محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
سواتی لڑکی کیلئے این جی اوز خاموش کیوں؟
ایک" ملا " کا چھبتا ہوا سوال
سوات کی دو لڑکیاں دو کہانیاں ! (فردوس جمال،مدینہ منورہ)
ایک وه جعلی ویڈیو والی سواتی لڑکی جو یارلوگوں کے بقول طالبان کے کوڑوں کے شکار ہوئی تهی ، اس جعلی ویڈیو کو بنیاد بناکر تب موم بتی مافیا نے آسمان سر پر اٹهایا تها ، میڈیا میں صف ماتم بچهہ گئ تهی ، ملا مدرسہ داڑهی پگڑی سب زیر عتاب تهے ، جبران ناصر کی پریس کانفرنسیں ہورہی تھی ، ماروی سرمد منہ سے آگ و جهاگ اگل رہی تهی ،پرویز ہود بهائی بیہودہ اور جگہ جگہ بک رہا تها ، چیخ چیخ کر دنیا کو بتایا جارہا تها کہ آؤ دیکهو یہ ہے اسلامی نظام ، ہمارے ملک کا ملا یہ نظام چاہتا ہے ،ہائے عورتوں کے حقوق ، وائے عورتوں کے حقوق ، بچاری عورت ، بے سہاری عورت ، قسمت کی ماری عورت ، آٹھ سال بعد یہ ڈرامہ ختم ہوا اور انکشاف ہوا کہ سکرپٹ جیو نے لکها تها ،اور سپریم کورٹ میں جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم بنچ نے اس ویڈیو کو جعلی قرار دے دیا ، کوڑوں والی ویڈیو عدالت میں جعلی ثابت ہونے کے بعد اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ "واقعہ افک " میں ملوث ماروی سرمد ، پرویز هود بهائی ،عاصمہ جہانگیر ، شرمین چنائی وغیره کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں لٹا کر سرعام کوڑے مارے جاتے اور اس کی ویڈیو بناکر پهر پوری دنیا میں پھیلائی جاتی کہ اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے والے عناصر کی سزا یہ ہے ، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا ،یہ عناصر بے شرمی اور ڈھٹائی سے اب تک میڈیا میں موجود ہیں اور مسلسل جهوٹ بول رہے ہیں .
اس واقعہ کو زهن میں تازه کرنے کے بعد آئیں نیا واقعہ ملاحظہ کریں ، یہ واقعہ حقیقی ہے ، اس میں بهی زیادتی کی شکار لڑکی سواتی ہے ، زهنی طور پر معذور ہے ، بیمار و لاچار ہے ، اسلام آباد کے پمز ہسپتال کے وارڈ میں بے سہارا پڑی ہے ،ایک درنده صفت شخص جو کہ ہسپتال میں ملازم ہے مذهب سے ہندو ، بدبخت کرشن کمار، رات کے کسی پہر ہسپتال میں داخل ہوکر لڑکی کو زیادتی اور ریپ کا نشانہ بناتا ہے ، چند دن بعد خبر میڈیا پر آتی ہے ہسپتال کا ایڈمنسٹریٹر اسے کرشن کمار کا ذاتی فعل قرار دے کر کہتا ہے کہ اس کو اقلیتوں سے نہ جوڑا جائے ، اس شرمناک واقعہ پر ماروی سرمد ، عاصمہ جہانگیر ، جبران ناصر ، پرویز هود بهائی سب کی زبانوں پر تالے پڑے ہیں، موم بتی مافیا اور جبران ! کیا مارکیٹ میں موم بتیوں کا بحران ہے ؟ تمہاری موم بتیاں کیوں بجهی ہوئی ہیں ؟!! اس لیے نا کہ واقعہ میں ملوث کوئی ملا مدرسہ داڑهی پگڑی نہیں ہے !! زیادتی کی شکار لڑکی مسلمان ہے !! اب تمہیں خواتین کے حقوق یاد کیوں نہیں آرہے ہیں ؟! اب کے تمہیں عورت مظلوم کیوں نہیں دکهہ رہی ہے ؟! ہاں ہاں تمہاری خاموشی ، تمہارا مجرمانہ سکوت ، تمہاری منافقت ،تمہارے کرتوتوں کا اشتہار بن چکا ہے ، تمہاری خاموشی تمہاری اصلیت کا اظہار بن چکا هے ، تمہیں تو دکهه اس بات کا ہوگا نق کہ اس واقعہ میں کوئی مدرسہ یا ملا ملوث نہیں اگر ہوتا تو تم بآسانی اسلام پر کیچڑ اچھالنے کی مذموم کوشش کرتے ، اپنے بیرونی آقاؤں سے آشیرواد و ایوارڈ حاصل کرتے .تف ہے تمہارے وجود نامسعود پر !!
(فردوس جمال )
ایک" ملا " کا چھبتا ہوا سوال
سوات کی دو لڑکیاں دو کہانیاں ! (فردوس جمال،مدینہ منورہ)
ایک وه جعلی ویڈیو والی سواتی لڑکی جو یارلوگوں کے بقول طالبان کے کوڑوں کے شکار ہوئی تهی ، اس جعلی ویڈیو کو بنیاد بناکر تب موم بتی مافیا نے آسمان سر پر اٹهایا تها ، میڈیا میں صف ماتم بچهہ گئ تهی ، ملا مدرسہ داڑهی پگڑی سب زیر عتاب تهے ، جبران ناصر کی پریس کانفرنسیں ہورہی تھی ، ماروی سرمد منہ سے آگ و جهاگ اگل رہی تهی ،پرویز ہود بهائی بیہودہ اور جگہ جگہ بک رہا تها ، چیخ چیخ کر دنیا کو بتایا جارہا تها کہ آؤ دیکهو یہ ہے اسلامی نظام ، ہمارے ملک کا ملا یہ نظام چاہتا ہے ،ہائے عورتوں کے حقوق ، وائے عورتوں کے حقوق ، بچاری عورت ، بے سہاری عورت ، قسمت کی ماری عورت ، آٹھ سال بعد یہ ڈرامہ ختم ہوا اور انکشاف ہوا کہ سکرپٹ جیو نے لکها تها ،اور سپریم کورٹ میں جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم بنچ نے اس ویڈیو کو جعلی قرار دے دیا ، کوڑوں والی ویڈیو عدالت میں جعلی ثابت ہونے کے بعد اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ "واقعہ افک " میں ملوث ماروی سرمد ، پرویز هود بهائی ،عاصمہ جہانگیر ، شرمین چنائی وغیره کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں لٹا کر سرعام کوڑے مارے جاتے اور اس کی ویڈیو بناکر پهر پوری دنیا میں پھیلائی جاتی کہ اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے والے عناصر کی سزا یہ ہے ، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا ،یہ عناصر بے شرمی اور ڈھٹائی سے اب تک میڈیا میں موجود ہیں اور مسلسل جهوٹ بول رہے ہیں .
اس واقعہ کو زهن میں تازه کرنے کے بعد آئیں نیا واقعہ ملاحظہ کریں ، یہ واقعہ حقیقی ہے ، اس میں بهی زیادتی کی شکار لڑکی سواتی ہے ، زهنی طور پر معذور ہے ، بیمار و لاچار ہے ، اسلام آباد کے پمز ہسپتال کے وارڈ میں بے سہارا پڑی ہے ،ایک درنده صفت شخص جو کہ ہسپتال میں ملازم ہے مذهب سے ہندو ، بدبخت کرشن کمار، رات کے کسی پہر ہسپتال میں داخل ہوکر لڑکی کو زیادتی اور ریپ کا نشانہ بناتا ہے ، چند دن بعد خبر میڈیا پر آتی ہے ہسپتال کا ایڈمنسٹریٹر اسے کرشن کمار کا ذاتی فعل قرار دے کر کہتا ہے کہ اس کو اقلیتوں سے نہ جوڑا جائے ، اس شرمناک واقعہ پر ماروی سرمد ، عاصمہ جہانگیر ، جبران ناصر ، پرویز هود بهائی سب کی زبانوں پر تالے پڑے ہیں، موم بتی مافیا اور جبران ! کیا مارکیٹ میں موم بتیوں کا بحران ہے ؟ تمہاری موم بتیاں کیوں بجهی ہوئی ہیں ؟!! اس لیے نا کہ واقعہ میں ملوث کوئی ملا مدرسہ داڑهی پگڑی نہیں ہے !! زیادتی کی شکار لڑکی مسلمان ہے !! اب تمہیں خواتین کے حقوق یاد کیوں نہیں آرہے ہیں ؟! اب کے تمہیں عورت مظلوم کیوں نہیں دکهہ رہی ہے ؟! ہاں ہاں تمہاری خاموشی ، تمہارا مجرمانہ سکوت ، تمہاری منافقت ،تمہارے کرتوتوں کا اشتہار بن چکا ہے ، تمہاری خاموشی تمہاری اصلیت کا اظہار بن چکا هے ، تمہیں تو دکهه اس بات کا ہوگا نق کہ اس واقعہ میں کوئی مدرسہ یا ملا ملوث نہیں اگر ہوتا تو تم بآسانی اسلام پر کیچڑ اچھالنے کی مذموم کوشش کرتے ، اپنے بیرونی آقاؤں سے آشیرواد و ایوارڈ حاصل کرتے .تف ہے تمہارے وجود نامسعود پر !!
(فردوس جمال )