• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

*سوال: عقيدہ کے باب میں "خبر آحاد" کا کیا مسئلہ ہے*؟

شمولیت
مئی 14، 2018
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
46
*سوال: عقيدہ کے باب میں "خبر آحاد" کا کیا مسئلہ ہے* ؟

*جواب* :
*أولا: خبر آحاد کی تعریف* :
"آحاد" یہ واحد کی جمع ہے [دیکھیں:القاموس المحيط(ص:338)].
خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "وأما خبر الآحاد فهو ما نقص عن صفة التواتر" [الكفاية في علم الرواية(ص:20)] اور جہاں تک خبر آحاد کی بات ہے تو (یہ) وہ (خبر ہے) جس کے اندر تواتر کی صفت موجود نہ ہو.
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "وخبر الواحد في اللغة: ما يرويه شخص واحد.
وفي الاصطلاح: ما لم يجمع شروط التواتر" [نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر (ص: 200)]
اور لغت میں خبر واحد وہ (حدیث) ہے جسے ایک شخص روایت کرے۔
اور اصطلاح میں (خبر واحد وہ حدیث) ہے جس میں تواتر کی شروط نہ پائی جائیں۔

*ثانيا: عقیدہ کے باب میں خبر واحد حجت ہے یا نہیں* ؟
اس سلسلے میں اہل السنہ والجماعہ اور اہل کلام کا اختلاف ہے:
*اہل کلام* :
ان کے نزدیک خبر واحد عقیدہ کے باب میں حجت نہیں ہے:
1- قاضی عبد الجبار خبر واحد کے بارے میں فرماتے ہیں: "... وإن كان مما طريقه الاعتقادات ينظر: فإن كان موافقا لحجج العقول قبل واعتقد موجبه، لا لمكانه، بل للحجة العقلية، وإن لم يكن موافقا لها فإن الواجب أن يرد ويحكم بأن النبي صلى الله عليه وسلم لم يقله، وإن قاله فإنما قاله على طريق الحكاية عن غيره...[شرح الأصول الخمسة (ص:770)] اور اگر (خبر واحد) اس قبیل سے ہو کہ اس سے اعتقادات لازم آئیں تو اس پر غور کیا جائے گا، چنانچہ اگر وہ عقلی دلائل کے موافق ہو تو اسے قبول کیا جائے گا، اور یہ اعتقاد رکھا جائے گا کہ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے، اور اسے (خبر واحد) کی منزلت کی وجہ سے نہیں بلکہ عقلی دلائل کی وجہ سے (قبول کیا جائے گا)، اور اگر وہ عقلی دلائل کے موافق نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے رد کیا جائے، اور یہ حکم لگایا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہی نہیں ہے، اور اگر فرمایا بھی ہے تو دوسروں سے بطور حکایت بیان کیا ہے...
2- رازی کہتے ہیں : "أخبار الآحاد مظنونة، فلم يجز التمسك بها في معرفة الله تعالى صفاته" [أساس التقديس(ص:127)] اخبار آحاد ظنی ہوا کرتے ہیں؛ لہذا ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی صفات (کے باب میں) حجت پکڑنا درست نہیں ہے.
چنانچہ اہل کلام نے احکام و عقائد کے باب میں اخبار آحاد کے ذریعہ حجت پکڑنے میں فرق کیا ہے؛ *ان کے نزدیک احکام میں اخبار آحاد قابل حجت ہیں مگر عقائد کے باب میں قابل حجت نہیں ہیں* ، اور یہ در حقیقت انکارِ حدیث کا ایک چور دروازہ ہے، اسی لئے امام سمعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "وإنما القول الذي يذكر أن خبر الواحد لا يفيد العلم بحال، ولا بد من نقله بطريق التواتر لوقوع العلم به شيء اخترعه القدرية المعتزلة، وكان قصدهم منه رد الأخبار" [دیکھیں: صون المنطق(ص:160)] اور وہ قول جو ذکر کیا جاتا ہے کہ خبر واحد کسی بھی صورت میں علم کا فائدہ نہیں دیتی ہے، اور علم حاصل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ متواتر طریقے سے منقول ہو (در اصل یہ) ایک ایسی چیز ہے جسے *قدریہ معتزلہ* نے ایجاد کیا ہے، اور اس سے ان کا مقصد احادیث کو رد کرنا ہے.
حالانکہ علماء سلف میں سے فقہاء و محدثین کا اجماع ہے کہ ہر سچے فرد واحد کی خبر قبول کی جائے گی، اور اس پر عمل بھی کیا جائے گا، چاہے اس کا تعلق احکام سے ہو یا عقائد سے ہو [دیکھیں: التمهيد (1/ 2)].

*اہل السنہ والجماعہ* :
*ان کے نزدیک ہر صحيح خبر واحد عقیدہ کے باب میں قابلِ حجت ہے* [دیکھیں: قانون التأسيس العقدي (ص:268)].
اس پر چند دلائل درج ذیل ہیں:
1- اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ} [سورة الحجرات(6)] ائے مومنو! اگر تمہارے پاس ایک فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ اس خبر کی بنا پر غلطی سے کسی قوم کو نقصان پہنچا دو، اور آخر میں نادم ہونا پڑے.
اس آیت کریمہ میں اللہ عز وجل نے خبر کی تحقیق کرنے کا حکم دیا ہے؛ لہذا اگر خبر واحد کی خبر جھوٹی ہو تو رد کی جائے گی، اور اس کے برعکس اگر سچی ہو تو لازمی طور پر قبول کی جائے گی.
2- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ..."[صحيح مسلم (ح:19)] تم اہل کتاب کی ایک قوم کی طرف جا رہے ہو؛ لہذا (پہلے) انہیں یہ دعوت دینا کہ (اس بات کی گواہی دینا ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ) اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، اور میں اللہ کا رسول ہوں...
اس حدیث پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ نبی علیہ السلام نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اکیلے ہی یمن کی طرف روانہ فرمایا تھا، اور منجملہ اہم امور میں سب سے پہلے دعوت توحید پر ترکیز کرنے کا حکم دیا؛ لہذا یہ حدیث دلیل ہے کہ ہر صحیح خبر واحد عقیدہ کے باب میں قابلِ حجت ہے.
اور بھی بہت سارے دلائل ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ صحیح اخبار آحاد مسائلِ اعتقاد میں قابلِ حجت ہیں، مثلاً: مختلف جہات میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بحیثیت داعی بنا کر بھیجنا، امراء وملوک کو خطوط بھیجنا، اور تحویل قبلہ کی خبر وغیرہ [دیکھیں: المطالب المفيدة في مسائل العقيدة(1/ 76)، و خصائص أهل السنة والجماعة (ص:242)].
3- صحیح خبر واحد کے ذریعہ مسائلِ اعتقاد پر استدلال کیا جا سکتا ہے، اس پر علماء سلف کا *اجماع* ہے:
أ- ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "کلهم - أي: أهل الفقه والأثر - يدين بخبر الواحد العدل في الاعتقادات، ويعادي ويوالي عليها، ويجعلها شرعاً وديناً في معتقده، على ذلك جماعة أهل السنة والجماعة[التمهيد (1/ 8)] اور سارے لوگ - یعنی: فقہاء و محدثین - سچے فرد واحد کی خبر کے ذریعہ اعتقادات(کے امور) میں جحت پکڑتے، اور ان ہی (اعتقادات) پر اپنی دشمنی ومحبت کی بنا کرتے، اور انہیں اپنے معتقد میں شریعت و دین قرار دیتے، (اور) اس پر اہل السنہ والجماعہ (کا اجماع ہے).
ب- شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "مما اتفق عليه سلف الأمة وأئمة الإسلام أن الخبر الصحيح مقبول مصدق به في جميع أبواب العلم، لا يفرق بين المسائل العلمية والخبرية، ولا يرد الخبر في باب من الأبواب سواء كانت أصولاً أو فروعاً بكونه خبر واحد، فإن هذا من محدثات أهل البدع المخالفة للسنة والجماعة" [جواب الاعتراضات المصرية (ص:50)] جس پر سلف امت اور ائمہ اسلام کا اتفاق رہا ہے وہ یہ کہ (ہر) صحیح خبر تمام ابوابِ علم میں مقبول اور قابل حجت ہے، (اس کے ذریعہ) علمی و خبری مسائل کے درمیان فرق نہیں کیا جائے گا، اور نہ کسی بھی اصول و فروع کے باب میں محض خبر واحد ہونے کی وجہ سے اسے رد کیا جائے گا، بلکہ یہ اہل بدعت کے ایجاد کردہ امور میں سے (ایک) ہے جو سنت و جماعت کے (عین) مخالف ہے.
ج- علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "لم يزل الصحابة والتابعون، وتابعوهم، وأهل الحديث والسنة يحتجون بهذه الأخبار في مسائل الصفات، والقدر والأسماء الأحكام، ولم ينقل عن أحد منهم البتة أنه جوّز الاحتجاجَ بها في مسائل الأحكام دون الإخبار عن الله و أسمائه وصفاته..." [مختصر الصواعق المرسلة (2/ 412)] صحابہ - کرام رضی اللہ عنہم-، تابعین، اور تبع تابعین - رحمہم اللہ -، اور اہل حدیث وسنت ان اخبار (آحاد) کے ذریعہ مسائلِ صفات، قدر، اور أسماء و احکام میں حجت پکڑتے رہے ہیں، اور ان میں سے کسی سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ اس نے اللہ، اور اس کے أسماء وصفات کی خبر دینے (کے مسائل) کو چھوڑ کر ان (اخبارِ آحاد) کے ذریعہ صرف مسائلِ احکام میں جحت پکڑنے کو جائز قرار دیا ہے...

*خلاصہ* یہ ہے کہ کسی بھی صحیح خبر واحد کے ذریعہ عقائد و احکام کے درمیان فرق نہیں کیا جائے گا، بلکہ ہر صحیح خبر واحد فروع و أصول کے مسائل میں قابل حجت ہے، جیسا کہ شیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "والتحقيق الذي لا يجوز العدول عنه أن أخبار الآحاد الصحيحة كما تقبل في الفروع تقبل في الأصول، فما ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم بأسانيد صحيحة من صفات الله يجب إثباته واعتقاده على الوجه اللائق لكمال الله وجلاله" [مذكرة أصول الفقه (ص:104 - 105)] اور ایسی تحقیق جس سے رو گردانی نہیں کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ صحیح اخبار آحاد جس طرح فروع میں قبول کی جائیں گی، اسی طرح اصول میں بھی قبول کی جائیں گی، چنانچہ صحیح سندوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ کی جو بھی صفات ثابت ہیں انہیں ثابت کرنا اور اور ان کا اسی طرح اعتقاد رکھنا ضروری ہے جو اللہ کے کمال و جلال کے شایان شان ہے.

هذا ماعندي والله أعلم بالصواب
وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين

كتبه: عبيد الله الباقي أسلم
في الساعة الرابعة صباحاً بالمدينة المنورة
30/ 11/ 2020م
راجعه: دكتور فاروق عبد للہ نراینپوری
 
Top