• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سند دین ہے- تحریر: حافظ ابو یحییٰ نورپوری

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سند دین ہے

تحریر: حافظ ابو یحییٰ نورپوری
سند دین ہے، دین اسلام کا دارومدار اور انحصار سند پرہے۔ سند ہی حدیث رسولﷺ تک پہنچنے کا واحد طریقہ ہے، نیز سند احکام شرعی کی معرفت کا واحد ذریعہ ہے۔ سند امت محمدیہ ﷺ کا خاصہ ہے، اہلحدیث اس کے وارث اور محافظ ہیں۔

اہل باطل ہمیشہ سند سے دور رہے ہیں ، ان کی کتابیں اس سے خالی ہیں۔ ان سے سند کا مطالبہ بجلی بن کر گرتا ہے۔ لہذا جب بھی کوئی بدعتی اور ملحد آپ کو کوئی روایت پیش کرے تو آپ فوراً اس سے معتبر کتب حدیث سے سند ، نیز راویوں کی تو ثیق ، اتصال سند، تدلیس اور اختلاط سے سند کے خالی ہونے کا مطالبہ کریں۔ وہ فَبُھِتَ الَّذِی کَفَرَ کا صحیح مصداق بن جاے گا۔

سند اور محدثین :

امام یزید زریعؒ (م ۱۸۲ھ)فرماتے ہیں۔

لکل دین فرسان و فرسان ھذا الدین اصاب الا سانید۔

‘‘ ہر دین کے شہسوار ہوتے ہیں اور اس دین کے شہسوار سندوں والے لوگ ہیں۔’’

(المدخل للحاکم:۱۲ شرف اصحاب الحدیث ۸۲وسندہ حسن)


اس قول کی تشریح کرتے ہوے امام ابن حبانؒ (م ۳۵۴ ھ) لکھتے ہیں:


فرسان ھذا العلم الذین حفظوا علی المسلین الدّین ، و ھدوھم الی الصّراط المستقیم، الّذین ا کثر و اقطع المفارز و القفار، علی التّغّم فی وطان فی طلب السّنن فی الا الدیار و الاوطان فی طلب الس٘نن فی الامصار، وجعمھا بالوجل و الاسفار، والدوران فی جمیع الافطار، حتی ان احدھم لیرحل فی الحدیث الواحد الفراسخ البعیدۃ، وفی الکلمۃ الواحد ۃ الایام الکثیرۃ، للایدخل مضل فی السنن شیا یضل بہ، و ان فعل فھم الذابون عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذلک الکذب ، والقامون بنصرۃ الدین ۔۔۔

“اس علم کے شہسوار وہ لوگ ہیں، جنہوں نے مسلمانوں کے لیے ان کے دین کو محفوظ کیا اور ان کی رہنمائی صراط مستقیم کی طرف کی، وہ لوگ جنہوں نے نازونعمت اور اپنے علاقوں میں رہنے پر احادیث رسول ﷺ کی طلب میں صحراوبیاباں طے کر کے دور دراز کے شہروں میں جانے کو ترجیح دی، انہوں نے خوف و سفراور تمام اطراف و اکناف میں گھوم کر یہ کام کیا، حتی کہ ان میں سے کوئی ایک حدیث کی خاطر کئی کئی فرسخ اور ایک ہی کلمہ کی خاطر کئی کئی دن سفر کرتا، تاکہ کوئی گمراہ کن شخص احادیث میں ایسی چیز داخل نہ کردے، جس کے ذریعے وہ لوگوں کو گمراہ کرے۔ اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو انہی لوگوں نے اللہ کے رسولﷺ سے اس جھوٹ کو دور کیا، یہی لوگ دین کی نصرت کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔

[المجرو حین لابن حبان :۲۷/۱]


امام شافعی(۱۵۰تا ۲۰۴) فرماتے ہیں:


مثل الّذی یطلب اللعلم بلا حجۃ، مثل حاطب لیل، یحمل حزمۃ حطب فیھا أفعٰی ، یدغہ و ھو لا یدری۔۔۔۔

‘‘جوشخص بغیر دلیل (سند) کے علم حاصل کرتاہے، وہ رات کو لکڑیاں اکٹھی کرنے والے کی طرح ہے کہ وہ لکڑیوں کا وہ گٹھا جمع کرتاہے، جس میں اژدھا ہوتاہے، اسے معلوم ہی نہیں ہوتاکہ وہ اس کو ڈنگ مار دیتا ہے۔’’

(المدخل للحاکم:۴، وسندہٗ حسنٌ)


امام محمد بن سیرین تابعیؒ (م ۰۱۱ھ) فرماتے ہیں:


ان ھذا الحدیث دین، فانظروا عمن تاخذوہ۔

”یہ حدیث دین ہے، لہذا تم دیکھوکہ کس سے دین لے رہے ہو۔”

(الجرح والتعدیل الابن ابی حاتم:۱۵/۲، وسندہ صحیح)


شیخ امام عبداللہ بن المبارکؒ (م ۱۸۱ھ) فرماتے ہیں:


الاسناد من الدین ،ولوالاسنادلقال من شاءماشا۔

‘‘سند دین ہے، اگر سند نہ ہوتی تو ہر کہنے والا، جو اس کے جی میں آتا ، کہہ دیتا۔’’

(مقدمة صحیح مسلم:۹/۱، رقم :۳۲، وسندہ صحیح)


امام حاکمؒ (م ۴۰۵ھ)فرماتے ہیں:

لو لا اسناد و طلب ھذہ الطّافة لہ، و کثرة مواظبتھم علی حفظہ، لدرس منارالاسلام، ولتمکّن ا ھل الالحادوالبدع فیہ بوضع الحدیث، وقلب الا ساید،فانّ الاخبار اذا تعرت عن و جود الأسانید فیھا کانت بُترا….”

‘‘اگر سند نہ ہوتی اور محدثین کا یہ گروہ اس کو حاصل نہ کرتااور اس کی حفاظت پر تسلسل نہ رکھتا تو اسلام کا مینار منہدم ہوجاتا اور ملحد و بدعتی لوگ حدیث کو گھڑنے اور سندوں کو بدلنے پر قادر ہو جاتے۔ احادیث جب سندوں کے وجود سے عاری ہو جائیں تو ادھوری اور بے فیض ہوجاتی ہیں۔

(معرفةعلوم الحدیث للحاکم:ص ۶)

نیز فرماتے ہیں:

سمعت الشیح أ بابکرأحمد بن اسحاق الفقیہ، و ھو یناظررجلا، فقال الشیخ: حدثیافلان، فقال لہ الرجل: دعنا من حدثیاالی متی حدیثا، فقال لہ الشیح:قم یا کافر!ولا یحل لک ان تدخل داری بعد ھذا، ثم التفت الینا، فقال:ماقلت قط لاحد لا تدخل داری الا لھٰذا۔۔۔

میں نے شیخ ابوبکر احمد بن اسحاق فقیہ کو ایک آدمی سے مناظرہ کرتے ہوئے سنا، شیخ نے سند پڑھی تو اس آدمی نے کہا، سند کو چھوڑو، اس پر شیخ نے کہا، اے کافر! کھڑاہوجا، تیرے لیے اب کے بعد میرے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا، میں نے اس آدمی کے سوا کبھی کسی کو اپنے گھر میں داخل ہونے سے منع نہیں کیا۔’’

(معرفة علوم الحدیث للحاکم :ص۴)


ابو نصرا حمد بن سلام الفقیہ کہتے ہیں:


لیس شیءا ثقل علی ا ھل الالحاد و لا ا بغض الیھم من سماع الحدیث وروایتہ باسناد۔۔۔

‘‘ملحدین پر حدیث کو سننے اور اس کو باسند روایت کرنے سے بڑھ کر کوی کام بھاری و مبغوص نہیں۔’’

(معرفة علوم الحدیث للحاکم:ص ۴،شرف اصحاب الحدیث للخطیب :۱۵۲ ، وسندہ صحیح)


نیز امام عبداللہ بن المبارکؒ فرماتے ہیں:

مثل الّذی یطلب ا مر دینہ بلا اسناد کمثل الّذی یرتقی السّطح طلاسُلّم۔

‘‘جوشخص اپنے دین کو بغیر سند کے حاصل کرتا ہے، اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے، جوچھت پر بغیر سیڑھی کے چڑھنے کی کوشش کرتاہے۔’’

(شرف اصحاب الحدیث للخطیب:۷۵، وسندہ صحیح)


ابو سعید الحدادؒ کہتے ہیں:

اسناد مثل الّدرج ومثل المراقی،فاذا زلّت رجلک عن المرقاة سقطت،والرّای مثل المرج۔

‘‘اسناد سیڑھی اور اس کے زینوں کی طرح ہے، اگر آپ کا پاﺅں سیڑھی سے پھسلے تو آپ گر جاتے ہیں۔ رائے تو فتنہ و فسادکی طرح ہے۔’’

(شرف اصحاب الحدیث للخطیب:۷۴، وسندہ صحیح)


حافظ ابن الصلاحؒ(م ۳۴۶ھ) لکھتے ہیں:


اصل الاسناد خصیصة فاضلة من خصاص ھذا الا مّة، وسنّة بالغة من السّنن المو کّدة

سند اس امت کی خصوصیات میں سے ایک زبردست خصوصیت ہے اور مو کدہ سنتوں میں سے بلیغ سنت ہے۔“

(مقدمة ابن الصلاح:ص۲۳۱)


شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ(م ۷۲۲ھ)فرماتے ہیں:


الاسناد من خصاص ھذہ الامّة، وھو من خصاص لاسلام ، ثمّ ھو فی الاسلام من خصاص ا ھل السّنّة، الرّفضة من ا قل النّاس عنایة بہ، اذ کانوا لا یصدّقون اّلا بمایوافق ا ھواھم، و علامة کذبہ ا نّھم یخالف ا ھواھم۔


‘‘اسناد اس امت کا خاصہ ہے، اسلام کا خاصہ ہے، پھر اہل اسلام میں سے اہل سنت کاخاصہ ہے۔ اس کی طرف سب لوگوں میں سے کم توجہ رافضی کرتے ہیں، کیونکہ وہ صرف اس سند کی تصدیق کرتے ہیں، جو ان کی خواہشات کے موافق ہو اور(ان کے نزدیک سند کے جھوٹا ہونے کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ ان کی خواہشات کے خلاف ہو۔’’

(منھاج السنة النبویة: ۴/۱۱)


علامہ ابن حزمؒ(م ۶۵۴ھ)لکھتے ہیں:

‘‘ثقہ کا ثقہ کرنا، حتی کہ یہ سلسلہ اتصال کے ساتھ بنی اکرم ﷺ تک پہنچ جائے، ہرا یک راوی اپنے شیخ کا نام و نسب بیان کرے، سب کی ذات اور ان کے احوال اور زمان ومکان معروف ہوں….یہ خصوصیت (سند)اللہ تعالی نے باقی امتوں میں سے صرف مسلمانوں کو دی ہے اوراس خصوصیت کو ان کے ہاں قدیم زمانوں کے باوجود تروتازہ وشگفتہ رکھاہے۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے لوگ دوردراز آفاق کاسفر کرتے ہیں کہ ان کاشمار ان کا خالق ہی کرسکتاہے۔۔۔۔۔ اللہ تعالی نےان کے لیے اس کی حفاظت کا ذمہ لیاہے، لہذا اگر ان میں سے کسی سے نقل کرنے میں ایک کلمہ کی بھی غلطی ہو جائے تو وہ ان سے بچ نہیں نکلتی، نہ ہی کسی فاسق کے لیے ممکن ہے کہ وہ اس میں کوئی ایک بھی من گھڑت کلمہ داخل کرسکے۔ وللہ تعالی الشکر!

یہود:

ارسال اور انقطاع کے ساتھ سند یہود میں بہت زیادہ پائی جاتی ہے ، لیکن وہ اس کے ذریعے بھی سیدنا موسیٰ کے قریب نہیں پہنچ پاتے ، بلکہ وہ موسیؑ سے اتنا دور رُک جاتے ہیں کہ ان کے درمیان تیس زمانوں سے بھی زیادہ اور پندرہ سوسال سے بھی زیادہ عرصے کا فاصلہ ہوتاہے۔ وہ صرف شمعون وغیرہ تک پہنچ پاتے ہیں۔

نصاریٰ :

رہے نصاریٰ تو ان کے پاس اس میں سے صرف طلاق کی حرمت کا فتویٰ ہے، پھر اس کا بیان کرنے والا بھی ایساکذاب آدمی ہے، جس کا جھوٹ واضح ہے۔ کذاب اور مجہول راویوں پر مشتمل سندیں یہودونصاریٰ کے ہاں بہت ہیں۔

رہے اقوال صحابہ و تابعین تو یہودی اپنے نبی کے کسی صحابی یا تابعی تک قطعاً سند نہیں پہنچا سکتے، نصاریٰ کے لیے ممکن ہے کہ وہ شمعون اور پولس سے آگے جائے۔۔۔’’

(الفصل فی الملل و الاھوا والنحل:۲/۸۵-۸۲)
 
Top