیب

مبتدی
شمولیت
مارچ 16، 2016
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
18
تفسیر ابن عباس میں ہے "وہ نماز میں رفع يدين نہیں كرتے

عبد الرحمٰن آپ کی پہلی دلیل ایک تفسیری روایت ہے ، جو آپ نے کچھ اس طرح نقل فرمائی ہے ۔

قَالَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ: الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ (المؤمنون:۲)

زحمت فرما کر یہ تفسیر اصل ماخذ سے ملاحظہ کریں تو اس کے شروع میں اس تفسیر کی سند نظر آئے گی جو کچھ اس طرح ہے کہ اس کی سند میں تین راوی پائے جاتے ہیں….محمد بن مروان السدی عن محمد بن السائب الکلبی عن أبی صالح عن ابن عباس۔ طویل سند میں یہ تینوں نام ایک ہی سلسلہ میں نظر آئیں گے.....
(تنویر المقباس تفسیر ابن عباس ص ۲ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)

یہ وہ سلسلہ ہے جسے اہل علم “سلسلۃ الکذب” (یعنی جھوٹ کا سلسلہ) کے نام سے جانتے ہیں، اس کا پہلا راوی۔

پہلا راوی محمد بن مروان السدیالکوفی ہے ، السدی الصغیر یا السدی الاصغر کے لقب سے معروف ہے۔ حافظ ذہبیؒ اس کے احوال میں لکھتے ہیں کہ :”ترکوہ و اتھمہ بعضھم بالکذب، وھو صاحب الکلبي” اسے (محدثین نے) ترک کردیا تھا اور بعض نے اسے جھوٹ کے ساتھ متہم کیا، یہ الکلبی کا شاگرد تھا.
(میزان الاعتدال ۳۲/۴)

1) دیوبندی حلقہ کے نزدیک موجودہ دور کے “امام اہلسنت” سرفراز خان صفدر صاحب لکھتے ہیں:

“اور محمد بن مروان السدی الصغیر کا حال بھی سن لیجئے:

امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ اس کی روایت ہرگز نہیں لکھی جاسکتی (ضعفاء صغیر امام بخاری ص ۲۹) اور امام نسائیؒ فرماتے ہیں کہ وہ متروک الحدیث ہے ۔ (ضعفاء امام نسائی ص ۵۲) علامہ ذہبیؒ لکھتے ہیں کہ حضرات محدثین کرام نے اس کو ترک کردیا ہےاور بعض نے اس پر جھوٹ بولنے کا الزام بھی لگایا ہے ۔ امام ابن معین کہتے ہیں کہ وہ ثقہ نہیں ہے ۔ امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کو چھوڑ دیا تھا۔ ابن عدی کا بیان ہے کہ جھوٹ اس کی روایت پر بالکل بین ہے ۔ (میزان الاعتدال ج ۳ ص ۱۳۲) امام بیہقیؒ فرماتے ہیں کہ وہ متروک ہے (کتاب الاسماء و الصفات ص ۳۹۴) حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ وہ بالکل متروک ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص۵۱۵)علامہ سبکی لکھتے ہیں کہ وہ ضعیف ہے (شفاء السقام ص ۳۷) علامہ محمد طاہر لکھتے ہیں کہ وہ کذاب ہے (تذکرہ الموضوعات ص ۹۰) جریر بن عبدالحمید فرماتے ہیں کہ وہ کذاب ہے، ابن نمیر کہتے ہیں کہ وہ محض ہیچ ہے۔ یعقوب بن سفیان لکھتے ہیں کہ وہ ضعیف ہے ۔ صالح بن محمد فرماتے ہیں کہ وہ ضعیف تھا “وکان یضع” (خود جعلی حدیثیں بنایا کرتا تھا) ابو حاتم کہتے ہیں کہ وہ متروک الحدیث اس کی حدیث ہرگز نہیں لکھی جاسکتی “۔ (ازالۃ الریب ص ۳۱۶)

2) یہی موصوف ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

“صوفی صاحب نے اپنے بڑوں کی پیروی کرتے ہوئے روایت تو خوب پیش کی ہے مگر ان کو سود مند نہیں کیونکہ “سدی” فنِ روایت میں “ہیچ” ہے۔ امام ابن معین فرماتے ہیں کہ ان کی روایت میں ضعف ہوتاہے ۔ امام جوزجانی فرماتے ہیں “ھو کذاب شتام” وہ بہت بڑا جھوٹا اور تبرائی تھا…. امام طبریؒ فرماتے ہیں کہ اس کی روایت سے احتجاج درست نہیں …. اس روایت کی مزید بحث ازالۃ الریب میں دیکھئے ۔ ان بے جان اور ضعیف روایتوں سے کوئی مسئلہ ثابت نہیں ہوسکتا” (تفریح الخواطرفی رد تنویر الخو اطرص ۷۷ تا ۷۸)

3) سرفراز صاحب اپنی ایک اور کتاب میں لکھتے ہیں:

“سدی کانام محمد بن مروان ہے ….امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کو بالکل ترک کردیا ہے (حیرت ہے کہ امام احمد بن حنبلؒ جیسی نقاد حدیث شخصیت تو اس کی روایت کو ترک کرتی ہے مگر مولوی نعیم الدین صاحب اور ان کی جماعت اس کی روایت سے……)” (تنقید متن ص ۱۶۸)

4) موصوف اپنی ایک اور کتاب میں لکھتے ہیں:

“سدی کذاب اور وضاع ہے ” (اتمام البرہان ص ۴۵۵) “صغیر کانام محمد بن مروان ” ہے امام جریر بن عبدالحمید فرماتے ہیں کہ وہ کذاب ہے اور صالح بن محمد فرماتے ہیں کہ وہ جعلی حدیثیں بنایا کرتا تھا بقیہ محدثین بھی اس پر سخت جرح کرتے ہیں۔ انصاف سے فرمائیں کہ ایسی کذاب راوی کی روایت سے دینی کونسا مسئلہ ثابت ہوتا ہے یا ہو سکتاہے ؟” (اتمام البرہان ص ۴۵۸)

5) سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں کہ :

“آپ لوگ سدی کی “دم” تھامے رکھیں اور یہی آپ کو مبارک ہو۔ ” (اتمام البرہان ص ۴۵۷)

6) سرفراز خان صاحب مزید فرماتے ہیں کہ :

“آپ نے خازن کے حوالے سے “سدی کذاب” کے گھر میں پناہ لی ہے جو کہ آپ کی “علمی رسوائی ” کے لئے بالکل کافی ہے اور یہ “داغ” ہمیشہ آپ کی پیشانی پر چمکتا رہے گا” (اتمام البرہان ص ۴۵۸)

تنبیہ: موجودہ دور میں رفع یدین کے خلاف “تفسیر ابن عباس” نامی کتاب سے استدلال کرنے والوں نے بقولِ سرفراز خان صفدر صاحب سدی کی دُم تھام رکھی ہے اور ان لوگوں کی پیشانی پر رُسوائی کا یہ داغ ہمیشہ چمکتا رہے گا :) (سنت رسول سے بغض کرنے والے کا حل ایسا ہی ہونا ھے ان شاء اللہ الرحمٰن


محمد بن مروان السدی کے بارے میں محدثین کے چند اقوال درج ذیل ہیں:



1) بخاری نے کہا :سکتواعنہ یہ متروک ہے (التاریخ الکبیر ۲۳۲/۱)

لا یکتب حدیثہ البتۃ، اس کی حدیث بالکل لکھی نہیں جاتی (الضعفاء الصغیر : ۳۵۰)

2) یحییٰ بن معین نے کہا:لیس بثقۃ وہ ثقہ نہیں ہے(الجرح و التعدیل ج ۸ ص ۸۶ و سندہ صحیح)

3) ابو حاتم رازی نے کہا:ھو ذاھب الحدیث، متروک الحدیث، لا یکتب حدیثہ البتۃ ، وہ حدیث میں گیا گزرا ہے ، متروک ہے، اس کی حدیث بالکل نہیں لکھی جاتی (الجرح و التعدیل ۸۶/۸)

4) نسائی نے کہا: یروي عن الکلبي ، متروک الحدیث، وہ کلبی سے روایت کرتا ہے ، حدیث میں متروک ہے ۔ (الضعفاء المتروکون : ۵۳۸)

5) یعقوب بن سفیان الفارسی نے کہا : وھو ضعیف غیر ثقۃ (المعرفۃ و التاریخ ۱۸۶/۳)

6) ابن حبان نے کہا: “کان ممن یروي الموضوعات عن الأثبات، لا یحل کتابۃ حدیثہ إلا علی جھۃ الإعتبار ولا الإحتجاج بہ بحال من الأحوال” یہ ثقہ راویوں سے موضوع روایتیں بیان کرتا تھا، پرکھ کے بغیر اس کی روایت لکھنا حلال نہیں ہے ۔ کسی حال میں بھی اس سے حجت پکڑنا جائز نہیں ہے ۔ (المجروحین ۲۸۶/۲)

7) ابن نمیر نے کہا : کذاب ہے (الضعفاء الکبیر للعقیلی ۱۳۶/۴ و سندہ حسن، یاد رہے کہ الضعفاء الکبیر میں غلطی سے ابن نمیر کی بجائے ابن نصیر چھپ گیاہے)

8) حافظ ہیثمی نے کہا:وھو متروک (مجمع الزوائد ۹۹/۸) أجمعوا علی ضعفہاس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے (مجمع الزوائد ۲۱۴/۱)

9) حافظ ذہبی نے کہا :کوفي متروک متھم (دیوان الضعفاء : ۳۹۶۹)

10) حافظ ابن حجر نے کہا: “متھم بالکذب” (تقریب التہذیب : ۶۲۸۴)[
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

دوسرا راوی محمد بن السائب الکلبی ہے۔

اس کے متعلق سرفراز احمد خان صاحب نے لکھا ہے کہ:

“کلبی کا حال بھی سن لیجئے….. کلبی کا نام محمد بن السائب بن بشر ابوالنضر الکلبی ہے۔ امام معتمر بن سلیمان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ کوفہ میں دو بڑے بڑے کذاب تھے، ایک ان میں سے کلبی تھا اور لیث بن ابی سلیم کا بیان ہے کہ کوفہ میں دوبڑے بڑے جھوٹے تھے۔ ایک کلبی اور دوسرا سدی ۔ امام بن معین کہتے ہیں کہلیس بشئ، امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ امام یحییٰ اور ابن مہدی نے اس کی روایت بالکل ترک کر دی تھی۔ امام ابن مہدی فرماتے ہیں کہ ابو جزء نے فرمایا: میں اس بات پر گواہی دیتا ہوں کہ کلبی کافر ہے ۔ میں نے جب یہ بات یزید بن زریع سے بیان کی تو وہ بھی فرمانے لگے کہ میں نے بھی ان سے یہی سنا کہ “أشھد أنہ کافر” میں نے اس کے کفر کی وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا کہ:

“یقول کان جبرائیل یوحي إلی النبي ﷺ فقام النبي لحاجتہ و جلس علي فأوحي إلی علي“

کلبی کہتاہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آنحضرت ﷺ کی طرف وحی لایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ کسی حاجت کے لئے کھڑے ہوئے اور ان کی جگہ حضرت علیؓ بیٹھ گئے تو جبرائیل علیہ السلام نے ان پر وحی نازل کردی۔

(یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام آنحضرت ﷺ مورد وحی اور منبط وحی کو نہ پہچان سکے اور حضرت علیؓ کو رسول سمجھ کر ان کو وحی سنا گئے….. اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس بھولے بھالے جبرائیل علیہ السلام نے آگے پیچھے کیا کیا ٹھوکریں کھائی ہوں گی اور کن کن پر وحی نازل کی ہوگی اور نہ معلوم حضرت علیؓ کو بھی وہ اس خفیہ وحی میں کیا کچھ کہہ گئے ہوں گے، ممکن ہے یہ خلافت بلافصل ہی کی وحی ہو جس کو حضرت جبرائیل حضرت علیؓ کے کان میں پھونک گئے ہونگے۔ بات ضرور کچھ ہوگی۔ آخر کلبی کا بیان بلاوجہ تو نہیں ہوسکتا اور کلبی کے اس نظریہ کے تحت ممکن ہے کہ حضرت جبرائیل پہلی وحی میں بھول کر حضرت محمد ﷺ کو سنا گئے ہوں اور مقصود کوئی اور ہو اور عین ممکن ہے کہ وہ حضرت علی ؓ ہی ہوں، آخر کلبی ہی کے کسی بھائی یہ نظریہ بھی تو ہے کہ :

جبرائیل کہ آمد چوں ازخالق بے چوں بہ پیش محمد شدو مقصود علی بود

معاذ اللہ تعالیٰ، استغفر اللہ تعالیٰ ، کلبی نے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام جناب رسول اللہ ﷺ اور وحی کو ایک ڈراما کھیل بنا کر رکھ دیا ہے العیاذ باللہ تعالیٰ ثم العیاذ باللہ تعالیٰ ۔ صفدر)

بلکہ کلبی نے خود یہ کہا ہے کہ جب میں بطریق ابوصالح عن ابن عباسؓ کوئی روایت اور حدیث تم سے بیان کروں تو “فھو کذب” (وہ جھوٹ ہے) امام ابوحاتم فرماتے ہیں کہ حضرات محدثین کرام سب اس پر متفق ہیں کہ وہ متروک الحدیث ہے۔اس کی کسی روایت کو پیش کرنا صحیح نہیں ہے ۔ امام نسائیؒ کہتے ہیں کہ وہ ثقہ نہیں ہے اور اس کی رویت لکھی بھی نہیں جاسکتی ۔ علی بن الجنید، حاکم ابو احمد اور دارقطنیؒ فرماتے ہیں کہ وہ متروک الحدیث ہے ۔ جوزجانی کہتے ہیں کہ وہ کذاب اور ساقط ہے۔ ابن حبان کہتے ہیں کہ اس کی روایت جھوٹ پر جھوٹ بالکل ظاہر ہے اور اس سے احتجاج صحیح نہیں ہے ۔ ساجی کہتے ہیں کہ وہ متروک الحدیث ہے اور بہت ہی ضعیف اور کمزور تھا کیونکہ وہ غالی شیعہ ہے ، حافظ ابو عبداللہ بن الحاکم کہتے ہیں کہ ابو صالح سے اس نے جھوٹی روایتیں بیان کی ہیں۔
 

ابو خبیب

مبتدی
شمولیت
مارچ 16، 2016
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
18
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:

“وقد اتفق ثقات أھل النقل علی ذمہ و ترک الروایۃ عنہ فی الأحکام و الفروع“.
تمام اہل ثقات اس کی مذمت پر متفق ہیں اور اس پر بھی ان کا اتفاق ہے کہ احکام اور فروع میں اس کی کوئی روایت قابلِ قبول نہیں ہے ۔
اور امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا کہ کلبی کی تفسیر اول سے لے کر آخر تک سب جھوٹ ہے اس کو پڑھنا بھی جائز نہیں ہے (تذکرۃ الموضوعات ص ۸۲)


اور علامہ محمد طاہر الحنفی لکھتے ہیں کہ کمزور ترین روایت فن تفسیر میں کلبی عن ابی صالح عن ابن عباس ہے اورفإذا انضم إلیہ محمد بن مروان السدي الصغیر فھي سلسلۃ الکذب۔ (تذکرۃ الموضوعات ص ۸۳ و اتقان ج ۲ ص ۱۸۹)
اور اس روایت میں خیر سے یہ دونوں شیر جمع ہیں ۔ (ازالۃ الریب ص ۳۱۶) نیز دیکھئے تنقید متین ص ۱۶۹،۱۶۷۔


محمد بن السائب ، ابو النضر الکلبی کے بارے میں محدثین کرام کے چند اقوال درج ذیل ہیں:
1) سلیمان التیمی نے کہا :”کان بالکوفۃ کذابان أحدھما الکلبي” کوفہ میں دو کذاب تھے، ان میں سے ایک کلبی ہے۔ (الجرح و التعدیل ۲۷۰/۷ و سندہ صحیح)

2) قرہ بن خالد نے کہا :”کانوا یرون ان الکلبي یرزف یعني یکذب” لوگ یہ سمجھتے تھے کہ کلبی جھوٹ بولتا ہے ۔ (الجرح والتعدیل ۲۷۰/۷ وسندہ صحیح)

3) سفیان ثوری نے کہا: ہمیں کلبی نے بتایا کہ تجھے جو بھی میری سند سے عن ابی صالح عن ابن عباس بیان کیاجائے تو وہ جھوٹ ہے اسےروایت نہ کرنا (الجرح و التعدیل ۲۷۱/۷ وسندہ صحیح)

4) یزید بن زریع نے کہا : کلبی سبائی تھی (الکامل لابن عدي ۲۱۲۸/۵ و سندہ صحیح)

5) محمد بن مہران نے کہا : کلبی کی تفسیر باطل ہے ۔ (الجرح و التعدیل ۲۷۱/۷ و سندہ صحیح )

6) جوزجانی نے کہا : “کذاب ساقط” (احوال الرجال : ۳۷)

7) یحییٰ بن معین نے کہا :لیس بشئ، کلبی کچھ چیز نہیں ہے (تاریخ ابن معین ، روایۃ الدوری : ۱۳۴۴)

8) ابو حاتم الرازی نے کہا :”الناس مجتمعون علی ترک حدیثہ، لا یشتغل بہ، ھو ذاھب الحدیث”
اس کی حدیث کے متروک ہونے پر لوگوں کا اجماع ہے۔ اس کے ساتھ وقت ضائع نہ کیا جائے وہ حدیث میں گیا گزراہے (الجرح و التعدیل ۲۷۱/۷)

9) حافظ ابن حجر نے کہا : ”المفسر متھم بالکذب و رمي بالرفض” (تقریب التہذیب : ۵۹۰۱)

10) حافظ ذہبیؒ نے کہا : ترکوہ” یعنی (محدثین نے) اسے ترک کردیا ہے ۔ (المغنی فی الضعفاء: ۵۵۴۵)

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

تیسرا راوی باذام ابو صالح ہے

1) ابو حاتم الرازی نے کہا : یکتب حدیثہ ولا یحتج بہ(الجرح والتعدیل ۴۳۲/۲)

2) نسائی نے کہا :ضعیف کوفي (الضعفاء و المتروکین : ۷۲)

3) بخاری نے اس کتاب الضعفاء میں ذکر کیا (رقم: تحفۃ الاقویاء ص ۲۱)

4) حافظ ذہبی نے کہا :”ضعیف الحدیث” (دیوان الضعفاء : ۵۴۴)

5) حافظ ابن حجر نے کہا :”ضعیف یرسل” (تقریب التہذیب : ۶۳۴)

بعض علماء نے باذام مذکور کی توثیق بھی کر رکھی ہے مگر جمہور محدثین کی جرح کے مقابلے میں یہ توثیق مردود ھے، آپ کو شاید معلوم ہوگا کہ متروک، ساقط ، متہم بالکذب، کذاب ، یکذب اور یضع یہ ساری شدید جرحیں ہیں، جن راویوں پر ان الفاظ میں جرح کی گئی ہو ان کی روایت قابل قبول ہوتی ہے نہ حجت، بالخصوص جب ان کی کسی نے توثیق بھی نہ کی ہو۔ آپ کی پیش کردہ تفسیری روایت کے یہ تینوں راوی ایسی ہی جرح کے حامل مجروح راوی ہیں، ان جھوٹوں کی روایات کو، سچے لوگ ماننا تو درکنار پیش کرنا بھی روا نہیں جانتے ، لیکن آپ نے اسے پیش کردیا ، اب آپ پر لازم ہے کہ پہلے ان کی ثقاہت ثابت کریں اگر ایسا نہ کرسکیں اور ان شاء اللہ ہرگز نہ کرسکیں گے تو اس روایت کے پیش کرنے سے علانیہ رجوع وتوبہ کریں ، آپ کی پیش کردہ اس روایت کی سند سے متعلق حافظ جلال الدین السیوطی لکھتے ہیں :
“وأوھی طرقہ طریق الکلبي عن أبي صالح عن ابن عباس فإن انضم إلی ذلک روایۃ محمد بن مروان السدي الصغیر فھي سلسلۃ الکذب“.
تمام طرق میں سب سے کمزور ترین طریق “الکلبي عن أبي صالح عن ابن عباس رضي اللہ عنہ“ ہے اور اگر اس روایت کی سند میں محمد بن مروان السدی الصغیر بھی مل جائے تو پھر یہ سند “سلسلۃ الکذب” کہلاتی ہے ۔(الاتقان فی علوم القرآن ج ۲ ص ۴۱۶)


واضح رہے کہ یہ سند سلسلۃ الکذب ابوصالح تک ہے “الصحابۃ کلھم عدول رضي اللہ عنھم” صحابہؓ تمام کے تمام عادل ہیں یہ قاعدہ کلیہ ہے ، البتہ ان سے روایت کرنے والے بعد کے راویوں کا عادل و ثقہ…. ہونا ضرور ی ہے یہ بھی ایک قاعدہ کلیہ ہے۔
 

ابو خبیب

مبتدی
شمولیت
مارچ 16، 2016
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
18
تفسیر ابن عباس میں ہے "وہ نماز میں رفع يدين نہیں كرتے

دوسری بات: اگر یہ روایت سنداً صحیح ہوتی بھی تو آپ کے لئے مفید نہ ہوتی، آپ نے اس مذکورہ آیت کی تفسیر میں، ابن عباس سے منسوب روایت کا ترجمعہ خود لکھا کہ
"وہ نماز میں رفع يدين نہیں كرتے". لہذا اس میں کسی خاص موقع کے رفع الیدین کی صراحت نہیں، بلکہ یہ عام الفاظ ہیں جس کی زد میں بعض مقام پر خود احناف بھی آتے ہیں ، کیا آپ نماز کے شروع میں رفع الیدین نہیں کرتے؟ کیا آپ وتر کی تیسری رکعت میں دعائے قنوت سے پہلے رفع الیدین نہیں کرتے؟ کیا آپ ہر سال عیدین کی نمازوں میں تکبیرات زائدہ کے ساتھ رفع الیدین نہیں کرتے؟؟؟
اگر آپ کرتے ہیں اور یقیناً کرتےہیں، تو خود آپ اس روایت کے مخالف ہیں ۔آپ ان تین مقامات پر رفع الیدین کو کس طرح بچائیں گے ؟ اور اس قول کے عین برخلاف اپنی پڑھی جانے والی نمازوں کو کس طرح خشوع و خضوع والی نماز ثابت کریں گے ؟ جبکہ خشوع کے لئے آپ کے نزدیک نماز کا رفع الیدین سے پاک ہونا ضروری ہے یا آپ کے نزدیک ان تینوں مقامات کے وقت رفع الیدین نماز کا حصہ نہیں؟ آپ کے نزدیک جو بھی اصل صورت حال ہے اس کی وضاحت کریں ،کیونکہ اس میں رکوع سے پہلے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین سے منع کی صراحت نہیں.................کما تریٰ

جب اس کی صراحت نہیں تو یہ عام ہوئے اور جب رکوع سے قبل و بعد کی صراحت نہ ہونے کی وجہ سے عام ہوئے، تو یہ الفاظ آپ کے بھی خلاف ہوئے، اس روایت کے مطابق آپ کی نمازیں بھی خشوع و خضوع کے خلاف ہوئیں........... فانظر ماذا تریٰ؟
 

ابو خبیب

مبتدی
شمولیت
مارچ 16، 2016
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
18
تیسری بات: آپ نے سورۃ المؤمنون کی جو آیت کریمہ نقل فرمائی۔ یہ مکی سورت ہے جناب محمود الحسن صاحب (دیوبندی ) نے ترجمۂ قرآن میں لکھا ہے سورۃ مؤمنون مکہ میں اتری اس سے واضح ہوتا ہے کہ نماز میں خشوع و خضوع کا حکم مکہ ہی میں نازل ہو چکا تھا، اب ذرا اس کی تفصیل بھی ملاحظہ فرمائیے کہ “رفع الیدین” پر رسول اللہ ﷺ کا عمل خود آپ کی معتبر شخصیت کی تحریر کی روشنی میں کب تک رہا، اس سے پہلے صحیح بخاری کی ایک حدیث ملاحظہ کیجئے :
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْوَاسِطِيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، أَنَّهُ رَأَى مَالِكَ بْنَ الْحُوَيْرِثِ إِذَا صَلَّى كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم صَنَعَ هَكَذَا‏.‏
ہم سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے بیان کیا خالد حذاء سے ، انہوں نے ابوقلابہ سے کہ انہوں نے مالک بن حویرث صحابی کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو تکبیر تحریمہ کے ساتھ رفع یدین کرتے ، پھر جب رکوع میں جاتے اس وقت بھی رفع یدین کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی کرتے اور انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے".

(صحیح البخاری ، ج ۱ ص ۱۰۲ باب رفع الیدین اذاکبر واذارکع و اذا رفع ، قدیمی کتب خانہ) [یہ حدیث صحیح مسلم ج ۱ص ۱۶۸ ح ۳۹۱ میں بھی “کان یفعل ھکذا” آپ اسی طرح کرتے تھے، کے الفاظ کے ساتھ موجود ہے]

اب ذرا اپنی معتبر شخصیت جناب سرفراز خان صفدر صاحب کی سنیں، وہ کیا فرماتے ہیں :”حافظ ابن حجر فتح الباری ج ۲ ص ۲۵۰ لکھتے ہیں : مالک بن الحویرث قدم المدینۃ حین التجھیز للتبوک فأقامہ عندہ عشرین لیلۃ، انتہیٰ اور غزوۂ تبوک 9ھ میں ہوا تھا، اس وقت رسول الله کی عمر مبارک تقریباً باسٹھ (۶۲) سال تھی (جزائن السنن حصہ دوم ج ۱ ص ۱۱۴، مطبوعہ مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ)

اس حوالے سے واضح ہوتا ہے کہ (سرفراز خان صفدر کے نزدیک بھی) سیدنا مالک بن الحویرثؓ نے رسول اللہ ﷺ کے تقریباً آخری زمانہ میں آپ ﷺ کو دیکھا اور بیس (۲۰) راتیں آپﷺ کے ہاں مدینہ میں قیام فرمایا اس دوران میں انہوں نے آپﷺ کو اختتامِ نماز میں اور رکوع سے قبل و بعد رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا، مطلب بالکل واضح ہے کہ ان کی اس حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ تقریباً (۶۲) سال کی عمر مبارک تک رفع الیدین پر عمل پیرا رہے ، آپﷺ (۴۰) سال کی عمر میں نبوت سے سرفراز ہوئے ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ نبوت ملنے کے بعد (۲۲) بائیس سال تک آپﷺ نماز میں رفع الیدین کرتے رہے، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد بھی۔ خود آپ کے مسلمہ اصول کے مطابق.....

اب آپ آئیں اپنی پیش کردہ تفسیری روایت کی طرف، یہ تفسیر جس آیت کے تحت بیان کی گئی ہے وہ مکی سورت کی آیت ہے جس میں خشوع و خضوع کا حکم ہے اور (بقول آپ کے) اس تفسیر کے مطابق نماز میں رفع الیدین کرنا خشوع و خضوع کے منافی ہے، اور رفع الیدین نہ کرنا خشوع و خضوع کے مطابق ہے، آپ کی پیش کردہ اس تفسیر کی روشنی میں تو (خاکم بدہن) رسول اللہ ﷺ اپنی باسٹھ (۶۲) سال کی عمر مبارک تک بغیر خشوع و خضوع والی نماز پڑھتے رہے۔ (نعوذ باللہ من ھٰذالکفر)
اور اگر ہم اس سورت کے زمانۂ نزول کو مکی زندگی کے آخری حصہ کو بھی مان لیں تب بھی یہ ثابت ہوگا کہ خشوع کے حکم والی ان آیات کے نازل ہوجانے کے نو (۹) سال بعد تک (معاذ اللہ) رسول اللہ ﷺ اس آیت کریمہ کا مفہوم نہ سمجھ پائے اور اس کے بر خلاف نماز میں رفع الیدین کرتے رہے (معاذ اللہ) جو اس تفسیر کی روشنی میں خشو ع کے خلاف ہے.....

(معاذ اللہ) جیسا کہ آپ نے لکھا ہے کہ : "تفسیر ابن عباس میں ہے "وہ نماز میں رفع يدين نہیں كرتے"۔ محتر اللہ تعالیٰ آپ کا “اقبال” بلند فرمائے ، تعصب ، جانبداری ، ضد اور ہٹ دھرمی سے دور رہ کر قلبِ سلیم کے ساتھ ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں گے تو اپنے علماء کی پیش کردہ نام نہاد تفسیر جو کہ ابو صالح جیسےسخت ضعیف اور السدی الصغیر جیسے کذاب و متروک راوی اور “الکلبی” جیسے رافضی و سبائی ، کذاب اور دین اسلام کے خطرناک دشمن نے بیان کی ہے ۔ آپ ان کی اس چال اور اس روایت کی قباحت و شناعت سے ہرگز انکار نہ کرپا ئیں گے ، ان کذاب لوگوں کی بیان کردہ اس نام نہاد تفسیر کی اس سے بڑھ کر قباحت و شناعت اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس سے اتقی الناس و اخشع الناس، امام المتقین و امام الخاشعین محمد رسول اللہ ﷺ کی نماز (نعوذ باللہ) خشوع و خضوع سے خالی ثابت ہوئی ہے ۔ (نعوذ باللہ) کیا کوئی ادنیٰ ایمان والا شخص بھی کبھی اس کا تصور کرسکتا ہے ؟
واللہ ! آپ ﷺ کی نماز سے زیادہ کسی انسان کی نماز خشوع و خضوع والی نہیں ہوسکتی، اس لئے حکمِ الٰہی سے آپ نے اپنی امت کو اس بات کا حکم دیا کہ “صلو کما رأیتموني أصلي” نماز اسی طریقہ سے پڑھو جس طریقہ سے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا.. (بخاری : ۶۳۱)

اور یہ تو ہمارے اور آپ کے ہاں مسلم ہے کہ نبی کریم ﷺ بغیر وحی کے کسی بات کا حکم نہیں دیتے تھے.............. فافھم
 

ابو خبیب

مبتدی
شمولیت
مارچ 16، 2016
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
18
چلتے چلتے یہ بھی سن لیں کہ رفع الیدین عاجزی و انکساری ، خشوع و خضوع اور سکون کے منافی ہرگز ہرگز نہیں بلکہ عین عاجزی و انکساری کا اظہار ہے ، اگر آپ تسلیم نہیں کرتے تو اپنے اکابر علماء میں سے علامہ عبدالحئی حنفی لکھنوی کی منقول عبارت ملاحظہ کیجئے ، لکھتے ہیں:
رفع الیدین عند الإفتتاح وغیرہ، خضوع، واستکانۃ، وابتھال و تعظیم للہ تعالیٰ، و اتباع سنۃ نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم”.
رفع الیدین کرنا افتتاح (صلوٰۃ) کے وقت اور اس کے علاوہ خضوع ہے ، عاجزی و انکساری ہے، گڑگڑانا ہے (اللہ کے سامنے) اوراللہ تعالیٰ کی تعظیم ہے اور اس کے نبی ﷺ کی سنت کی اتباع ہے۔ (التعلیق الممجد علی موطا محمد، ج ۱ ص ۳۷۵، حاشیہ ۳ ، قدیمی کتب خانہ)

محترم عبدالرحمٰن (عبد الحنیفہ) غور کیجئے گا، یہ رفع الیدین رب کے حضور عاجزی و انکساری ، خشوع و خضوع کا اظہار صرف عندالافتتاح ہی نہیں بلکہ “وغیرہ” اس کے علاوہ دیگر مقام پر بھی ہے جیسے متواتر احادیث کی روشنی میں رکوع سے قبل اور رکوع سے اٹھنے کے بعد، اب یہ تو عجیب بات ہوئی کہ آپ کے “علامہ” و کثیر التصانیف معتبر شخصیت “رفع الیدین” کا شروع نماز کے علاوہ دیگر مقام پر بھی عاجزی و انکساری ہونا نقل فرما کر تسلیم کریں اور آپ اسے خشوع و خضوع کے منافی قرار دیں، اور پھر خود وتر میں روزانہ اور عیدین میں باربار شروع نماز کے علاوہ بھی اس عمل کو دہرائیں، لیکن تناقض و تضاد کی عمدہ مثال بن کر اسی عمل کو خشوع و خضوع کے خلاف کہنے کی رٹ بھی لگائے رکھیں؟؟؟؟
 

ابو خبیب

مبتدی
شمولیت
مارچ 16، 2016
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
18
تكبير تحريمہ، وتر میں دعائے قنوت سے پہلے اور عيدين كى نمازوں کے علاوه رفع اليدين مسنون نہیں
جو جو مقامات یا نشاندھی آپ نے کی ھے، ان کے علاوہ رفع الدین مسنون کیوں نہیں؟؟؟؟؟

کوئی ایک صحیح مرفوع غیر معارض روایت پیش کرکے ان مقامات میں رفع الیدین کے مسنون ھونے کی نشاندھی کروائیں جو مقامات آپ نے لکھے ہیں.......
ان مقامات کے علاوہ باقی مقامات پر کیئے جانے والے رفع الیدین کو صحیح صریح غیر معارض روایت سے واضح کریں کہ ان مقامات کے علاہ باقی مقامات پر رفع الیدین کرنا مسنون نہیں؟؟؟؟؟؟
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
زحمت فرما کر یہ تفسیر اصل ماخذ سے ملاحظہ کریں تو اس کے شروع میں اس تفسیر کی سند نظر آئے گی جو کچھ اس طرح ہے کہ اس کی سند میں تین راوی پائے جاتے ہیں….محمد بن مروان السدی عن محمد بن السائب الکلبی عن أبی صالح عن ابن عباس۔ طویل سند میں یہ تینوں نام ایک ہی سلسلہ میں نظر آئیں گے.....
(تنویر المقباس تفسیر ابن عباس ص ۲ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)
محترم! آپ نے اصل کی بجائے نقل سے پڑھا تو حق ادا نہ کیا اپنے قرآن و حدیث کے دعویٰ کا۔
تفسير الطبري
حدثنا ابن بشار، قال: ثنا عبد الرحمن، قال: ثنا سفيان، عن منصور، عن مجاهد:( الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خَاشِعُونَ ) قال: السكون فيها.
حدثنا ابن عبد الأعلى، قال: ثنا ابن ثور، عن معمر، عن الزهريّ:( الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خَاشِعُونَ ) قال: سكون المرء في صلاته.
حدثنا القاسم، قال: ثنا الحسين، قال: ثنا هشيم، قال: أخبرنا مغيرة، عن إبراهيم، في قوله:( خَاشِعُونَ ) قال: الخشوع في القلب، وقال: ساكنون.
حدثني عليّ، قال: ثنا عبد الله، قال: ثني معاوية، عن عليّ، عن ابن عباس في قوله:( الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خَاشِعُونَ ) يقول: خائفون ساكنون.
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
"وہ نماز میں رفع يدين نہیں كرتے". لہذا اس میں کسی خاص موقع کے رفع الیدین کی صراحت نہیں، بلکہ یہ عام الفاظ ہیں جس کی زد میں بعض مقام پر خود احناف بھی آتے ہیں ، کیا آپ نماز کے شروع میں رفع الیدین نہیں کرتے؟ کیا آپ وتر کی تیسری رکعت میں دعائے قنوت سے پہلے رفع الیدین نہیں کرتے؟ کیا آپ ہر سال عیدین کی نمازوں میں تکبیرات زائدہ کے ساتھ رفع الیدین نہیں کرتے؟؟؟
محترم! نص کے مقابلہ میں قیاس نہیں چلتا۔ میں نے تفسیر طبری کے اقتباسات پیش کر دیئے ہیں ملاحظہ فرمالیں۔اللہ تعالیٰ کے فرمان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں کی جانے والی صرف وہ رفع الیدین چھوڑ یں جن کے ساتھ ذکر نہ تھا۔

اب آپ آئیں اپنی پیش کردہ تفسیری روایت کی طرف، یہ تفسیر جس آیت کے تحت بیان کی گئی ہے وہ مکی سورت کی آیت ہے جس میں خشوع و خضوع کا حکم ہے اور (بقول آپ کے) اس تفسیر کے مطابق نماز میں رفع الیدین کرنا خشوع و خضوع کے منافی ہے، اور رفع الیدین نہ کرنا خشوع و خضوع کے مطابق ہے
محترم! میرے نہیں بلکہ أبو جعفر محمد بن جرير الطبريّ کے بقول کیونکہ میں نے اصل کتاب ”تفسیر طبری“ کے اقتباسات ہی لکھے ہیں۔ ترجمہ میں کوئی غلطی ہے تو اس کی نشان دہی فرما دیں وہ میری طرف سے کہلائے گی۔

جو جو مقامات یا نشاندھی آپ نے کی ھے، ان کے علاوہ رفع الدین مسنون کیوں نہیں؟؟؟؟؟
محترم! اس لئے کہ اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑ دیا فرمانِ الٰہی (وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي الآیۃ) کے نزول کے بعد۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
محدث فورم کے تمام احباب سے میری عاجزانہ گزارش ہے کہ میرے ساتھ گفتگو میں نصوص سے دلائل دیں امتیوں کے اقوال پیش کرکے نہ اپنا وقت ضائع کریں اور نہ ہی میرا۔ شکریہ
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top