محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,802
- پوائنٹ
- 1,069
سنت کیا ہے؟ اور بدعت کیا ہے ؟
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور وہ ( نبى ) اپنى خواہش سے كوئى بات نہيں كہتے وہ تو صرف وحى ہے جو اتارى جاتى ہے }النجم ( 3 - 4 ).
ہمارے دين حنيف سے سلف صالحين رحمہ اللہ تو يہى سمجھے تھے.مقدام بن معديكرب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" خبردار مجھے كتاب اور اس كے ساتھ اس كى مثل دى گئى ہے، خبردار قريب ہے كہ ايك پيٹ بھر كر كھانا كھايا ہوا شخص اپنے پلنگ پر بيٹھ كر يہ كہنے لگے: تم اس قرآن مجيد كو لازم پكڑو، اس ميں تم جو حلال پاؤ اسے حلال جانو، اور اس ميں جو تمہيں حرام ملے اسے حرام جانو.
خبردار جو رسول اللہ نے حرام كيا ہے وہ اسى طرح ہے جس طرح اللہ نے حرام كيا ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2664 ) ترمذى نے اسے غريب من ھذا الوجہ كہا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے " السلسۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 2870 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
سنت كى اہميت اس سے بھى واضح ہوتى ہے كہ سنت نبويہ كتاب اللہ كا بيان اور اس كى شرح كرنے والى ہے، اور پھر جو احكام كتاب اللہ ميں ہيں ان سے كچھ احكام زيادہ بھى كرتى ہے.حسان بن عطيہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جبريل عليہ السلام رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سنت لے كر نازل ہوا كرتے تھے جس طرح ان پر قرآن لے كر نازل ہوتے "
ديكھيں: الكفايۃ للخطيب ( 12 ) اسے دارمى نے سنن دارمى ( 588 ) اور خطيب نے الكفايۃ ( 12 ) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح البارى ( 13 / 291 ) ميں بيہقى كى طرف منسوب كيا ہے كہ انہوں نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے.
ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور ہم نے آپ كى طرف يہ ذكر ( كتاب ) نازل كيا ہے تا كہ لوگوں كى جانب جو نازل كيا گيا ہے آپ اسے كھول كھول كر بيان كر ديں }النحل ( 44 ).
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ہم نے ذكر نازل كيا ہے اور ہم ہى اس كى حفاظت كرنے والے ہيں }الحجر ( 9 ).
اللہ سبحانہ و تعالى نے خبر دى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سارى كلام وحى ہے، اور بغير كسى اختلاف كے وحى ذكر ہے، اور ذكر نص قرآنى كے ساتھ محفوظ ہے، تو اس سے يہ معلوم ہوا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سارى كلام اللہ كى حفاظت كے ساتھ محفوظ ہے، ہمارے ليے مضمون ہے كہ اس ميں سے كچھ ضائع نہيں ہوا، جب اللہ تعالى كى جانب سے يہ محفوظ ہے تو يقينا اس ميں سے كچھ بھى ضائع نہيں ہو سكتا، اور يہ سارى كى سارى ہمارى جانب منقول ہے، اس طرح ہم پر ہميشہ كے ليے حجت قائم ہو چكى ہے " انتہىاور ارشاد ربانى ہے:
{ كہہ ديجئے ميں تو تمہيں اللہ كى وحى كے ذريعہ آگاہ كر رہا ہوں مگر بہرے لوگ بات نہيں سنتے جبكہ انہيں آگاہ كيا جائے }الانبياء ( 45 ).
يہ حديث " العمل بالنيۃ " كے الفاظ سے بھى مروى ہے، اور " انما الاعمال بالنيات " كے الفاظ سے بھى، اور " الاعمال بالنيۃ " كے الفاظ سے بھى، اس تعدد روايت كا سبب روايت بالمعنى ہے، كيونكہ حديث كا مخرج ايك ہى ہے اور وہ يحي بن سعيد عن محمد بن ابراہيم التيمى عن علقمۃ عن عمر رضى اللہ تعالى عنہ ہے، ديكھيں كہ ان سب جملوں سے جو معنى سمجھ ميں آتا ہے وہ ايك ہى ہے، تو پھر تعدد روايات يعنى حديث كا كئى ايك روايات سے مروى ہونے ميں كيا ضرر ہے ؟!نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" انما الاعمال بالنيات " اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے.
چنانچہ قرآن كى تفسير يا نقل حديث يا اس كى شرح ميں جو غلط ہے اللہ تعالى امت ميں ايسے شخص پيدا فرمائيگا جو اس غلطى كو صحيح كرينگے، اور غلطى كرنے والے كى غلطى اور جھوٹ بھولنے والے كے كذب كى دليل بيان كرينگے، كيونكہ يہ امت كسى گمراہى و ضلالت پر جمع نہيں ہو سكتى، اور ہر وقت اس ميں حق پر ايك گروہ موجود رہيگا حتى كہ قيامت قائم ہو جائے، كيونكہ امتوں ميں سے يہ سب سے آخرى امت ہے ان كے نبى كے بعد كوئى اور نبى نہيں، اور ان كى كتاب كے بعد كوئى اور كتاب نہيں.اللہ تعالى كا فرمان ہے:
{ہم نے ذكر نازل كيا ہے اور ہم ہى اس كى حفاظت كرنے والے ہيں }الحجر ( 9 ).