• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سوال: سب سے پہلے تقدیر کا انکار کس نے کیا ؟

شمولیت
دسمبر 17، 2018
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
اس بد بخت کا نام بتلائیں جس نے تقدیر کا انکار کیا؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
اس بد بخت کا نام بتلائیں جس نے تقدیر کا انکار کیا؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
شاید آپ پوچھنا چاہتے ہیں کہ : سب سے پہلے تقدیر کا انکار کس نے کیا ؟
تو جواب پیش خدمت ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدریہ کا تعارف
امام عبدالقاہر بن طاہر البغدادی التمیمی ( المتوفی 429ھ ) اپنی کتاب "الفرق بین الفرق" میں لکھتے ہیں :
ثمَّ حدث فِي زمَان الْمُتَأَخِّرين من الصَّحَابَة خلاف الْقَدَرِيَّة فى الْقدر والاستطاعة من معبد الْجُهَنِىّ وغيلان الدِّمَشْقِي والجعد بن دِرْهَم وتبرأ مِنْهُم الْمُتَأَخّرُونَ من الصَّحَابَة كَعبد الله بن عمر وَجَابِر بن عبد الله وَأبي هُرَيْرَة وَابْن عَبَّاس وَأنس بن مَالك وَعبد الله ابْن ابى اوفى وَعقبَة بن عَامر الْجُهَنِيّ وأقرانهم واوصوا اخلافهم بِأَن لَا يسلمُوا على الْقَدَرِيَّة وَلَا يصلوا على جنائزهم وَلَا يعودوا مرضاهم "
دیکھئے "الفرق بین الفرق " طبع مکتبہ ابن سینا قاہرہ
https://archive.org/details/FP0431/page/n33
ترجمہ :
”عہد صحابہ کے آخر میں تقدیر کے منکرین قدریہ کا فرقہ ظہور پذیر ہوا ،اس فرقہ کے محرک اور بانی معبد جہنی ،غیلان دمشقی ، اور جعد بن درھم تھے ، ان لوگوں سے صحابہ کرام جیسے سیدنا عبد اللہ بن عمر،سیدناجابر بن عبداللہ ، سیدنا عبد اللہ بن عباس، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم ( سمیت بہت سے کبار صحابہ کرام ) نے براءت کا اظہار کرتے ہوئے ان کا رد کیا ،اور اہل اسلام کو ان گمراہ لوگوں سے دور رہنے کی تلقین کی اور اہل اسلام سے کہا کہ ان کو سلام نہ کیا کرو ان کے جنازوں میں شرکت نہ کرو اگر بیمار پڑجائیں تو ان کی عیادت نہ کرو۔”

اور امام ذہبیؒ (شمس الدین ابو عبداللہ محمد (المتوفى : 748هـ)نے سیر اعلام النبلاء میں
حضرت امام اوزاعیؒ کا قول نقل کیا ہے کہ :
" قال محمد بن شعيب: سمعت الأوزاعي يقول: أول من نطق في القدر سوسن بالعراق، كان نصرانيا، فأسلم، ثم تنصر، فأخذ عنه معبد وأخذ غيلان القدري عن معبد"
" تقدیر کے انکار کی تبلیغ سب سے پہلے عراق کے رہنے والے ایک نومسلم "سوسن " نے کی جو پہلے عیسائی تھا پھر اسلام کا لبادہ اوڑھا ،اسی سے معبد الجہنی نے یہ عقیدہ اخذ کیا ، اور پھر معبد جہنی سے غیلان الدمشقی نے یہ عقیدہ اپنایا ۔))
اس معبد الجہنی کو مشہور گورنر حجاج نے گرفتار کرکے ہر طرح کی اذیت ناک سزا سے دوچار کیا ،پھر سولی پر لٹکادیاگیا ،اس کو موت کی سزا سنۃ 80 ہجری کے بعد اور سنۃ 90 ہجری سے پہلے دی گئی ۔
امام ذہبیؒ نقل کرتے ہیں کہ :
كان الحجاج يعذب معبدا الجهني بأصناف العذاب ولا يجزع ثم قتله
وقال سعيد بن عفير: في سنة ثمانين صلب عبد الملك معبدا الجهني بدمشق

.

اور امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی "صحیح " کی کتاب الایمان میں پہلی حدیث جو " حدیث جبریل " کے نام سے مشہور ہے
اس حدیث کے مرکزی راوی تابعی امام یحیی بن یعمر رحمہ اللہ جو صحابہ کرام کے شاگرد اور علم قراءت کے نامور عالم اور مشہور اسلامی ریاست "مرو " کے قاضی ،اورجناب ابو الاسود الدؤلی کے شاگرد تھے ان کا قول نقل فرمایا ہے کہ :
عن يحيى بن يعمر، قال: كان أول من قال في القدر بالبصرة معبد الجهني، فانطلقت أنا وحميد بن عبد الرحمن الحميري حاجين - أو معتمرين - فقلنا: لو لقينا أحدا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسألناه عما يقول هؤلاء في القدر، فوفق لنا عبد الله بن عمر بن الخطاب داخلا المسجد، فاكتنفته أنا وصاحبي أحدنا عن يمينه، والآخر عن شماله، فظننت أن صاحبي سيكل الكلام إلي، فقلت: أبا عبد الرحمن إنه قد ظهر قبلنا ناس يقرءون القرآن، ويتقفرون العلم، وذكر من شأنهم، وأنهم يزعمون أن لا قدر، وأن الأمر أنف، قال: «فإذا لقيت أولئك فأخبرهم أني بريء منهم، وأنهم برآء مني»
دیکھئے صحیح مسلم ،کتاب الایمان
https://archive.org/details/sahih.muslem/page/n47
ترجمہ :
یحییٰ بن یعمر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بصرہ میں سب سے پہلے جس نے تقدیر میں گفتگو کی وہ معبد جہنی تھا، تو میں اور حمید بن عبدالرحمٰن حمیری دونوں مل کر حج یا عمرے کےلئے چلے،
اور ہم نے کہا: کاش! ہم کو کوئی صحابی رسول مل جائے جس سے ہم ان لوگوں کے تقدیر کے متعلق اس عقیدہ کی حقیقت پوچھیں جس کی تبلیغ یہ لوگ کرتے ہیں تو ہم کو اتفاق سے سیدنا عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما مسجد کو جاتے ہوئے مل گئے۔ ہم دونوں نے ان کو اپنے بیچ میں کر لیا یعنی میں اور میرا ساتھی داہنے اور بائیں بازو ہو گئے۔ میں سمجھا کہ میرا ساتھی (حمید) مجھ کو بات کرنے دے گا (اس لئے میں نے ہی گفتگو کا آغاز کیا) میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر سے کہا کہ اے ابا عبدالرحمٰن (یہ انکی کنیت ہے ) ہمارے ملک میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوئے ہیں جو قرآن کو پڑھتے ہیں اور علم کا شوق رکھتے ہیں یا اس کی باریکیاں نکالتے ہیں اور تفصیل سے ان لوگوں کا حال بیان کیا ح، اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ وہ کہتے ہیں کہ تقدیر کوئی چیز نہیں اور سب کام ناگہاں ہو گئے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: تو جب ایسے لوگوں سے ملے تو کہہ دے ان سے میں بیزار ہوں اور وہ مجھ سے۔(یعنی میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ،اور ان کا مجھ سے کوئی رشتہ ناطہ نہیں )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
Top