• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سن ستر (٧٠) سے پناہ مانگنے کا حکم اورامارت یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ۔

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سن ستر (٧٠) سے پناہ مانگنے کا حکم اورامارت یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ۔


امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى 235)نے کہا:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ كَامِلٍ أَبِي الْعَلاَءِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنْ رَأْسِ السَّبْعِينَ وَمِنْ إمْرَةِ الصِّبْيَانِ[مصنف ابن أبي شيبة: 15/ 49 واسنادہ صحیح ومن طریق وکیع اخرجہ احمد فی مسندہ 15/ 486 و اخرجہ ایضا البزار 16/ 249 وابن عدی فی الکامل6/2101 و ابو أحمد الحاكم فی الأسامي والكنى : 5/ 169 وابویعلی کمافی البداية والنهاية 11/ 647 کلھم من طریق کامل بہ ، و اخرجہ ایضا احمدبن منیع فی مسندہ قال البوصیری فی إتحاف الخيرة المهرة:8/ 41 رواه أحمد بن منيع، ورواته ثقات ، والحدیث صححہ الالبانی فی الصحیحہ رقم 3191]۔
ترجمہ :صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سن ستر (٧٠) کے اوائل سے پناہ طلب کرو اور بچوں کی امارت سے پناہ طلب کرو۔

سندکا تعارف

یہ روایت مرفوع ہے یعنی فرمان رسول ہے اوربالکل صحیح ہے علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے الصحیحہ رقم (3191) میں صحیح قراردیا ہے اس کی سند کے رجال کا تعارف ملاحظہ ہو:

ابوصالح مينا مولى ضباعة بنت الزبير

امام علي بن المديني رحمه الله (المتوفى:234)نےکہا:
كَانَ ثبتا وَكَانَ من التَّابِعين وَهُوَ الَّذِي يروي عَنهُ أهل الكوفه[سؤالات ابن أبي شيبة لابن المديني: ص: 107]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
فأما: أبو صالح السمان الزيات وأبو صالح الحنفي وأبو صالح، مولى ضباعة من تابعي الكوفة - فهولاء ثقات.وكذا جماعة بهذه الكنية لا لين فيهم.[ميزان الاعتدال للذهبي: 4/ 539]۔

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے اسے ثقات میں نقل کرتے ہوئے کہا:
ميناء أبو صالح مولى ضباعة بنت الزبير يروى عن أبى هريرة روى عنه كامل أبو العلاء [الثقات لابن حبان: 5/ 455]۔

امام بوصيري رحمه الله (المتوفي: 840) نے کہا:
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: "تَعَوَّذُوا بالله من رأس السبعين ومن إمارة الصبيان".رَوَاهُ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَرُوَاتُهُ ثِقَاتٌ.وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُو يَعْلَى إلا أنه قال: "تعوذوا بالله من سنة سبعين". ورواه أحمد بن حنبل ... فذكره، وزاد في آخره: "ولا تذهب الدنيا حتى تصيرللكع بن لُكَعَ".[إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري: 8/ 41]۔
تنبیہ:
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا:
أبو صالح مولى ضباعة لين الحديث من الثالثة[تقريب التهذيب لابن حجر: 1/ 555]۔
عرض ہے کہ راوی مذکور کی تلیین میں حافظ ابن حجررحمہ اللہ منفرد ہیں اس سے قبل کسی نے بھی ان پرکلام نہیں کیا ہے بلکہ متقدمین نے متفقہ طورپرانہیں ثقہ قراردیا ہے کمامضی ۔
اورممکن ہے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی طرف سے اس راوی کی تلیین سبقت قلم کا نتیجہ ہو اوراس راوی کے ترجمہ کے وقت ان کے ذہن میں أبو صالح الخوزي کا تصور رہا ہو اورحافظ موصوف نے یہاں اسے ہی سمجھ کر اس کی تلیین کردی ہو ، کیونکہ اس راوی سے ذرا پہلے أبو صالح الخوزي کا ترجمہ موجودہے جو کہ اسی طبقہ کا ہے اوراس کے بارے میں حافظ موصوف نے کہا:

أبو صالح الخوزي لين الحديث من الثالثة[تقريب التهذيب لابن حجر: 1/ 555]۔

بہرحال کوئی بھی معاملہ ہو جمہورمحدثین نے اس کی توثیق کی ہے۔

كامل بن العلاء أبو العلاء

یہ راوی بھی جمہورمحدثین کے نزدیک ثقہ ہیں ان پرصرف ابن سعد(الطبقات:6/ 356) اور ابن حبان (المجروحين لابن حبان: 2/ 227) رحمھما اللہ نے جرح کی ہے جو کہ جمہورمحدثین کے خلاف ہونے کے سبب غیرمسموع ہے ، نیز امام مزی (تهذيب الكمال للمزي: 24/ 101) رحمہ اللہ نے امام نسائی سے بھی جرح نقل کی ہے لیکن اول تو امام نسائی رحمہ اللہ سے یہ جرح ثابت نہیں دوم خود امام مزی (تهذيب الكمال للمزي: 24/ 101) رحمہ اللہ نے امام نسائی رحمہ اللہ سے اس کی توثیق بھی نقل کی ہے۔
بہرحال جمہورمحدثین نے اس راوی کوثقہ کہا ہے تفصیل ملاحظہ ہو:

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
كامل بن العلاء أبو العلاء ثقة [تاريخ ابن معين - رواية الدوري: 3/ 273]۔

امام عجلى رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
كامل أبو العلاء "كوفي"، ثقة.[تاريخ الثقات للعجلي: ص: 396]۔

امام فسوي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
كامل بن العلاء وهو ثقةٌ[المعرفة والتاريخ للفسوي: 3/ 234]۔

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
أرجو أن لا بأس به[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 7/ 228]۔

امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
كامل بن العلاء وهو ثقة[مجمع الزوائد للهيثمي: 7/ 145]۔

امام بوصيري رحمه الله (المتوفي: 840) نے کہا:
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: "تَعَوَّذُوا بالله من رأس السبعين ومن إمارة الصبيان".رَوَاهُ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَرُوَاتُهُ ثِقَاتٌ.وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُو يَعْلَى إلا أنه قال: "تعوذوا بالله من سنة سبعين". ورواه أحمد بن حنبل ... فذكره، وزاد في آخره: "ولا تذهب الدنيا حتى تصيرللكع بن لُكَعَ".[إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري: 8/ 41]۔


وكيع بن الجراح بن مليح الرؤاسى

آپ بخاری ومسلم سمیت کتب ستہ کے رجال میں سے ہیں اوربہت بڑے امام ومحدث و فقیہ ہیں ان کے تعارف کی ضرورت نہیں۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مذکورہ روایت بالکل صحیح ہے ۔

مفہوم حدیث


اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سن ستر (٧٠) سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس حدیث میں سن ستر (٧٠) سے کیا مراد ہے؟؟؟؟

ملاعلی قاری رحمہ اللہ مشکاۃ کی شرح میں فرماتے ہیں:
أَيْ مِنْ فِتْنَةٍ تَنْشَأُ فِي ابْتِدَاءِ السَّبْعِينَ مِنْ تَارِيخِ الْهِجْرَةِ، أَوْ وَفَاتِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ [مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: 6/ 2418 ]۔
یعنی ملاعلی قاری رحمہ اللہ کے بقول اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’سبعین‘‘ (سترسال) سے ہجرت کے بعد کے سترسال کو مراد لیا ہے یا اپنی وفات کے بعد کے سترسال کو مراد لیا ہے۔

عرض ہے کہ ملاعلی قاری رحمہ اللہ نے جودوسری بات کہی ہے وہی صحیح ہے۔ یعنی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں ’’سبعین‘‘ سے ہجری سال مراد لینا قطعا غلط ہے کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہجری سال کاکوئی تصور ہی نہیں تھا اس لئے کہ ہجری سال بولنے کا رواج تو خلیفہ دوم عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور سے شروع ہواہے۔
لہٰذا یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ مذکورہ حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سن ستر (٧٠) سے اپنی وفات کے بعد کے ستر(٧٠) سال مراد لئے ہیں کیونکہ آپ مستقبل کی پیشین گوئی کررہے ہیں اس لئے ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے بعد ہی سے ستر (٧٠) سال مراد لے رہے ہیں، یادرہے کہ مذکورہ حدیث کے راوی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تین سال قبل اسلام قبول کیا اورعین ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کو اپنی زندگی کے آخری ایام میں مذکورہ حدیث سنائی ہو ایسی صورت میں اگرمذکورہ حدیث کے صدور کے بعد کا ستر(٧٠) سال مراد لین تب بھی بات ایک ہی ہوگی یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ حدیث اپنے سال وفات ہی میں ارشاد فرمائی۔

اوروفات رسول کی تاریخ، ہجری سال کے اعتبار سے گیارہ (١١) ہجری ہے اوروفات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کا ستر(٧٠) سال بشمول سال وفات ، ہجری سال کے اعتبار سے اسی (٨٠) ہجری کا سال ہوگا، ، گویا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں سن اسی (٨٠) ہجری کے اوائل سے پناہ مانگنے کاحکم دیاہے۔

ایسی صورت میں امیریزیدبن معاویہ رحمہ اللہ اس حدیث کے مصداق ہوہی نہیں سکتے کیونکہ یزید رحمہ اللہ تو اسی (٨٠) ہجری سے ١٦ سال قبل سن چوسٹھ ٦٤ ہجری ہی کو وفات پاگئے۔

اوراگر مذکورہ حدیث میں ’’سبعین‘‘ سے مرادسن ستر(٧٠) ہجری ہی لے لیں جوکہ قطعا غلط ہے تو بھی امیریزیدرحمہ اللہ کاعہد اس کا مصداق نہیں ہوگا کیونکہ امیریزیدبن معاویہ رحمہ اللہ تو (٧٠) ہجری سے ٦سال قبل ہی سن چوسٹھ ٦٤ ہجری میں وفات پاگئے۔

اگرکوئی کہے کہ مذکورہ حدیث میں ’’سبعین‘‘ سے مراد ستر (٧٠) کی دہائی یعنی پوراعشرہ ہے یعنی ٦٠ ہجری سے لیکر ٧٠ تک کا دور ہے توعرض ہے کہ مذکورہ حدیث کے کسی بھی طریق میں ’’عشرالسبعین‘‘(سترکی دہائی) کا لفظ نہیں ہے بلکہ ابویعلی رحمہ اللہ کی روایت میں ’’راس السبعین‘‘ کی جگہ ’’سَنَةِ سَبْعِينَ‘‘ ہے جو اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ مذکورہ حدیث میں صرف سن ستر (٧٠) مراد ہے نہ کہ ستر (٧٠) کی دہائی یعنی پورا عشرہ۔

امام بوصيري رحمه الله (المتوفي: 840) نے ابویعلی کے الفاظ کو نقل کرتے ہوئے کہا:
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: "تَعَوَّذُوا بالله من رأس السبعين ومن إمارة الصبيان".رَوَاهُ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَرُوَاتُهُ ثِقَاتٌ.وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُو يَعْلَى إلا أنه قال: "تعوذوا بالله من سنة سبعين". ورواه أحمد بن حنبل ... فذكره، وزاد في آخره: "ولا تذهب الدنيا حتى تصيرللكع بن لُكَعَ".[إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري: 8/ 41]۔

ابویعلی کی اس روایت کو مکمل سندکے ساتھ حافظ ابن کثیررحمہ اللہ نے یوں نقل کیا ہے:
وَقَالَ الْحَافِظُ أَبُو يَعْلَى: حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، ثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، ثَنَا كَامِلٌ أَبُو الْعَلَاءِ، سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ، سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ سَنَةِ سَبْعِينَ ، وَمِنْ إِمَارَةِ الصِّبْيَانِ»[البداية والنهاية:11/ 647 واسنادہ صحیح]۔

یہ سند بالکل صحیح ہے کامل بن العلاء اورابوصالح کا تعارف اوپر ہوچکاہے ، اور زہربن حرب اور فضل بن دکین یہ دونوں زبردست ثقہ راوی نیزبخاری ومسلم کے رجال میں سے ہیں۔

لطف کی بات یہ ہے کہ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے ایک موقوف روایت ملتی ہے جس میں انہوں نے ’’رأس الستين‘‘ کے دورسے پناہ مانگی ، لیکن اس روایت سے متعلق کوئی نہیں کہتا کہ اس سے مراد ستین(٦٠) کی دہائی یعنی (٦٠) کا پورا عشرہ ہے ، اوراس میں پچاس (٥٠) سے لیکر ساٹھ (٦٠) سال تک کے دس سال مراد ہیں، اوران دس سالوں کے ابتدائی ایام سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پناہ مانگی ہے، کیونکہ ایسی صورت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ دعاء بالکل بے معنی نظرآئے گی کیونکہ وہ ایسے دور سے قبل فوت ہونے کی دعاء کررہے ہیں جس دورکو وہ پاچکے ہیں اوراسی میں سانس لے رہے ہیں۔

پھر اگرابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعاء ’’رأس الستين‘‘ میں ساٹھ(٦٠) سے مراد پورا عشرہ نہیں لیا جاسکتا تو پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’رَأْسِ السَّبْعِينَ‘‘ سے بھی ستر(٧٠)کا پورا عشرہ مراد نہیں لیا جاسکتا ۔
اگرکوئی کہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعاء سے متعلق بعض طرق میں ’’سنة ستين‘‘ کالفط ہے توعرض ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ حدیث کے بھی بعض طرق میں ’’ ’’سَنَةِ سَبْعِينَ‘‘ کا لفظ ہے جیساکہ ماقبل میں امام ابویعلی کی روایت پیش کی گئی ہے۔

یادرہے کہ ہمارے نزدیک وہ تمام روایات غیرثابت شدہ ہیں جن میں یہ ملتاہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سن ساٹھ ہجری یا اس کے اوائل سے پناہ مانگی البتہ پناہ مانگنے کی صراحت کے بغیر بعض مستندروایات میں صرف یہ ملتاہے کہ ابوھریرہ رضی اللہ عنہ دعاء کرتے تھے کہ اللہ تعالی انہیں ساٹھ ہجری سے قبل وفات دے دے ، اور کسی زمانے سے پناہ طلب کرنا اورکسی زمانے سے قبل موت کی دعاکرنا ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
ایسی صورت میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ فرمان اورابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی دعاء میں کوئی تعارض نہیں ہے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دورسے پناہ مانگنے کاحکم دیا ہے لیکن اس سے قبل موت مانگنے کاحکم نہیں دیا ہے جبکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک خاص دورسے قبل موت طلب کی ہے ، لہٰذا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مرفوع حدیث اورابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی موقوف روایت دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، اورالگ الگ زمانے سے متعلق ہیں۔
رہی بات یہ کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سن ساٹھ ہجری سے قبل موت کی دعا کیوں کہ تو عرض ہے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتاہے کہ اس دورمیں کوئی ناخوشگوارواقعہ پیش آنے والا ہے لیکن اس کی ذمہ داری یزیررحمہ اللہ پرہوگی یہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعاء سے قطعاثابت نہیں ہوتا، بلکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بعض نصیحتوں سے تو یہ معلوم ہوتا کہ اس ناخوشگوارواقعہ کے ذمہ دار وہ لوگ ہوں گے جو یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ کے خلاف سازش کریں گے اس کی تفصیل ہم کسی دوسرے مقالے میں پیش کریں گے فی الحال ہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ حدیث پربات کررہے ہیں ۔
الغرض یہ کہ جس طرح ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعاء ’’رأس الستين‘‘ میں ساٹھ(٦٠) سے مراد پورا عشرہ نہیں لیا جاتااسی طرح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’رَأْسِ السَّبْعِينَ‘‘ سے بھی ستر(٧٠)کا پورا عشرہ مراد نہیں لیا جاسکتا ۔


واضح رہے کہ یہ باتیں اس صورت میں کہی جائیں گی جب یہ فرض کرلیاجائے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مذکورہ فرمان میں ’’سبعین‘‘ سے ہجری سال مراد لیا ہے لیکن ہم پہلے وضاحت کرآئے ہیں کہ اس حدیث میں ’’سبعین‘‘ سے ہجرت کے بعد کے ستر (٧٠) سال نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ستر (٧٠) سال مراد ہیں، کیونکہ ہجری سال کا رواج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھا ہی نہیں ۔

اس تفصیل کے بعد عرض ہے کہ اس مرفوع حدیث کا مصداق یزید رحمہ اللہ تو درکنار یزید رحمہ اللہ کا زمانہ بھی نہیں ہے۔

بچوں کی امارت کا دور

اس حدیث رسول میں بھی سن (٧٠) کے ساتھ ساتھ بچوں کی امارت کا بھی ذکر ہے جس طرح ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ایک قول میں سن ساٹھ(٦٠) ہجری اوربچوں کی امارت کاذکرہے، لیکن حدیث رسول میں سن ساٹھ(٦٠) ہجری نہیں ، بلکہ سن ستر(٧٠) کاذکرہے، جس سے سن اسی (٨٠) ہجری مراد ہے کمامضی۔

اب اگر اس حدیث سے بھی اسی طرح استدلال کیا جائے جس طرح ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول سے استدلال کیا جاتا ہے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ فرمان رسول کے مطابق کم عمربچوں کی امارت کا دور اسی(٨٠) ہجری کاہے۔
پھرایسی صورت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول فرمان رسول کے خلاف ہونے کی صورت میں غیرمسموع ہوگا، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہی مقدم ہوگا یعنی کم عمربچوں کی امارت کا دور اسی(٨٠) ہجری ہوگا نہ کہ ساٹھ(٦٠) ہجری اورایسی صورت میں یزیدرحمہ اللہ کی امارت کو کم عمربچوں کی امارت قراردینا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی ہوگی، کیونکہ یزیدرحمہ اللہ اس دور سے بہت ہی قبل اس دنیاسے رحلت فرماگئے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے مذکورہ قول اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ فرمان میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ ان دونوں میں کم عمر بچوں کی امارت کے دور کی تحدید نہیں کی گئی ہے بلکہ دو الگ الگ باتوں کا بیان ہے ، ایک بات کا تعلق محدود دور میں رونماہونے والے مخصوص فتنہ سے ہے اوردوسری بات کا تعلق کم عمربچوں کی امارت سے ہے لیکن یہ امارت کس زمانہ میں ہوگی اس کا بیان مذکورہ دونوں روایات میں سے کسی میں نہیں ، اورمذکورہ دونوں باتوں کے درمیان عربی کا جو ’’و‘‘ ہے یہ واو مغایرت کے لئے ہے جیسا کہ تعوذ کی تمام دعاؤں کا معاملہ ہے۔

شیخ عبدالرحمن العقبی سبعین والی روایت سے متعلق لکھتے ہیں :
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : "تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ رَأْسِ السَّبْعِينَ وَمَنْ إِمَارَةِ الصِّبْيَانِ"، فإن إمارة الصبيان غير رأس السبعين، وليس المعنى أن إمارة الصبيان تكون على رأس السبعين، وذلك لأن الواو للمغايرة كقول القائل: أعوذ بالله من الاشتراكية والرأسمالية ۔۔۔۔۔۔۔[مسائل سلطانية للشيخ: عبد الرحمن العقبي (ص: 8) ترقيم الشاملة].
ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سن ستر (٧٠) کے اوائل سے پناہ طلب کرو اور بچوں کی امارت سے پناہ طلب کرو۔ یہاں بچوں کی امارت کا دور سن ستر (٧٠) میں نہیں بتایا گیا ہے اور اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بچوں کی امارت ستر (٧٠) کے اوائل ہی میں ہوگی کیونکہ یہاں ’’واؤ‘‘ مغایرت کے لئے ہے ، جیسے کوئی یہ کہے کہ میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اشتراکی نظام اور سرمایہ دارانہ نظام سے ۔۔۔۔
اس تطبیق سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول اوراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں کوئی تعارض باقی نہیں رہتا ہے۔
اگرکوئی اس تطبیق سے راضی نہیں ہے تو اس پرلازم ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول پرمقدم کرے اوریہ تسلیم کرے وفات رسول کے سترسال بعد تک یعنی اسی (٨٠) ہجری کے اوائل تک بچوں کی امارت کا وجود ناممکن ہے کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا وجود اپنی وفات کے ستر سال بعد بتایاہے۔



حدیث مذکورکا مصداق کون ؟؟؟

ہم اوپرمفصل وضاحت کرچکے ہیں کہ حدیث مذکورکامصداق یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ کو قطعانہیں بتایاجاسکتا،لیکن اب سوال یہ ہے کہ پھراس کا مصداق کیاہے؟ حدیث میں مذکورعہدمیں کون سا ایساشدید فتنہ تھا جس سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو پناہ مانگنے کاحکم دیا ؟؟؟
تو عرض ہے کہ

اولا:
اصل حقیقت اللہ ہی کومعلوم ہے کیونکہ وفات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیش آنے والے حوادث وفتن کی باتیں کوئی شریعت کا حصہ نہیں ہیں کہ ان کی بھی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے لی ہو، علامہ البانی رحمہ اللہ تو حدیث کی تشریح اوراس پر عمل کرنے والوں کے نام اوراس کے مطابق امت کے اقوال و اعمال کے بارے میں بھی کہتے ہیں کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے نہیں لی ہے بلکہ صرف کتاب وسنت کے حفاظت کی ذمہ داری ہے، چنانچہ علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اللہ نے صرف قران وحدیث کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے

علامہ البانی رحمہ اللہ فرما تے ہیں:
لأن الله تعالى لم يتعهد لنا بحفظ أسماء كل من عمل بنص ما من كتاب أو سنة وإنما تعهد بحفظهما فقط كما قال: {إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ} فوجب العمل بالنص سوءا علمنا من قال به أو لم نعلم
[آداب الزفاف في السنة المطهرة : 267]۔
ترجمہ:اللہ تعالی نے اس بات کی ضمانت نہیں لی ہے کہ کتاب وسنت پرعمل کرنے والے جملہ حضرات کے اسماء کی حفاظت کرے گا ،بلکہ اس نے صرف ،کتاب وسنت کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے جیساکہ فرمایا: (ذکرکو ہم نے ہی نازل کیا ہے اورہم ہی اس کی حفاظت کریں گے )پس کسی بھی ثابت شدہ نص پرعمل کرنا واجب ہوگا ،خواہ اس کے قائلین یا اس پرعمل کرنے والوں کے نام معلوم ہوں یا نہ ہوں۔
ثانیا:
مذکورہ عہد حجاج بن یوسف کی امارت کا عہدہے، حجاج بن یوسف نے گرچہ اچھے کام بھی کئے لیکن یہ بات مسلم ہے کہ اس نے بہت سارے صحابہ کرام اورتابعین عظام کو بہت ہی بے دردی سے قتل کیا اور اپنی بات منوانے میں حددرجہ سختی سے کام لیتا تھا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ممکن ہے حدیث مذکور میں اسی فتنہ کی طرف اشارہ ہو کیونکہ حجاج بن یوسف کا فتنہ بھی کوئی معمولی فتنہ نہ تھا ۔
بلکہ ایک روایت میں تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صراحتا شر قرار دیا ہے چنانچہ مسند احمد کی روایت میں اسماء بنت ابی بکررضی اللہ عنہافرماتی ہیں:
وَاللَّهِ لَقَدْ أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّهُ سَيَخْرُجُ مِنْ ثَقِيفٍ كَذَّابَانِ، الْآخِرُ مِنْهُمَا شَرٌّ مِنَ الْأَوَّلِ، وَهُوَ مُبِيرٌ[مسند أحمد: 44/ 529 واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین]۔
ترجمہ: اللہ کی قسم ! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خبردی ہے کہ بنوثقیف میں دو کذاب آدمیوں کا خروج عنقریب ہوگا ، جس میں دوسرا پہلے کی بنسبت زیادہ بڑے شر اورفتنے والا ہوگا اور وہ مبیر ہوگا۔
صحیح مسلم میں بھی یہی روایت موجود ہے اس میں اسماء بنت ابی بکررضی اللہ عنہ کے الفاظ یہ ہیں:
إن رسول الله صلى الله عليه و سلم حدثنا أن في ثقيف كذابا ومبيرا فأما الكذاب فرأيناه وأما المبير فلا إخالك إلا إياه[صحيح مسلم:4/ 1971]۔
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ایک حدیث بیان فرمائی تھی قبیلہ ثقیف میں ایک کذاب اور ایک ظالم ہوگا کہ کذاب کو تو ہم نے دیکھ لیا اور ظالم میں تیرے علاوہ کسی کو نہیں سمجھتی۔
یادرہے کہ صحابہ وتابعین اورسلف نے متفقہ طور پرحجاج بن یوسف کواس حدیث کا مصداق قراردیاہے، اس لئے بعید نہیں کہ مذکورہ حدیث میں بھی اسی کے فتنہ کی طرف اشارہ ہو واللہ اعلم۔

فائدہ:

یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ حجاج بن یوسف سے بہرصورت اچھے اوربہتر تھے،شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے بقول اس پرسب کا اتفاق ہے۔
شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728)نے کہا:
أن القول في لعنة يزيد كالقول في لعنة أمثاله من الملوك الخلفاء وغيرهم ، ويزيد خير من غيره ،خير من المختار بن أبي عبيد الثقفي أمير العراق ، الذي أظهر الانتقام من قتلة الحسين ؛ فإن هذا ادّعى أن جبريل يأتيه . وخير من الحجاج بن يوسف ؛ فإنه أظلم من يزيد باتفاق الناس. [مختصر منهاج السنة 1/ 343]
یزید پرلعنت کامسئلہ اسی جیسے دیگر خلفاء وبادشاہوں پرلعنت کی طرح ہے، اوریزید دیگربادشاہوں سے بہتر ہی ہے ، یہ امیرعراق مختاربن ابوعبید ثقفی سے بہتر ہے جس نے قاتلین حسین سے انتقام کا نعرہ بلندکیا تھا۔ کیونکہ اس ثقفی نے یہ دعوی کرلیا کہ اس کے پاس جبرئیل آتے ہیں ، اسی طرح یزید ، حجاج بن یوسف سے بھی بہترہے ۔کیونکہ حجاج بن یوسف ،یزید سے بڑھ کر ظالم ہے اس پر سب کا اتفاق ہے ۔
واضح رہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یزید کو ظالم تسلیم نہیں کیا ہے بلکہ الزامی جواب دیا ہے یعنی اگریزید کی طرف منسوب ظلم کی باتیں تسلیم کرلی جائیں تب بھی یہ حجاج بن یوسف سے بڑا ظالم نہیں ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top