سید طہ عارف
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 18، 2016
- پیغامات
- 737
- ری ایکشن اسکور
- 142
- پوائنٹ
- 118
::: سندھ اسمبلی کا اٹھارہ سال سے کم عمر میں اِسلام قُبول کرنے کو قابل سزا جرم قرار دینا :::
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمام تر سچی اور حقیقی حمد و ثناء کا مستحق صِرف وہ اللہ ہی ہے جِس نے اپنا دِین حق اِسلام نازل فرمایا، اور اللہ کی تمام تر سلامتی، برکت اور رحمت ہو اُس کے خلیل محمد رسول اللہ پر جِن کے ذریعے اللہ عزّ و جلّ نے اپنی مخلوق پر احسان عظیم فرماتے ہوئے اپنے دِین ء حق کی تکمیل فرمائی ، جِس میں اب ابد الابد تک کوئی کمی یا کوئی زیادتی نہیں ہو سکتی ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
کافی سال پہلے میں نے """پاکستانی کا پیغام ، پاکستانی کے نام ۔۔۔ http://bit.ly/1IQG8mV """ میں لکھا تھا کہ :::
""" اللہ تعالیٰ نے آزادی عطا فرمائی تھی ،جو یقینا بہت بڑی نعمت تھی ، عِزت تھی ، جی ، تھی ، اب ہم جغرافیائی طور پر ایک الگ خطہء زمین کے باسی تو ہیں ، لیکن نہ ہماری اپنی معاشرت ہے ، نہ معیشیت ، نہ کردار نہ گفتار ،نہ حکومت اپنے اختیار والی اور نہ ہی محکوم ،
ایک خطہء زمین پر آباد رہتے ہوئے چند علاقائی عادات کو برقرار رکھنا آزادی نہیں ہوتی، آزادی وہ تھی جو کستان کا مطلب کیا """ لا اِلہَ اِلَّا اللَّہ """کے عملی نفاذ کے لیے لاکھوں جانوں ، مالوں ، عِزتوں کی قُربانی کے بعد ملی تھی ،لیکن آغاز میں ہی اس نیت پر عمل کرواسکنے والوں کو راہ سے ہٹا دیا گیا ، اور آغاز میں ہی ہم نے اللہ کی اس نعمت کا بھی کفر کیا اور اللہ کے ہاں عِزت حاصل کرنے کی بجائے ''' مندرجہ بالاعِزت '''کے فلسفے پر عمل کرنے لگے اور کرتے ہی جارہے ہیں ، اور جتنا کرتے جا رہے ہیں اُتناہی مزید ذلیل ہوتے جا رہے ہیں ، کیونکہ رب العِزت کی بندگی ترک کر دی اور اُس کے ذلیل و خوار بندوں کی بندگی قُبول کر لی ،
اب تو معاذ اللہ یہ نظر آتا ہے کہ """پاکستان کا مطلب کیا ::: کُلُّ واحد اِلہ اِلَّا اللَّہ """،
اب سندھ اسمبلی کی طرف سے اللہ کے دِین ء حق کو قُبول کرنے پر اٹھارہ سال کی پابندی لگانے نے میری اِس بات کو مزید تقویت دی ہے کہ ، ہمارا اِس مُلک میں ارباب اختیار ، عملی طو رپر تو اللہ تبارک و تعالیٰ کو معبودء حق ماننے والے نہیں ہیں ، اِسی لیے اتنی جرأت کرتے ہیں ، کہ ، اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کے خِلاف فیصلے صادر کرتے ہیں ، جو کہ سراسر اِیمان کے خِلاف ہے ، اللہ القوی الجبار القہار کے غیض و غضب کو دعوت دینا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے مقصود و مطلوب کے خِلاف ہے،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے تو اُس کے دِین کو قُبول کرنے کے لیے کِسی عُمر کی کوئی پابندی نہیں رکھی، کِسی جِنس ، کِسی مذھب ، کِسی مکتب فِکر، غرضیکہ کِسی بھی قِسم کی کوئی پابندی نہیں رکھی ، کوئی شرط نہیں رکھی ، بلکہ ہر ایک اِنسان کو اپنے دِین ء حق اِسلام میں داخل ہونے کا حکم فرمایا ہے،
اور نہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ایسی کوئی پابندی یا شرط عائد کی گئی ہے، اور اللہ کے دِین میں کِسی قسم کی کمی یا اضافے ، کسی جائز کو ناجائز ، اور ناجائز کو جائز قرار دینے کی اجازت کِسی کو نہیں ،
کسی مسلمان حکمران کو وقتی طور پر ایسا کرنے کی اجازت اُسی صورت میں ہو سکتی ہے جب کہ ایسا کرنے میں اِسلام اور مُسلمانوں کا فائدہ ہو ، نہ کہ نقصان ،
کافروں کی نقالی ، بلکہ تابع فرمانی کے چاؤ میں مبتلا مُسلمانوں کی صفوں میں پائے جانے والے نام نہاد مُسلمان ، اُن کافروں کے قوانین کا اطلاق اللہ کے دِین پر بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، جِس کی ایک تازہ مِثال سندھ اسمبلی کا یہ مذکورہ بالا فیصلہ ہے،
کوئی اِن سے پوچھے کہ ،
::::::: امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ کے بارے میں آپ کے قانون کے مُطابق کیا کہا جائے گا ، انہوں نے تو دس سال کی عُمر میں اللہ کے دِین ء حق کو قُبول فرمایا تھا ، اللہ عزّ و جلّ کی طرف سے ، یا اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے یہ نہیں کہا گیا کہ تُم ابھی اِسلام قُبول کرنے کی عمر میں نہیں ہو ، تمہارا قُبول ء اِسلام قُبول نہیں ہے ، کافر ہی رہو ، ورنہ سزا پاؤ گے ،
::::::: عشرہ مبشرہ میں ایک ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے رشتے میں ماموں ، سعد بن ابی وقاص ، جنہوں نے اللہ کے دِین کے لیے سب سے پہلا تِیر چلایا، اِنہوں نے سترہ سال کی عُمر میں اِسلام قُبول کیا ، اِن کی دلیری پر خوشی ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی و آلہ وسلم نے فرمایا ((( تم پر میرے ماں باپ فِدا ہوں سعد )))، یہ نہیں کہا گیا کہ تُم ابھی اِسلام قُبول کرنے کی عمر میں نہیں ہو ، تمہارا اِسلام قابل قُبول نہیں ہے ، کافر ہی رہو ، ورنہ سزا پاؤ گے ،
::::::: سن دو ہجری میں ہونے والے جِہادءِ بدر میں اللہ کے دِین کے دُشمن ابو جہل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے کی سزا میں قتل کرنے والے معاذ اور معوذ رضی اللہ عنہما بھی اٹھارہ سال سے بہت کم تھے ، اور پیدائشی مُسلمان بھی نہ تھے ،اُن کی اِس جانبازی اور محبتء رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو سراہا گیا ، یہ نہیں کہا گیا کہ تُم ابھی اِسلام قُبول کرنے کی عمر میں نہیں ہو ، تمہارا اِسلام قابل قُبول نہیں ہے ، کافر ہی رہو ، ورنہ سزا پاؤ گے ،
::::::: عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ُ ، ابھی اٹھارہ سال سے بہت کم تھے ، شہادت کی تمنا لیے جِہاد میں شرکت کے لیے آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کم عمری کی وجہ سے شامل ہونے کی اجازت مرحمت نہ فرمائی ، عمیر رضی اللہ عنہ ُ رونے لگے تو اجازت عطاء فرما دی، یہ نہیں کہا گیا کہ تُم ابھی اِسلام قُبول کرنے کی عمر میں نہیں ہو ، تمہارا قُبول ء اِسلام قُبول نہیں ہے ، کافر ہی رہو ، ورنہ سزا پاؤ گے ،
::::::: جامع ء قران ، زید بن ثابت ، رضی اللہ عنہ ُ ، اٹھارہ سال سے بہت کم عمر کے تھے کہ قران کریم کی بہت سی سورتیں حفظ تھیں ، اُنہیں اُسی عُمر میں یہودیوں کی ز ُبان سیکھنے کا حکم فرمایا گیا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی یہودیوں سے مراسلات لکھتے اور پڑھتے ، یہ نہیں کیا گیا کہ تُم ابھی اِسلام قُبول کرنے کی عمر میں نہیں ہو ، کافر ہی رہو ، ورنہ سزا پاؤ گے ،
اِس طرح کی اور بھی کئی مثالیں ہیں ، یہ مثالیں پیش کرنے کا مقصد اِس بات کی وضاحت تھا کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے اللہ کے دِین قُبول کرنے والے کے لیے کوئی پابندی نہیں رکھی گئی ، کوئی شرط نہیں لگائی کہ فلاں صِفت کا حامل ہو گا تو ہی وہ اِسلام قُبول کر سکے گا ،
ایسی کوئی بھی شرط لاگو کرنا اللہ القوی القدیر کے دِین کی راہ میں روکاٹ کھڑی کرنا ہے، اللہ تعالیٰ کے غیض و غضب کو دعوت دینا ہے،
یہ تو اللہ کی ہم پاکستانیو ں پر خصوصی رحمت ہے کہ اُس کی اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی کھلے عام نا فرمانیوں کے بازار گرم رکھنے ، اور اُن کے احکامات کے خِلاف فیصلے صادر کرنے کے باوجود اُس نے ابھی تک ہمیں اپنے کِسی ایسے عذاب میں مبتلا نہیں کیا جیسے کہ قوم عاد اور ثمود پر کیے تھے ،
لیکن ہمارے اصحابء اختیار اپنے عارضی اختیارات کے نشے میں اِس قدر دُھت ہو چکے ہیں کہ مسلسل اللہ عزّ و جلّ کے غصے کو للکار رہے ہیں ،
یہ لوگ بھول چکے ہیں کہ ، اللہ القہار ، الجبار ، کے دِین اِسلام کی راہ میں روکاٹ کھڑی کرنا ، اور اُس کے دِین کی قُبولیت کے کوئی ایسی شرط عائد کرنا ، بلکہ معاذ اللہ جرم قرار دینا ، اللہ کے مطلوب و مقصود کے خِلاف فیصلہ کرنا ہے ، جسکا کِسی کو بھی کوئی حق نہیں ،
میں سندھ اسمبلی کےاُن ارکان کی خدمت میں ، جنہوں نے یہ قانون بنایا ہے ، یہ حقیقت پیش کرنا چاہوں گا کہ ، آپ صاحبان اٹھارہ سال سے کم عمر والے کے اِسلام قُبول کرنے کو جرم قرار دے کر ، اللہ کےدِین سے دُشمنی کا شِکار تو ہوئے ہی ہیں ، لیکن ساتھ ساتھ آپ صاحبان نے یہ بھی ثابت کر دِیا ہے کہ جِس اصول کو آپ لوگوں نے اٹھارہ سال کی عمر سے کم والے کو نا پختہ سوچ و شعور والا سمجھنے والے خرافاتی نظریے پر عمل کیا ہے ، اپنے اِسی عمل سے اُس کے غلط ہونے کا ثبوت بھی دے دِیا ہے،
اور وہ اِس طرح کہ آپ صاحبان کے اِس قانون کو بنانے اور منظور کرنے سے یہ ثابت ہو گیا کہ آپ سب جن میں سے کوئی بھی اٹھارہ سال سے کم کا نہیں ، سب ہی نا پختہ شعور والے ہیں ، اچھائی اور برائی کی تمیز نہیں کر سکتے، گناہ اور نیکی کی تمیز نہیں کر سکتے ، حق اور نا حق کی تمیز نہیں کر سکتے ، اِسی لیے تو لوگوں نے آپ کو اللہ کے دِین کے خِلاف اِستعمال کر لیا ، پس ثابت ہوا کہ دُرست عقل و شعور اُسے ہی نصیب ہوتی ہے جسے اللہ عطاء فرمائے، عُمر کا اِس میں کچھ عمل دخل نہیں ،
آپ لوگ اِنسانوں کے حقوق محفوظ کرنا چاہتے ہیں ، اقلیتوں کے حقوق محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ، تو اِس کے لیے اللہ کے دِین حق اِسلام ، اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے نفاذ سے بہترین حل اور کوئی نہیں ، کہ ، یہ ایسی حقیقت ہے جِس سے اِنکار کی کوئی گنجائش نہیں ،
اب اگر کوئی آپ جیسے مسلمانوں کو دیکھ کر اِسلام اور شریعت ء اِسلامی کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہو تو وہ اُس کی غلطی ہے ، اللہ کے دِین اِسلام اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت میں کوئی نُقص ، کوئی عیب نہیں ،
آپ مانیے یا نہ مانیے ، لیکن یہ حق ہے ، ناقابل تغیر حقیت ہے کہ((((( وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لاَ يَعْلَمُونَ::: اور (ساری کی ساری حقیقی )عِزت تو اللہ کے لیے ہے، اور اُس کے رسول کے لیے ہے، اور اِیمان والوں کے لیے ہے، لیکن منافق لوگ یہ (حقیقت سمجھتے نہیں ) ۔ ))))) سُورت المنافقون (63)/آیت8 ،
اور یہ بھی کہ (((مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ::: جو کوئی (دُنیا اور آخرت میں حقیقی )عِزت چاہتا ہے تو (یقین کر لے کہ ) تمام تر عِزت اللہ کے اختیار میں ہی ہے ))) سُورت فاطر (35)/آیت10 ،
پس یاد رکھیے کہ اللہ کے دِین کی راہ میں روکاٹیں کھڑی کرنے سے آپ صاحبان کو کوئی عِزت ملنے والی نہیں ، جِن لوگوں کی خوشنودی کے لیے آپ لوگ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور عذاب مول لے رہے ہیں وہ آپ کو دُنیا میں گناہوں پر مبنی کچھ مادی فوائد کے علاوہ کچھ اور دینے والے نہیں ، وہ فوائد خواہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں ، ایک دِن آپ سب کو وہ چھوڑنے ہوں گے ، اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہو گا ، جہاں دُنیا کی کوئی دوستی، کوئی جاہ و منصب ، کوئی مال ومتاع، کوئی حسب نسب کام نہیں آئے گا ،
اللہ کرے کہ آپ اُن لوگوں میں سے نہ ہوں جن کے بارے میں میرے ، آپ کے ، اور جِن کی خوشنودی آپ پانا چاہتے ہیں ، اُن کے اکیلے لا شریک خالق نے فرمایا ہے کہ (((وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ::: اور جب اُسے کہا جاتا ہے کہ اللہ(کی نافرمانی ، غصے اور عذاب ) سے بچو تو اُسے اُس کی (معاشرتی )عِزت (حق ماننے سے ) روک لیتی ہے ، بس اُس کے لیے تو جہنم ہی کافی ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے ))) سُورت البقرہ(2)/آیت206 ،
میری اپنے اُن تمام بھائیوں ، اور بہنوں سے دست بستہ درخواست ہے، جو """ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ""" پر سچے دِل سے اِیمان رکھتا ہے ، کہ ، اللہ کے واسطے ، صِرف اللہ کے واسطے ، اپنے مذھبی ، مسلکی، جماعتی ، شخصیاتی ، گروہی اختلافات کو ایک طرف رکھ دیجیے ، اِن پر بات چیت صدیوں سے ہو رہی ہے اور اللہ جانے کب تک ہوتی رہے گی، لیکن للہ، اللہ کے دِین کے خِلاف کاروائیوں کے خِلاف متحد ہو جایے،
اور اللہ کے دِین کی دُشمنی پر مبنی ، اِس قانون ، اور اِس جیسے دیگر قوانین بنانے کے خِلاف اپنی اپنی جگہ سے ، اپنے اپنے تمام وسائل اِستعمال کرتے ہوئے ، پر اُمن طور پر ، اِسلامی حُدود میں رہتے ہوئے ، کِسی کے بھی جان ، مال ، اور عِزت پر دست درازی کیے بغیر ، صدائے احتجاج بلند کیجیے، اور اِس قدر بلند کیجیے کہ غلط کاروں کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اور وہ لوگ اُس غلطی کی اِصلاح کر لیں ، والسلام علیکم۔
شیخ عادل سہیل حفظہ اللہ
Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمام تر سچی اور حقیقی حمد و ثناء کا مستحق صِرف وہ اللہ ہی ہے جِس نے اپنا دِین حق اِسلام نازل فرمایا، اور اللہ کی تمام تر سلامتی، برکت اور رحمت ہو اُس کے خلیل محمد رسول اللہ پر جِن کے ذریعے اللہ عزّ و جلّ نے اپنی مخلوق پر احسان عظیم فرماتے ہوئے اپنے دِین ء حق کی تکمیل فرمائی ، جِس میں اب ابد الابد تک کوئی کمی یا کوئی زیادتی نہیں ہو سکتی ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
کافی سال پہلے میں نے """پاکستانی کا پیغام ، پاکستانی کے نام ۔۔۔ http://bit.ly/1IQG8mV """ میں لکھا تھا کہ :::
""" اللہ تعالیٰ نے آزادی عطا فرمائی تھی ،جو یقینا بہت بڑی نعمت تھی ، عِزت تھی ، جی ، تھی ، اب ہم جغرافیائی طور پر ایک الگ خطہء زمین کے باسی تو ہیں ، لیکن نہ ہماری اپنی معاشرت ہے ، نہ معیشیت ، نہ کردار نہ گفتار ،نہ حکومت اپنے اختیار والی اور نہ ہی محکوم ،
ایک خطہء زمین پر آباد رہتے ہوئے چند علاقائی عادات کو برقرار رکھنا آزادی نہیں ہوتی، آزادی وہ تھی جو کستان کا مطلب کیا """ لا اِلہَ اِلَّا اللَّہ """کے عملی نفاذ کے لیے لاکھوں جانوں ، مالوں ، عِزتوں کی قُربانی کے بعد ملی تھی ،لیکن آغاز میں ہی اس نیت پر عمل کرواسکنے والوں کو راہ سے ہٹا دیا گیا ، اور آغاز میں ہی ہم نے اللہ کی اس نعمت کا بھی کفر کیا اور اللہ کے ہاں عِزت حاصل کرنے کی بجائے ''' مندرجہ بالاعِزت '''کے فلسفے پر عمل کرنے لگے اور کرتے ہی جارہے ہیں ، اور جتنا کرتے جا رہے ہیں اُتناہی مزید ذلیل ہوتے جا رہے ہیں ، کیونکہ رب العِزت کی بندگی ترک کر دی اور اُس کے ذلیل و خوار بندوں کی بندگی قُبول کر لی ،
اب تو معاذ اللہ یہ نظر آتا ہے کہ """پاکستان کا مطلب کیا ::: کُلُّ واحد اِلہ اِلَّا اللَّہ """،
اب سندھ اسمبلی کی طرف سے اللہ کے دِین ء حق کو قُبول کرنے پر اٹھارہ سال کی پابندی لگانے نے میری اِس بات کو مزید تقویت دی ہے کہ ، ہمارا اِس مُلک میں ارباب اختیار ، عملی طو رپر تو اللہ تبارک و تعالیٰ کو معبودء حق ماننے والے نہیں ہیں ، اِسی لیے اتنی جرأت کرتے ہیں ، کہ ، اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کے خِلاف فیصلے صادر کرتے ہیں ، جو کہ سراسر اِیمان کے خِلاف ہے ، اللہ القوی الجبار القہار کے غیض و غضب کو دعوت دینا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے مقصود و مطلوب کے خِلاف ہے،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے تو اُس کے دِین کو قُبول کرنے کے لیے کِسی عُمر کی کوئی پابندی نہیں رکھی، کِسی جِنس ، کِسی مذھب ، کِسی مکتب فِکر، غرضیکہ کِسی بھی قِسم کی کوئی پابندی نہیں رکھی ، کوئی شرط نہیں رکھی ، بلکہ ہر ایک اِنسان کو اپنے دِین ء حق اِسلام میں داخل ہونے کا حکم فرمایا ہے،
اور نہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ایسی کوئی پابندی یا شرط عائد کی گئی ہے، اور اللہ کے دِین میں کِسی قسم کی کمی یا اضافے ، کسی جائز کو ناجائز ، اور ناجائز کو جائز قرار دینے کی اجازت کِسی کو نہیں ،
کسی مسلمان حکمران کو وقتی طور پر ایسا کرنے کی اجازت اُسی صورت میں ہو سکتی ہے جب کہ ایسا کرنے میں اِسلام اور مُسلمانوں کا فائدہ ہو ، نہ کہ نقصان ،
کافروں کی نقالی ، بلکہ تابع فرمانی کے چاؤ میں مبتلا مُسلمانوں کی صفوں میں پائے جانے والے نام نہاد مُسلمان ، اُن کافروں کے قوانین کا اطلاق اللہ کے دِین پر بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، جِس کی ایک تازہ مِثال سندھ اسمبلی کا یہ مذکورہ بالا فیصلہ ہے،
کوئی اِن سے پوچھے کہ ،
::::::: امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ کے بارے میں آپ کے قانون کے مُطابق کیا کہا جائے گا ، انہوں نے تو دس سال کی عُمر میں اللہ کے دِین ء حق کو قُبول فرمایا تھا ، اللہ عزّ و جلّ کی طرف سے ، یا اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے یہ نہیں کہا گیا کہ تُم ابھی اِسلام قُبول کرنے کی عمر میں نہیں ہو ، تمہارا قُبول ء اِسلام قُبول نہیں ہے ، کافر ہی رہو ، ورنہ سزا پاؤ گے ،
::::::: عشرہ مبشرہ میں ایک ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے رشتے میں ماموں ، سعد بن ابی وقاص ، جنہوں نے اللہ کے دِین کے لیے سب سے پہلا تِیر چلایا، اِنہوں نے سترہ سال کی عُمر میں اِسلام قُبول کیا ، اِن کی دلیری پر خوشی ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی و آلہ وسلم نے فرمایا ((( تم پر میرے ماں باپ فِدا ہوں سعد )))، یہ نہیں کہا گیا کہ تُم ابھی اِسلام قُبول کرنے کی عمر میں نہیں ہو ، تمہارا اِسلام قابل قُبول نہیں ہے ، کافر ہی رہو ، ورنہ سزا پاؤ گے ،
::::::: سن دو ہجری میں ہونے والے جِہادءِ بدر میں اللہ کے دِین کے دُشمن ابو جہل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے کی سزا میں قتل کرنے والے معاذ اور معوذ رضی اللہ عنہما بھی اٹھارہ سال سے بہت کم تھے ، اور پیدائشی مُسلمان بھی نہ تھے ،اُن کی اِس جانبازی اور محبتء رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو سراہا گیا ، یہ نہیں کہا گیا کہ تُم ابھی اِسلام قُبول کرنے کی عمر میں نہیں ہو ، تمہارا اِسلام قابل قُبول نہیں ہے ، کافر ہی رہو ، ورنہ سزا پاؤ گے ،
::::::: عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ُ ، ابھی اٹھارہ سال سے بہت کم تھے ، شہادت کی تمنا لیے جِہاد میں شرکت کے لیے آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کم عمری کی وجہ سے شامل ہونے کی اجازت مرحمت نہ فرمائی ، عمیر رضی اللہ عنہ ُ رونے لگے تو اجازت عطاء فرما دی، یہ نہیں کہا گیا کہ تُم ابھی اِسلام قُبول کرنے کی عمر میں نہیں ہو ، تمہارا قُبول ء اِسلام قُبول نہیں ہے ، کافر ہی رہو ، ورنہ سزا پاؤ گے ،
::::::: جامع ء قران ، زید بن ثابت ، رضی اللہ عنہ ُ ، اٹھارہ سال سے بہت کم عمر کے تھے کہ قران کریم کی بہت سی سورتیں حفظ تھیں ، اُنہیں اُسی عُمر میں یہودیوں کی ز ُبان سیکھنے کا حکم فرمایا گیا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی یہودیوں سے مراسلات لکھتے اور پڑھتے ، یہ نہیں کیا گیا کہ تُم ابھی اِسلام قُبول کرنے کی عمر میں نہیں ہو ، کافر ہی رہو ، ورنہ سزا پاؤ گے ،
اِس طرح کی اور بھی کئی مثالیں ہیں ، یہ مثالیں پیش کرنے کا مقصد اِس بات کی وضاحت تھا کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے اللہ کے دِین قُبول کرنے والے کے لیے کوئی پابندی نہیں رکھی گئی ، کوئی شرط نہیں لگائی کہ فلاں صِفت کا حامل ہو گا تو ہی وہ اِسلام قُبول کر سکے گا ،
ایسی کوئی بھی شرط لاگو کرنا اللہ القوی القدیر کے دِین کی راہ میں روکاٹ کھڑی کرنا ہے، اللہ تعالیٰ کے غیض و غضب کو دعوت دینا ہے،
یہ تو اللہ کی ہم پاکستانیو ں پر خصوصی رحمت ہے کہ اُس کی اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی کھلے عام نا فرمانیوں کے بازار گرم رکھنے ، اور اُن کے احکامات کے خِلاف فیصلے صادر کرنے کے باوجود اُس نے ابھی تک ہمیں اپنے کِسی ایسے عذاب میں مبتلا نہیں کیا جیسے کہ قوم عاد اور ثمود پر کیے تھے ،
لیکن ہمارے اصحابء اختیار اپنے عارضی اختیارات کے نشے میں اِس قدر دُھت ہو چکے ہیں کہ مسلسل اللہ عزّ و جلّ کے غصے کو للکار رہے ہیں ،
یہ لوگ بھول چکے ہیں کہ ، اللہ القہار ، الجبار ، کے دِین اِسلام کی راہ میں روکاٹ کھڑی کرنا ، اور اُس کے دِین کی قُبولیت کے کوئی ایسی شرط عائد کرنا ، بلکہ معاذ اللہ جرم قرار دینا ، اللہ کے مطلوب و مقصود کے خِلاف فیصلہ کرنا ہے ، جسکا کِسی کو بھی کوئی حق نہیں ،
میں سندھ اسمبلی کےاُن ارکان کی خدمت میں ، جنہوں نے یہ قانون بنایا ہے ، یہ حقیقت پیش کرنا چاہوں گا کہ ، آپ صاحبان اٹھارہ سال سے کم عمر والے کے اِسلام قُبول کرنے کو جرم قرار دے کر ، اللہ کےدِین سے دُشمنی کا شِکار تو ہوئے ہی ہیں ، لیکن ساتھ ساتھ آپ صاحبان نے یہ بھی ثابت کر دِیا ہے کہ جِس اصول کو آپ لوگوں نے اٹھارہ سال کی عمر سے کم والے کو نا پختہ سوچ و شعور والا سمجھنے والے خرافاتی نظریے پر عمل کیا ہے ، اپنے اِسی عمل سے اُس کے غلط ہونے کا ثبوت بھی دے دِیا ہے،
اور وہ اِس طرح کہ آپ صاحبان کے اِس قانون کو بنانے اور منظور کرنے سے یہ ثابت ہو گیا کہ آپ سب جن میں سے کوئی بھی اٹھارہ سال سے کم کا نہیں ، سب ہی نا پختہ شعور والے ہیں ، اچھائی اور برائی کی تمیز نہیں کر سکتے، گناہ اور نیکی کی تمیز نہیں کر سکتے ، حق اور نا حق کی تمیز نہیں کر سکتے ، اِسی لیے تو لوگوں نے آپ کو اللہ کے دِین کے خِلاف اِستعمال کر لیا ، پس ثابت ہوا کہ دُرست عقل و شعور اُسے ہی نصیب ہوتی ہے جسے اللہ عطاء فرمائے، عُمر کا اِس میں کچھ عمل دخل نہیں ،
آپ لوگ اِنسانوں کے حقوق محفوظ کرنا چاہتے ہیں ، اقلیتوں کے حقوق محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ، تو اِس کے لیے اللہ کے دِین حق اِسلام ، اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے نفاذ سے بہترین حل اور کوئی نہیں ، کہ ، یہ ایسی حقیقت ہے جِس سے اِنکار کی کوئی گنجائش نہیں ،
اب اگر کوئی آپ جیسے مسلمانوں کو دیکھ کر اِسلام اور شریعت ء اِسلامی کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہو تو وہ اُس کی غلطی ہے ، اللہ کے دِین اِسلام اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت میں کوئی نُقص ، کوئی عیب نہیں ،
آپ مانیے یا نہ مانیے ، لیکن یہ حق ہے ، ناقابل تغیر حقیت ہے کہ((((( وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لاَ يَعْلَمُونَ::: اور (ساری کی ساری حقیقی )عِزت تو اللہ کے لیے ہے، اور اُس کے رسول کے لیے ہے، اور اِیمان والوں کے لیے ہے، لیکن منافق لوگ یہ (حقیقت سمجھتے نہیں ) ۔ ))))) سُورت المنافقون (63)/آیت8 ،
اور یہ بھی کہ (((مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ::: جو کوئی (دُنیا اور آخرت میں حقیقی )عِزت چاہتا ہے تو (یقین کر لے کہ ) تمام تر عِزت اللہ کے اختیار میں ہی ہے ))) سُورت فاطر (35)/آیت10 ،
پس یاد رکھیے کہ اللہ کے دِین کی راہ میں روکاٹیں کھڑی کرنے سے آپ صاحبان کو کوئی عِزت ملنے والی نہیں ، جِن لوگوں کی خوشنودی کے لیے آپ لوگ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور عذاب مول لے رہے ہیں وہ آپ کو دُنیا میں گناہوں پر مبنی کچھ مادی فوائد کے علاوہ کچھ اور دینے والے نہیں ، وہ فوائد خواہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں ، ایک دِن آپ سب کو وہ چھوڑنے ہوں گے ، اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہو گا ، جہاں دُنیا کی کوئی دوستی، کوئی جاہ و منصب ، کوئی مال ومتاع، کوئی حسب نسب کام نہیں آئے گا ،
اللہ کرے کہ آپ اُن لوگوں میں سے نہ ہوں جن کے بارے میں میرے ، آپ کے ، اور جِن کی خوشنودی آپ پانا چاہتے ہیں ، اُن کے اکیلے لا شریک خالق نے فرمایا ہے کہ (((وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ::: اور جب اُسے کہا جاتا ہے کہ اللہ(کی نافرمانی ، غصے اور عذاب ) سے بچو تو اُسے اُس کی (معاشرتی )عِزت (حق ماننے سے ) روک لیتی ہے ، بس اُس کے لیے تو جہنم ہی کافی ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے ))) سُورت البقرہ(2)/آیت206 ،
میری اپنے اُن تمام بھائیوں ، اور بہنوں سے دست بستہ درخواست ہے، جو """ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ""" پر سچے دِل سے اِیمان رکھتا ہے ، کہ ، اللہ کے واسطے ، صِرف اللہ کے واسطے ، اپنے مذھبی ، مسلکی، جماعتی ، شخصیاتی ، گروہی اختلافات کو ایک طرف رکھ دیجیے ، اِن پر بات چیت صدیوں سے ہو رہی ہے اور اللہ جانے کب تک ہوتی رہے گی، لیکن للہ، اللہ کے دِین کے خِلاف کاروائیوں کے خِلاف متحد ہو جایے،
اور اللہ کے دِین کی دُشمنی پر مبنی ، اِس قانون ، اور اِس جیسے دیگر قوانین بنانے کے خِلاف اپنی اپنی جگہ سے ، اپنے اپنے تمام وسائل اِستعمال کرتے ہوئے ، پر اُمن طور پر ، اِسلامی حُدود میں رہتے ہوئے ، کِسی کے بھی جان ، مال ، اور عِزت پر دست درازی کیے بغیر ، صدائے احتجاج بلند کیجیے، اور اِس قدر بلند کیجیے کہ غلط کاروں کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اور وہ لوگ اُس غلطی کی اِصلاح کر لیں ، والسلام علیکم۔
شیخ عادل سہیل حفظہ اللہ
Sent from my SM-N9005 using Tapatalk